مقدسات کی توہین

ویکی شیعہ سے
(مقدسات کی بے احترامی سے رجوع مکرر)

مقدسات کی توہین کسی بھی شریعت یا فرقے کے مقدسات کی بے حرمتی اور مزاق اڑانے کو کہا جاتا ہے۔ مقدسات کی توہین حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ مقدسات کی توہین صدق آنے میں مسلمان یا غیر مسلمان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مقدسات میں زمان، مکان، افراد اور کتابیں وغیرہ شامل ہو سکتی ہیں؛ جیسے ماہ رمضان، کعبہ، انبیاء، شیعہ ائمہؑ، حرم ائمہؑ اور قرآن وغیرہ۔

مقدسات کی توہین کی سزا اور اس کے مراتب جرم کی نوعیت کے حساب سے مختلف ہو تے ہیں؛ بعض مراتب کفر اور مرتد ہونے کا سبب بنتا ہے جس کا حکم جان سے مار دینا ہے؛ جیسے دین اور مذہب کی ضروریات کی توہین۔ اسی طرح بعض مراتب تعزیر کا سبب بنتا ہے؛ مثال کے طور پر ماہ رمضان میں زنا کے مرتکب ہونے والے پر حد زنا کے علاوہ ماہ رمضان کی بے حرمتی پر تعزیر کا حکم بھی لاگو ہوگا۔

فقہاء کے مطابق اہل سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے۔ فقہاء سورہ انعام آیت نمبر 108 سے استناد کرتے ہوئے دیگر الہی اور غیر الہی ادیان و مذاہب کے مقدسات کی توہین بھی جائز نہیں سمجھتے ہیں۔

تعریف

مقدسات کی توہین ہر اس چیز یا شخص کا مزاق اڑانا یا توہین کرنے کو کہا جاتا ہے جو کسی بھی دین یا مذہب یا ان کے ماننے والوں کے نزدیک قابل احترام اور مقدس سمجھے جاتے ہوں۔[1] مقدسات کی توہین کے جرم ہونے میں مسلمان اور غیر مسلمان میں کوئی فرق نہیں ہے۔[2] مقدسات کی توہین کے مصادیق میں اشخاص اور غیر اشخاص دونوں شامل ہیں؛ اشخاص جیسے اسلامی اور غیر اسلامی مقدس ہستیاں جو اسلام کی نظر میں بھی قابل احترام سمجھے جاتے ہیں مثلا پیغمبر اسلامؐ، شیعہ ائمہؑ، حضرت خدیجہ(س)،[3] حضرت مریم اور حضرت ہاجرہ وغیرہ؛[4] اور غیر اشخاص جیسے خدا، قرآن کریم، کعبہ، مساجد‌، انبیاء اور ائمہ معصومین کے قبور وغیرہ۔[5]

فقہی حیثیت

فقہی کتابوں میں مقدسات کی توہین کے عنوان سے کسی جرم کے بارے میں بحث نہیں ہوئی ہے؛ لیکن فقہاء اس کے مصادیق کو بیان کرتے ہوئے جیسے سابُّ النبی،[6] سَبِّ المؤمنین،[7] ایذاء،[8] اور قذف وغیرہ[9] طہارت،[10] حج،[11] مکاسب محرمہ[12] اور حدود [13] جیسے فقہی ابواب میں اس کے حرام ہونے کا فتوا دیتے ہیں۔[14] اس سلسلے میں فقہی قواعد پر مشتمل کتب میں «حُرمَۃُ اِہانۃِ المُحَّرمات فی الدّین»[15] یا «حُرمۃُ الاِہانۃِ بالشَّعائر و رُجحانِ تعظیمِہا»[16] جیسے عناوین سے بحث کی گئی ہیں۔

