آیت نفی سبیل

ویکی شیعہ سے
آیت نفی سبیل
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت نفی سبیل
سورہسورہ نساء
آیت نمبر141
پارہ5
شان نزولعبد اللہ بن ابی اور اسی کے ساتھیوں کی لشکر اسلام سے علٰیحدگی
محل نزولمدینہ
موضوععقیدتی
مضمونمومنین پر غلبہ کفار کی نفی
مرتبط موضوعاتآیت حذر


آیت نفی سَبیل سورہ نساء آیت 141 کا ایک حصہ ہے، جس میں مسلمانوں پر کفار کی ہر قسم کے تسلط کی نفی کی گئی ہے۔ فقہی اصطلاح قاعدہ نفی سبیل کے لیے اسی آیت سے استناد کیا جاتا ہے۔

بعض مفسرین اس آیت کی عمومیت کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام عسکری، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی میدانوں کے ساتھ ساتھ دنیا اور آخرت میں مسلمانوں پر کفار کی تسلط کی نفی کرتے ہیں۔ بعض شیعہ فقہاء نے اسی آیت کی بنیاد پر بعض فتوے دئے ہیں۔ مثال کے طور پر امام خمینیؒ نے اس آیت اور اس سے اخذ کردہ قاعدے کا حوالہ دیتے ہوئے ایران میں کیپیٹولیشن (Capitulation) بل کی سخت مخالفت کی تھی۔

تسمیہ اور شأن نزول

سورہ نساء کی آیت 141 کے جس حصے "وَ لَنْ یجْعَلَ اللَّهُ لِلْکافِرِینَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا"[؟؟] میں مسلمانوں پر کفار کے ہر قسم کے غلبے اور تسلط کی نہی کی گئی ہے[1] اسے آیت نفی سبیل کہا جاتا ہے۔[2] تفسیر قمی میں نقل شدہ ایک روایت کے مطابق یہ آیت عبد الله بن اُبی اور اس کے ساتھیوں کی سرزنش میں نازل ہوئی ہے۔ اس نے اپنے ساتھیوں سمیت غزوہ تبوک میں مسلمانوں سے اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے علیحدگی اختیار کی کہ اگر کفار اس جنگ جیت جائیں تو یہ بتا جائے کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھے اور اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوجائے تو کہا جائے کہ ہم آپ کے ساتھ تھے۔[3]

...وَلَنْ يَجْعَلَ اللهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا ﴿141﴾


... اور اللہ ہرگز کافروں کو مومنوں پر غالب نہیں آنے دے گا۔ (نساء، 141)



سورہ نساء: آیت 141


نفی تسلط کفارکی عمومیت

علامہ طباطبایی کے مطابق تسلط کفار کی نفی کے حکم میں سارے کفار اور منافقین شامل ہیں؛[4] البتہ بعض علما کا عقیدہ ہے کہ یہاں کفار سے مراد صرف یہودی ہیں۔ [5]

اسی طرح بعض مفسرین کی رائے کے مطابق مذکورہ آیت کی نفی عمومیت میں کفار کی ہر قسم کی عدم برتری شامل ہے جیسے ان کی حجت و دلیل،[6] دنیا اور آخرت[7] اسی طرح فقہی اور قانون کے میدان میں بھی کفار کو مسلمانوں پر کوئی تسلط حاصل نہیں۔[8] البتہ بعض علما نے اس حکم کو روز قیامت سے مختص جانا ہے؛[9] یعقوب جعفری نے "تفسیر کوثر" میں اس حکم کو ایک ہی مورد کے ساتھ مختص کرنے کو ظاہر آیت کے خلاف قرار دیا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ اس سلسلے میں کوئی دلیل بھی موجود نہیں ہے۔[10]

آیت سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کفار کی نفی تسلط ہر میدان میں ہے مثلا عسکری، سیاسی، ثقافتی اور معیشتی تمام میدانوں میں کفار کو مسلمانوں پر کوئی تسلط حاصل نہیں۔[11] اس لیے کوئی بھی ایسا معاہدہ یا مفاہمت جو کفار کے لیے مسلمانوں پر اثر انداز ہونے کا راستہ کھول دے، حرام ہے، اور اہل ایمان کو اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔[12]

بعض علما کے مطابق آیت نفی سبیل ایک مثبت اور ایک سلبی پہلو کا حامل ہے: اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ آیت اسلامی معاشرہ اور مسلم حکمرانوں کو اپنی آزادی کے تحفظ اور دوسروں پر انحصار کی بنیادوں کو ختم کرنے کا فریضہ بیان کرتی ہے اور اس کا سلبی پہلویہ ہے کہ مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی تقدیر پر غیروں کے تسلط کی نفی کی گئی ہے۔[13]

