زکات
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
زکات دین اسلام کے عملی احکام میں سے ایک ہے جسکا تعلق مال سے ہے۔ اس حکم کے مطابق ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے اموال میں سے 9 چیزوں کا ایک معین حصہ غریبوں کی مدد اور دوسرے فلاحی کاموں میں جنہیں شریعت نے مشخص کی ہے، صرف کرے۔ وہ 9 چیزیں جن پر زکات واجب ہے ان میں نقدین (سونا اور چاندی)، انعام ثلاثہ ( گائے، بھیڑ اور اونٹ) اور غلات اربعہ (گیہوں، جو، کشمش اور کھجور) شامل ہیں۔ ان چیزوں میں سے ہر ایک میں زکات کی مقدار اور شرایط متفاوت ہے جسے فقہ میں مشخص کیا گیا ہے۔
زکات کا شمار فروع دین کے اہم ارکان میں سے ہوتا ہے جس پر دین اسلام میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور نماز اور جہاد کے ساتھ اس کا بھی ذکر ملتا ہے یہاں تک کہ اسے دین کے پانچ ستونوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ تقریبا 59 آیات اور 2000 احادیث زکات کے بارے موجود ہیں اور قرآن کریم میں اکثر موقعوں پر لفظ صدقہ کے ذریعے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور فقہ میں بھی زکات کو واجب صدقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
زکات دو طرح کی ہے: بدن کی زکات جسے زکات فطرہ کہا جاتا ہے جسے عید فطر کے موقع پر ادا کرنا واجب ہے۔ مال کی زکات جو درج بالا 9 چیزوں پر اپنے مخصوص شرایط کے ساتھ واجب ہے۔
لغوی اور اصطلاحی معنی
زکات لغوی اعتبار سے "ز ک و" کے مادے سے نشو و نما اور زیادہ ہونے کے معنی میں آتا ہے۔[1] خلیل بن احمد زکات کے لغوی معنی کے بارے میں کہتے ہیں: زکات مال سے مراد اسے پاک کرنا ہے۔ اور "زکا الزرع یزکو زکاء" سے مراد کھیتی باڑی کا نشو و نما ہے۔[2] راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ زکات اصل میں اس نشو و نما کو کہتے ہیں جو خدا کی جانب سے ہو۔[3] اور علامہ طباطبایی زکات کے لغوی معنی کو تطہیر سے تعبیر کرتے ہیں۔[4]
دین اسلام میں بعض مخصوص شرایط کے ساتھ 9چیزوں کے معین اور مشخص حصے کو وجوب کی نیت سے ادا کرنے کو زکات کہتے ہیں۔ اس حکم کو زکات اس وجہ کہا جاتا ہے کہ خداوند عالم اس مال میں برکت عطا کرتا ہے یا یہ کہ زکات دینے کی وجہ سے انسان کا نفس گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ [5]
زکات ایک عمومی مفہوم بھی رکھتی ہے جس سے مراد وہ تمام واجب یا مستحب مالی امداد ہے جو انسان دوسروں کی مدد کیلئے انجام دیتا ہے۔
چوں کہ قرآن میں زکات کو صدقہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اسلئے واجب زکات کو مستحب زکات سے جدا کرنے کیلئے اسےصدقہ واجب کہا جاتا ہے ۔
قرآن اور احادیث کی روشنی میں
زکات اسلام کے اہم ترین اقتصادی احکام میں سے ہے۔ یہ لفظ اپنے مشتقات کے ساتھ تقریبا 59 مرتبہ قرآن کی 56 آیتوں میں ذکر ہوا ہے جن میں سے 27 مرتبہ نماز کے ساتھ ساتھ آیا ہے: وَالَّذِينَ ہمْ لِلزَّكَاة فَاعِلُونَ [6]الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاہمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاة وَآتَوُا الزَّكَاة...[7] ...وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاة ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاة وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّـہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَـٰئِكَ سَنُؤْتِيہمْ أَجْرًا عَظِيمًا [8] رِجَالٌ لَّا تُلْہيہمْ تِجَارَة وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّـہ وَإِقَامِ الصَّلَاة وَإِيتَاءِ الزَّكَاة ۙ...[9]
وسایل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں ۱۹۸۰ احادیث زکات کے بارے میں موجود ہیں جو اس موضوع کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ احادیث میں زکات کے بعض آثار کا تذکرہ آیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
- انسانی روح کی تطہیر اور تزکیہ کا سبب بنتی ہے [10]
