بدر تنظیم

ویکی شیعہ سے
(سپاہ بدر سے رجوع مکرر)
بدر تنظیم
بدر تنظیم کا لوگو (عراق)
بدر تنظیم کا لوگو (عراق)
عمومی معلومات
بانیسپاہ پاسداران ایران
تاسیس1985ء عسکری تنظیم کی حیثیت سے
2003ء سیاسی تنظیم کی حیثیت سے
نوعیتعسکری اور سیاسی تنظیم * عراق کی پارلیمنٹ اور حکومت میں مشارکت
ہدفصدام اور حزب بعث سے مقابلہ کے لئے
ہیڈ کوارٹرعراق
وسعت مکانیعراق
سیکرٹری جنرلہادی العامری
متعلقہ ادارےالغدیر ٹی وی
ویب سائٹhttp://badr.iq/#multislide/2
دیگر اسامیسپاہ بدر - فیلق بدر


بَدر تنظیم یا سپاہ بدر (منظمۃ بدر یا فلیق بدرعراق کی ایک شیعہ سیاسی تنظیم ہے جس کے موجودہ سربراہ ہادی العامری ہے۔ حشد الشعبی کے ساتھ داعش کی نابودی کے لئے لڑی جانے والی جنگ کی وجہ سے عراق کی سیاسی محافل میں اس تنظیم کے وقار میں اضافہ ہوا۔

سنہ 1985ء کو ایران میں مقیم عراقی مجاہدین نے سپاہ پاسداران ایران کی مدد سے عراق کی بعثی حکومت اور صدام حسین کے خلاف مسلح جد و جہد کے لئے سپاہ بدر کی بنیاد رکھی جس کے بعد اس تنظیم نے مجلس اعلی انقلاب اسلامی عراق کے زیر نگرانی اپنی فعالیتیں شروع کی۔

ایران و عراق جنگ کے دوران ایرانی سپاہیوں کے ساتھ مل کر مختلف آپریشنوں میں حصہ لینا اور عراق کے اندر حزب بعث کے خلاف کراوائی کرنا اس تنظیم کی اہم سرگرمیوں میں سے ہے۔ صدام کے سقوط کے بعد اس تنظیم نے اپنے اغراض و مقاصد میں تبدیلی لاتے ہوئے عراق کی پارلیمنٹ اور حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ الغدیر ٹی وی اس تنظیم کا میڈیا سیل ہے۔

تاریخچہ اور ڈھانچہ

ایران - عراق جنگ میں خرمشہر کی فتح (مئی 1982ء) اور ایرانی سپاہیوں کا عراق کے باڈر تک رسائی کے بعد سپاہ پاسداران نے عراقی مجاہدین کی مختلف بٹالین تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تاکہ ایرانی فوج کے شانہ بشانہ اور عراق کے اندر حزب بعث کے خلاف لڑائی میں حصہ لے سکے۔[1] سپاہ پاسداران کے اسوقت کے سربراہ محسن رضائی کی طرف سے اسماعیل دقایقی نے اس کام کی ذمہ داری اور سنبھالی[2] اور 1985ء کے اوائل میں عراقی اپوزیشن فورسز پر مشتمل 9ویں بدر بریگیڈ تشکیل دی۔[3] 1365ہجری شمسی کے آخر میں اس بریگیڈ کو 9ویں بدر ڈویژن میں ترقی دی گئی[4] اور مجلس اعلی انقلاب اسلامی عراق کی زیر نگرائی لائی گئی۔[5]

اسماعیل دقایقی کے بعد سپاہ پاسداران کے کمانڈر محمدرضا نقدی نے 1365 کے اواخر سے 1367 ہجری شمسی تک (ایران عراق جنگ کا خاتمہ) بدر تنظیم کی قیادت سنبھالی۔[6]

عدنان ابراہیم جو ابوعلی بصری کے نام سے مشہور تھے، سنہ 1367ہجری شمسی سے 1380ہجری شمسی تک،[7] جمال جعفر جو کہ ابومہدی المہندس کے لقب سے ملقب تھے، سنہ 1381ہجری شمسی[8] اور ہادی العامری سنہ 1381ہجری شمی سے اب تک اس تنظیم کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔[9]