نفی تسلط کے حکم کا تشریعی ہونا

اس آیت میں حکم نفی تسلط ایک تکوینی حکم نہیں؛ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہو کہ کسی بھی کافر کے لیے کسی مسلمان پر کسی قسم کا تسلط حاصل نہ ہو، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے کوئی ایسا حکم تشریع نہیں کیا ہے جس کی بنیاد ہر کفار کو مسلمانوں کو تسلط حاصل ہو۔ اس بنا پر کوئی بھی ایسا حکم جس کی عمومیت مومنین پر کفار کو غلبہ حاصل ہونے کا سبب بنے اس آیت کے ذریعے اس کی تخصیص کی جائے گی۔[14]

تاریخ میں مسلمانوں پر کفار کے ظاہری غلبے کی مثالیں موجود ہیں، یہ سارے عارضی اور ایمان کی کمی کی وجہ سے تھے[15] یا امتحان الہی[16] کی وجہ سے۔ مومنین کو برتری اس وقت میسر آئے گی جب وہ ایمان کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوں،[17] خیانت کار غیروں کے ساتھ میل جول سے اجتناب کریں[18] اور تفرقہ بازی سے گریز کریں[19]

قاعده نفی سبیل کی دلیل

سانچہ:اصلی آیت نفی سبیل، قاعده نفی سبیل کی دلیل ہے۔ ہر وہ حکم جس سے مسلمانوں پر کفار کی برتری اور تفوق ثابت ہو اس قاعدے کو مقدم کرتے ہوئے اس برتری کی نفی کی جائے گی۔[20] قاعده نفی سبیل مختلف فقہی ابواب میں زیر بحث آتا ہے۔[21] اس قاعدے کی بنا پر کوئی کافر مسلمان سے ارث نہیں لے گا۔ مسلمان غلام کسی کافر کو بیچنا جائز نہیں۔ مسلمان نابالغ بچے پر اس کے کافر دادا کو ولایت حاصل نہیں اور کافر کے ساتھ مسلمان عورت کا نکاح باطل ہے۔[22]

آیت اور قاعده کا فقہ سیاسی میں انعکاس

آیت اور اس سے ماخوذ قاعدہ، قاعدہ نفی سبیل کا سیاسی فقہ میں تجلی اور انعکاس ہوتا ہے۔ قاعدہ نفی سبیل کو، مرزا شیرازی کے تمباکو پر پابندی کے فتوے، مظفرالدین شاہ کے دور میں روس کے خلاف شیعہ علماء کے جہاد کے فتوے اور امام خمینیؒ کی طرف سے کیپیٹولیشن بل کی مخالفت کے فقہی بنیادوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ امام خمینیؒ نے بھی کیپیٹولیشن[یادداشت 1] بل کی سخت مخالفت کے سلسلے میں اس آیت کا تذکرہ کیا ہے۔[23]

مشابہ آیات و روایات

کچھ دیگر آیات جیسے سورہ مائدہ آیات51 اور 52 میں کفار کی سرپرستی اور ان کے تسلط کو قبول کرنے سے ممانعت کی گئی ہے۔ اسی طرح شیعہ کتب حدیث میں سے ایک اہم کتاب من لا یَحْضره الفقیہ میں منقول حدیث اِعتلا [24] میں اسلام کی برتری ثابت کرتے ہوئے دوسرے ادیان و مذاہب کی برتری نفی کی گئی ہے۔[25]

بعض علما نے آیت نفی سبیل کی تأیید میں ایک عقلی برہان بھی بیان کیا ہے؛ وضاحت یہ کہ مسلمانوں پر کفار کا غلبہ ایک قبیح عمل ہے اور اللہ تعالیٰ قبیح عمل انجام نہیں دیتا؛ لہذا اللہ تعالیٰ نے کفار کےلیے مسلمانوں کا تسلط حاصل کرنے کا راستہ بند کیا رکھا ہے۔[26]

غالیوں کی طرف سے امام حسینؑ کی شہادت کا انکار

بعض غالیوں[27] نے اس آیت سے استناد کرتے ہوئے امام حسینؑ کی شہادت کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ امامؑ نے حضرت عیسؑی کی طرح آسمان کی طرف عروج کیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ حَنْظَلۃ بن اَسعد شِبامی امام حسینؑ کی شکل میں ظاہر ہوا ہے اور لشکر عمر بن سعد نے اسے شہید کیا اور خیال کیا کہ انہوں نے امام حسینؑ کو شہید کیا ہے۔ امام رضاؑ نےاس مطلب کو رد کرتے ہوئے اس قول کے قائلین پر لعنت کی ہے۔ امام رضاؑ نے پیغمبران الہی پر کفار کے عدم غلبہ کو خاص دلیل کی موجودگی قرار دیا۔[28]

متعلقہ مضامین

نوٹ

  1. (یہ لفظ فرینچ زبان کا لفظ ہے:(capitulation) اس سے مراد وہ حق ہے جو کسی ملک میں غیر ملکیوں کو دیا جاتا ہے، کہ اگر وہ کوئی جرم کریں تو ان کا مقدمہ اس ملک کی عدالت میں نہیں بلکہ ان کی اپنی حکومت کی عدالت میں چلایا جائے گا۔(دهخدا، لغت‌نامه دهخدا، 1377ہجری شمسی، ج 11، ص15762.)

