آیات برائت

ویکی شیعہ سے
آیات برائت
سورہ توبہ کی ابتدائی آیات
سورہ توبہ کی ابتدائی آیات
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت برائت
سورہسورہ توبہ
آیت نمبرابتدائی آیات
پارہ10،11
محل نزولمدینہ
موضوععقیدتی، فقہی
مضمونمشرکین کے ساتھ معاہدے سے بے زاری کا اعلان


آیات برائت سورہ توبہ کی ابتدائی آیات ہیں جن میں مسلمانوں اور مشرکین کے مابین روابط کا حکم بیان ہوا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت محمدؐ سمیت تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ مشرکین سے کھل کر بے زاری کا اعلان کیا جائے، جتنے بھی معاہدے ان کے ساتھ کیے گئے ہیں سب توڑ دیے جائیں اور اگر وہ لوگ اسلام لانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو ان کے خلاف اعلان جنگ کریں۔ ان آیات کو امام علیؑ نے عید قربان کے دن مشرکین کے سامنے پیش کیا۔

مفسرین کے مطابق مشرکین کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو توڑنا بغیر تمہید کے نہیں تھا؛ بلکہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ابتدا خود مشرکین نے کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جن مشرکین نے اپنے معاہدے نہیں توڑے تھے انہی آیات کی رو سے ان تمام کو مسلمانوں نے احترام کی نگاہ سے دیکھا۔ کہا جاتا ہے کہ بنیادی طور پر مشرکین کے ساتھ کیے گئے معاہدے بلا شرط و شروط نہیں تھے بلکہ عارضی تھے۔

محمد جواد مغنیہ کے مطابق آیات برائت کی روشنی میں جزیرہ نمائے عرب کے مشرکین کو دین اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے یا ان کے ساتھ جنگ کرنے کی تیاری؛ دین کو قبول کرنے میں انسان کے اختیار(جس کی دیگر آیات قرآنی میں تصریح ہوئی ہے) سے متصادم نہیں ہے، کیونکہ جزیرۃ العرب کے مشرکین نے اپنے معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزی اور نوزائیدہ اسلامی معاشرے کو بھی خطرات سے دوچار کر رکھا تھا۔ اس لیے معاہدہ توڑنے کا حکم صرف ان کے ساتھ مخصوص تھا۔

آیت کا متن اور ترجمہ

سورہ توبہ کی ابتدائی آیات کو آیات برائت کہتے ہیں۔[1]

بَرَ‌اءَةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١﴾ فَسِيحُوا فِي الْأَرْ‌ضِ أَرْ‌بَعَةَ أَشْهُرٍ‌ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۙ وَأَنَّ اللَّـهَ مُخْزِي الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٢﴾ وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ‌ أَنَّ اللَّـهَ بَرِ‌يءٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ۙ وَرَ‌سُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣﴾ ...


1:مسلمانو! جن مشرکین سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا اب ان سے خدا و رسول کی طرف سے مکمل بیزاری کا اعلان ہے؛ 2: لہذا کافرو! چار مہینے تک آزادی سے زمین میں سیر کرو اور یہ یاد رکھو کہ خدا سے بچ کر نہیں جاسکتے اور خدا کافروں کو ذلیل کرنے والا ہے؛ 3: اور اللہ و رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن انسانوں کے لئے اعلانِ عام ہے کہ اللہ اور اس کے رسول دونوں مشرکین سے بیزار ہیں لہذا اگر تم توبہ کرلو گے تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر انحراف کیا تو یاد رکھنا کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ہو اور پیغمبر آپ کافروں کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیجیے۔۔۔



سورہ توبہ: 1-3


آیات کا نزول اور اس کے ابلاغ کا واقعہ

تفصیلی مضمون: ابلاغ آیات برائت

آیات برائت سنہ 9ہجری کے آخر میں نازل ہوئیں جبکہ انہی ایام میں مسلمان غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے۔[2] اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت محمدؐ اس بات پر مامور ہوئے کہ آپؐ اسی سال کے ماہ ذی الحجہ میں جبکہ مشرکین مکہ میں جمع ہوجائیں گے تو انہیں یہ آیات پڑھ کر سنائیں۔[3]

