آیت شاہد

ویکی شیعہ سے
آیت شاہد
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت شاہد
سورہہود
آیت نمبر17
پارہ12
شان نزولمشرکین کی تہمتوں کے مقابلے میں پیغمبر اکرمؐ کے ایمان کی تقویت
محل نزولمکہ
موضوعپیغمبر اسلامؐ کی نبوت کی سچائی پر امام علیؑ کا گواہ ہونا
مضمونانفاق
مرتبط موضوعاتفضائل امام علی(ع)
مربوط آیاتآیہ مباہلہ


آیت شاہد سورہ ہود کی آیت نمبر 17 کو کہا جاتا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کی نبوت کی سچائی قرآن، گذشتہ آسمانی کتب اور حقیقی مؤمنوں کے ذریعے ثابت کی گئی ہے۔ یہ آیت قرآن کریم پر پیغمبر اکرمؐ کے ایمان کی ثابت قدمی کے لئے اس وقت نازل ہوئی جب مشرکوں نے پیغمبر اسلامؐ پر جھوٹ کی تہمت لگائی۔

شیعہ اور اہل سنت حدیثی اور تفسیری منابع میں اس آیت میں "شاہد" سے مراد امام علیؑ کو قرار دیا گیا ہے؛ اگرچہ بعض مفسرین من جملہ ابن عباس اسے دوسرے مصادیق جیسے جبرئیل، زبان پیغمبر اور قرآن پر بھی تطبیق کرتے ہیں۔

آیت شاہد کو امام علیؑ کی ولایت و خلافت پر دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے؛ کیونکہ اس آیت کے مطابق شاہد کو نفس پیغمبر اکرمؐ میں سے ہونا چاہئے اور آیت مباہلہ کے مطابق امام علیؑ نفس پیغمبر ہیں۔

آیت کا متن اور ترجمہ

أَفَمَن کانَ عَلَیٰ بَینَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَیتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ کتَابُ مُوسَیٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِک یؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن یکفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَک فِی مِرْیةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّک وَلَٰکنَّ أَکثَرَ النَّاسِ لَا یؤْمِنُونَ ﴿۱۷﴾
کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے (اپنی صداقت کی) کھلی ہوئی دلیل رکھتا ہے اور جس کے پیچھے ایک گواہ بھی ہے جو اسی کا جزء ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (توراۃ) بھی رحمت و راہنمائی کے طور پر آچکی ہے (اور اس کی تصدیق بھی کر رہی ہے) یہ لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور جو مختلف گروہوں میں سے اس کا انکار کرے گا اس کی وعدہ گاہ آتشِ دوزخ ہے خبردار تم! اس کے بارے میں شک میں نہ پڑنا وہ آپ کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے مگر اکثر لوگ (حق پر) ایمان نہیں لاتے۔



سورہ ہود: آیت 17


مضامین

تفسیر المیزان میں علامہ طباطبائی کے مطابق آیت شاہد، مشرکین کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ پر جھوٹ کی تہمت لگائے جانے کے مقابلے میں کتاب خدا پر آپؐ کے ایمان کی ثابت قدمی کے لئے زمینہ ساز ہے۔ اور یہ کہ قرآن کے ذریعے مشرکین کو مقابلے کی دعوت دی جائے۔[1]

تفسیر مجمع البیان اور تفسیر نمونہ میں اس آیت کے لئے دو تفسیر ذکر کی گئی ہیں:

  • پہلی تفسیر میں جملہ "أَفَمَنْ کانَ عَلی بَینَۃٍ مِنْ رَبِّہِ[؟؟]" کو خود پیغمبر اکرمؐ پر تطبیق کرتے ہیں کہ آپ کی نبوت تین راستوں سے ثابت ہوتی ہے؛ ۱۔ قرآن جو کہ بینہ اور واضح دلیل ہے؛ ۲۔ گذشتہ آسمانی کتب جیسے تورات جس میں آپ کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں؛ ۳۔ علی بن ابی طالبؑ جیسے فداکار ماننے والے اور حقیقی مؤمنین ہیں جو کسی بھی مکت کی حقانیت پر واضح دلیل ہیں۔ ایسے محکم دلائل کے ہوتے ہوئے کیا پیغمبر اکرمؐ کو نبوت کے دوسرے جھوٹے دعویداروں کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے؟![2]
  • دوسری تفسیر میں جملہ "أَفَمَنْ کانَ عَلی بَینَۃٍ مِنْ رَبِّہِ[؟؟]" سے مراد تمام مؤمنین قرار دیتے ہیں جو پیغمبر اکرمؐ کی نبوت پر واضح اور قانع‌ کنندہ دلائل نیز گذشتہ آسمانی کتابوں میں آپ کی نبوت کی گواہی دی جانے کی بنا پر آپؐ پر ایمان لے آتے ہیں اور قرآن کی پیروی کرنے میں ایک دوسرے پر سبت لے جاتے ہیں۔[3]