حوالہ جات

  1. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج5، ص116؛ جزایری، ایسر التفاسیر، 1416ھ، ج1، ص559؛ شحاتہ، تفسیر القرآن الکریء، 1421ھ، ج3، ص952.
  2. مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرة المعارف قرآن کریم، 1382ہجری شمسی، ج1، ص407.
  3. قمی، تفسیر القمی، 1363ہجری شمسی، ج1، ص156-157.
  4. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج5، ص116.
  5. دخیل، الوجیز، 1422ھ، ص132.
  6. موسوی سبزواری، مواهب الرحمن، 1409ھ، ج10، ص42.
  7. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج5، ص116.
  8. جعفری، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، ج2، ص597.
  9. قرشی، تفسیر احسن الحدیث، 1375ہجری شمسی، ج2، ص472.
  10. جعفری، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، ج2، ص597.
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج4، ص175.
  12. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج2، ص191؛ رضایی اصفهانی، تفسیر قرآن مهر، 1387ہجری شمسی، ج4، ص342.
  13. مرکز فرهنگ و معارف قرآن، دائرة المعارف قرآن کریء، 1382ہجری شمسی، ج3، ص155.
  14. جعفری، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، ج2، ص597.
  15. موسوی سبزواری، مواهب الرحمن، 1409ھ، ج10، ص41و43.
  16. طنطاوی، التفسیر الوسیط، 1997ء، ج3، ص355.
  17. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج5، ص116؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج4، ص175.
  18. حسینی همدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج4، ص252.
  19. طنطاوی، التفسیر الوسیط، 1997ء، ج3، ص355.
  20. جعفری، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، ج2، ص595.
  21. بجنوردی، القواعد الفقهیه، 1419ھ، ج1، ص187.
  22. جعفری، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، ج2، ص598-599.
  23. خمینی، صحیفه امام، 1389ہجری شمسی، ج1، ص409.
  24. صدوق، من لایحضره الفقیه، 1413ھ، ج4، ص334.
  25. موسوی بجنوردی، قواعد فقهیه، 1379ہجری شمسی، ج1، ص349ـ358.
  26. ابومسلم اصفهانی، موسوعة تفاسیر المعتزلة، 2009ء، ج3، ص176.
  27. ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ج1، ص219-220.
  28. حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ھ، ج1، ص565.

مآخذ

  • ابومسلم اصفہانی، محمد بن بحر، موسوعۃ تفاسیر المعتزلۃ (تفسیر أبی بکر الأصء، تفسیر أبی علی الجبائی، تفسیر أبی القاسم الکعبی البلخی)، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 2009ء.
  • بجنوردی، سید حسن بن آقابزرگ، القواعدالفقہیہ، تحقیق مہدی مہریزی، قم، نشر الہادی، 1419ھ۔
  • جزایری، ابوبکر جابر، ایسر التفاسیر لکلام العلی الکبیر، مدینہ، مکتبۃ العلوم و الحکم، 1416ھ۔
  • جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، قم، موسسہ انتشارات ہجرت، 1376ہجری شمسی۔
  • حسینی ہمدانی، محمد، انوار درخشان در تفسیر قرآن، تہران، انتشارات لطفی، 1404ھ۔
  • حویزی، عبدعلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، قم، اسماعیلیان، چاپ چہارم، 1415ھ۔
  • خمینی، سید روح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام‌خمینی، چاپ پنجم، 1389ہجری شمسی۔
  • دخیل، علی محمد علی، الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، چاپ دوم، 1422ھ۔
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہش‌ہای تفسیر و علوم قرآن، 1387ہجری شمسی۔
  • شحاتہ، عبداللہ محمود، تفسیر القرآن الکریء، قاہرہ، دار غریب، 1421ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا علیہ السلاء، تصحیح مہدی لاجوردی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بی‌تا.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طنطاوی، محمد سید، التفسیر الوسیط للقرآن الکریء، قاہرہ، نہضۃ مصر، 1997ء۔
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلاء، چاپ دوم، 1369ہجری شمسی۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، 1388ہجری شمسی۔
  • قرشی بنابی، علی‌اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بنیاد بعثت، چاپ دوم، 1375ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیء، تفسیر القمی، تحقیق طیب موسوی جزایری، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1363ہجری شمسی۔
  • کامران و امیری‌فرد، زہرا و حسن، «قاعدہ نفی سبیل و تطبیقات آن»، در دوفصلنامہ فقہ و اجتہاد، ش3، بہار و تابستان 1394ہجری شمسی۔
  • مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریء، قم، بوستان کتاب، چاپ سوم، 1382ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • موسوی سبزواری، عبدالاعلی، مواہب الرحمن فی تفسیر القرآن، 1409ھ، بی‌جا، دفتر سماحہ آیت اللہ العظمی السبزواری، چاپ دوم، 1409ھ۔