آیات برائت کے نزول کی وجوہات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سنہ 8 صدی ہجری میں مسلمانوں کے ہاتھوں مکہ فتح ہونے کے باوجود، [4] بعض قبائل اور مشرکین نے اسلام کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ [5] اور وہ مشرکین جنہوں نے رسول خداؐ سے معاہدہ کر رکھا تھا بار بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے تھے۔[6] اسلام کے پھیلاؤ کے بعد اب حالات بدل چکے تھے[7] انہی حالات میں یہ آیات نازل ہوئیں اور توحیدی معاشرے میں شرک کو ناقابل تحمل قرار دیا۔[8]

ان آیات کو مشرکین تک پہنچانے کے واقعہ کے سلسلے میں شیعہ اور سنی منابع تاریخی اور حدیثی میں آیا ہے کہ سورہ برائت کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد پہلے پیغمبر خداؐ نے ابوبکر کو مشرکین تک ان آیات کے ابلاغ کے لیے مکہ بھیجا؛ لیکن جونہی ابو بکر نے مدینہ سے بسوئے مکہ سفر کا آغاز کیا تھا؛ پیغمبر اسلامؐ پر جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسولؐ ان آیات کو آپؐ یا آپؐ کے خاندان سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص مشرکین تک پہنچا دے۔ رسول خداؐ نے اس فرمان الہی کی پیروی کرتے ہوئے حضرت علیؑ کو مکہ کی جانب بھیجا۔[9]

احمد بن یعقوب اپی کتاب تاریخ یعقوبی میں لکھتے ہیں: حضرت علیؑ عید الاضحی کی سہ پہر کو مکہ پہنچے اور لوگوں کے درمیان آیات برائت اور پیغمبر اکرم (ص) کا پیغام پڑھ کر سنایا، اس کے بعد فرمایا: اب کے بعد کسی کو اجازت نہیں کہ برہنہ ہوکر طواف کعبہ انجام دے اور آئندہ سال کوئی مشرک کعبۃ اللہ کی زیارت کو نہیں آئے گا۔ یعقوبی کے مطابق، حضرت علیؑ نے اس کے بعد لوگوں کو امان کا پیغام دیا اور فرمایا کہ مشرکین میں سے جس نے بھی رسول اللہؐ سے معاہدہ کیا ہے، اس کی مدت چار مہینے تک ہے اور جنہوں نے معاہدہ نہیں کیا ہوا انہیں پچاس راتوں کی مہلت دی جاتی ہے۔[10]

آیات کا مضمون

محمدجواد مغنیہ اپنی تفسیر التفسیر الکاشف میں لکھتے ہیں: سورہ توبہ کے ضمن میں نازل ہونے والی آیات برائت میں مسلمانوں اور مشرکین کے مابین رابطے کی نوعیت کے سلسلے میں ایک حتمی فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔[11] مفسرین کے مطابق سورہ توبہ کی ابتدائی آیات میں اللہ نے اپنے رسول اور مسلمانوں کا حکم دیا ہے کہ مشرکین کے ساتھ جتنے بھی معاہدے کیے گئے ہیں سب کو توڑ دیا جائے اور ان سے بے زاری کا اعلان کیا جائے، مشرکین اگر اسلام لانے سے ہچکچاتے ہیں تو ان کے ساتھ اعلان جنگ کیا جائے، اس تنبیہ میں تمام مشرکین اور وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے رسول اللہؐ کے ساتھ صلح اور سمجھوتہ کا معاہدہ کیا تھا، ان کے لیے بھی اعلان کیاگیا کہ چار ماہ کی مدت کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں، وہ لوگ یا اسلام قبول کرنے یا مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے ​​کے سلسلے میں اپنا فیصلہ متعین کریں۔[12]