- اسلام کے پانج ستون میں سے ایک ہے[11]
- خداوندعالم کے غضب کو ختم کرنے کا سبب بنتی ہے [12]
- نماز قبول ہونے کی شرط ہے [13]
- زکات کی ادائیگی خدا کا انسان کے ساتھ دوستی کی علامت ہے۔ [14]
- خدا کے نزدیک محبوبیت کا سبب ہے [15]
- سختترین واجب ہے [16]
- سماج اور معاشرے کی سعادت کا سبب بنتی ہے[17]
- مال و دولت کی حفاظت کا ضامن ہے[18]
- گناہوں کی بخشش کا سبب بنتی ہے[19]
- رزق و روزی میں اضافہ ہوتا ہے اور مال میں کبھی بھی کمی نہیں ہوتی [20] [21]
- تزکیہ نفس اور مال میں اضافہ کا باعث ہے[22]
- بیماروں کا علاج ہے[23]
- زکات دینے والے اور دوسرں سے بلاء کو دفع کرتی ہے [24]
- مالداروں کیلئے امتحان اور غریبوں کیلئے امداد ہے۔ [25]
- بخل کا علاج ہے[26]
- مردوں کی بخشش کا باعث ہے۔ [27]
- فقر کو ختم کرتی ہے[28]
زکات نہ دینے والے پر اسکے جو برے اثرات مترتب ہوتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
- مال کا تلف ہونا [29]
- دوگنی خسارت [30]
- ظلم اور گناہ کی راہ میں خرج ہونا [31]
- خدا کی رحمت سے محروم ہونا [32]
- چوری کی ایک قسم ہے [33]
- محتاج اور نیاز مند ہونا [34]
- نماز مورد قبول واقع نہ ہونا [35]
- وہ مال جس کا زکات نہ دیا گیا ہو وہ قیامت کے دن آگ میں تبدیل ہوتی ہے [36]
- زکات نہ دینا موت کے وقت بے ایمان ہو کر مرنے کا باعث بنتا ہے [37]
- زکات نہ دینا زمین میں برکت کے خاتمے کا باعث ہے [38]
دوسری نعمتوں کی زکات
زکات کے وسیع معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام میں ہر نعمت کے اوپر مخصوص زکات تعیین کی گئی ہے جس کے ادا کرنے سے اس نعمت میں نشو و نما اور برکت آتی ہے۔ مصباح الشریعہ نامی کتاب میں امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے جس میں بدن کے اعضاء کی زکات کے بارے میں آیا ہے:
- آنکھ کی زکات: عبرت کی نگاہ سے دیکھنا اور شہوتوں سے چشم پوشی کرنا۔
- کان کی زکات: علم، حکمت، قرآن اور ہر اس چیز کا سننا جس میں انسانی روح کو تسکین ملتی ہو اور ان چیزیں کے سننے سے پرہیز کرنا جو روح کی گرفتاری کا سبب بنتی ہے جیسے جھوٹ اور غیبت وغیرہ۔
- زبان کی زکات: مسلمانوں کی خیرخواہی چاہنا، غافلوں کو بیدار کرنا، ہمیشہ تسبیح اور ذکر میں مشغول رہنا۔
- ہاتھوں کی زکات: خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے دوسروں کو عطا کرنا، علم کے لکھنے میں اس سے کام لینا، ہر اس کام کو انجام دینا جس میں مسلمانوں کی بلائی اور خدا کی بندگی ہو اور ہر برے کام سے پرہز کرنا۔
- ٹانگوں کی زکات: حقوق اللہ کی ادائگی، اللہ کے نیک بندوں سے ملاقات، ذکر اور دعا کے محافل میں شرکت، لوگوں کے امور کی اصلاح، صلہ رحم، جہاد اور ہر اس چیز کیلئے قدم اٹھانا جس میں دین اور دنیا کی سعادت اور خوشبختی ہو۔
غرر الحکم میں امیرالمؤمنینؑ سے بعض نعمتوں کی زکات کے بارے میں یوں منقول ہے:
- علم کی زکات: اہل لوگوں میں اس کی نشر و اشاعت اور اپنے نفس کو اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دینا۔
- مقام و منصب کی زکات: کار خیر میں اسے بروئے کار لانا ہے۔
- بردباری کی زکات: تحمل اور صبر ہے۔
- مال کی زکات: بخشش اور جود و سخاوت ہے۔
- قدرت کی زکات: عدل و انصاف ہے۔
- خوبصورتی کی زکات: عفت و پاکدامنی ہے۔
- کامیابی کی زکات: احسان ہے۔
- بدن کی زکات: جہاد اور روزہ ہے۔
- مال و دولت کی زکات: ہمسایوں سے نیکی اور صلہ رحم ہے۔
- تدرستی کی زکات: خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری میں سعی و تلاش کرنا ہے۔
- شجاعت کی زکات: خدا کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔
- حاکم کی زکات: بے یار و مددگاروں کی امداد کرنا ہے۔
- خدا کی نعمتوں کی زکات: نیک کاموں کی انجام دہی ہے۔
وجوب
زکات کا وجوب دین اسلام کی ضروریات میں سے ہے اور اس کا انکار کفر اور ارتداد کا موجب ہے۔ [39] چونکہ زکات ایک عبادت ہے اس بنا پر اس کی ادائیگی میں نیت (قصد قربت) شرط ہے۔[40]
