توقیع

ویکی شیعہ سے
(توقیعات امام زمانہؑ سے رجوع مکرر)
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


توقیع، عربی میں ائمہ اور خاص طور پر امام مہدی علیہ السلام کے خطوط اور مراسلات کو کہا جاتا ہے۔ بہت سی روایات میں تصریح ہوئی ہے کہ یہ خطوط امام زمانہ(عج) کے اپنے قلم سے مرقوم ہوتے تھے۔ اس انتساب کا ایک ثبوت یہ بھی تھا کہ ان خطوط کے ذیل میں امام(عج) کی مہر ثبت ہوتی تھی اور اس طرح آپ(عج) مکتوب کے آخر میں واضح کردیتے تھے کہ یہ خط آپ(عج) نے اپنے دست مبارک سے مرقوم کیا ہے۔ امام(عج) کی جانب سے ان کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر تصریح ہے اوراس شبہے کا ازالہ کرتی ہے کہ یہ خطوط نواب اربعہ یا ان کے وکلاء کی طرف سے جاری ہوئے ہیں۔

جو توقیعات غیبت صغری میں صادر ہوئی ہیں ان میں اعجاز اور خرق عادت کا عنصر نمایاں تھا؛ چنانچہ توقیعات بجائے خود امام زمانہ(عج) کی امامت کے دلائل کے زمرے میں آتی ہیں۔

لغوی معنی

  • توقیع کی جڑ "وقع" ہے اور لغت میں اس کے معنی قریبی نشانے کی طرف تیر پھینکنے کے ہیں، اس طرح کہ گویا اس کو نشانے کے اوپر رکھا جاتا ہے (تُوَقِّعُہ)، نیز اس کے معنی اونٹ کی پشت پر کاٹھی کے نشان کے ہیں۔[1]۔[2]
  • مجموعی طور پر لغویوں کی اس لفظ کے ذیل میں دی جانے والی توضیحات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے: اس لفط میں دو چیزوں : نزول اور تثبت کا ملاحظہ کرنا ضروری ہے۔ اگر ان شرائط سے خالی استعمال ہو تو اسے مجاز میں سے شمار کیا جائے گا ۔ [3]

اصطلاحی معنی

توقیع بھی اسی مذکورہ معنی سے لیا گیا ہے کیونکہ خلیفہ ،سلطان یا فرمانروا کو شکایات کے سلسلے میں لکھے جانے والے خط کی پشت یا حاشیے پر لکھ جانے والی اس تحریر کو"توقیع"کہا جاتا ہے جسے وہ شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے لکھتے تھے[4]۔[5]

لفظ توقیع کا تاریخی سفر

توقیعسےمشتق لفظ "وقع" پہلی بار امام کاظم(ع) سے منقولہ ایک حدیث میں "فوقع فی الکتاب " کی صورت میں امام کے لکھے ہوئے جواب کیلئے استعمال ہوا ہے ۔[6] یہ لفظ اسی سانچے اور اسی معنی میں امام رضا(ع) سے منقولہ چند روایات میں استعمال ہوا ہے ۔[7]۔[8] اس کا اطلاق لوگوں کے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں امام(ع) کے جوابی مکاتیب پر ہوتا تھا۔

تاہم لفظ توقیع کا اصطلاحی استعمال امام رضا(ع) کے بعد عام ہوگیا اور اس کا اطلاق امام زمانہ(عج) کی ان مستقل یادداشتوں پر کیا جانے لگا جو کسی کے سوال کے بغیر مرقوم ہوتے تھے اور ان یادداشتوں کو توقیع کے عنوان سے پہچانا جاتا تھا۔ امام زمانہ (عج) کی غیر مکتوبہ احادیث کو بھی توقیع کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔[9]۔[10]

علاوہ ازیں، [بعض مواقع پر] امام مہدی(عج) کے نائبین خاص ـ جیسے غیب کی خبروں یا دینی مسائل کے بارے میں اظہار رائے ـ کو توقیع کے دائرے میں شمار کیا جاتا تھا۔[11]۔[12] مؤخر الذکر حوالے کی بنیاد شاید حسین بن روح نوبختی کا یہ کلام ہے کہ "وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا کرتے بلکہ جو بھی کہتے ہیں وہ انھوں نے "اصل" (= امام زمانہ(عج) سے سنا ہوتا ہے۔[13]۔[14]

