آیت جزیہ

ویکی شیعہ سے
آیہ جزیہ
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیہ جزیہ
سورہتوبہ
آیت نمبر29
پارہ10
صفحہ نمبر191
محل نزولمدینہ
موضوععقیدتیفقہی • سیاسی
مضموناہل کتاب کے ساتھ جہاد • جزیہ
مرتبط موضوعاتجہادجہاد ابتدائیغزوه تبوک • دار الاسلام • دار الحرب


آیهٔ جِزیہ (سورہ توبہ آیہ: 29) میں مسلمانوں کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اہل کتاب جب تک اسلام قبول نہیں کرتے یا جزیہ (ٹیکس) ادا نہیں کرتے ان کے ساتھ جنگ ​​کی جائے۔ اس آیت کے نزول کے ساتھ ہی حضرت محمدؐ نے رومیوں سے جنگ کرنے کا حکم جاری کیا جو جنگ تبوک پر منتج ہوا۔ مسلم فقہاء اسی آیت سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غیر مسلم رعایا جب تک مسلمانوں کو جزیہ ادا نہ کریں ان کے ساتھ جہاد کرنا واجب ہے۔ البتہ اکثر مجتہدین کا کہنا ہے کہ جہاد ابتدائی کی بنیادی شرط یہ ہے کہ امام معصومؑ حاضر ہو اور ان کی اجازت سے جہاد کیا جائے۔ بعض مفسرین قرآن جیسے سید محمدحسین طباطبائی اور ناصر مکارم شیرازی اہل کتاب کی جانب سے ٹیکس ادا کیے جانے کے عمل کی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہل کتاب کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگی کا فائدہ خود اہل کتاب کو بھی پہنچتا ہے؛ کیونکہ ان کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اہل کتاب کی جان و مال کے لیے تحفظ فراہم کیا جائے۔

آیت کا متن اور ترجمہ

آیہ جِزیہ، سورہ توبہ کی 29ویں آیت ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب تک اہل کتاب (غیر مسلم افراد) اسلام قبول نہ کریں یا جزیہ اور ٹیکس ادا نہ کریں ان کے ساتھ جنگ کی جائے۔ آیہ جزیہ کو آیہ "سیف" (تلوار) یا آیہ "قتال" (جنگ) بھی کہا جاتا ہے۔[1] آیت جزیہ:

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَلَا يُحَرِّ‌مُونَ مَا حَرَّ‌مَ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُ‌ونَ[؟؟]


اہل کتاب میں سے جو اللہ اور روز قیامت آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام کیا ہے اسے حرام نہیں ٹھہراتے اور دین حق بھی قبول نہیں کرتے، ان لوگوں کے خلاف جنگ کرو یہاں تک وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں.[2]



سورہ توبہ:29


زمان نزول

فضل بن حسن طبرسی نے پہلی صدی ہجری کے مفسر قرآن مجاہد بن جبر مخزومی سے نقل کیا ہے کہ آیہ جزیہ اس وقت نازل ہوا جب پیغمبر اسلام نے رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔[3] اس نقل کےمطابق غزوه تبوک اسی آیت کی بنیاد پر واقع ہوئی۔[4]

اہل کتاب کے خلاف جہاد اور ان سے جزیہ کی وصولی

فقہائے اسلام اور مفسرین آیہ جزیہ سےاستناد کرتے ہوئے اہل کتاب کے خلاف جہاد کرنے کو واجب سمجھتے ہیں مگر یہ کہ وہ لوگ اسلامی حکومت کو جزیہ(ٹیکس) ادا کریں۔[5] فقہاء کے فتویٰ کے مطابق یہ حکم ان اہل کتاب سے مختص ہے جو بلاد اسلامی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔[6]

جزیہ وصول کرنے کی وجہ

علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ غیر مسلم رعایا سے جزیہ یعنی معاوضہ کی وصولی اسلامی حکومت کے خزانے میں ذخیرہ اندوزی کے غرض سے نہیں؛ بلکہ اس جزیے کے منافع خود غیر مسلم رعایا تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب کی جان و مال اور عزت و ناموس کو تحفظ فراہم کرنا اسلامی حکومت کا اولین فریضہ ہے۔[7] عربی لغت کے مشہور ماہر راغب اصفہانی (وفات: 530ھ) نے بھی جزیہ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جزیہ کا لفظ «اجتزاء» سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں صلہ اور بدلہ؛ پس اس معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ غیر مسلم رعایا سے جزیہ کی وصولی کا صلہ اور بدلہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت ان کی جان و مال اور عزت و ناموس کی حفاظت کا انتظام کرے۔[8] ناصر مکارم شیرازی نے تفسیر نمونہ میں بھی اسی بات کو تصریح کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اہل کتاب سے جزیہ دریافت کرنے کے بعد ان کی جان و مال کے لیے تحفظ فراہم ہونا چاہیے۔ لیکن جزیہ لینے کے عوض میں غیر مسلم رعایا سے مسلمانوں کے ساتھ جنگوں میں شریک ہونے کا عہد بھی نہیں لیا جاسکتا(جنگوں میں شرکت سے انہیں معاف کیا جاتا ہے) یہاں تک کہ اسلامی سرزمین کے باہر سے کوئی دشمن ان پر حملہ آور ہونے کی صورت میں اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اہل کتاب کے دفاع کا انتظام کرے۔[9]