قرآن کی مختلف آیات من جملہ سورہ اعراف کی آیت نمبر 156 ، سورہ نمل کی آیت نمبر3 ، سورہ لقمان کی آیت نمبر4، اور سورہ فصلت کی آیت نمبر4 جو کہ سب کے سب مکّی سورتیں ہیں، سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکات پیغمبر اکرم کی مکی زندگی میں واجب ہوئی تھی۔ لیکن جب پیفمبر اکرمؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اسلامی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہوئی تو خدا کی طرف سے لوگوں سے باقاعدہ طور پر زکات وصول کرنے پر مامور ہوئے۔ نہ یہ کہ خود لوگ اپنی صوابدید پر خرچ کرے۔ آیہ شریفہ "خُذْ مِنْ أَمْوالِہمْ صَدَقَة..." (ترجمہ: اے رسول! ان لوگوں کے مال سے صدقہ (زکوٰۃ) لیں...)[41] اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ مشہور ہے کہ یہ آیت ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئی اس کے بعد سورہ توبہ کی آیت نمبر60 میں زکات کے مصارف کو بیان کیا گیا ہے۔ [42]
سابقہ امتوں میں
دین اسلام کے علاوہ گذشتہ امتوں میں بھی زکات کا حکم تھا، لھذا زکات اور نماز کو تمام آسمانی اور الہی ادیان کے مشترکہ اعمال اور عبادات میں شکار کئے جاتے ہیں جس پر قرآن کی بہت ساری آیات دلالت کرتی ہیں۔[43]
آیات اور احادیث میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں زکات کا حکم دوسری امتوں کی طرح صرف ایک اخلاقی سفارش اور وصیت کے طور پر نہیں بلکہ اسلام میں زکات ایک اہم الہی فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے یہاں تک کہ زکات کو اہمیت نہ دینے والے پر فسق اور اسکے وجوب کے منکر پر کفر کا اطلاق ہوتا ہے۔[44]
جن چیزوں پر زکات واجب ہے
زکات 9چیزوں پر واجب ہے:
۱- گیہوں، ۲- جو، ۳- کھجور، ۴- کشمش، ۵- سونا، ۶- چاندی، ۷- اونٹ، ۸- گائے، ۹- بھیڑ۔
بعض حضرات سرمایہ کو بھی درج بالا موارد کے ساتھ ملحق کرتے ہیں جبکہ شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ سرمایہ پر زکات واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔[45] [46]
جو شخص مذکورہ بالا اشیاء میں سے کسی چیز کا مالک ہو اور بقیہ شرایط بھی پائے جاتے ہوں تو اس شخص پر واجب ہے اس چیز کا ایک معین مقدار جسے شریعت نے معین کی ہے کو بہ عنوان زکات ادا کرے۔
زکات کی ادائیگی میں نیت شرط ہے چونکہ زکات ایک واجب عمل ہے اور ہر واجب عمل کیلئے نیت کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اس عمل کو قصد قربت اور خدا کے حکم کی تعمیل کی نیت سے انجام دینا ضروری ہے۔
زکات کے وجوب اور اس کے نصاب کے حوالے سے مجتہدین نے مختلف احکام بیان فرمائے ہیں جن کی تفصیل کیلئے توضیح المسائل کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ البتہ اس حوالے سے مشہور فقہا کا نظریہ کچھ یوں ہے:
غلات میں زکات کی شرایط
غلات (گیہوں، جو، کھجو اور کشمش) پر زکات واجب ہونے کیلئے دو بنیادی شرایط کا ہونا ضروری ہے:
۱. شخص کھیتی باڑی کا مالک ہو۔
۲. محصول حد نصاب تک پہنچ جائے، جو تقریبا۸۴۷ کیلوگرم ہے۔
غلات میں آبپاشی کے مختلف ہونے سے ان پر زکات کی مقدار بھی مختلف ہوتی ہے یعنی اگر آبپاشی بارش، نہر یا زمین کی تری کے ذریعے ہوتی ہے تو اس صورت میں محصول کا دسواں حصہ زکات کے عنوان سے دینا ضروری ہے لیکن اگر آبپاشی کنویں کے پانی کے ذریعے ہو تو اس صورت میں محصول کا اکیسواں حصہ بہ عنوان زکات ادا کرنا واجب ہے۔ [47]
سونے اور چاندی میں زکات کی شرایط
سونا اور چاندی پر درج ذیل شرایط کے ساتھ زکات واجب ہوتی ہے:
۱. سونے اور چاندی پر اس وقت زکات واجب ہوتی ہے جب انہیں رائج الوقت سکے کی صورت میں ہو اور ان کے ذریعے باقاعدہ لین دین اور خرید و فروخت کی جاتی ہو۔
۲. مکلف کی ملکیت میں پورا سال گذر جائے۔
۳. حد نصاب تک پہنچ جائے۔ سونا اور چاندی میں سے ہر ایک کیلئے شریعت میں دو دو نصاب معین ہے۔
پہلا نصاب: 20 مثقال شرعی جو تقریبا(۶۹ گرام) ہے، سونے کیلئے جبکہ 200درہم جو تقریبا(۶۰۰ گرام) ہے، چاندی کیلئے۔ دوسرا نصاب: 4مثقال شرعی سونے کیلئے جبکہ 21 مثقال چاندی کیلئے۔ [48]