امام زمان(عج) کی توقیعات

خصیبی نے ان توقیعات کو نقل کیا ہے جو سنہ 260، 263، 268، 271 اور 273 میں صادر ہوئی ہیں۔[15] محمد بن عثمان عمری سنہ 281ہجری قمری میں ایک توقیع رسول اللہ اور آل رسول(ص) پر صلوات[16]، اور سنہ 290ہجری قمری میں صالح بن ابی صالح کے نام اپنے وکیل محمد بن جعفر اسدی کی توثیق میں صادر ہوئی ہے۔[17] سنہ 298ہجری قمری میں حسین بن روح نوبختی کے توسط سے ایک توقیع علی بن احمد عقیقی کے نام ـ ان کی حاجت برآری کے حوالے سے ـ صادر ہوئی،[18] اس زمانے میں حسین بن روح محمد بن عثمان عمری کے کارگزاروں میں سے تھے۔[19]

غیبت صغری کا زمانہ علی بن محمد سمری کے نام امام عصر(عج) کی ایک توقیع جاری ہوکر سنہ 328 یا 329 ہجری قمری میں اختتام پذیر ہوا۔[20]

غیبت کبری کے دوران دو توقیعات شیخ مفید کے نام سنہ 410 اور سنہ 412 میں صادر ہوئی ہیں۔[21] بہت سی ایسی توقیعات بھی ہیں جن کی تاریخ واضح نہیں ہے لیکن بعض قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض عثمان بن سعید عَمْری کی وکالت کے آغاز میں صادر ہوئی ہیں۔[22]۔[23]۔[24]

توقیعات کی تحریر

بہت سی روایات میں تصریح ہوئی ہے کہ ائمہ(ع ) کے مکاتبات ان کے اپنے قلم سے مکتوب ہوا کرتے تھے،[25]۔[26] بعض روایات میں واضح کیا گیا ہے کہ توقیع پر امام(ع) کی مہر بھی تھی[27]۔[28] اور کبھی امام(ع) نے خود مکتوب کے ذیل میں تصریح کی ہوئی ہوتی تھی کہ یہ مکتوب آپ(ع) نے اپنے ہاتھ کی تحریر ہے۔[29]

شیخ طوسی ابو نصر ہبۃ اللہ بن احمد بن محمد کاتب (جو سنہ 400ہجری میں بقید حیات تھے) کے حوالے سے توقیعات کے قلم اور تحریر کے بارے میں ایک عبارت نقل کرتے ہیں جس کی بنیاد پر عثمان بن سعید عمری اور ان کے فرزند محمد بن عثمان کے واسطے سے موصولہ توقیعات کی تحریر ان ہی توقیعات والی تحریر تھی جو امام حسن عسکری علیہ السلام کے ایام حیات میں صادر ہوئی تھیں۔

وہ مذکور بالا ابو نصر سے نقل کرتے ہیں کہ دوسرے نائب محمد بن عثمان عمری کے زمانے میں شیعیان اہل بیت کو موصول ہونے والی امام عصر(عج) کی توقیعات کی تحریر ان کے والد عثمان بن سعید کے توسط سے موصول ہونے والی توقیعات ہی کی تحریر تھی۔[30]

اس روایت سے یہ تصور سامنے آیا ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی توقیعات کو محمد بن عثمان کی وکالت کے زمانے تک، محمد بن عثمان ہی امام(ع) کے حکم پر تحریر کرتے تھے اور ان کی کتابت کا کام انہیں سپرد کیا جاتا تھا[31] جبکہ مذکورہ عبارات کے معنی اس کے بالکل برعکس ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان محض توقیعات پہنچانے کا واسطہ تھے اور توقیع ان کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی تھی۔

بہت سی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام عسکری(ع) کی توقیعات آپ(ع) کی اپنی تحریر سے جاری ہوتی تھیں[32]، یا پھر امام زمانہ(عج) کی تحریر تھی[33]۔[34] جو نواب اربعہ اور وکلاء کے توسط سے ائمہ(ع) کی توقیعات کی کتابت و تحریر کے دعوے کو عدم صحت کی دلیل ہے۔[35]۔[36]۔[37]۔[38]

