مندرجات کا رخ کریں

"نکاح متعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 59: سطر 59:
== مآخذ ==
== مآخذ ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*ابن‌رشد، محمد بن احمد، بدایة المجتهد، قاهره، دار الحدیث، 1425ق.
*ابن‌رشد، محمد بن احمد، بدایة المجتهد، قاهره، دار الحدیث، 1425ھ۔
*احمد بن عیسی، رأب الصدع، بیروت، دار المحجة البیضاء، 1428ق.
*احمد بن عیسی، رأب الصدع، بیروت، دار المحجة البیضاء، 1428ھ۔
*امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، 1416ق.
*امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، 1416ھ۔
*بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1406ق.
*بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1406ھ۔
*بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دمشق، دار طوق النجاة، چاپ اول، 1422ق.
*بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دمشق، دار طوق النجاة، چاپ اول، 1422ھ۔
* بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، بی‌تا.
* بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، بی‌تا.
*جصاص، ابوبکر احمد بن علی، احکام القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1415ق.
*جصاص، ابوبکر احمد بن علی، احکام القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1415ھ۔
*جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، کویت، دارالسلاسل، 1427ق.
*جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، کویت، دارالسلاسل، 1427ھ۔
*جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، عمان، وزارة الاوقاف و الشؤون الدینیة، چاپ اول، 1438ق.
*جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، عمان، وزارة الاوقاف و الشؤون الدینیة، چاپ اول، 1438ھ۔
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، 1416ق.
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، 1416ھ۔
*خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیله، تهران، مؤسسة تنظیم ونشر آثار امام الخمینی، چاپ اول، 1434ق.
*خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیله، تهران، مؤسسة تنظیم ونشر آثار امام الخمینی، چاپ اول، 1434ھ۔
*خویی، سید ابوالقاسم، کتاب النکاح، قم، دار العلم، بی‌تا.
*خویی، سید ابوالقاسم، کتاب النکاح، قم، دار العلم، بی‌تا.
*زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ق.
*زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
*سبحانی، جعفر، متعة النساء فی الکتاب و السنة، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1423ق.
*سبحانی، جعفر، متعة النساء فی الکتاب و السنة، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1423ھ۔
*سبزواری، سید عبدالاعلی، مهذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بی‌تا.
*سبزواری، سید عبدالاعلی، مهذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بی‌تا.
*سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفة، 1414ق.
*سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفة، 1414ھ۔
*شرف الدین، عبدالحسین، النص و الاجتهاد، بیروت، ابومجتبی، 1404ق.
*شرف الدین، عبدالحسین، النص و الاجتهاد، بیروت، ابومجتبی، 1404ھ۔
*شهید ثانی، زین الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تعلیقه: سلطان العلماء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1412ق.
*شهید ثانی، زین الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تعلیقه: سلطان العلماء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1412ھ۔
*شیخ انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1430ق.
*شیخ انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1430ھ۔
*شیخ مفید، محمد بن محمد، خلاصة الایجاز فی المتعة، بیروت، دار المفید، چاپ دوم، 1414ق.
*شیخ مفید، محمد بن محمد، خلاصة الایجاز فی المتعة، بیروت، دار المفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
*طبسی، نجم الدین، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، قم، انتشارات دلیل ما، 1391ش.
*طبسی، نجم الدین، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، قم، انتشارات دلیل ما، 1391ہجری شمسی۔
*عاملی، سیدجعفر مرتضی، زواج المتعة، بیروت، المرکز الإسلامی لدراسات، 1423ق.
*عاملی، سیدجعفر مرتضی، زواج المتعة، بیروت، المرکز الإسلامی لدراسات، 1423ھ۔
*عسکری، سیدمرتضی، الزواج الموقت فی الاسلام، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.
*عسکری، سیدمرتضی، الزواج الموقت فی الاسلام، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.
*عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، بیروت، دار المعرفة، 1379ق.
*عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، بیروت، دار المعرفة، 1379ھ۔
*فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، کنز العرفان فی فقه القرآن، تهران، انتشارات مرتضوی، 1373ش.
*فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، کنز العرفان فی فقه القرآن، تهران، انتشارات مرتضوی، 1373ہجری شمسی۔
*فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ق.
*فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
*[https://rc.majlis.ir/fa/law/show/92778 «قانون مدنی»]، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: 15 شهریور 1402ش.
*[https://rc.majlis.ir/fa/law/show/92778 «قانون مدنی»]، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: 15 شهریور 1402ہجری شمسی۔
*قرطبی، شمس الدین، تفسیر القرطبی، قاهره، دار الکتب المصریة، چاپ دوم، 1384ق.
*قرطبی، شمس الدین، تفسیر القرطبی، قاهره، دار الکتب المصریة، چاپ دوم، 1384ھ۔
* کاشف الغطاء، محمد حسین، این است آئین ما، ترجمه ناصر مکارم، مدرسه امام امیرالمؤمنین(ع)، قم، 1370ش.
* کاشف الغطاء، محمد حسین، این است آئین ما، ترجمه ناصر مکارم، مدرسه امام امیرالمؤمنین(ع)، قم، 1370ہجری شمسی۔
*کلانتر، سیدمحمد، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تألیف شهید ثانی، قم، انتشارات داوری، 1410ق.
*کلانتر، سیدمحمد، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تألیف شهید ثانی، قم، انتشارات داوری، 1410ھ۔
*ماوردی، علی بن محمد، الحاوی الکبیر، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1419ق.
*ماوردی، علی بن محمد، الحاوی الکبیر، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1419ھ۔
*محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تعلیقه: سیدصادق شیرازی، تهران، انتشارات استقلال، چاپ دوم، 1409ق.
*محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تعلیقه: سیدصادق شیرازی، تهران، انتشارات استقلال، چاپ دوم، 1409ھ۔
*محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ دوم، 1414ق.
*محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ دوم، 1414ھ۔
*مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسة الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1424ق.
*مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسة الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1424ھ۔
*مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، قم، دایرة المعارف الفقه الاسلامی، 1387ش.
*مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، قم، دایرة المعارف الفقه الاسلامی، 1387ہجری شمسی۔
*نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، 1404ق.
*نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، 1404ھ۔
*نعمان مغربی، محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام عن اهل بیت رسول الله علیه و علیهم افضل السلام، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیضی، قاهره، دارالمعارف، 1383ق.
*نعمان مغربی، محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام عن اهل بیت رسول الله علیه و علیهم افضل السلام، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیضی، قاهره، دارالمعارف، 1383ھ۔
*نووی، ابوزکریا، شرح النووی علی مسلم، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1392ق.
*نووی، ابوزکریا، شرح النووی علی مسلم، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1392ھ۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}