حیوانوں میں زکات کی شرایط
حیوانات(اونٹ، گائے، بھیڑ) پر چار شرایط کے ساتھ زکات واجب ہوتی ہے:
۱. ایک سال گذر جائے۔
۲. بیابان میں چرے۔
۳. پورا سال ان سے کوئی کام جیسے بابرداری وغیرہ نہ لیا جائے۔
۴. حد نصاب تک پہنچے۔ مجموعی طور پر اونٹ کے بارہ گائے کے دو اور بھیڑ کے پانچ نصاب ہیں۔ اونٹ کا پہلا نصاب 5 اونٹ ہے پانج سے کم اونٹ پر زکات واجب نہیں ہے۔ گائے کا پہلا نصاب 30 گائیں اور 30 سے کم پر زکات واجب نہیں نیز بھیڑ کا پہلا نصاب 40 بھیڑیں ہیں اور اس سے کم پر زکات واجب نہیں ہوتی۔ [49]
زکات کا مصرف
مصرف زکات کی تعیین میں مفسرین جس ایت سے استناد کرتے ہیں وہ سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 ہے۔انَّما الصَّدقاتُ للفُقَراء و المَساکین و العاملین عَلَیها وَ المُؤلَّفَة قُلُوبُهم وَ فی الرّقاب و الغارمین و فی سبیل الله و ابن السبیل فریضَة مِنَ الله و الله عَلیمٌ حکیم جس میں آٹھ موارد بیان ہوئے ہیں جن پر زکات صرف کی جاتی ہے:
- فقراء؛
- مساکین؛
- خو شخص امام یا آپ کے نمائندے کی جانب سے زکات جمع آوری، حفاظت، حساب و کتاب یا زکات کو آپ تک پہنچانے یا آپ کی اجازت سے اسے مختلف کاموں میں صرف کرنے کیلئے ؛
- کمزور ایمان افراد جنہیں مالی معاونت کی وجہ سے اسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ (مؤلفة قلوبهم)
- غلاموں اور کنیزوں کی خریداری اور آزادی کیلئے۔
- مقروض افراد جو اپنا قرضہ ادا نہ کر سکتے ہوں۔
- فی سبیل اللہ یعنی ایسے کام جس سے عام طور پر دینی امور میں منفعت ملتی ہو۔
- ابن سبیل، یعنی وہ افراد جو سفر میں تہی دست ہوگئے ہوں چاہے اپنے وطن میں مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔ »[50]
مستحقین زکات کی شرایط
- خدا، رسول اور بارہ اماموں پر ایمان رکھتا ہو۔
- زکات دینے سے گناہ میں معاونت نہ ہوتی ہو۔ البتہ عدالت اور گناہگار نہ ہونا شرط نہیں ہے۔
- زکات لینے والا زکات دینے والے کا واجب النفقہ افراد میں سے نہ ہو۔
- اگر زکات دینے والا غیر سید ہو تو زکات لینے والا سید نہ ہو لیکن اگر زکات دینے والا بھی سید ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
زکات فطرہ
اصلی مضمون: زکات فطرہ
زکات فطره اس مال کو کہا جاتا ہے جسے مخصوص شرایط کے ساتھ رمضان المبارک کی اختتام اور عید فطر کے وقت واجب ہوتا ہے۔ زکات فطرہ کی مقدار اپنے اور اپنے اہل و عیال میں سے ہر فرد جو اس کے گھر سے کھانا کھانے والا شمار ہوتا ہو، کے بدلے میں ایک ایک صاع (تقریبا 3 کیلوگرام) گیہوں یا جو یا کجھور یا کشمش دینا واجب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی بجائے اس کی قیمت بھی دے سکتا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ ابن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج۳، ص۱۶ ـ ۱۷
- ↑ فراہیدی، کتاب العین، ج۵، ص۳۹۴
- ↑ راغب اصفہانی، المفردات، مادہ «زکو».
- ↑ طباطبایی، المیزان، ج ۱۵، ص۹؛ ترجمہ المیزان، ج ۱۵، ص۱۲
- ↑ تبیین اللغات لتبیان الایات، محمد قریب، ج ۱، باب زکوۃ
- ↑ سورہ مؤمنون، آیہ۴
- ↑ سورہ حج،آیہ41
- ↑ سورہ نساء،آیہ۱۶۲
- ↑ سورہ نور، آیہ۳۷
- ↑ قَالَ اَبُوعَبْدِاللّه علیه السلام: لَمَّا نَزَلَتْ آیة الزَّکاة «خُذْ مِنْ اَمْوَالِهمْ صَدَقَة تُطَهرُہمْ وَ تُزَکّیهمْ بِها» حدیث فی شَهرِ رَمِضانِ، فَاَمَرَ رَسُولُ اللّه صلی اللہ علیه و آله مُنادِیه فَنَادی فی النّاسِ: اِنَّ اللّه تَبَارَکَ وَتَعَالی فَرَضَ عَلَیکُمُ الزَّکَاة کَما فَرَضَ عَلَیکُمُ الصَّلاة: امام صادق علیہالسلام نے فرمایا: جب رمضان المبارک میں زکات سے متعلق آیت نازل ہوئی: ان کے مال سے صدقہ لے لیں تاکہ اس کے ذریعے ان کی تزکیہ اور اور انہیں پاک و پاکیزہ کیا جا سکے، تو پیغمیر اکرم نے اعلان کروایا کہ خداوندعالم نے تمہارے اوپر زکات واجب کیا ہے جس طرح تمہارے اوپر نماز واجب کی گئی تھی۔