حدیثی منابع میں بھی بعض روایات خاص موارد میں وارد ہوئی ہیں جو دینی مقدسات میں شامل ہوتے ہیں اور ان کی توہین اور بے احترامی سے ممانعت کی گئی ہے؛ مثلا کعبہ کی توہین کرنا یا رسول خداؐ کو سب و شتم کرنا وغیرہ۔ [17] بعض احادیث میں ائمہ معصومینؑ نے اپنے پیروکاروں کو دوسروں کے یہاں قابل احترام اور مقدس چیزوں کی توہین اور بے احترامی سے منع کئے ہیں۔[18] بعض مفسرین نے سورہ انعام آیت نمبر 108 سے بعض احکام کو استخراج کرتے ہیں؛ مثلا کافروں کو گالی دینا اگر خدا کے لئے سب و شتم کا باعث بنے تو حرام ہے اسی طرح غیر مسلموں اور ان کے مقدسات کی توہین کا حرام ہونا اگر یہ چیز مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کا سبب بنے۔[19]

حکم فقہی

مقدسات کی توہین کے لئے بعض احکام ذکر کئے گئے ہیں من جملہ:

  • دینی مقدسات کی توہین اور بے احترامی حرام اور ان کے تقدس اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا واجب ہے۔[20]
  • مقدسات کی توہین کے حرام ہونے میں واجبات اور محرمات نیز مستحبات (نظیر نماز جماعت) وغیره میں کوئی فرق نہیں ہے۔[21]
  • فقہاء کے مطابق مقدسات کی توہین کرنے والے کا توبہ قابل قبول نہیں ہے، مگر یہ کہ کوئی کافر مقدسات کی توہین کرنے کے بعد مسلمان ہو جائے۔[22]
  • اگر کوئی شخص غصے یا پریشانی کی کی حالت میں بغیر ارادے کے مقدسات کی توہین کا مرتکب ہو اور یہ گمان کرے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے یا انجام دے رہا ہے توہین اور بے احترامی شمار نہیں ہو گا، مقدسات کی توہین کے احکام اس پر لاگوں نہیں ہونگے۔[23]

مصادیق اور عدالتی احکام

مقدسات کی توہین کی نوعیت کے اعتبار سے اس کی سزا بھی مختلف ہیں۔ اسلامی مقدسات کی توہین کے برے انجام میں سے ایک مرتکب ہونے والے شخص کا کافر اور مرتد ہونا ہے جس کا حکم جان سے مار دینا ہے جیسے خدا، انبیاؑ اور ائمہؑ کی توہین۔ بعض مصادیق کی سزا تعزیر ہے:

باعث کفر و ارتداد مصادیق

مقدسات کی توہین کا جرم یا سبّ و قذف ہے یا کفر و ارتداد:

  • سَبّ خدا: خدا کی توہین کرنے والے شخص کو فقہاء کافر اور مہدور الدم سمجھتے ہیں۔[24]
  • سَبُّ النبی: پیغمبر اکرمؐ کو دشنام دینے والاد یا پیغمبر اکرمؐ کی طرف کسی ایسی چیز کی نسبت دے جو ان کی بے احترامی شمار ہو تو یہ شخص مہدور الدم اور کافر شمار کیا جائے گا۔[25] اور اس کا توبہ‌ کرنا بھی اس کے حکم میں مانع نہیں بنے گا۔[26] فقہاء کے مطابق سبّ النبی کے مرتکب شخص میں مسلمان اور کافر، مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔[27] شیعہ فقہ کے مطابق دوسرے انبیاء[28]، فاطمہ زہراء(س)[29] اور ملائکہ[30] کی توہی کرنے والا شخص ساب النبی کے حکم میں شامل ہیں۔
  • سب ائمہؑ: فقہاء کے مطابق جو بھی امام عادل اور معصوم کو دشنام دے اسے جان سے مار دینا واجب ہے۔[31]
  • فقہی کتابوں میں مقدسات کی توہین کے جرم کے بعض مصادیق کے لئے ارتداد کی مثال دی گئی ہے؛ جیسے
  1. قرآن کو عمدا کچڑے میں پھینکنا:[32] اس چیز کا مرتکب شخص مرتد ہے اور اسے جان سے مار دینا واجب ہے۔[33]
  2. کعبہ کو نجس یا منہدم کرنا: اس جرم کا مرتکب شخص بھی مار دئے جائیں گے۔[34]
  3. عمدا حرم پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کےحرم کو نجس کرنا۔[35]
  4. دین و مذہب کا مزاق اڑانا[36] یا توہین کرنا:[37] اگر کوئی مسلمان اصول دین خدا، رسول خداؐ یا ضروریات دین جیسے نماز اور روزے کے واجب ہونے کا مزاق اڑائے[38] تو یہ شخص مرتد اور کافر ہے[39]اور یہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے۔[40] علامہ حلی مزاق اڑانے والے کو قتل کرنا جائز ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔[41]
پیغمبر اکرمؐ کا فرمان