نسخہ بمطابق 08:57، 14 دسمبر 2023ء

مُوَقّتی نکاح یا نکاح مُتعَہ متعین مدت اور غیر دائمی شادی کو کہتے ہیں۔ تمام مسلمانوں کے مابین اس بات پر اتفاق ہے کہ اس طرح کی شادی عصر حضرت محمدؐ میں مشروع تھی۔ اہل سنت و جماعت، زیدیہ، اسماعیلیہ اور اباضیہ کا نظریہ ہے کہ اس نوعیت کی شادیاں رسول خداؐ کے زمانے میں کچھ مدت کے لیے رائج تھیں لیکن خود رسول اللہؐ کے زمانے میں ہی اس کا حکم منسوخ اور ایسا کرنا حرام قرار پایا ہے؛ لیکن امامیہ کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرخداؐ نے اس حکم کو کبھی منسوخ نہیں کیا، اپنے زمانے میں بھی اسی طرح ابو بکر کے دور خلافت میں بھی نکاح متعہ ایک مشروع عمل کی حیثیت سے باقی رہا۔ اہل سنت کے منابع روائی میں منقول کچھ احادیث کے مطابق پہلی بار عُمَر بن خَطّاب نے نکاح متعہ کو حرام قرار دیا۔ شیعہ فقہاء متعہ سے متعلق آیت قرآنی اور اہل بیتؑ کی احادیث کی بنیاد پر نکاح متعہ کو مشروع عمل سمجھتے ہوئے اس سے متعلق فقہی احکام بیان کیے ہیں۔