- ↑ عَنْ اَبی جَعْفَرٍ علیه السلام قالَ: بُنِی الاْءسْلامُ عَلی خَمْسَة: عَلَی الصَّلاة، وَالزَّکَاة، وَالصَّوْمِ، وَالْحَجِ وَالوِلایة: امام باقر علیہالسلام نے فرمایا: اسلام پانج ستونوں پر قائم ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت ( اہل بیت علیہم السلام
- ↑ قَالَ اَمیرُالمُؤمِنِینَ علیه السلام: اُوصیکُمْ بِالزَّکَاۃ فَاِنّی سَمِعْتُ نَبیکُمْ صلی اللہ علیه و آله یقُولُ: اَلزَّکاة قَنْطَرَة الاِءسْلامِ فَمَنْ اَدّاہا جازَ الْقَنْطَرَة، وَمَنْ اِحْتَبَسَ دُونَها وَهی تُطْفی غَضَبَ الرَّبِّ: امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے هیں: تمہیں زکات ادا کرنے کی سفارش کرتا ہوں، کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) سے میں نے سنا ہے آپ فرماتے تھے: زکات اسلام کا پل ہے، پس جس نے بھی زکات ادا کی وہ پل سے گذرے گا اور جس نے بھی زکات دادا نہیں کیا پل سے نیچے گر جائے گا اور زکات کی ادائیگی خداوندعالم کے غم و غصے کو ختم کرنے کا سبب بنتا ہے۔
- ↑ عَنْ اَبِی الحَسَنِ الرِّضا علیه السلام قالَ: اِنَّ اللَّه اَمَرَ بِثَلاثَة مَقْرُونٌ بِها ثَلاثَة اُخْری: أمَرَ بِالصَّلاة وَالزَّکَاة فَمَنْ صَلَّی وَلَمْ یزَکِّ لَمْ تُقْبَلْ مِنْه صَلاتُه، وَاَمَرَ بِالشُّکْرِ لَه وَلِلْوَالِدَینِ فَمَنْ لَمْ یشْکُرْ وَالِدَیه لَمْ یشْکُرِ اللّه، وَأَمَرَ بِاتِّقاءِ اللّه وَصِلَة الرَّحِمِ فَمَنْ لَمْ یصِلْ رَحِمَه لَم یتَّقِ اللّه: امام رضا علیہالسلام فرماتے هیں: خدا نے تین کاموں کو تین کاموں کے ساتھ انجام دینے کا حکم دیا ہے :۱ ـ نماز اور زکات دونوں کا حکم دیا ہے۔ پس جو شخص بھی نماز تو پڑھے لیکن زکات نہ دیا تو اس کی نماز بھی قبول نہیں ہے۲ ـ خدا اور والدین دونوں کا شکریہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے پس اگر کوئی خدا کا شکر تو بجالائے لیکن والدین کا شکریہ ادا نہ کرے تو اس کا شکر خدا بھی قبول نہیں ہے۳ ـ تقوا کے ساتھ صلہ رحم کا بھی حکم دیا ہے پس جس نے بھی صلہ رحم انجام نہ دیا تو گویا اس نے تقوا کی رعایت بھی نہیں کی ہے۔
- ↑ قَالَ رَسُولُ اللّه صلی اللہ علیه و آله: اِذَا اَرَادَ اللّه بِعَبْدٍ خَیرا بَعَثَ اللّه اِلَیه مَلَکا مِنْ خُزّانِ الْجَنَّة فَیمْسَحُ صَدْرَه وَ یسْخی نَفْسَه بِالزَّکَاة: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: اگر خدا کسی بندے کے حق میں نیکی کا ارادہ کرے، تو بہشت کے خزانوں پر مامور ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جو اسکے سینے کو لمس کرتا ہے اور اسے زکات دینے کیلئے سخی بناتا ہے۔
- ↑ قالَ الصَّادِقُ علیه السلام: … وَاَنَّ اَحَبَّ النَّاسِ اِلَی اللَّه تَعَالی اَسْخَاہمْ کَفَّا، وَاَسْخَی النّاسِ مَنْ اَدّی زَکَاة مالِه وَلَمْ یبْخَلْ عَلَی الْمُؤْمِنینَ بِمَا افْتَرَضَ اللّه لَهمْ فی مالِه : امام صادق علیہالسلام فرماتے ہیں: خدا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ شخص، سخاوت مند ترین انسان ہے، اور سخاوت مندترین انسان وہ ہے جس نے اپنے مال کا زکات ادا کیا اور اپنے مالی واجبات میں مومنین کی نسبت بخل سے کام نہ لے۔
- ↑ عَنْ رُفَاعَة بْنِ مُوسی اَنَّه سَمِعَ اَباعَبْدِالله علیه السلام یقُولُ: مَا فَرَضَ اللّه عَلی هذِه الاُمَّة شَیئا اَشَدَّ عَلَیهمْ مِنْ الزَّکاة، وَفیها تُهلَکُ عَامَتُّهمْ: رفاعہ کہتے ہیں کہ امام صادق علیہالسلام سے سنا کہ فرمارہے تھے: خـداونـدعالم نے اس امت پر زکواۃ سے زیادہ کوئی سخت چیز واجب نہیں کیا ہے، زکواۃ کی وجہ سے اس امت کے بہت سارے لوگ ہلاک ہونگے۔
- ↑ قالَ رَسُولُ اللّه صلی اللہ علیه و آله : لاتَزالُ اُمَتّی بِخَیرٍ ما لَمْ یخُونُوا وَاَدُّوا الْأَمانَة، وَآتَوُا الزَّکاة، وَاِذا لَمْ یفْعَلُوا ذلِکَ اُبْتُلُوا بِالْقَحْطِ وَالسِّنِینَ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے هیں: میری امّت جب تک خیانت نہ کرے اور امانتوں کا پاس رکھے اور انہیں اپنے اہل تک پہنچا دے اور زکات ادا کرے سعادتت اور خوشبختی میں ہوگی لیکن جب بھی ایسا انجام نہ دے تو قحط سالی کا شکار ہونگی۔