روایات میں واضح کیا گیا ہے کہ امام عصر(عج) اپنی توقیعات خود تحریر فرمایا کرتے تھے اور ان روایات میں اس بات پر تاکید کا مقصد ان جھوٹی توقیعات کی شناخت کرنا تھا جن کی نسبت امام(عج) کو دی جاتی تھی یا توقیعات کے بارے میں بعض منحرفین کے دعؤوں کی حقیقت عیان کرنا۔ مثال کے طور پر فارس القزوینی نے منحرف ہونے کے بعد، شرعی وجوہات کو لوگوں سے اکٹھا کیا اور جھوٹا خط لکھ کر وصولی کی تصدیق کی تھی۔[39] شلمغانی نے بھی دعوی کیا تھا کہ بعض توقیعات کا جواب اس نے دیا ہے تاہم امام عصر(عج) نے توقیع بھجوا کر اس کے دعوے کی تردید کردی۔[40]

احمد بن اسحق قمی نے امام حسن عسکری علیہ السلام کا دیدار کیا اور آپ(ع) سے ایک تحریر لکھنے کی درخواست کی تاکہ آپ(عج) کے مکاتیب کو پہچان سکیں۔ امام(ع) نے ان کی درخواست کی اجابت فرمائی اور ان کے سامنے ایک تحریر لکھی اور فرمایا: ممکن ہے کہ موٹے قلم اور باریک قلم کی تحریر تمہیں مختلف نظر آئے پس ہرگز شک نہ کرو۔[41]۔[42] شاید اسی بنا پر بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ امام(عج) کی تحریر کو پہچانتے ہیں۔[43]۔[44]

بہرحال امام(عج) اپنے مکاتب اور توقیعات اپنے دست مبارک سے لکھتے تھے اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ان توقیعات کی کتابت دوسروں کے توسط سے ہوئی ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ غیبت صغری کے زمانے میں قم کے باشندوں کے سوالات کا جواب حسین بن روح املاء کرکے احمد بن ابراہیم نوبختی سے لکھوایا۔[45] شیخ مفید کے لئے صادر ہونے والی توقیع میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ امام زمانہ(عج) نے ایک قابل اعتماد شخص کو املاء کرکے لکھوائی ہے۔[46]

غیبت صغری کے زمانے میں مکاتبات نواب اربعہ کے ذریعے انجام پاتے تھے کبھی بعض توقیعات نواب اربعہ کی وساطت کے بغیر بعض شیعیان اہل بیت کے لئے صادر ہوتی تھیں۔[47]۔[48]

خرق عادت (اور اعجاز) کی حامل توقیعات، دوسرے پہلؤوں سے بھی نمایاں ہوئی ہیں؛ کبھی امام(عج) نے لوگوں کے غیر مکتوب سوالات کا جواب دیا ہے جو صرف ان کے ذہن میں ابھر تھے۔[49]۔[50] یا ان کا سوالات کا جواب، جو بغیر سیاہی کے قلم سے لکھے جاتے تھے اور غالبا ان کا مقصد نائبین خاص کا آزمانا ہوتا تھا۔[51]

کبھی کسی سائل کے سوال کا جواب ـ کوئی وجہ بتائے بغیر ـ نہیں دیا جاتا تھا اور جب وہ شخص مذہبی انحراف کا شکار ہوتا تھا تو جواب نہ دینے کا فلسفہ ابھر کر سامنے آتا تھا۔[52]۔[53]

جو توقیعات عصر غیبت صغری کے زمانے میں صادر ہوئی ہیں ان میں معجزے اور خرق عادت کے عنصر پر مشتمل ہیں؛ لہذا توقیعات بذات خود امام زمانہ(عج) کی امامت کی دلیلیں قرار دی گئی ہیں۔[54]

توقیعات کا اعتبار

توقیعات عام طور پر مکاتبات کی صورت میں ہوتی تھیں۔ علمائے حدیث اور فقہاء کے درمیان مکاتبات کے اعتبار کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض فقہاء نے مکاتبات کے اعتبار کے سلسلے میں مناقشہ اور اختلاف کیا ہے۔[55]۔[56]۔[57]۔[58]۔[59]۔[60]۔[61]۔[62]۔[63]۔[64] اور بعض دوسروں کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ مکاتبات کو بالمشافہ احادیث کے مترادف نہیں سمجھتے۔[65]۔[66] اس کے باوجود فقہی کتب میں مکاتبات کے عدم اعتبار یا شفاہی احادیث کے ساتھ ان کی عدم برابری و ترادف کے بارے میں کوئی روشن دلیل ذکر نہیں ہوئی ہے۔[67]۔[68]