اس آیت میں لفظ "بّینہ" سے مراد بہت واضح اور آشکار امور ہیں جیسے نور جو نہ صرف خود روشن ہے بلکہ دوسروں کو بھی روشنی دیتا ہے، اسی بنا پر آیت اور حجت کو بھی "بیّنہ" کہا جاتا ہے کیونکہ یہ چیزیں حق کے ظاہر ہونے کا سبب بنتی ہیں۔[4]

شاہد کون؟

سورہ ہود کی آیت نمبر 17 میں شاہد سے مراد کون ہے اور کیا ہے؟ مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ شیعہ اور اہل سنت بہت ساری حدیثی[5] اور تفسیری کتابوں میں اس آیت میں "شاہد" سے مراد امام علیؑ لیا گیا ہے جو پیغمبر اکرمؐ پر سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔[6] امام علیؑ نے خود ایک حدیث میں اپنے آپ کو اس آیت میں شاہد کا مصداق قرار دیا ہے۔[7]

حسکانی کتاب شواہد التنزیل میں امام علیؑ کو شاہد ثابت کرنے کے لئے 16 سے زیادہ حدیثیں نقل کی ہے؛ من جملہ یہ کہ انس بن مالک نقل کرتے ہیں کہ جملہ "اَفَمَنْ کانَ عَلی بَینَۃ مِنْ رَبِّہِ[؟؟]" سے مراد حضرت محمدؑ اور جملہ "وَیتْلُوُہُ شاہِد مِنْہُ[؟؟]" سے مراد علی بن ابی‌طالبؑ ہیں۔[8] اس روایت میں مزید کہا گیا ہے کہ علی ابن ابی طالبؑ رسول خداؐ کی طرف سے اہل مکہ کی طرف بطور نمائندہ بھیجا گیا جب انہوں نے آپؐ کے ساتھ کیا ہوا عہد و پیمان توڑ دیا۔[9] اسی طرح حسکانی ایک اور حدیث میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ جملہ وَ یتْلُوہُ شاہِد مِنْہُ[؟؟] میں شاہد سے مراد صرف اور صرف امام علیؑ ہیں۔[10]

مذکورہ آیت میں شاہد کے مصداق کے بارے میں مسلمان مفسرین کے درمیان اور بھی نظریات پائے جاتے ہیں؛ مجمع البیان میں طبرسی کے مطابق متقدم مفسرین ابن عباس اور مجاہد مذکورہ آیت میں شاہد سے جبرئیل مراد لیتے ہیں جو قرآن کو خدا کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ پر نازل کرتے تھے۔[11] ایک اور قول کی بنا پر "شاہد" سے مراد پیغمبر اکرمؐ کی زبان اور آپ کی حرکات و سکنات ہیں جن کے ذریعے آپ قرآن دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔[12] بعض دیگر مفسرین نے "بیّنہ" سے حجت اور عقلی دلیل اور شاہد سے قرآن مراد لتے ہیں۔

علامہ طباطبائی دوسرے اقوال کو رد کرنے کی بعد بعض احادیث سے اسنتاد کرتے ہوئے[13] "وَیتْلُوُہُ شاہِد مِنْہُ[؟؟]" کی تعبیر کو امام علیؑ پر تطبیق کرتے ہیں۔[14]