- ↑ قالَ رَسُولُ اللّه صلی الله علیه و آله : داوُوا مَرْضاکُمْ بِالصَّدَقَة، وَحَصِنُّوا اَمْوَالَکُمْ بِالزَّکاة: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: اپنے بیماروں کا صدقہ دینے کے ذریعے مداوا، اور اپنے اموال کا زکات دینے کے ذریعے حفاظت کریں۔
- ↑ قالَ رَسُولُ اللّه صلی الله علیه و آله : اَلزَّکاة تُذْہبُ الذُّنُوبَ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: زکات، گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔
- ↑ عَنْ اَبی عَبْدِاللّه علیه السلام اَنَّه قَالَ: ما اَدّی اَحَدٌ الزَّکاة فَنَقَصَتْ مِن مالِه، وَلامَنَعَها اَحَدٌ فَزادَتْ فی مالِه: امام صادق علیہالسلام فرماتے ہیں: زکات دینے سے کسی کا مال کم نہیں ہوتا، جس طرح زکات ادا نہ کرنے سے مال میں اضافہ نہیں ہوتا۔
- ↑ قَالَ اَبُوجَعْفَرٍ مُحَمَدُ بْنُ عَلی علیهماالسلام: یا جابِرُ …وَالزَّکاة تَزیدُ فِی الرِّزْقِ: امام باقر علیہالسلام فرماتے ہیں:اے جابر … زکات انسان کی روزی میں اضافہ کرتا ہے۔
- ↑ قَالَتْ فَاطِمَة علیهاالسلام فی خُطْبَتِه: فَجَعَل الاْءیمَانَ تَطْهیرا لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ وَالصَّلاة تَنْزیها عَنِ الْکِبْرِ، وَالزَّکَاة تَزْکِیة لِلنَّفْسِ، وَنِماءً فِی الرِّزْقِ: حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام فرماتے ہیں: خـداوندعالم نے ایمان کو شرک سے تمہاری پاکیزگی اور نماز کو تکبر سے دوری اختیار کرنے اور زکات کو تمہارے نفس کی پاکیزگی اور مال و دولت میں اضافہ کا باعث قرار دیا ہے۔
- ↑ امام جعفر صادق(ع): "زکات دینے کے ذریعے اپنے اموال کی حفاظت اور صدقہ دینے کے ذریعے اپنے بیماروں کی مداوا کریں۔ کوئی مال بھی صحرا اور بیابان میں غارت نہیں ہوا مگر یہ کہ اسکا زکات نہیں دیا گیا تھا۔ محاسن برقی ج۱ ص۲۹۴
- ↑ عَنْ اَبی عَبْدِاللّه علیه السلام قالَ: إنَّ اللّه لَـیدْفَعُ بِمَنْ یصَـلّی مِنْ شیعَتِـنا عَـمَّنْ لایصَـلّی مِـنْ شیعَتِنا وَلَوْ اَجْمَعُوا عَلی تَرْکِ الصَّلاة لَهلَکُوا، وَإنَّ الله لَیدْفَعُ بِمَنْ یزَکّی مِنْ شیعَتِنا عَمَّنْ لایزَکّی وَلَوْ أَجْمَعُوا عَلی تَـرْکِ الـزَّکاة لَهلَکُوا: امام صادق علیہالسلام فرماتے ہیں: خداوندعالم ہمارے شیعہ نمازگزاروں کی وجہ سے نماز نہ پڑھنے والے شیعوں سے بلا کو دور کرتا ہے، اور اگر سب نماز ترک کریں تو سارے ہلاک ہوجائیں گے۔ اسی طرح خداوندعالم زکات ادا کرنے کی وجہ سے زکات نہ دینے والے شیعوں سے بلا کو دور کرتا ہے اگر سب زکات ادا نہ کریں تو سارے ہلاک ہو جائیں گے۔
- ↑ قالَ الصّادِقُ علیه السلام: اِنَّما وُضِعَتِ الزَّکاة اِخْتِبارا لِلاَغْنیاءِ وَمَعُونَة لِلْفُقَراءِ، وَلَوْ اَنَّ النّاسَ أدُّوا زَکاة اَمْوالِهمْ ما بَقِی مُسلِمٌ فَقیرا مُحْتاجا وَلاَسْتَغْنی بِما فَرَضَ اللّه لَه، وَاِنَّ النّاسَ ما افْتَقَرُوا وَلا احْتاجُوا وَلا جاعُوا وَلاعَرَوْا اِلاّ بِذُنُوبِ الأَغْنِیاءِ وَحَقیقٌ عَلَی اللّه تَبارَکَ وَتَعالی اَنْ یمْنَعَ رَحْمَتَه مِمَّنْ مَنَعَ حَقَ اللّه فی مالِه: امام صادق علیہالسلام فرماتے ہیں: زکات کو دولتمندوں کیلئے امتحان اور غریبوں کیلئے امداد کے طور پر واجب کیا گیا ہے، اگر لوگ اپنے اموال کا زکات ادا کریں تو کوئی مسلمان غریب باقی نہ رہے گا اور جو چیز خدا نے واجب کیا اسی کے ذریعے ہر ایک غنی اور بے نیاز ہو جائے گا۔ لوگ غریب، محتاج اور نیازمند نہیں ہوتے مگر دولتمندوں کے گناہوں کی وجہ سے پس سزاوار ہے کہ خداوندعالم اپنی رحمت کو ان لوگوں سے باز رکھے جو لوگ اپنے اموال میں خدا کا حصہ ادا نہیں کرتے ہیں۔
- ↑ "جو شخص بھی اپنے مال کا زکات ادا کرے تو یقینا بخل سے محفوظ رہے گا۔ جامع الاحادیث، ج ۹، ص۴۸.