ابن راہویہ[69] کے ساتھ محمد بن ادریس شافعی [70] کے مناظرے میں بھی اس بحث کی طرف اشارہ ہوا ہے؛ ایک بار شافعی نے ایک حدیث کو سماعی ہونے کے باعث مکتوب حدیث پر ترجیح دی لیکن ابن راہویہ نے کہا کہ مکتوبہ حدیث قیصر و کسرٰی کے ساتھ رسول اللہ(ص) کے مکاتبے کے پیش نظر معتبر ہے اور یہ آپ(ص) کے مکاتیب، مکاتبے کے معتبر ہونے کی دلیل ہے۔[71]۔[72] شیعہ "کتب درایہ" میں بھی ایسا ہی استدلال دیکھنے کو ملتا ہے۔[73] شیعہ مآخذ حدیث میں مکاتبے کے اعتبار پر ہونے والے قدیم ترین اعتراض کا تعلق شیخ طوسی[74] سے ہے۔

شیخ طوسی ایک مکاتبے کو نقل کرتے ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کتب (یعنی مکاتیب) میں منقولہ تمام چیزیں صحیح نہیں ہیں اور وہ یوں اس مکاتبے کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔[75]۔[76] اس اعتراض کے جواب میں کہا گیا ہے کہ ائمہ(ع) کے اصحاب ان کی تحریر کو پہچانتے تھے اور ان کی تشخیص اور شناخت ان کے لئے مشکل نہ تھی۔[77] چنانچہ شاید اسی بنا پر بعض فقہاء نے مذکورہ مکاتبے کی سند کو صحیح اور اس کے مضمون پر عمل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔[78]۔[79]

توقیعات کے مآخذ

بعض محدثین نے توقیعات کے بارے میں کتاب یا کتابیں تالیف کی ہیں؛ جن میں سے ایک عبداللہ بن جعفر حِمْیَری ہیں جنہوں نے اس موضوع پر چار کتابیں لکھی ہیں:

  1. مسائلُ لِاَبی محمدالحسن علیہ السلام علی ید محمد بن عثمان العَمری،
  2. کتاب قرب الاسناد الی صاحب الامر علیہ السلام،
  3. مسائل أبی محمد و توقیعات، و
  4. مسائل الرجال و مکاتباتہم اباالحسن الثالث علیہ السلام[80]

محمد بن عیسی بن عُبَید نے بھی ایک کتاب "التوقیعات" کے عنوان سے لکھی تھی[81] جو دستیاب نہیں ہے۔