جس نے علیؑ کو دشنام دی، گویا اس نے مجھے دشنام دی ہے، اور جس نے مجھے دشام دی، در حقیقت اس نے خدا کو دشنام دی ہے اور جو خدا کو دشنام دے، خدا اسے جہنم کی آگ میں پھینک دے گا اور وہ ہمیشہ کے لئے وہاں عذاب میں مبتلا ہو گا۔

علامہ مجلسی، بحار الأنوار، دار إحیاء التراث العربی، ج29، ص642

باعث تعزیر مصادیق

مقدسات کی توہین کرنے والے کو تعزیر کی سزا ملنے میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔[42] بعض موارد جیسے عمدا مسجد الحرام کو نجس کرنے والے کے لئے تعزیر کی ایک خاص مقدار ہمیشہ کے لئے معین ہے۔[43] مقدسات کی توہین کے مرتکب شخص کو دی جانے والی بعض تعزیری سزائیں درج ذیل ہیں:

  • پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کے قبور اور حرم کی توہین: پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے قبور اور حرم کی توہین اور بے احترامی کا باعث بننے والا ہر اقدام حرام[44] اور متعلقہ فرد کو تعزیری سزا دی جائے گی۔[45]
  • اسلامی فقہ میں بعض مقدس اوقات جیسے جمعہ، ماہ رمضان اور مقدس مقامات جیسے مساجد میں جرم کا واقع ہونا اس کی سزا میں شدت کا باعث بنتا ہے۔[46] مثلاً اگر کوئی شخص مذکورہ اوقات یا مقامات پر زنا کا مرتکب ہو تو اس پر حد زنا کے علاوہ ان مقدس مقامات اور اوقات کی توہین کرنے کی بنا پر تعزیری سزا بھی ہوگی۔[47]
  • مساجد: مساجد کی توہین کے مصادیق میں سے ایک اسے عمدا نجس کرنا ہے۔[48]
  • ہر وہ چیز جس کا احترام شریعت میں واجب ہو؛ مثلا حدیثی اور فقہی کتابیں، [49] تربت امام حسینؑ اور ہر وہ چیز جسے تبرک اور شفا کے لئے قبر امام حسینؑ سے لی جاتی ہے اسی طرح ہر وہ چیز جو ائمہ معصومینؑ کے قبور اور حرم سے مربوط ہوں جیسے قبور ائمہ کی مٹی[50] اور ان کے دوسرے وسائل وغیرہ۔[51]

اسلامی مقدسات کی توہین

شیعہ فقہاء کے مطابق سبّ عایشہ اور لعن صحابہ نیز اہل سنت کے دیگر مقدسات کی توہین حرام ہے۔ شیعہ فقہاء اس عمل کو اسلام کے ساتھ خیانت اور کفار اور مشرکین کی حمایت سمجھتے ہیں۔[52]

اس سلسلے میں "انتہا پسندی اور تکفیری دھارے کا مقابلہ" کانفرنس کی تحقیقاتی شعبے نے"شیعہ علماء کی نظر میں مسلمانوں کی توہین اور تکفیر" نامی کتاب میں اسلامی مقدسات کی توہین اور اہل قبلہ کی تکفیر کے حرام ہونے پر مبنی 33 شیعہ مراجع تقلید کے فتوؤں کو جمع کیا ہے۔[53]