حقیقت جنگ اور جہاد ابتدائی پر قرآنی دلیل

بعض مسلم فقہاء جہاد ابتدائی کی تشریع کے سلسلے میں آیہ جزیہ سے ہی استناد کرتے ہیں۔[10] بعض مسلم مفکرین نے آیہ جزیہ اور دیگر قرآنی اور روائی دلائل کی بنیاد پر اسلامی ممالک(یعنی دار الاسلام اور بلاد اسلامی) اور غیر اسلامی ممالک(یعنی دار الکفر یا دار الحرب) کے مابین قانونی اور سیاسی تعلقات کی اصل بنیاد کو جنگ قرار دی ہے مگر یہ کہ ان کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا جائے۔[11] شیعہ فقہاء کی اکثریت کے نزدیک جہاد ابتدائی مشروع ہونے کی بنیادی شرط حضور امام معصومؑ ہے لہذا دوران غیبت امام زمان(عج) جہاد ابتدائی کوئی معنی نہیں رکھتا۔[12]

معنی و مصداقِ صاغرون

اکثر مفسرین نے آیہ جزیہ میں مستعمل لفظ «صاغرون» کی ذلت و رسوائی سے تفسیر کی ہے۔ اس تفسیر کے مطابق آیت کے آخری حصے کے یہ معنی ہونگے: غیر مسلم رعایا ذلت و رسوائی کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں۔[13]

علامہ طباطبائی «صاغرون» کی ذلت و رسوائی والی تفسیر کو نہیں مانتے۔ ان کے نظریے کے مطابق، «صاغرون» کے یہ معنی نہیں کہ مسلمان غیر مسلم رعایا کی اہانت یا تحقیر کریں؛ کیونکہ یہ عمل، وقار و متانت جیسی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ پس «صاغرون» کے معی یہ ہیں کہ غیر مسلم رعایا، عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت کے دائرے میں رہ کر اسلامی قوانین کے سامنے خضوع اور اس کی پاسداری کرتے ہوئے جزیہ دینے کے سلسلے میں سر تسلیم خم کریں۔[14]

حوالہ جات

  1. برزنونی، «اسلام اصالت جنگ یا اصالت صلح؟»، ص95 و 100.
  2. سورہ توبہ:29
  3. مجاهد بن جبر، تفسیر مجاهد، اسلام‌آباد، ج1، ص276.
  4. طبرسی، مجمع البیان، 1406ھ، ج5، ص34.
  5. ملاحظہ کریں: طوسی، التبیان، داراحیاء التراث العربی، ج5، ص202؛ طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، ج5، ص34؛ فخر رازی، مفاتیح‌الغیب، 1420ھ، ج16، ص24؛ نجفی، جواهرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج21، ص227.
  6. ملاحظہ کریں: نجفی، جواهرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج21، ص227.
  7. علامه طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج9، ص240.
  8. راغب اصفهانی، المفردات في غريب القران، 1412ھ، ج1، ص195.
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج7، ص357.
  10. هندی، احکام الحرب و السلام، 1413ء، ص123-124؛ برزنونی، «اسلام اصالت جنگ یا اصالت صلح؟»، ص100؛ ملاحظہ کریں: خویی، منهاج‌الصادقین، 1410ھ، ص361؛ طباطبایی حائری، ریاض‌المسائل، 1418ھ، ج8، ص35.
  11. زحیلی، آثار الحرب فی الفقه الاسلامی، 1412ھ، ص130؛ هندی، احکام الحرب و السلام، 1413ء، ص122-124.
  12. نجفی، جواهرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج21، ص227.
  13. ملاحظہ کریں: طوسی، التبیان، داراحیاء التراث العربی، ج5، ص202؛ طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، ج5، ص43؛ سایس، تفسیر آیات الاحکام، 1423ھ، ص451؛ شحاته، تفسیر قرآن کریم، 1422ھ، ج5، ص1845؛ طیب، اطیب البیان، 1369ہجری شمسی، ج6، ص206؛ کرمی، تفسیر لکتاب الله المنیر، 1402ھ، ج4، ص77.
  14. علامه طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج9، ص242.

مآخذ

  • برزنونی، محمدعلی، «اسلام اصالت جنگ یا اصالت صلح؟»، حقوقی بین‌الملل، ش33، 1384ہجری شمسی.
  • راغب اصفهانی، حسین بن محمد، المفردات في غريب القرآن، بیروت نشر دارالقلم، 1412ھ.
  • زحیلی، وهبه مصطفی، آثار الحرب فی الفقه الاسلامی، دمشق، دارالفکر، چاپ چهارم، 1412ھ.
  • سایس، محمدعلی، تفسیر آیات الاحکام، تحقیق ناجی ابراهیم سویدان، بیروت، المکتبة العصریه، چاپ اول، 1423ھ.
  • شحاته، عبدالله، تفسیر قرآن کریم، قاهره، دار غریب للطباعة والنشر والتوزیع، 1422ھ.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفة، 1406ھ/1986ء.
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق و تصحیح احمد حبیب قصیر، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان، تهران، اسلام، چاپ دوم، 1369ہجری شمسی.
  • علامه طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ.
  • کرمی، محمد، تفسیر لکتاب الله المنیر، قم، علمیه، چاپ اول، 1402ھ.
  • مجاهد بن جبر، تفسیر مجاهد، از مجموعهٔ مصادر التفسیر عند السنة، تحقیق عبدالرحمن الطاهر بن محمد السورتی، اسلام‌آباد، مجمع البحوث الاسلامیة، بی‌تا.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب الاسلامیة، 1380ہجری شمسی.
  • نجفی، محمدحسن، جواهر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق عباس قوچانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ هفتم، 1362ہجری شمسی.
  • هندی، احسان، احکام الحرب و السلام فی دولة الاسلام، دمشق، دارالمنیر للطباعة و النشر و التوزیع، چاپ اول، 1993ء.