ابومہدی المہندس سردار قاسم سلیمانی کے ساتھ مورخہ 3 جنوری سنہ 2020ء کو بغداد ایرپورٹ پر امریکی ڈرون حملے میں شہید ہوئے۔[10]

ہادی فرحان العامری، بدر تنظیم کے سیکرٹری جنرل

بدر تنظیم کا حالیہ ڈھانچہ درج ذیل ہے:

  • سیکرٹری جنرل (الامانۃ العامۃ)، اس تنظیم کا سب سے اعلی عہدہ ہے جو اس وقت ہادی العامری کے پاس ہے۔[11]
  • سیاسی دفتر (المكتب السياسي)، اس آفس کا ذمہ دار تنظیم کا سیکرٹری جنرل ہے۔[12] اس دفتر کی زیر نگرانی مختلف شعبہ جات کام کرتے ہیں جن میں نوجوانوں اور طلباء کا شعبہ، انسانی امداد کا شعبہ، ثقافت و مطبوعات کا شعبہ، ورزش اور جوانوں کا شعبہ اور اسی طرح شعبہ معاشیات شامل ہیں۔[13]
  • عسکری شعبہ (الجناح العسکری): سپاہ بدر اس تنظیم کا عسکری شعبہ ہے جو حشد الشعبی کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔[14]

سرگرمیاں

بدر تنظیم کی سرگرمیوں کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایران و عراق جنگ کا زمانہ، صدام کی اقتدار کا زمانہ اور صدام کے سقوط کے بعد کا زمانہ۔

ایران و عراق جنگ میں شرکت

صدام اور حزب بعث کے ساتھ مقابلہ اور خدا کی راہ میں جہاد عراقی مجاہدین کا اصلی مقصد تھا۔[15] بدر تنظیم کے سیکرٹری جنرل العامری کے مطابق سید محمدباقر صدر کی طرف سے سنہ 1978ء کو صدام کی حکومت کے خلاف مسلح جد و جہد کے واجب ہونے کا فتوا اس تنظیم کے عسکری شعبہ یعنی سپاہ بدر کی سرگرمیوں کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔[16] وہ سپاہ بدر کا ایرانی سپاہیوں کے ساتھ مل کر بعثی فوجیوں کے خلاف مسلح جد و جہد کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔[17] سپاہ بدر کے جوانوں نے بعثی فوجیوں کے خلاف کئی آپریشنوں میں حصہ لیا۔ بدر آپریشین(اسفند 1363ہجری شمسی) اس سلسلے کی پہلی آپریشن تھی جس میں سپاہ بدر نے شرکت کی۔[18] اسی طرح کربلائے2، کربلائے4 اور قدس4 من جملہ ایسے آپریشنز ہیں جن میں سپاہ بود نے شرکت کی۔[19] فتح 1 آپریشن جو سپاہ پاسداران (رمضان کیمپ) اور پیٹریاٹک یونین آف عراقی کردستان نے کرکوک کے نزدیک انجام دی[20] کے بعد سپاہ بدر نے اپنی سرگرمیوں کو عراق کے اندر پیٹریاٹک یونین آف عراقی کردستان کے توسط سے آزاد ہونے والے علاقوں میں منتقل کیا۔[21]

ایران و عراق جنگ کے بعد

ایران و عراق جنگ کے خاتمے کے بعد بدر تنظیم نے اپنی سرگرمیوں کو عراق کے اندر جاری رکھی۔ اس وقت بھی محمد باقر حکیم کی سربراہی میں مجلس اعلی انقلاب اسلامی عراق اس تنظیم پر نگرانی کرتی تھی۔[22] اس تنظیم کے عمدہ سرگرمیوں میں عوامی تحریک انتفاضہ شعبانیہ کی حمایت اور شرکت ہے۔ اس تحریک کے شروع ہونے کے بعد مجلس اعلی انقلاب اسلامی عراق اور سپاہ بدر کے بعض اراکین عراق کے مختلف علاقوں خاص کر بصرہ، عمارہ، دیالی اور کوت جیسے شہروں میں موجود رہے۔[23]