غیر اسلامی ادیان و مذاہب کی توہین

شیعہ فقہاء کی نظر میں دیگر الہی اور غیر الہی ادیان و مذاہب کے مقدسات کی توہین (حتی بتوں اور کفار کے خداؤں کی توہین) جائز نہیں ہے۔[54] اس حکم کی دلیل سورہ انعام کی آیت نمبر 108 اور بعض احادیث ہیں۔ [55] مقدسات کی توہین کی اصل علت انتقامی کاروائی بتائی جاتی ہے؛[56] کیونکہ مد مقابل کے مقدسات کی توہین ہونے کی وجہ سے اسلامی مقدسات کی توہین بھی ہو گی، [57] اور اسلامی مقدسات کی توہین کا حرام ہونا ایک اتفاقی مسئلہ ہے۔[58]

علامہ طباطبایی کتاب تفسیر المیزان میں اس حکم کو اسلامی اور دینی آداب میں شمار کرتے ہیں، اگر اس کی رعایت کی جائے تو پوری دنیا میں مقدسات کی توہین کا سد باب ہو گا۔[59]

آزادی بیان کے بہانے اسلامی مقدسات کی توہین

عصر حاضر میں آزادی بیان کے بہانے [60] دوسروں کے مقدسات کی توہین اور بے احترامی کو (قرآن‌ سوزی یا انبیاء کی نامناسب کارٹون بنانا) جائز سمجھتے ہیں اور مقدسات کی توہین کے سد باب یا دوسروں کے مقدسات کے احترام کو آزادی بیان کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس مسئلے کے جواب میں کہا گیا ہے کہ آزادی بیان اس وقت تک قابل قبول ہے جب یہ چیز دوسروں کے حقوق اور ان کی آزادی‌ کے ساتھ نہ ٹکرائیں؛ کیونکہ انسانوں کے حققوق میں سے سب سے اہم حق اور آزادی، دین اور مذہب کے انتخاب کا حق ہے۔[61]