- ↑ کسی نے امام صادق علیہالسلام سے کہا: میرا بھائی دنیا سے چلا گیا ہے درحالیکہ اس کے گردن پر بہت زیادہ زکات واجب تھا لیکن میں نے ان سب کو ادا کردیا، امام نے فرمایا: تمہارے اس عمل سے اس کی مشکل آسان اور حل ہوگی۔ جامع الاحادیث، ج ۹، ص۲۲۳.
- ↑ امیرالمؤمنین علی علیہالسلام فرماتے ہیں: "کوئی غریب بھوکہ نہیں رہتا مگر یہ کہ کسی دولت مند نے خدا کا حق ادا نہیں کیا ہے اور قیامت کے دن دولتمند کو اسی کی وجہ سے پوچھ گچھ ہوگی۔ سفینۃ البحار، ج ۳، ص۴۷۴.
- ↑ امام صادق علیہالسلام فرماتے ہیں: "ما ضاع مال فی البرّ و لا فی البحر الا بتضییع الزّکاة" جامع الاحادیث، ج ۹، ص۵۰. "بحر و بر میں کسی جگہ پر کوئی مال ضایع نہیں ہوگا مگر اینکہ زکات نہ دے کر اسے ضایع کردے۔
- ↑ مَن مَنعَ حقّا للّه أنفق فی باطل مثلیه "جو شخص خدا کا حق ادا نہ کرے (یعنی حق کی راہ میں مال خرچ نہ کرے) تو اسکے دو برابر باطل کی رہ میں خرچ ہوگا۔ وافی، ج ۱۰، ص۴۲.
- ↑ امام صادق علیہالسلام فرماتے ہیں: وَ اعلَم أنّه من لم ینفق فی طاعة الله ابتلی بأن ینفق فی معصیۃ اللہ و مَن لم یمش فی حاجة ولی الله ابتلی بأن یمشی فی حاجة عدوّ الله "جان لو جو شخص اپنا مال خدا کی بندگی میں خرچ نہیں کرتا وہ خدا کی معصیت میں خرچ کرنے میں گرفتار ہوگا۔ اور جو بھی خدا اولیاء کی مشکلات کو حل کرنے کا اقدام نہ کرے خدا اسے خدا کے دشمنوں کی مشکلات کے حل میں قدم اٹھانے میں گرفتار کرے گا۔ (حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج ۶، ص۲۵).
- ↑ امام صادق علیہالسلام فرماتے ہیں: "جو شخص اپنے مال سے خدا کا حق ادا نہ کرے سزاوار ہے کہ خدا اپنی رحمت سے اسے محروم کرے۔ حَقِیقٌ عَلَی اللَّه تَبَارَک وَ تَعَالَی أَنْ یمْنَعَ رَحْمَتَه مَنْ مَنَعَ حَقَ اللَّه فِی مَالِه (حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج۹، ص۱۲).
- ↑ قالَ الصّادِقُ علیه السلام: اَلسُّراقُ ثَلاثَة: مانِعُ الزَّکاة، وَمُسْتَحِلُّ مُهورِ النِّساءِ، وَ کَذلِکَ مَنْ اِسْتَدانَ وَ لَمْ ینْوِقَضائَه: امام صادق علیہالسلام فرماتے ہیں: چور تین قسم کے ہیں: زکات نہ دینے والے، وہ لوگ جو عورتوں کے مہریہ کو حلال سمجھتے ہیں اور انہیں نہیں دیتے اور وہ شخص جو قرض لیتا ہے لیکن ادا واپس کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
- ↑ قالَ اَبُوعَبْدِاللّه علیه السلام : … وَاِذا مُنِعَتِ الزَّکاة ظَهرَتِ الْحاجَة: امام صادق علیہالسلام فرماتے ہیں: … جب زکات نہیں دی جاتی تو غربت اور نیازمندی نمودار ہوتی ہے۔
- ↑ قالَ رَسُولُ اللّه صلی الله علیه و آله: ثَمانیة لاتُقْبَلُ مِنْهمْ صَلاة، مِنْهمْ مانِعُ الزَّکاة: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: آٹھ گروہ کے نماز قبول نہیں ہوتی، ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جو زکات دینے سے انکار کرتے ہیں۔
- ↑ عَنْ اَبی جَعْفَرٍ علیه السلام اَنَّه قالَ: ما مِنْ عَبْدٍ مَنَعَ مِنْ زَکاة مالِه شَیئا اِلاّ جَعَلَ اللّه ذلِکَ یوْمَ الْقیامَة ثُعْبانا مِنْ نارٍ مُطَوَّقا فی عُنُقِه ینْهشُ مِنْ لَحْمِه حَتّی یفْرَغَ مِنَ الْحِسابِ وَهوَ قَوْلُ اللّه عَزَّوَجَلَّ "سَیطَوَّقُونَ ما بَخِلُوا بِه یوْمَ الْقِیامَة" یعْنی ما بَخِلُوا بِه مِنَ الزَّکاة: امام باقر علیہالسلام فرماتے ہیں: جو شخص واجب زکات دینے سے انکار کرتا ہے خداوندعالم قیامت کے دن اس مال کو آگ کے اژدہے کی صورت میں تبدیل کرتا ہے جو اس شخص کی گردن میں لٹکایا جائے گا جو اس کے گوشت کو کو کھا لے گا، یہاں تک کہ حساب و کتاب سے فارغ ہوگا، اور یہ خداوندعالم کا یہ قول ہے جو قرآن میں ارشاد فرمایا: جس چیز میں یہ لوگ بخل کرتے ہیں اسے قیامت کے دن ان کی گردن میں لٹکایا جائے گا یعنی زکات میں سے جس چیز میں بخل کرتے ہیں۔