یک طرفہ عہد توڑنے کی وجہ

آیات برائت میں مشرکین اور مسلمانوں کے مابین معاہدے کو یک طرفہ طور پر توڑ دیے جانے کے حکم کے بارے میں سوال اٹھایا جاتا ہے کیونکہ اسلام میں عہد وفا کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور یہاں معاہدہ توڑنے کا حکم کیسے دیا گیا؟![13] علامہ طباطبایی نے اس حکم کی وجہ یوں بیان کی ہے کہ یہاں مشرکین چونکہ عہد شکنی کے مرتکب ہوئے تھے اس لیے مسلمانوں کو مقابلہ بہ مثل کرتے ہوئے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو کالعدم قرار دینے کا حکم جاری کیا گیا۔[14] طَبرِسی نے تفسیر مجمع البیان میں پیغمبر اسلامؐ کی جانب سے معاہدے کو توڑ دیے جانے کی کئی وجوہات بیان کی ہیں: مشرکین کے ساتھ معاہدہ عارضی اور محدود وقت کے لیے تھا، اللہ کی طرف کسی حکم کے آنے سے مشرط تھا اور مشرکین کی خیانت اور ان کی عہد شکنی کی وجہ سے سارے معاہدے توڑ دیے گئے۔[15]

مکارم شیرازی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پیغمبر خداؐ کی جانب سے معاہدہ کالعدم قرار دینا بغیر تمہید کے نہیں تھا؛ کیونکہ حالات سے معلوم تھا کہ مشرکین قدرت پاتے ہی عہد شکنی کرنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے سلسلے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے۔ ناصر مکارم مزید لکھتے ہیں کہ جب خاص شرائط اور ماحول کو مد نظر رکھ کر کوئی معاہدہ کیا جاتا ہے تو طاقت کےحصول کے بعد اسے توڑ دیا جاتا ہے، مشرکین کے ساتھ بھی یہی صورت حال تھی۔[16]

مفسرین کے مطابق؛ مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کے معاہدے کی منسوخی کا اعلان مکہ میں ان کے اجتماع کے مرکز میں اور عید الاضحی کے دن؛ نیز انہیں سوچنے کے لیے چار ماہ کی مہلت دینے کا اعلان مشرکین پر بے خبری میں کوئی اچانک حملہ نہیں تھا اور یہ اسلام کے انسانی اصولوں کی رعایت کرنے کی بڑی گواہی ہے۔[17] علامہ طباطبایی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایسا حکم دے کر مسلمانوں کو اس حد تک بھی خیانت کرنے کی ممانعت کی۔[18]

مشرکین کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کی وجہ

سورہ بقرہ کی آیت 256 کے مطابق اسلام جبر کا دین نہیں؛ بلکہ حکمت و دلیل کے ذریعے دین کو قبول کرنے کی تاکید کرتا ہے؛ اس کے باوجود مشرکین کو اسلام لانے کے لیے کے سلسلے میں سختی کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات اسلامی معاشرے کے مفادات کا تقاضا ہوتا ہے کہ مشرکین کچھ مخصوص ماحول اور حالات میں موجود نہ ہوں کیونکہ وہ اسلامی معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس میں فساد برپا کرتے ہیں۔ محمد جواد مغنیہ کے مطابق، اسلام کو زبردستی قبول کرانے کا حکم جزیرہ نما عرب کے مشرکین کے لیے مخصوص تھا؛ کیونکہ امن معاہدہ ہونے کے باوجود وہ بار بار اس کی خلاف ورزی کر کے نوزائیدہ اسلامی معاشرے کو نقصان پہنچاتے تھے، اس لیے ان کے بارے میں خدا کا فیصلہ یہ تھا کہ یا تو انہیں قتل کر دیا جائے یا اسلام قبول کر لیا جائے[19]

عہد و پیمان پر قائم رہنے والوں کا احترام

علامہ طباطبایی سورہ توبہ کی آیت4 سے استناد کرتے ہوئے عہد شکن مشرکین اور عہد کی وفا کرنے والے مشرکین کے ساتھ مختلف انداز میں برتاؤ کرنے کے سلسلے میں لکھتے ہیں: وہ مشرکین جنہوں نے مسلمانون کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا پاس رکھا اور کسی صورت انہیں توڑا وہ لوگ بے زاری سے مستنثنیٰ ہیں؛ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کے ساتھ احترام انسانیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاہدے کے مقررہ وقت تک عہد کی وفا کی جائے۔[20] البتہ خود علامہ کے بقول تقریبا سارے مشرکین عہد شکنی کا مرتکب ہوئے تھے اور باقی مشرکین پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا۔[21]