مختلف پہلؤوں سے مہدویت کا جائزہ لینے والی کتابوں نے بھی عام طور پر اپنا ایک حصہ توقیعات کے لئے مختص کی ہوئی ہیں۔ توقیعات اکٹھی کرنے یا ان کا تجزیہ کرنے کی غرض سے مستقل کتابیں بھی تالیف ہوئی ہیں۔[82]۔[83]۔[84]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. فراہیدی، العین، ج2، ص 177۔
  2. ابن درید، جمہرہاللغہ، ج2، ص 945۔
  3. التحقيق في كلمات القرآن الكريم، مصطفوی ،ج‏13، ص: 178
  4. قلقشندی، صبح الأعشى فی کتابہالإنشاء، ج1، ص52۔
  5. بغدادی، قدامہ، الخراج وصناعہالکتابہ، ذیل لفظ "وقع"، ص53۔
  6. حِمیری، قرب الاسناد، ص 332۔
  7. کلینی، الکافی، ج3، ص 5۔
  8. ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا(ع)، ج2، ص 93، 236۔
  9. ابن بابویہ، ج2، کمال الدین وتمام النعمہ، ص 502، 505۔
  10. طوسی، الغیبہ، ص 309۔
  11. ابن بابویہ، کمال الدین وتمام التعمہ، ج2، ص 502ـ504۔
  12. طوسی، الغیبہ، ص 294، 298، 307ـ 308، 321۔
  13. ابن بابویہ، کمال الدین وتمام التعمہ، ج2، ص 508 ـ509۔
  14. کلینی، الکافی، ج1، ص 330۔
  15. خصیبی، الہدایہالکبری، ص 369، 371، 373۔
  16. طوسی، الغیبہ، ص 273ـ280 ۔
  17. طوسی، الغیبہ، ص 415۔
  18. ابن بابویہ، کمال الدین وتمام التعمہ، ج2، ص 505 ـ506 ۔
  19. طوسی، الغیبہ، ص367۔
  20. ابن بابویہ، کمال الدین وتمام التعمہ، ج2، ص 516۔
  21. الطبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج2، ص318 اور بعد کے صفحات۔
  22. ابن بابویہ، کمال الدین وتمام التعمہ، ج2، ص 478۔
  23. طوسی، الغیبہ، ص 355۔
  24. قطب راوندی، الخرائج والحرائح، ج3، ص 1108۔
  25. کلینی، الکافی، ج1، ص 96، 102ـ103، 107، 510۔
  26. ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج2، ص 38 (ح: 1640) و 44 (ح: 1660)۔
  27. کلینی، الکافی، ج7، ص 163۔
  28. طوسی، تہذيب الاحكام ...، ج9، ص31۔
  29. طوسی، رجال کشی، ص 513، 551۔
  30. طوسی، الغیبہ، ص362ـ363۔
  31. مدرسی طباطبائی، مکتب در فرایند تکامل، ص131ـ132۔
  32. نمونے کے طور پر رجوع کریں: کلینی، الکافی، ج1، ص103، 510۔
  33. ابن بابویہ، کمال الدین وتمام التعمہ، ج2، ص483۔
  34. طوسی، الغیبہ، ص285، 290۔
  35. ابن بابویہ،من لا يحضرہ الفقيہ، ج1، ص142۔
  36. ابن بابویہ وہی ماخذ، ج2، 154۔
  37. ابن بابویہ، وہی ماخذ، ج3، ص68۔
  38. ابن بابویہ، وہی ماخذ، ج4، ص203۔
  39. طوسی، کشی، ج2 ص806۔
  40. طوسی، الغیبہ، ص 373۔
  41. کلینی، الکافی، ج1، ص 513۔