عراق کے شمال اور صوبہ سلیمانیہ میں سپاہ بدر کے اراکین نے پیٹریاٹک یونین آف کردستان کے صدر جلال طالبانی کے ساتھ مل کر المصطفی بریگیڈ کی بنیاد رکھی جو تقریبا 1500 افراد پر مشتمل تھی؛[24] لیکن جب صدام نے اس تحریک کو ناکام بنا ڈالا تو سپاہ بدر کو اپنے بہت سارے اراکین سے ہاتھ دونا پڑی۔[25] سپاہ بدر نے سنہ 1380 اور 1381ہجری شمسی کو چار دفعہ صدام کے صدارتی محل پر حملہ کیا[26] اور صدام کے سقوط کے لئے کی جانے والی آپریشن (2003ء) میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے ساتھ سپاہ بدر نے بھی عراق کے حنوب میں ایرانی باڈر کے نزدیک شہر دیالہ میں حملہ‌ کیا۔[27]

صدام کے بعد

صدام کی معزولی کے بعد عراق کے سیاسی دھارے می شریک ہونا سپاہ بدر کا اصلی ہدف اور مقصد بن گیا[28] اور عسکری جد و جہد کی ضرورت نہ ہونے کی بنا پر سپاہ بدر نے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔[29] اسلامی جمہوریہ ایران کے سپاہ پاسداران کے کمانڈر محسن رضائی کے مطابق ایران و عراق جنگ کے دوران خاص کر صدام کے سقوط کے بعد ایران کی مدد کے بغیر عراقی مجاہدین کا مستقل اور آزادانہ طور پر کام کرنے کو سپاہ بدر کی تشکیل کے اہداف میں سے قرار دیتے ہیں۔[30]

صدام کی معزولی کے بعد بدر تنظیم کی سرگرمیاں درج ذیل ہیں:

  • اغراض و مقاصد میں تبدیلی اور عراق کے انتظامی ڈھانچے میں داخل: سنہ 2003ء میں صدام کی معزولی کے بعد مجلس اعلی اسلامی عراق نے سپاہ بدر کو بدر تعمیر و ترقی تنظیم میں تبدیل کیا۔[31] محمد باقر حکیم جو اس وقت مجلس اعلی اسلامی عراق کے صدر تھے نے اعلان کیا کہ اس تنظیم کی عسکری ذمہ داری صدام کی معزولی کے بعد ختم ہوا؛[32] البتہ انہوں نے امریکہ کی طرف سے سپاہ بدر کو منحل اور خلع سلاح کرانے پر لگائے جانے والے دباؤ کی طرف بھی اشارہ کیا۔[33] عراق پر قابض امریکی حاکم پال بِرمِر کی طرف سے عراق میں موجود تمام مسلح دستوں کو منحل کر کے انہیں عراق کے سکیورٹی اداروں اور وزارت دفاع میں شامل کرنے کے حکم کے ساتھ بدر تنظیم کے اکثر اراکین بھی عراق کے انتظامی اور سکیورٹی اداروں میں شامل ہو گئے اور یہ تنظیم عراق کے غیر سرکاری سکیورٹی ادارے میں تبدیل ہو گئی۔[34] بدر تنظیم کے اراکین کی تعداد تقریبا 10 ہزار نفوس تک اندازہ لگایا گیا ہے۔[35]
  • مجلس اعلی اسلامی عراق سے علیحدگی: مارچ2012ء کو بدر تنظیم مجلس اعلی اسلامی عراق سے الگ ہو گئی اور ایک مستقل سیاسی اور عسکری تنظیم کی شکل میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھی۔[36] بعض لوگ اس علیحدگی کی وجہ اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری العامری اور مجلس اعلی اسلامی کے اس وقت کے صدر عمار حکیم کے سیاسی ترجیحات میں تبدیلی قرار دیتے ہیں۔[37]
  • حشد الشعبی میں شمولیت: سپاہ بدر داعش کے خلاف جنگ میں حشد الشعبی کا اصلی رکن ہے۔ اس وقت کے عراقی وزیر اعظم نوری مالکی کی طرف سے عوامی رضا کار دستے (حشد الشعبی) تشکیل دینے کے حکم اور عراق کی دفاع کے سلسلے میں شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی کے فتوے کے بعد،[38] بدر تنظیم کے عسکری شعبے یعنی سپاہ بدر نے عراق کے دوسرے مسلح دستوں کے ساتھ مل کر عراق کے مختلف علاقوں جیسے آمرلی، تکریت، فلوجہ، موصل اور کرکوک کو داعش کے قبضے سے آزاد کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔[39] دوسری جانب حشد الشعبی کے کئی ذیلی شاخیں جیسے کتائب حزب‌اللہ عراق بھی سپاہ بدر کے سابق کمانڈروں من جملہ ابومہدی المہندس کی زیر نگرانی کام کرتے ہیں۔[40] اسی طرح حشد الشعبی کے بہت سارے یونٹ اس تنظیم کے کمانڈروں کو عسکری مشیر کے طور پر انتخاب کرتے ہیں۔[41]
  • عراق کے سیاسی دھارے میں شمولیت: بدر تنظیم نے عراق کے آخری پارلیمانی انتخابات (2018ء) میں ائتلاف الفتح کی قیادت میں 47 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے۔[42] سنہ 1388ہجری شمسی اور سنہ 1392ہجری شمسی کی عراقی پارلمانی انتخابات[43] میں بھی بدر تنظیم اپنے نمائندے عراقی پارلیمنٹ میں بھیجنے میں کامیاب ہوئی تھی۔[44] اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری ہادی العامری نوری المالکی کی حکومت سنہ 1390 سے1393 ہجری شمسی میں عراق کے وزیر حمل و نقل رہ چکے ہیں۔[45] اسی طرح حیدر العبادی کی حکومت میں بدر تنظیم کی ایک اور قیادت محمد سالم الغبان عراق کے وزیر مملکت کا عہدہ سنبھالنے میں کامیاب ہوا تھا۔[46] ان کے بعد اس تنظیم کی ایک اور قیادت قاسم الاعرجی بھی عراق کے وزارت مملکت منتخب ہوا تھا۔[47]