فقہائے امامیہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ نکاح متعہ میں مدت (دورانیہ) اور حق مہر کی مقدار معلوم ہونا ضروری ہے۔ نکاح متعہ میں نکاح دائمی کے برخلاف طلاق نہیں ہوتی بلکہ متعین مدت ختم ہونے یا مرد کی طرف باقی مدت کو بخش دینے سے میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا۔

نکاح متعہ کی مدت کے اختتام یا مرد کی طرف سے باقی مدت کے بخشے جانے کے بعد مجامعت محقق ہونے کی صورت میں عورت پر واجب ہے کہ دو حیض کی مدت عدت گزارے۔

مفہوم‌ اوراہمیت

موقتی نکاح، مرد اور عورت کی طرف سے دائمی مدت کے بغیر محدود اور معتین مدت کے لیے شادی کرنے کو کہتے ہیں۔[1] نکاح متعہ ان موارد میں سے ہے جن کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔[2] اس نوعیت کا نکاح تمام شیعہ فقہاء کی نظر میں مشروع ہے۔[3] انہوں نے فقہی ابواب میں سے باب نکاح میں اس سے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔[4]

ائمہ معصومینؑ سے منقول احادیث کے مطابق نکاح متعہ کے بارے میں ثواب کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔[5] البته بعض روایات میں نکاح متعہ کے بارے میں زیادہ اصرار کرنے سے نہی کی گئی ہے۔[6] شیعہ فقہاء نے معصومینؑ کی احادیث کی بنیاد پر نہ صرف نکاح متعہ کے حلال ہونے کا فتوا دیا ہے بلکہ اسے مستحب بھی سمجھتے ہیں۔[7]

نکاح متعہ کے فوائد کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ معاشرے میں موجود جنسی مسائل کا بہترین حل ہے۔ خصوصا جوانوں اور ان لوگوں کے لیے جو دائمی نکاح کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں۔[8] نیز یہ معاشرے میں رائج منکر و فحشاء اور دیگر سماجی برائیوں کے سد باب کا مناسب طریقہ بھی شمار ہوتا ہے۔[9]

نظام جمہوریی اسلامی ایران کے دیوانی قانون (مدنی قانون) میں نکاح متعہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس ملک کے آئینی دستور کی چھٹی فصل نکاح متعہ سے متعلق قانون کے لیے مختص کی گئی ہے۔[10]

نکاح متعہ اسلامی فرقوں کی نگاہ میں

مسلمان دانشور حضرات نکاح متعہ کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں: شیعہ فقہاء کی نظر میں نکاح متعہ ایک مشروع عمل ہے؛ لیکن دیگر فِرَق منجملہ اہل‌ سنت،[11] زیدیہ،[12] اسماعیلیہ[13] اور اباضیہ[14] اسے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔

شہید ثانی کے مطابق تمام شیعہ فقہاء نکاح متعہ کو جائز سمھجتے ہیں۔[15] شیعہ فقہاء نکاح متعہ کے اثبات کے سلسلے میں قرآن کی آیات منجملہ آیت متعہ سے استناد کرتے ہیں۔[16] نیز اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ سے تواتر کی حد تک اس کی مشروعیت کے بارے میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔[17] دیگر فِرَق اسلامی کے علما کا کہنا ہے کہ نکاح متعہ عصر رسول خداؐ میں رائج تھا پھر اس کا حکم منسوخ ہونے کی وجہ سے حرام ہوچکا ہے۔[18]