  42. امام(عج) کی جانب سے توقیعات کے اجراء کے حوالے سے شکوک و شبہات کے لئے رجوع کریں: طوسی، کشی، ص542۔
  43. الحِمیری، قرب الاسناد، ص340۔
  44. ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج2، ص169۔
  45. طوسی، الغیبہ، ص 373۔
  46. احمدبن علی طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص 325۔
  47. الطبری، دلائل الامامہ، ص 545 ـ551۔
  48. طوسی، الغیبہ، ص 273ـ280۔
  49. کلینی، الکافی، ج1، ص 508 ـ509، 524۔
  50. طوسی، کشی، ص 533 ـ534۔
  51. ابن بابویہ، کمال الدین وتمام التعمہ، ج2، ص488، 494۔
  52. کلینی، الکافی، ج1، ص 520۔
  53. توقیعات میں کرامات اور خوارق عادات کے بعض نمونے دیکھنے کے لئے رجوع کریں:کلینی، الکافی، ج1، ص495، 500 ـ 518، 524۔
  54. ابن بابویہ، کمال الدین وتمام التعمہ، ج1، ص 126۔
  55. آبی، کشف الرموز، ج2، ص180۔
  56. محقق حلّی، الرسائل التسع، ص 324۔
  57. علامہ حلّی، مختلف الشیعہ، ج7، ص248۔
  58. شہید اول، غایہالمراد، ج3، ص577۔
  59. محقق کرکی، جامع المقاصد، ج1، ص457۔
  60. محقق کرکی، وہی ماخذ، ج2، ص84۔
  61. محقق کرکی، وہی ماخذ، ج12، ص85۔
  62. شہید ثانی، روض الجنان، ج1، ص 388۔
  63. شہید ثانی، وہی ماخذ، قس ج1، ص390۔
  64. شہید ثانی، وہی ماخذ، ج2، ص572 ـ573۔
  65. محقق حلّی، المعتبر، ج2، ص 659۔
  66. شہید ثانی، روض الجنان، ج2، ص 555، 573۔
  67. خطیب بغدادی، الکفایہفی علم الروایہ، ص373ـ374۔
  68. ابن صلاح، علوم الحدیث، ص154ـ 155۔
  69. ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم بن مخلَد مروزی ابن راہویہ (متوفی سنہ 237ہجری قمری)۔
  70. ابو عبداللہ محمد ادریس الشافعی (ولادت سنہ 150 وفات 204ہجری قمری) ملقب المعروف بہ امام شافعی، اہل سنت کے شافعی فرقے کے امام ہیں۔
  71. سیوطی، الحاوی للفتاوی، ج1، ص 15۔
  72. شہیدثانی، الرعایہفی علم الدرایہ، ص 288ـ290۔
  73. مجلسی، بحار الانوار، ج2، ص 167۔
  74. رجوع کریں: الاستبصار، ج3، ص171۔
  75. بحرانی، الحدائق الناضرہ، ج23، ص631۔
  76. [ http://lib.eshia.ir/10098/10/223 طباطبائی، ریاض المسائل، ج10، ص223]۔
  77. شبیری زنجانی، کتاب نکاح، ج9، درس 329، ص3۔
  78. موسوی عاملی، نہایہالمرام، ج1، ص 180۔
  79. نراقی، مستند الشیعہفی احکام الشریعہج16، ص 309۔
  80. نجاشی، رجال، ص 220۔
  81. نجاشی، رجال، ص334۔
  82. آقابزرگ طہرانی، کتاب السرائر، ج4، ص 500 ـ501۔
  83. مہدی پور، کتابنامہ حضرت مہدی علیہ السلام، ج1، ص237۔
  84. مہدی پور، کتابنامہ...، ج2، ص577، بطور خاص ص814۔