حوالہ جات

  1. زراعت، شرح قانون مجازات اسلامی 1394ہجری شمسی، ص98۔
  2. ہاشمی، ارتداد و آزادی، 1384ہجری شمسی، ص31۔
  3. میرمحمد صادقی، جرایم علیہ امنیت و آسایش عمومی، 1389ہجری شمسی، ص164۔
  4. میرمحمد صادقی، جرایم علیہ امنیت و آسایش عمومی، 1389ہجری شمسی، ص164۔
  5. آملی، مصباح الہدی فی شرح العروہ الوثقی، 1380ھ، ج3، ص54؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1410ھ، ج5، ص255۔
  6. خویی، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج1، ص12۔
  7. شیخ انصاری، کتب المکاسب، تراث الشیخ الأعظم، ج3، ص7؛ طباطبایی، منہاج الصالحین، 1415ھ، ج2، ص20۔
  8. نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص49؛ محسنی، حدود الشرعیۃ، 1429ھ، ج1، ص325۔
  9. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص402۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج2، ص51۔
  11. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج4، ص151۔
  12. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، تراث الشیخ الأعظم، ج3، ص7۔
  13. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج9، ص194۔
  14. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، تراث الشیخ الأعظم، ج1، ص253؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392ہجری شمسی، ج2، ص450۔
  15. بجنوردی، القواعد الفقہیہ، 1410ھ، ج5، ص209۔
  16. حسینی مراغی، العناوین الفقہیہ، 1418ھ، ج1، ص556،
  17. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص26۔
  18. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص2و7؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج8، ص590؛ برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص97۔
  19. طباطبایی، المیزان، منشورات اسماعیلیان، ج7، ص314؛ الایروانی، دروس تمہیدیۃ فی تفسیر آیات الأحکام، 1428ھ، ج2، ص596۔
  20. محقق خوانساری، مشارق الشموس فی شرح الدروس، مؤسسہ آل‌البیت، ج1، ص392؛ علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص93؛ بجنوردی، القواعد الفقہیہ، 1419ھ، ج5، ص294؛ سیفی مازندرانی، مبانی الفقہ الفعال، 1425ھ، ج1، ص153؛ نراقی، عوائد الأیام، 1417ھ، ص31؛ تبریزی، رسالۃ فی لبس السواد، 1422ھ، ص185؛ سبحانی، الحج فی الشریعہ الاسلامیہ الغراء، 1424ھ، ج2، ص692۔
  21. سیفی مازندرانی، مبانی الفقہ الفعال، 1425ھ، ج1، ص149۔
  22. ہاشمی، حقوق بشر و آزادی٬‌ہای سیاسی، 1397ہجری شمسی، ص31۔
  23. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص610؛ فاضل ہندی، کشف اللثام، 1416ھ، ج2، ص436؛ بہجت، استفتائات، 1386ہجری شمسی، ص111۔
  24. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص340؛ ابن‎‌حمزہ، الوسیلۃ الی نیل الفضیلۃ، 1408ھ، ص200؛ علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، مؤسسہ آل البیتؑ، ج2، ص236؛ علمہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، منشورات المکتبۃ المرتضویۃ، ج1، ص457۔
  25. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: مقدس اردبیلی، مجمع الفایدۃ، ج13، ص171؛ خویی، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج1، ص12۔
  26. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج21، ص268۔
  27. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: گلپایگانی، الدر المنضود، 1372ہجری شمسی، ج2، ص265۔
  28. ابوصلاح حلبی، الکافی فی الفقہ، 1430ھ، ص416۔
  29. مقدس اردبیلی، مجمع الفائدۃ، 1379ہجری شمسی، ج7، ص527؛ شہید ثانی، الروضہ البہیہ، 1410ھ، ج9، ص195؛ خویی، مبانی تکملۃ المنہاج، 1410ھ، ج1، ص264۔
  30. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج21، ص268۔
  31. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص340؛ مقدس اردبیلی، مجمع الفائدۃ، 1379ہجری شمسی، ج7، ص527؛ شیخ مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص743۔