کیا نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوچکا ہے؟

تمام مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ نکاح متعہ پیغمر اسلامؐ کے دور میں مشروع تھا۔[19] اہل سنت کے بعض منابع حدیثی میں خلیفہ دوم عُمَر بن خَطّاب سے کچھ روایتوں کو نقل کیا گیا ہے۔ ان احادیث کے مطابق حضرت عمر نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خود انہوں نے اس سے نہی کی ہے۔[20] ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ انہوں نے کہا دو قسم کے متعے پیغمبر خداؐ کے زمانے میں جائز تھے؛ لیکن میں ان دونوں سے نہی کرتا ہوں اور اس کے ارتکاب کرنے والے کو سزا دیتا ہوں، ان میں سے ایک نکاح متعہ ہے اور دوسرا مُتعہ حج۔[21]

شیعہ حضرات چند احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ کو سب سے پہلے حضرت عمر نے حرام قرار دیتے ہوئے اس کی ممانعت کی ہے۔[22] ان کے مطابق حضرت عمر کا یہ عمل دین میں بدعت اور نص کے مقابلے میں اجتہاد ہے۔ نیز پیغمبر خداؐ کی جانب سے رائج شدہ ایک مشروع عمل کی مخالفت بھی ہے۔[23] اہل سنت عالم دین عَسقلانی (773–852ھ) بھی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ کی زندگی کے پورے دوران، دوران خلافت ابو بکر اور خود حضرت عمر کے دور خلافت میں بھی کچھ مدت تک نکاح معتہ ایک جائز اور مشروع عمل کے طور پر رائج رہا؛ عمر بن خطاب نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس کی ممانعت کی اور اسے حرام قرار دیا۔[24]

لیکن اہل سنت کے اکثر علما اپنے منابع حدیثی[25] میں سے کچھ احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ پیغمبراسلامؐ کے دور میں ہی منسوخ ہوچکا تھا۔[26] علمائے اہل سنت کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عصر پیغمبر خداؐ میں سورہ مومنون کی آیات نمبر5 سے 7 تک جب نازل ہوئی تو نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوگیا۔[27] یہ گروہ ان دو آیات سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ مومنین پاکدامن ہوتے ہیں وہ اپنی جنسی خواہشات کو صرف اپنی بیویوں اور کنیزوں سے تسکین کرتے ہیں اور جو لوگ ان دو چیزوں کے علاوہ کسی تیسرے طریقے سے اپنی جنسی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں گویا انہوں نے حدود الہی کو توڑ ڈالا ہے۔ چونکہ نکاح متعہ مذکورہ دو طریقوں سے ہٹ کر کوئی تیسرا طریقہ ہے لہذا اس پر عمل کرنا حدود الہی کی رعایت نہ کرنے کے مترادف ہے۔[28]

اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ سورہ مومنون کی 5ویں اور 7ویں آیت مکہ میں نازل ہوئی ہیں اور جس آیت کے ذریعے نکاح متعہ کی مشروعیت ثابت کی جاتی ہے وہ ان آیات کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور نسخ کرنے والی پہلے نازل ہو اور نسخ شدہ آیت بعد میں نازل ہو، ایسا ممکن نہیں۔[29] اس پر مستزاد یہ کہ نکاح متعہ میں عاقدین کی جانب سے مدت متعین ہوتی ہے اور شرعی طور پر عورت مرد کی بیوی شمار ہوتی ہے لہذا اس طریقے سے ان دونوں کا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا حدود الہی کی مخالفت محسوب نہیں ہوتی۔[30]

فقہی احکام

سانچہ:نقل قول شیعہ فقہاء کے فتوا کے مطابق نکاح متعہ کے چند فقہی احکام مندرجہ ذیل ہیں:

  • نکاح متعہ کی مدت اور مہریہ کی مقدار صیغہ عقد میں معلوم و مشخص ہونا چاہیے۔[31] شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق اگر نکاح متعہ میں مدت کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ خود بخود دائمی نکاح میں تبدیل ہوجائے گا۔[32]
  • بعض فقہاء کی رائے کے مطابق اگر عاقدین عربی زبان میں صیغہ جاری نہیں کرسکتے ہیں تو دونوں کی طرف سے عربی زبان سے آشنا کسی کو وکیل بنانا ممکن ہونے کے باوجود وہ کسی دوسری زبان میں عقد جاری کرسکتے ہیں۔[33] بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ بہر صورت صیغہ عقد کسی بھی زبان میں جاری کرسکتے ہیں۔[34]
  • مسلمان مرد اور اہل کتاب عورت کے مابین نکاح متعہ صحیح اور جائز ہے؛[35] لیکن مسلمان عورت اہل کتاب مرد کے ساتھ نکاح متعہ نہیں کرسکتی۔[36] نیز مسلمان مرد اور عورت کا کسی غیر اہل کتاب (یعنی کافر) سے نکاح متعہ جائز نہیں ہے اور حرام ہے۔[37]
  • باکرہ لڑکی کے ساتھ نکاح متعہ مکروہ ہے اور نکاح متعہ کرنے کی صورت میں اس کی بکارت کو زائل کرنا مکروہ ہے۔[38]
  • نکاح متعہ کے نتیجے میں اگر مجامعت متحقق ہوچکی ہے تو نکاح متعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد عورت کو چاہیے کہ عدت پوری کرے، یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو یائسہ نہ ہوں، (یائسہ کی عدت نہیں ہوتی) وہ عورت جو حیض کی عمر میں ہو اور یائسہ نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ 45 دن عدت پوری کرے اور اگر با قاعدہ سے حیض آتا ہو تو بعض فقہاء کے فتوا کے مطابق دو حیض عدت پوری کرنی ہوگی۔[39]
  • اگر مجامعت متحقق ہونے سے پہلے عقد کی مدت پوری ہوجائے یا مرد اس متعین مدت کو معاف کردے تو اس صورت میں عدت پوری کرنا ضروری نہیں۔[40]
  • اگر نکاح متعہ کے دوران مرد وفات پائے تو مجامعت متحقق نہیں پانے کی صورت میں بھی عورت کو چاہیے کہ عدت وفات پوری کرے جو کہ 4 مہینے 10دس ہے۔[41]
  • نکاح متعہ میں طلاق نہیں ہوتی؛ بلکہ یہاں مدت پوری ہوجانے یا مرد کی طرف سے متعین مدت کو معاف کرنے سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔[42]

کتابیات

شیعہ علما نے نکاح متعہ کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں اور رسالے تدوین کیے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم کے استاد نجم الدین طبسی نے اسی موضوع پر ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا فارسی زبان میں "ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه" کے عنوان سے ترجمہ ہوا ہے۔ اس کتاب کے کتاب نامہ والے حصے میں شیعہ علما کی طرف سے نکاح متعہ اور اس کی مشروعیت سے متعلق لکھی گئی 46 کتابوں کا تعارف کیا گیا ہے۔[43] چند آثار یہ ہیں:

  • خلاصة الایجاز فی المتعة: یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں نکاح متعہ کی مشروعیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کی فضیلت، کیفیت اور دوسرے دیگر احکام کو اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔[44] بعض علما نے اس کتاب کو شیخ مفید کی طرف نسبت دی ہے۔[45] جبکہ بعض دیگر علما نے اسے شہید اول[46] سے منسوب کیا ہے اور کچھ علما نے اسے محقق کرکی کی طرف نسبت دی ہے۔[47]
  • زواج المتعة: اس کتاب کو سید جعفر مرتضی عاملی نے 3 جلدوں میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت اور اس کے بعض دیگر احکام کو بیان کرنے کے علاوہ اہل سنت علما کی اس کے بارے میں آراء کو بیان کیا ہے؛ ساتھ ہی ان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔[48]
  • الزواج الموقت فی الاسلام: کے مصنف سید مرتضی عسکری ہیں۔ سید مرتضی نے اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت کو قرآن و سنت کے تناظر میں بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں شیعہ اور اہل سنت علما کے نظریات کا جائزہ بھی لیا ہے۔[49]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، 1387ش، ج1، ص399.
  2. کلانتر، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1410ق، ج5، ص245.
  3. شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1412ق، ج2، ص103.
  4. مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، 1387ش، ج1، ص399.
  5. برای نمونه نگاه کنید به حر عاملی، وسائل الشیعه، 1416ق، ج21، ص13-17.
  6. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1430ق، ج11، ص18-19.
  7. ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، 1416ق، ج21، ص13-17؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ق، ج13، ص8.
  8. کاشف الغطاء، این است آئین ما، 1370ش، ص386-385؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، 1423ق، ص9-11.
  9. کاشف الغطاء، این است آئین ما، 1370ش، ص387.
  10. «قانون مدنی»، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی.
  11. جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، 1427ق، ج41، ص333-334؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ق، ج13، ص7.
  12. ملاحظہ کریں: احمد بن عیسی، رأب الصدع، 1428ق، ج2، ص876-877.
  13. ملاحظہ کریں: نعمان مغربی، دعائم الاسلام، 1385ش، ج2، ص229.
  14. مالحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، 1438ق، ج7، ص353-354.
  15. شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1412ق، ج2، ص103.
  16. ملاحظہ کریں: فاضل مقداد، کنز العرفان فی فقه القرآن، 1373ش، ج2، ص149-153؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج25، ص79-80؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص10.
  17. سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج25، ص79؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص15.
  18. ملاحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، 1427ق، ج41، ص333-334؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ق، ج13، ص7؛ احمد بن عیسی، رأب الصدع، 1428ق، ج2، ص876-877؛ نعمان مغربی، دعائم الاسلام، 1385ش، ج2، ص229؛ جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، 1438ق، ج7، ص353-354.
  19. قرطبی، تفسیر القرطبی، 1384ق، ج5، ص132؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، 1423ق، ص15.
  20. ملاحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، 1415ق، ج1، ص352؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، 1419ق، ج9، ص328؛ سرخسی، المبسوط، 1414ق، ج4، ص27.
  21. قرطبی، تفسیر قرطبی، 1384ق، ج2، ص392؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج10، ص43.
  22. ماحظہ کریں: عاملی، زواج المتعة، 1423ق، ج3، ص75؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج10، ص44.
  23. شرف الدین، النص و الاجتهاد، 1404ق، ص207-208؛ امینی، الغدیر، 1416ق، ج6، ص213؛ عاملی، زواج المتعة، 1423ق، ج3، ص10.
  24. عسقلانی، فتح الباری، 1379ق، ج9، ص174.
  25. برای نمونه نگاه کنید به بخاری، صحیح البخاری، 1422ق، ج5، ص135؛ نووی، شرح النووی علم مسلم، 1392ق، ج9، ص180.
  26. ملاحظہ کریں: ابن‌رشد، بدایة المجتهد، 1425ق، ج3، ص80.
  27. ملاحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، 1415ق، ج2، ص187 و ج3، ص330؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، 1419ق، ج9، ص329.
  28. جصاص، احکام القرآن، 1415ق، ج2، ص187 و ج3، ص330؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، 1419ق، ج9، ص329.
  29. عاملی، زواج المتعة، 1423ق، ج1، ص212.
  30. زمخشری، الکشاف، 1407ق، ج3، ص177؛ عاملی، زواج المتعة، 1423ق، ج1، ص214.
  31. نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج30، ص162 و ص172.
  32. نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج30، ص172.
  33. خمینی، تحریر الوسیله، 1434ق، ج2، ص264.
  34. شیخ انصاری، کتاب النکاح، 1430ق، ص79؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج16، ص215 و ج24، ص215؛ خویی، کتاب النکاح، دار العلم، ج2، ص164.
  35. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ق، ج2، ص529؛ بحرانی، الحدائق الناضرة، 1406ق، ج24، ص4.
  36. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ق، ج2، ص529.
  37. نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج30، ص27.
  38. نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج30، ص160.
  39. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ق، ج2، ص532.
  40. سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج25، ص101.
  41. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ق، ج2، ص532؛ شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1412ق، ج2، ص107.
  42. شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1412ق، ج2، ص105.
  43. ملاحظہ کریں: طبسی، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، 1391ش، ص136-139.
  44. شیخ مفید، خلاصة الایجاز فی المتعة، 1414ق، ص18.
  45. شیخ مفید، خلاصة الایجاز فی المتعة، 1414ق، ص18.
  46. افندی، ریاض العلماء، 1401ق، ج5، ص188.
  47. زمانی‌نژاد، «مقدمه»، در کتاب خلاصة الایجاز فی المتعة، 1414ق، ص11.
  48. ملاحظہ کریں: عاملی، زواج المتعة، 1423ق، ج1، ص42.
  49. عسکری، الزواج الموقت فی الاسلام، ص7.