مآخذ

  • آقا بزرگ طہرانی؛ ابن ادریس حلّی، کتاب السرائرالحاوی لتحریر الفتاوی، قم 1410ـ 1411ہجری قمری۔
  • آبی، حسن بن ابی طالب، کشف الرموز فی شرح المختصر النافع، تحقیق: علی پناہ اشتہاردی و حسین یزدی، قم 1408ـ1410ہجری قمری۔
  • آشتیانی، عباس اقبال، خاندان نوبختی، تہران 1345ہجری شمسی۔
  • ابن درید، ابوبکر محمد بن الحسن، جمہرہاللغہ، تحقیق: د۔رمزی منیر بعلبکی، دارالعلم للملایین، مؤسسہثقافیہللتألیف والترجمہوالنشر ۔ بیروت - لبنان ۔ الطبعہالاولی 1987عیسوی۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہفی معرفہالأئمہ(ع)، تعلیق: ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، انتشارات مکتبہبنی ہاشمی، 1381ہجری قمری۔
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکریم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر1385ہجری قمری۔
  • ابن بابويہ القمي، الشيخ الصدوق، ابو جعفر محمد بن على بن الحسين، کمال الدین و تمام النعمہ، چاپ علی اکبر غفاری، مؤسسہالنشر الاسلامی التابعہلجماعہالمدرسین بقم المشرفہ- ایران المطبوع: 1405ہجری قمری / 1363ہجری شمسی۔
  • ابن بابويہ القمي، الشيخ الصدوق، ابو جعفر محمد بن على بن الحسين، من لا يحضرہ الفقيہ، تصحیح وتعلیق: على اكبر الغفاري ۔ منشورات جماعہالمدرسين في الحوزہالعلميہفي قم المقدسہ۔ الطبعہالثانيہ1404ہجری قمری۔
  • ابن سعد؛الطبقات الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1418ہجری قمری۔
  • ابن بابويہ القمى، الصدوق، محمد بن على بن الحسين، عيون أخبار الرضا، مقدمہ و تعلیق: حسين الاعلمي، منشورات مؤسسہالاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان 1404ہ‍جری قمری / 1984عیسوی۔
  • ابن خلکان، شمس الدین، پیشین، سبط بن جوزی، تذکرہالخواص، تحقیق حسین تقی‌زادہ، بی‌جا، المجمع العالمی لاہل البیت (علیہ السلام)، چاپ اول، 1426ہجری قمری۔
  • ابن صلاح، ابوعمرو عثمان بن عبدالرحمن الشہرزوری، علوم الحدیث، تحقيق: الدكتور نور الدين عتر، المدينہالمنورہ، نشر المكتبہالعلميہ، ط۔ الأولى، 1972عیسوی۔
  • البحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرہفی احکام العترہالطاہرہ، انتشارات جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم در سال ۱۳۶۳ ہ‍جری شمسی۔
  • البغدادی قدامہبن جعفر بن قدامہبن زیاد، الخراج وصناعہالکتابہ، شرح و تحقیق: الدکتور محمد حسین الزبیدی، دار الرشید للنشر، 1981عیسوی۔
  • جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم (عج)، مترجم سید محمد تقی آیت اللہی، تہران امیر کبیر، 1385ہجری شمسی۔
  • جاسم حسین وساشادینا، غیبت و مہدویت در تشیع امامیہ، ترجمہ محمود رضا افتخار زادہ، چ اول، قم، 1371ہجری شمسی۔
  • جباری،‏ محمدرضا سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمہعلیہم السلام‏، قم، مؤسسہ آموزش پژوہشی امام خمینی، ‏1382ہجری شمسی‏۔
  • الحلی، علامہ حسن بن یوسف بن مطہر، مختلف الشیعہفی احکام الشریعہ، قم 1412ـ1420ہجری قمری۔
  • الحِميَري، أبو العبّاس عبداللہ بن جعفر، قُرب الإسناد، المحقّق والناشر: مؤسّسہآل البيت عليہم السلام لإحياء التراث ـ قمّ المقدّسہ، الطبعہ: الأولى، سنہ1413ہجری قمری۔
  • حسین بن عبدالوہاب، عیون المعجزات، نجف، المطبعہالحیدریہ، 1369ہجری قمری۔
  • الخصیبی، حسین بن حمدان، الہدایہالکبری، مؤسسہالبلاغ للطباعہوالنشر، بیروت 1411ہجری قمری/ 1991عیسوی۔
  • خطیب بغدادی، احمدبن علی، الکفایہفی علم الروایہ، چاپ احمد عمر ہاشم، بیروت 1406ہجری قمری/1986عیسوی۔
  • الراوندی (قطب الدین الراوندی)، سعید بن ہبہاللّہ قطب، الخرائج والحرائح، تحقيق ونشر مؤسسہالامام المہدي عليہ السلام قم المقدسہ۔ الطبعہالأُولى، 1409ہجری قمری۔
  • السیوطی، عبدالرحمان بن ابن بکر، الحاوی للفتاوی، بیروت 1408/ہجری قمری/ 1988عیسوی۔
  • شبیری زنجانی، سید موسی، کتاب نکاح، ج 9، تقریرات دروس 1380ـ1381ہجری شمسی۔