  32. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1419ھ، ج3، ص573؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج9، ص335؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص600۔
  33. دستغیب، گناہان کبیرہ، 1361ہجری شمسی، ج2، ص361۔
  34. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص600۔
  35. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1419ھ، ج3، ص573؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج9، ص335؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص600۔
  36. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص600۔
  37. فخرالمحققین، ایضاح الفوائد، 1387ھ، ج4، ص547۔
  38. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج43، ص41و60۔
  39. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، إرشاد الأذہان، 1410ھ، ج2، ص189۔
  40. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص600؛ کاشف‌الغطاء، العروۃ الوثقی فی الدین، 1423ھ، ص69۔
  41. علامہ حلی، تحریر الأحکام، مؤسسہ آل البیتؑ، ج2، ص236۔
  42. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص601۔
  43. جعفری لنگرودی، ترمینولوژی حقوھ، 1367ہجری شمسی، ذیل واژہ «تعزیر مُقدَّر»
  44. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص782؛ شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص698۔
  45. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: ابن‌براج، المہذب، 1406ھ، ج2، ص523؛ فاضل ہندی، کشف اللثام، 1416ھ، ج10، ص489۔
  46. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص782؛ شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص698؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392ہجری شمسی، ج2، ص468۔
  47. شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص698؛ابن‌ادریس، السرائر، 1410ھ، ج3، ص447؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392ہجری شمسی، ج2، ص468؛ گلپایگنی، الدر المنضود فی احکام الحدود، 1372ہجری شمسی، ج1، ص497؛ تبریزی، أسس الحدود و التعزیرات، 1373ہجری شمسی، ص175۔
  48. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1420ھ، ج1، ص87۔
  49. کاشف‌الغطاء، سفینۃ النجاۃ، 1344ھ، ج1، ص85؛ خویی، صراط النجاۃ، 1416ھ، ج1، ص437؛ سیفی مازندرانی، مبانی الفقہ الفعال، 1425ھ، ج1، ص154۔
  50. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج2، 51و51؛ ج6، ص98و99؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ج1، ص90۔
  51. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج6، ص98؛ خویی، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج1، ص116؛ امام خمینی، کتاب الطہارۃ، 1421ھ، ج4، ص123۔
  52. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: امام خمینی، صحیفہ امام، 1389ہجری شمسی، ج8، ص482؛ «استقبال جہان اسلام از استفتای جدید آیت‌اللہ خامنہ‌ای»، روزنامہ رسالت، 11 مہر 1389ہجری شمسی، ص3؛
  53. کوثری، حرمت اہانت و تکفیر مسلمانان، 1394ہجری شمسی۔
  54. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شہید اول، القواعد و الفوائد، کتابفروشی مفید، ج1، ص61؛ فاضل مقداد، نضد القواعد الفقہیۃ، 1361ہجری شمسی، ص58؛ علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج7، ص175؛ نورمفیدی، قاعدہ حرمت اہانت بہ مقدسات، 1400ہجری شمسی، ص93۔
  55. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص2و7۔
  56. شہید اول، القواعد و الفوائد، کتابفروشی مفید، ج1، ص61۔
  57. علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج7، ص175۔
  58. نراقی، عوائد الأیام، 1417ھ، ص31۔
  59. علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج7، ص175۔
  60. اعلامیہ حقوق بشر، مادہ19۔
  61. نورمفیدی، قاعدہ حرمت اہانت بہ مقدسات، 1400ہجری شمسی، ص133۔