عراق کی دوسری تنظیموں کے ساتھ رابطہ

متحدہ عراق، قومی عراق،[48]دولت قانون[49] اور الفتح[50] وغیرہ بدر تنظیم کے دوسری تنظیموں اور سیاسی احزاب کے ساتھ ہونے والی ائتلاف‌ اور اتحاد کے نام ہیں جو عراق کے کئی پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں عراقی حکومت کا حصہ بھی رہ چکی ہے۔ دوسری جانب عراق میں داعش کے ظہور اور کئی شہروں اور صوبوں پر قبضہ کرنے نیز درالحکومت بغداد اور عتبات عالیات پر قبضہ کرنے کی دھمکی باعث بنی کہ سپاہ بدر کو حشد الشعبی میں شمولیت اختیار کر کے 42 سے زیادہ مسلح گروہوں کے ساتھ تعاون کرنے کا موقع فراہم ہوا۔[51] حالانکہ صدام کی معزولی کے ابتدائی سالوں میں سپاہ بدر اور مقتدی صدر کی زیر نگرانی کام کرنے والی مسلح تنظیم جیش المہدی کے درمیان کوئی مسلح جھڑپیں بھی ہوئی تھی۔[52]

دوسرے ملکوں کے ساتھ رابطہ

بدر تنظیم کے جنرل سیکرٹری ہادی العامری ایران کے ساتھ اس تنظیم کے رابطے کو معمول کے مطابق قرار دیتے ہوئے[53] اس بات کے معتقد ہیں کہ داعش کے خلاف ایران کی حمایت نہایت اہم اور حیاتی تھی۔[54] اس تنظیم کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری محمد ناجی نے داعش کے خلاف حشد الشعبی کی مسلح جد و جہد کے دوران عراق میں ایرانیوں کی موجودگی کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں عراق کا حیقیقی حامی اور دوست قرار دیا۔[55]