حوالہ جات

  1. صادقی تهرانی، التفسير الموضوعى للقرآن الكريم‏، 1406ھ، قم، ج7، ص202؛ حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص305؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج69، ص152.
  2. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج5، ص3؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص73.
  3. رجبی، «امام علی در عهد پیامبر»، ص209؛ ابن‌کثیر، البدایه و النهایه، 1398ھ، ج5، ص36ـ37.
  4. طبری، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، ج3، ص42.
  5. رجبی، «امام علی(ع) در عهد پیامبر»، ص209.
  6. شبر، تفسیر القرآن الکریم، 1410ھ، ج1، ص199؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج7، ص272.
  7. مغنیه، الکاشف، 1424ھ، ج4، ص9.
  8. رجبی، «امام علی(ع) در عهد پیامبر»، ص209.
  9. ابن حنبل، مسند، 1421ھ، ج2، ص427؛ ابن حنبل، فضائل الصحابه، 1403ھ، ج2، ص703، ح1203؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینه دمشق، 1415ھ، ج42، ص348، ح8929؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج1، ص168؛ مفید، الامالی، قم، ص56.
  10. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار البیروت، ج2، ص76.
  11. مغنیه، الکاشف، 1424ھ، ج4، ص8.
  12. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج5، ص5؛ مغنیه، الکاشف، 1424ھ، ج4، ص8؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج7، ص282.
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج7، ص283.
  14. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج9، ص147.
  15. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج5، ص5.
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج7، ص283.
  17. رضایی اصفهانی، تفسیر قرآن مهر، 1387ہجری شمسی، ج8، ص145؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج7، ص284.
  18. طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج9، ص147.
  19. مغنیه، الکاشف، 1424ھ، ج4، ص9-10.
  20. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج9، ص150.
  21. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج9، ص147.

مآخذ

  • ابن حنبل، احمد، فضائل الصحابه، تحقیق وصی‌الله محمد عباس، بیروت، مؤسسة الرساله، 1403ھ/1983ء.
  • ابن حنبل، احمد، مسند، تحقیق شعیب الارنؤوط، عادل مرشد و دیگران، [بی‌جا]، مؤسسة الرسالة، 1421ھ/2001ء.
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار بیروت، [بی‌تا].
  • ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینه دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الفکر، 1415ھ.
  • ابن‌کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن کثیر، البدایه و النهایه، آماده‌سازی: خلیل شحاده، بیروت، دار الفکر، 1398.
  • حسكانى، عبيدالله بن عبدالله‏، شواهد التنزيل لقواعد التفضيل‏، تهران، مرکز طبع و انتشار وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، 1411ھ.
  • رجبی، محمدحسین، «امام علی(ع) در عهد پیامبر»، در دانشنامه امام علی علیه السلام، زیر نظر علی اکبر رشاد، ج8، تهران، انتشارات پژوهشگاه فرهنگ و اندیشه، 1380ہجری شمسی.
  • رضایی اصفهانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مهر، قم، پژوهش‌هاى تفسير و علوم قرآن‏، 1387ہجری شمسی.
  • شبر، عبدالله، تفسير القرآن الكريم‏، قم، دار الهجرة، 1410ھ.
  • صادقی تهرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن، قم، فرهنگ اسلامی، 1406ھ.
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تهران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، [بی‌نا]، [بی‌تا].
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، محقق هاشم رسولی، تهران، مکتبة الاسلامیه، 1380ھ.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیا التراث العربی، 1403ھ.
  • مغنیه، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الاسلامی، 1424ھ.
  • مفید، محمد بن محمد، الأمالی، تحقیق حسین استادولی و علی‌اکبر غفاری، قم، منشورات جماعة المدرسین فی الحوزه العلمیه، [بی‌تا].
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب الاسلامیة، 1371ہجری شمسی.
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار البیروت، بی تا.