مآخذ

  • ابن‌ادریس، محمد بن احمد، السرائر: الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1410ھ۔
  • ابن‌براج، عبدالعزیز، المہذب، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1406ھ۔
  • ابن‌حمزہ، محمد بن علی، الوسیلۃ الی نیل الفضیلۃ، تحقیق: محمد حسون، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ‌ مرعشی نجفی، 1408ھ۔
  • «استقبال جہان اسلام از استفتای جدید آیت‌اللہ خامنہ‌ای»، روزنامہ رسالت، 11 مہر 1389ہجری شمسی۔
  • آملی، محمد تقی، مصباح الہدی فی شرح العروہ الوثقی، تہران، بی‌نا، 1380ھ۔
  • آملی، سید حیدر، تفسیر المحیط الاعظم و البحر الخضم، تہران، وزارت ارشاد اسلامی، 1422ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1389ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، کتاب الطہارۃ، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1421ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1392ہجری شمسی۔
  • ایروانی، باقر، دروس تمہیدیۃ فی تفسیر آیات الأحکام‌، ناشر:‌دار الفقہ للطباعۃ و النشر، قم، چاپ سوم، 1428ھ۔
  • بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقہیۃ، قم، الہادی، 1419ھ۔
  • بہجت، محمدتقی، استفتائات از محضر آیت‌اللہ بہجت، قم، دفتر حضرت آیت‌اللہ بہجت، 1386ہجری شمسی۔
  • جعفری لنگرودی، محمدجعفر، ترمینولوژی حقوھ، تہران، کتابخانہ گنج و دانش، 1367ہجری شمسی۔
  • برقی، احمد بن محمد، المحاسن، تصحیح: سید جلال‌الدین محدث، قم، دار الکتب الإسلامیۃ، 1371ھ۔
  • تبریزی، جواد، رسالۃ فی لبس السواد - الأنوار الإلہیۃ، قم، دار الصدیقۃ الشہیدۃ(س)، 1422ھ۔
  • تبریزی، جواد، أسس الحدود والتعزیرات، قم، مطبعہ مہر، 1373ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسایل الشیعہ و مستدرکہا، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1424ھ۔
  • حسینی مراغی، عبدالفتاح، العناوین الفقہیۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1418ھ۔
  • فخرالمحققین، محمد بن حسن، إیضاح الفوائد فی شرح مشکلات القواعد، تصحیح: علی‌پناہ اشتہاردی، قم، اسماعیلیان، 1387ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدسعید، منہاج الصالحین، بیروت، دار الصوۃ، 1415ھ۔
  • خویی، سیدابوالقاسم، مبانی تکملۃ المنہاج، نجف، مؤسسۃ إحیاء آثار الإمام الخوئی، 1410ھ۔
  • خویی، سیدابوالقاسم، صراط النجاۃ، تہران، دفتر نشر برگزیدہ، 1416ھ۔
  • خویی، سیدابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، دارالعلم، 1410ھ۔
  • دستغیب، سید عبدالحسین، گناہان کبیرہ، تہران، کانون ابلاغ اندیشہ‌ہای اسلامی، 1361ہجری شمسی۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، 1420ھ۔
  • علامہ حلی، حسن‌ بن یوسف، إرشاد الأذہان إلی أحکام الإیمان، تحقیق: فارس تبریزیان، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1410ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الإمامیۃ، مشہد، مؤسسہ آل البیتؑ، بی‌تا۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، نجف، منشورات المکتبۃ المرتضویۃ، بی‌تا۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفہ الحلال و الحرام، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1419ھ۔
  • علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، 1417ھ۔
  • زراعت، عباس، شرح قانون مجازات اسلامی، تہران، انتشارات ققنوس، 1394ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، الحج فی الشریعۃ الاسلامیۃ الغراء، قم، مؤسسہ امام صادق، 1424ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد‌، تحقیق: سید عبدالہادی حکیم، قم، نشر کتابفروشی مفید، بی‌تا۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضہ البہیہ فی شرح اللمعہ الدمشقیہ، قم، مکتب الإعلام الإسلامی، 1410ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دار الکتاب العربی، 1400ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1407ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، کنگرہ شیخ، 1413ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، بی‌جا، نشر تراث الشیخ الأعظم، بی‌تا۔
  • سیفی مازندرانی، علی‌اکبر، مبانی الفقہ الفعال فی القواعد الفقہیۃ الأساسیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1425ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، نضد القواعد الفقہیۃ علی مذہب الإمامیۃ، تحقیق: عبداللطیف حسینی کوہ‌کمری، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ‌مرعشی نجفی، 1361ہجری شمسی۔
  • کاشف الغطاء، احمد، سفینۃ النجاۃ و مشکاۃ الہدی و مصباح السعادات، نجف، مؤسسۃ کاشف‌الغطاء، 1423ھ۔
  • کاشف الغطاء، عباس بن حسن، العروۃ الوثقی فی الدین، نجف، مؤسسۃ کاشف الغطاء العامۃ، 1423ق
  • کوثری، احمد، حرمت اہانت و تکفیر مسلمانان از دیدگاہ علمای شیعہ، قم، مدرسہ علمیہ امام کاظمؑ، 1394ہجری شمسی۔
  • گلپایگانی، سید محمدرضا، الدر المنضود فی احکام الحدود، قم، دار القرآن الکریم، 1372ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، مصحح: علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • محسنی، محمدآصف، حدود الشرعیۃ، قم، بوستان کتاب، 1429ھ۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح ارشاد الاذہان، قم، نشر اسلامی، 1379ہجری شمسی۔
  • موسوی بجنوردی، سید محمدحسن، القواعد الفقہیۃ، قم، اسماعیلیان، 1410ھ۔
  • محقق خوانساری، حسین، مشارق الشموس فی شرح الدروس، قم، مؤسسہ آل‌البیتؑ، بی‌تا۔
  • میرمحمد صادقی، حسین، جرایم علیہ امنیت و آسایش عمومی، تہران، نشر میزان، چاپ شانزدہم، 1389ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق: محمد قوچانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • نراقی، احمد، عوائد الایام فی بیان قواعد الاحکام و مہمات مسائل الحلال و الحرام، قم، دفتر تبلیغات حوزہ علمیہ، 1417ھ۔
  • نورمفیدی، سید مجتبی، قاعدہ حرمت اہانت بہ مقدسات، تحقیق: مہدی اعلایی، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، 1400ہجری شمسی۔
  • ہاشمی، سید محمد، حقوق بشر و آزادی‌ہای اساسی، تہران، نشر میزان، 1397ہجری شمسی۔
  • ہاشمی، سید حسین، ارتداد و آزادی، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1384ہجری شمسی۔