اس کے مقابلے میں بدر تنظیم کا امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہیں ہے۔ اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری ہادی العامری نے بہمن 1397ہجری شمسی کو عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا؛[56] لیکن امریکی تربیتی فوجی دستوں کا عراق میں رہنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔[57] اس اعلان سے کئی ماہ پہلے بھی اس تنظیم نے امریکی حکومت کی جانب سے عراق کو ایران کے خلاف امریکی پابندیوں سے مستثنی قرار دینے کے بدلے حشد الشعبی کو تحلیل کرنے کی امریکی پیشگی شرط کی بھی مخالفت کا اعلان کیا تھا۔۔[58] البتہ اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری نے سنہ 1397ہجری شمسی کے اوائل میں ہونے والی عراقی پارلیمانی انتخابات سے پہلے ایک انٹرویو میں تأکید کی تھی کہ اگر وہ عراق کا وزیر اعظم بنتے ہیں تو وه بیک وقت تہران اور واشنگٹن دونوں کے ساتھ بغداد کے تعلقات کو مستحکم کریں گے۔[59] دوسری جانب امریکہ بدر تنظیم کو ایران کا حامی اور شریک قرار دیتا ہے۔[60] اسی طرح حشد الشعبی کے آپریشنوں کے دوران جب امریکی سفیر نے اس تنظیم کے کارکنوں کو سنیوں کے خلاف تعصبانہ رویہ اپنانے کا الزام لگایا[61] تو داعش کے خلاف امریکی قیادت میں بننے والی بین الاقوامی اتحادی افواج کے ساتھ سپاہ بدر اور حشد الشعبی کا رابطہ منقطع ہوا۔[62]

سعودی عرب نیز سپاہ بدر کو ایران سے متأثر ہونے کا الزام لگاتا ہے۔ اکتبر 2018ء کو عادل عبدالمہدی کی حکومت بننے کے بعد «الفتح» اتحاد کے سربراہ ہادی العامری نے عراقی پارلیمنٹ میں عراقی کابینہ کی تشکیل میں ایران کی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ اور سعودی عرب پر الزم لگایا کہ انہوں نے مختلف شیعہ اور اہل سنت شخصیات کو دھمکیوں کے ذریعے عراق میں حکومت سازی کے عمل میں مداخلت کی کوشش کی۔[63] اس سے پہلے بھی حیدر العبادی کی کابینہ (خرداد 1393ہحری شمسی) کی تشکیل میں بھی امریکہ اور سعودی عرب کی طرف سے اہل سنت گروہوں پر دباؤ کے ذریعے بدر تنظیم کے سیکرٹری جنرل ہادی العامری کا عراق کے وزیر دفاع کے عہدے پر منتخب ہونے کی مخالفت کی تھی جنہیں ائتلاف دولت قانون کی طرف سے وزارت دفاع کے لئے پیش کیا گیا تھا۔[64] فلوجہ کی آزادی (خرداد 1395ش) کے موقع پر عراق میں سعودی عرب کے سفیر کی جانب سے حشد الشعبی پر عراق میں اہل سنت کے خلاف تعصبانہ رویہ اختیار کرنے کے الزام پر بدر تنظیم کی طرف سے انہیں عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت، داعش کی حمایت، شر انگیزی اور عراق کی قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے کی بنا پر ناپسندیدہ عنصر قرار دیا گیا تھا۔[65]