مآخذ

  • ابن‌رشد، محمد بن احمد، بدایة المجتهد، قاهره، دار الحدیث، 1425ھ۔
  • احمد بن عیسی، رأب الصدع، بیروت، دار المحجة البیضاء، 1428ھ۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، 1416ھ۔
  • بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1406ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دمشق، دار طوق النجاة، چاپ اول، 1422ھ۔
  • بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، بی‌تا.
  • جصاص، ابوبکر احمد بن علی، احکام القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1415ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، کویت، دارالسلاسل، 1427ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، عمان، وزارة الاوقاف و الشؤون الدینیة، چاپ اول، 1438ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، 1416ھ۔
  • خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیله، تهران، مؤسسة تنظیم ونشر آثار امام الخمینی، چاپ اول، 1434ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، کتاب النکاح، قم، دار العلم، بی‌تا.
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • سبحانی، جعفر، متعة النساء فی الکتاب و السنة، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1423ھ۔
  • سبزواری، سید عبدالاعلی، مهذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بی‌تا.
  • سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفة، 1414ھ۔
  • شرف الدین، عبدالحسین، النص و الاجتهاد، بیروت، ابومجتبی، 1404ھ۔
  • شهید ثانی، زین الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تعلیقه: سلطان العلماء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1412ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1430ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، خلاصة الایجاز فی المتعة، بیروت، دار المفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • طبسی، نجم الدین، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، قم، انتشارات دلیل ما، 1391ہجری شمسی۔
  • عاملی، سیدجعفر مرتضی، زواج المتعة، بیروت، المرکز الإسلامی لدراسات، 1423ھ۔
  • عسکری، سیدمرتضی، الزواج الموقت فی الاسلام، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.
  • عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، بیروت، دار المعرفة، 1379ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، کنز العرفان فی فقه القرآن، تهران، انتشارات مرتضوی، 1373ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • «قانون مدنی»، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: 15 شهریور 1402ہجری شمسی۔
  • قرطبی، شمس الدین، تفسیر القرطبی، قاهره، دار الکتب المصریة، چاپ دوم، 1384ھ۔
  • کاشف الغطاء، محمد حسین، این است آئین ما، ترجمه ناصر مکارم، مدرسه امام امیرالمؤمنین(ع)، قم، 1370ہجری شمسی۔
  • کلانتر، سیدمحمد، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تألیف شهید ثانی، قم، انتشارات داوری، 1410ھ۔
  • ماوردی، علی بن محمد، الحاوی الکبیر، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1419ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تعلیقه: سیدصادق شیرازی، تهران، انتشارات استقلال، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسة الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1424ھ۔
  • مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، قم، دایرة المعارف الفقه الاسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، 1404ھ۔
  • نعمان مغربی، محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام عن اهل بیت رسول الله علیه و علیهم افضل السلام، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیضی، قاهره، دارالمعارف، 1383ھ۔
  • نووی، ابوزکریا، شرح النووی علی مسلم، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1392ھ۔