ولایت اور خلافت پر دلالت

بعض محققین عربی ادبیات کے قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے "یَتلوہُ" اور "مِنہُ" کی ضمیروں کو لفظ "أفمَن" کی طرف پلٹاتے ہیں جو اس آیت کی ابتداء میں آیا ہے، اس بنا پر لفظ "یتلوہ" کے معنی تلاوت نہیں بلکہ تبعیت اور پیروی کرنا ہے؛ اس صورت میں ان لوگوں کا قول صحیح نہیں ہے جنہوں نے جبرئیل یا زبان پیغمبرؐ کو شاہد کا مصداق قرار دئے ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں "مِنہُ" سے مراد ایک ایسا گواہ ہے جو خود پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ معنوی اور ذاتی ارتباط رکھتا ہو یعنی نفس رسول ہو۔[15] دوسرا نکتہ جو عربی ادبیات کے قواین کی رو سے اس آیت سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ فعل مضارع "یَتلوہُ" استمرار پر دالت کرتا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ "شاہد" تمام مراتب اور تمام زمانوں میں رسول خداؐ کی پیروی کرتا ہے اور ایسا مقام اور ایسی صفت سوائے ولایت اور خلافت کے کسی اور کو میسر نہیں ہے اور اس کا مصداق بھی مختلف آیات اور روایات جیسے آیہ مباہلہ وغیرہ میں معین ہے یعنی امام علیؑ ہیں۔[16]

توریت کی طرف اشارہ

آیت شاہد میں گذشتہ آسمانی کتابوں میں سے صرف توریت کی طرف اشارہ ہوا ہے؛ مفسرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ نزول قرآن کے وقت عموما یہودیت کے افکار زیادہ رائج تھے اور مسیحیت دور دارز علاقوں جیسے شامات اور یمن وغیرہ میں زندگی گزارتے تھے۔[17] دوسری وجہ یہ ہے کہ توریت میں پیغمبر اکرمؐ کے اوصاف تفصیلی طور پر بیان ہوئے تھے۔[18]

حوالہ جات

  1. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۱۸۳۔
  2. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۲۲۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۵۱-۵۲۔
  3. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۲۲۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۵۳-۵۴۔
  4. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۱۸۳۔
  5. نمونہ کے لئے رجوع کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۹۰؛ ابن حیون، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۹۔
  6. حویزی، نورالثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۳۴۴-۳۴۶؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۲۲۶-۲۲۷؛ سیوطی، درالمنثور، ۱۴۰۴ق، ج۳، ص۳۲۴۔
  7. ہلالی، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۹۰۳؛ ابن عقدہ کوفی، فضائل أمیرالمؤمنین(ع)، ۱۴۲۴ق، ص۱۹۳۔
  8. حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۳۵۹-۳۷۰۔
  9. حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۳۶۶.
  10. حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۳۶۵۔
  11. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۲۲۶-۲۲۷۔
  12. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۲۲۶-۲۲۷۔
  13. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۱۹۴-۱۹۶۔
  14. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۱۸۵۔
  15. منصوری و صادقی، «وجوہ مختلف ادبی در عبارت آغازین آیہ ۱۷ سورہ ہود و بازتاب آن در تفسیر عبارت شاہد منہ»، ص۱۱۹۔
  16. منصوری و صادقی، «وجوہ مختلف ادبی در عبارت آغازین آیہ ۱۷ سورہ ہود و بازتاب آن در تفسیر عبارت شاہد منہ»، ص۱۱۹۔
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۵۶۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۵۶۔

مآخذ

  • ابن حیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائم الإسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الأحکام، قم، مؤسسۃ آل‌البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۵ھ۔
  • ابن عقدہ کوفی، احمد بن محمد، فضائل أمیرالمؤمنین(ع)، قم، دلیل ما، ۱۴۲۴ھ۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تہران، موسسہ طبع و نشر وزارت ارشاد، ۱۴۱۱ھ۔
  • حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق، قم، مؤسسہ ‌دارالہجرۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • حویزی، عبدالعلی بن جمعہ، تفسیر نورالثقلین، قم، موسسہ اسماعیلیان، ۱۴۱۵ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تقسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
  • منصوری، سید محمد و زہرا صادقی، «وجوہ مختلف ادبی در عبارت آغازین آیہ ۱۷ سورہ ہود و بازتاب آن در تفسیر عبارت شاہد منہ»، در مجلہ تحقیقات علوم قرآن و حدیث، شمارہ ۲۶، ۱۳۹۴ہجری شمسی۔
  • ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، قم، الہادی، ۱۴۰۵ھ۔