حوالہ جات

  1. شاہد یاران، ش87، 1391ہجری شمسی۔
  2. شاہد یاران، ش87، 1391ہجری شمسی۔
  3. شاہد یاران، «سپاہ 9 بدر، میراث جاودان شہید دقایقی»، ش 87۔
  4. شاہد یاران، «سپاہ 9 بدر، میراث جاودان شہید دقایقی»، ش87۔
  5. شاہد یاران، «سپاہ 9 بدر، میراث جاودان شہید دقایقی»، ش 87۔
  6. شاہد یاران، ش41و42، ص94؛ خبرگزاری دفاع مقدس،«"شمس" جبہہ‌ہا و فرماندہ ابومنتظر کہ بود؟»۔
  7. شاہد یاران،«مصاحبہ با محمدعلی رحمانی»، ص94 خبرگزاری النہار، «قادۃ سابقون لفیلق بدر الشیعی عادوا لقتال داعش»۔؛ شاہد یاران،گفت‌و‌گو با حامد البیاتی، ص51۔
  8. شاہد یاران،«مصاحبہ با محمدعلی رحمانی»، ص94۔، شاہد یاران، مصاحبہ با ابومہدی المہندس، ش 87۔
  9. خبرگزاری Presstvp، «مصاحبہ با ہادی العامری، فرماندہ سپاہ بدر عراق»۔
  10. دربارہ ابومہدی المہندس۔
  11. خبرگزاری الکوثر: «ہادی العامری دبیرکل سازمان بدر عراق»۔
  12. سایت بولتن، «»۔
  13. سایت حاج قاسم، «آشنایی با سپاہ بدر»۔
  14. باشگاہ خبرنگاران جوان، «سپاہ بدر چگونہ شکل گرفت»۔
  15. شاہد یاران، ش87، ص39؛ خضاب، نشریہ رمز عبور، 1393ہجری شمسی۔
  16. خبرگزاری Press TV، «مصاحبہ با ہادی العامری،فرماندہ سپاہ بدر»۔
  17. خبرگزاری Press TV، «مصاحبہ با ہادی العامری،فرماندہ سپاہ بدر»۔
  18. شاہد یاران، مصاحبہ با ابومہدی المہندس، ش 87۔
  19. شاہد یاران، «سپاہ 9 بدر، میراث جاودان شہید دقایقی»، ش 87۔
  20. خبرگزاری ایسنا، «مروری بر عملیات فتح 1»۔
  21. شاہد یاران، ش41و42، ص94۔
  22. شاہد یاران، ش41و42، ص94۔
  23. شاہد یاران، ش41و42، ص78۔
  24. خضاب، نشریہ رمز عبور، 1393ہجری شمسی۔
  25. شاہد یاران، ش41و42، ص78۔
  26. ایسنا، «حملۀ آمریکا بہ عراق قطعی است»۔
  27. نایتز، سایت دیپلماسی ایرانی، اسفند 1393ہجری شمسی۔
  28. وبگاہ نسیم آنلاین، «سہ فرماندہ کہ قلب داعش را می‌لرزانند»۔
  29. پرس تی وی، «مصاحبہ اختصاصی پرس تی وی با فرماندہ سپاہ بدر عراق»۔
  30. شاہد یاران، «مصاحبہ با محسن رضایی»، ص51۔
  31. روزنامہ اعتماد، «عمار حکیم از ریاست مجلس اعلای اسلامی عراق کنار رفت»۔
  32. روزنامہ اعتماد، «عمار حکیم از ریاست مجلس اعلای اسلامی عراق کنار رفت»۔
  33. سایت ہمشہری، «گفت‌وگو با آیت اللہ محمدباقر حکیم»، 1382ہجری شمسی۔
  34. مشرق نیوز، «پروندہ-انتخابات-عراق-5-الفتح-المبین-ائتلاف-بزرگ-مبارزان-ضد-داعش»۔
  35. خبرگزاری تسنیم،«ساختار حشد شعبی عراق؛ مہمترین گروہ‌ہای تشکیل‌دہندہ آن»۔
  36. خبرگزاری ایرنا؛«سازمان بدر از مجلس اعلای اسلامی عراق جدا شد»۔، الاخبار، «المجلس الأعلی و منظمۃ بدر یعلنان الانفصال»۔
  37. مشرق نیوز، «پروندہ انتخابات عراق -5|الفتح المبین؛ ائتلاف بزرگ مبارزان ضد داعش»،1397۔
  38. تسنیم،«ہمہ چیز دربارہ گروہ‌ہای مقاومت مردمی عراق؛ از مقابلہ با رژیم بعث تا مبارزہ با داعش»،1396ہجری شمسی۔