- ↑ عَنْ اَبی عَبْدِاللّه علیه السلام: مَنَ مَنَعَ قیراطا مِنَ الزَّکاة فَلْیمُتْ اِنْ شاءَ یهودیا اَوْ نَصْرانّیاً : امام صادق علیہالسلام فرماتے ہیں: جو شخص واحب زکات میں سے ایک قیراط کے برابر بھی ادا نہ کیا ہو، وہ یا یہودی یا نصرانی کی موت مرتا ہے۔قالَ اَبُوعَبْدِاللّه علیه السلام: مَـنْ مَنَعَ قیـراطا مِـنَ الزَّکـاۃ فَلَیسَ بِمُـؤمِنٍ وَلا مُسْـلِمٍ وَہـوَ قَـوْلُ اللّه عَزَّوَجَلَّ: رَبِّ ارْجِعُـونِ لَعَـلِّی اَعْمَلُ صالِحا فِیما تَرْکْـتُ: امام صادق علیہالسلام فراتے ہیں: جو شخص واجب زکات میں سے ایک قیراط کے برابر بھی ادا نہ کیا ہو وہ مومن اور مسلمان نہیں ہے اور اس آیت کا مصداق ہے جس کے بارے میں خدا یوں ارشاد فرماتا ہے: (یہ لوگ) موت کے بعد کہے گا خدایا مجھے دوبارہ دنیا میں لوٹا دے تاکہ ان نیک کاموں کو جسے میں نے انجام نہیں دیا تھا انجام دے سکوں۔
- ↑ قَالَ رَسُولُ اللّه صلی الله علیه و آله: اِذا مُنِعَتِ الزَّکاة مَنَعَتِ الْاَرْضُ بَرَکاتِها: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: جب زکات سے انکار کیا جاتا ہے تو زمین اپنی برکتوں کو روکت دیتی ہے۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام ج۱۵، ص۱۵
- ↑ نجفی، جواہر الکلام ج۱۵، ص۴۷۱
- ↑ سورہ توبہ، آیت نمبر 103
- ↑ تفسیر نمونہ، ج۸ ص۱۹
- ↑ سورہ مریم (۱۹) آیہ ۳۱ ؛ سورہ بقرہ (۲) آیہ ۴۳ ؛ سورہ بینہ (۹۸) آیہ ۵
- ↑ قرائتی، زکات، ص۱۹ ـ ۲۲
- ↑ نجفی، جواہر الکلام ج۱۵، ص۷۲-۷۳
- ↑ سایت آیت اللہ سیستانی
- ↑ سایت آوینی
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج۱۵، ص۱۶۸-۱۷۲.
- ↑ سایت تبیان
- ↑ تفسیر المیزان، ج ۹، ص۳۱۳
مآخذ
- قرآن کریم.
- آمدی عبدالواحد محمد، غرر الحکم، چاپ دانشگاہ تہران.
- ابن فارس، معجم مقاییس اللغہ، دفتر انتشارات اسلامی، قم.
- پایندہ ابوالقاسم، نہج الفصاحہ، دارالعلم، ۱۳۸۷ ش.
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۹ق.
- راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن.
- صدوق، محمد بن علی، امالی، نشر صدوق، ۱۳۶۷ش.
- صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، نشر صدوق، ۱۳۶۷ش.
- طباطبایی، سید محمد حسین؛ المیزان فی تفسیر القرآن، موسسہ النشر الاسلامی.
- طبرسی، جوامع الجامع، تحقیق موسسہ نشر اسلامی، جامعہ مدرسین، قم.
- علی المتقی ابن حسام الدین ہندی، کنزالعمال، دائرۃ المعارف العثمانیۃ، بعاصمۃ حیدر آباد، ۱۳۶۴ ق.
- فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، انتشارات اسوہ.
- قرائتی، محسن، زکات، انتشارات ستاد اقامہ نماز و احیای زکات.
- کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ق.
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، دار الکتاب، قم، ۱۳۶۷ش.
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، دارالکتب اسلامیۃ، تہران، ۱۳۶۲ ش.
- نجفی، شیخ محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، دارالکتب الإسلامیۃ و المکتبۃ الإسلامیۃ، تہران، ۱۳۶۲-۱۳۶۹ش.
- نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، انتشارات دایرۃ المعارف فقہ اسلامی.
- نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، مؤسسہ آل البیت: لاحیاء التراث، طبعۃ الاولی، قم، ۱۴۰۷ ق.