  39. خبرگزاری Presstvp، «مصاحبہ با ہادی العامری،فرماندہ سپاہ بدر عراق»۔
  40. نایتز، «سپاہ بدر جایگزین نیروہای امریکایی در عراق می شود»، اسفند 1393ہجری شمسی۔
  41. مشرق نیوز، «جزئیاتی از عملیات فلوجہ»۔
  42. شبکہ خبر، «بیشترین کرسی‌ہای پارلمان عراق بہ ائتلاف «سائرون»رسید»۔
  43. خبرگزاری مشرق، «نگاہی بہ انتخابات پارلمانی عراق در 2010»۔
  44. مشرق نیوز، «پروندہ-انتخابات-عراق-5-الفتح-المبین-ائتلاف-بزرگ-مبارزان-ضد-داعش»۔
  45. مشرق نیوز،«ہمرزم-سردار-سلیمانی-در-عراق-را-بہتر-بشناسید»۔، خبرگزاری مہر، «دیدار وزیر راہ وشہرسازی با وزیر حمل و نقل عراق»۔
  46. خبرگزاری الغدیر، «السیرۃ الذاتیۃ لوزیر الداخلیۃ محمد سالم الغبان»۔
  47. ایسنا، «العبادی می‌خواہد وزارت کشور ہمچنان دست سازمان بدر بماند»۔
  48. خبرگزاری مشرق، «نگاہی بہ انتخابات پارلمانی عراق در 2010»۔
  49. مشرق نیوز، «پروندہ-انتخابات-عراق-5-الفتح-المبین-ائتلاف-بزرگ-مبارزان-ضد-داعش»۔
  50. شبکہ خبر، «بیشترین کرسی‌ہای پارلمان عراق بہ ائتلاف «سائرون»رسید»۔
  51. خبرگزاری تسنیم، «ساختار حشد شعبی عراق؛ مہمترین گروہ‌ہای تشکیل دہندہ آن»۔
  52. خبرگزاری مہر، «دست‌ہای ناپاک گروہک منافقین در فاجعہ نیمہ شعبان کربلا»۔ خبرگزاری دانشجو، «ستارگان علمی و جہادی در عراق چہ کسانی ہستند؟»۔
  53. مشرق، «ہمرزم سردار سلیمانی در عراق را بہتر بشناسید»۔
  54. خبرگزاری مشرق، «ہمرزم سردار سلیمانی در عراق را بہتر بشناسید»۔
  55. خبرگزاری دانشگاہ ازاد اسلامی، «معاون سپاہ بدر عراق: حمایت ایران باعث جلوگیری از ورود داعش بہ کاظمیہ شد»۔
  56. مہر نیوز، «العامری: اجازہ حضور نظامی آمریکا در عراق را نخواہیم داد»۔
  57. خبرگزاری فارس، «العامری: نیروہای آمریکایی جرأت پرسہ‌زنی در شہرہای عراق را ندارند»۔
  58. شیعہ نیوز، «واکنش سازمان بدر بہ شرط آمریکا برای معافیت عراق از تحریمہای ایران»۔
  59. خبرگزاری مہر، «در صورت پیروزی، روابط بغداد با تہران و واشنگتن را حفظ خواہم کرد»۔
  60. نایتز، «سپاہ بدر جایگزین نیروہای امریکایی در عراق»۔
  61. نسیم آنلاین، «سہ فرماندہ کہ قلب داعش را می‌لرزانند»۔، خبرگزاری پرس تی وی، «مصاحبہ اختصاصی پرس تی وی با فرماندہ سپاہ بدر عراق»
  62. وبگاہ نسیم آنلاین، «سہ فرماندہ کہ قلب داعش را می‌لرزانند»۔
  63. خبرگزاری انتخاب، «ہادی العامری دخالت ایران در تشکیل دولت عراق را رد کرد/ آمریکا و عربستان مستقیما در روند تشکیل دولت دخالت می‌کنند»۔
  64. مشرق نیوز، «ہمرزم-سردار-سلیمانی-در-عراق-را-بہتر-بشناسید»۔
  65. presstv، «مصاحبہ اختصاصی با فرماندہ سپاہ بدر عراق»،1385ہجری شمسی۔، خبرگزاری مشرق، «فراکسیون بدر عراق: سفیر عربستان اخراج شود»، خرداد 1395ہجری شمسی۔

مآخذ