  • شہید اول؛ شیخ شمس الدین محمد بن مکی بن احمد عاملی نبطی جزینی، غایہالمراد فی شرح نکت الارشاد، قم 1414ـ1421ہجری قمری۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن نورالدین علی بن احمد عاملی جُبَعی، روض الجنان فی شرح ارشاد الاذہان، قم 1380ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن نورالدین علی بن احمد عاملی جُبَعی، الرعایہفی علم الدرایہ، تحقیق: عبدالحسین محمدعلی بقال، قم 1408ہجری قمری۔
  • صدر؛ سید محمد، تاریخ الغیبہ، بیروت‏، دارالتعارف، ‏1412ہجری قمری‏۔
  • صولی، محمدبن یحیی، اخبار الراضی باللّہ و المتقی‌للّہ، چاپ ہیورث‌دن، بیروت 1399ہجری قمری /1979عیسوی۔
  • الطباطبائي، علي بن محمد علي، رياض المسائل في بيان أحكام الشرع بالدلائل ۔ مؤسسہالنشر الإسلامي ۔ چاپ اول ۔ قم ۔ 1412ق / 1370ہجری شمسی۔
  • الطبرسی، احمد بن علي بن أبى طالب، االاحتجاج، تعليقات وملاحظات السيد محمد باقر الخرسان ۔ طبع في مطابع النعمان ۔ النجف الاشرف ۔ 1386ہجری قمری / 1966عیسوی۔
  • الطبرسی؛ فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، تحقیق علی اکبر غفاری بیروت، دارالمعرفہ، 1399ہجری قمری۔
  • الطبری؛ محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامہ، قم، بعثت، 1413ہجری قمری۔
  • الطبری؛محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تاریخ الطبری، تحقیق، محمد ابو الفضل ابراہیم‏، بیروت، روائع التراث العربی‏، 1387ہجری قمری‏۔
  • الطوسي، الشيخ محمد بن حسن، الغيبہ، تحقيق: الشيخ عباد اللہ الطہراني، الشيخ علي أحمد ناصح، مؤسسہالمعارف الإسلاميہ- قم المقدسہ، الطبعہالأولى، 1411ہجری قمری۔
  • الطوسي، الشيخ محمد بن حسن، تہذيب الاحكام في شرح المقنعہللشيخ المفيد رضوان اللہ عليہ، السيد حسن الموسوي الخرسان، دار الكتب الاسلاميہ۔ تہران ۔ 1365۔
  • الطوسی، الشيخ محمد بن حسن، رجال الکشی (اختیار معرفہالرجال) مشہد، دانشگاہ مشہد، 1348ہجری شمسی۔
  • الطوسي، الشيخ ابو جعفر محمد بن الحسن، الاستبصار فيما اختلف من الاخبار، تحقیق: السيد حسن الموسوي الخرسان، دار الكتب الاسلاميہتہران ۔ 1390ہجری قمری۔
  • الفراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، تحقیق: د۔مہدی المخزومی / د۔ ابراہیم السامرائی۔
  • القلقشندی، أحمد بن علی بن أحمد الفزاری، صبح الأعشى فی کتابہالإنشاء ۔ مطبعہدارالکتب المصریہبالقاہرہ۔ مصر 1340ہجری قمری / 1922عیسوی۔
  • قاموس الرجال قم مؤسسہ النشر الاسلامی، چ: دوم، 1425ہجری قمری۔
  • محقق کرکی، علی بن حسین بن عبدالعالی کَرَکی جبل عامِلی المعروف بہ محقق ثانی، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم 1408ـ 1415ہجری قمری
  • الكليني الرازي، محمد بن يعقوب، الكافي، تعليق و تصحیح: على اكبر الغفاري، دار الكتب الاسلاميہ، تہران – 1367ہ‍
  • مجلسی‏، علامہ بحارالأنوار الجامعہلدرر أخبار الأئمہالأطہار، تہران‏، اسلامیہ، 1363ہجری شمسی۔
  • محقق حلّی، جعفر بن حسن، الرسائل التسع، تحقیق: رضا استادی، رسالہ7: المسائل الطبریہ، قم 1371 ہجری شمسی۔
  • محقق حلّى، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، موسسہ سید الشہداء، بی‌چا، 1364ہجری قمریق
  • مدرسی طباطبائی،حسین، مکتب در فرایند تکامل: نظری بر تطور مبانی فکری تشیع در سہ قرن نخستین، ترجمہہاشم ایزدپناہ، نیوجرسی 137ہجری شمسی۔
  • مسعودی؛ علی بن حسین، مروج الذہب قم، دارالہجرہ، چاپ دوم، 1363ہجری قمری۔
  • مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیہللإمام علی بن أبی طالب‏، قم‏، انصاریان‏، 1426ہجری قمری‏۔
  • مفید، الشیخ محمد بن محمد بن نعمان (ابن المعلم)، مسارالشیعہ، تحقیق مہدی نجف بیروت، دارالمفید، چاپ دوم، 1414ہجری قمری۔
  • مفید، الشیخ محمد بن محمد بن نعمان (ابن المعلم)، الارشاد، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1399ہجری قمری۔
  • مفید، الشیخ محمد بن محمد بن نعمان (ابن المعلم)، الإرشاد فی معرفہحجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ہجری قمری۔
  • موسوی عاملی، محمدبن علی، نہایہالمرام فی شرح مختصر شرائع الاسلام، قم 1413ہجری قمری۔
  • مہدی پور، علی اکبر، کتابنانہحضرت مہدی علیہ السلام، ( قم ) 1375ہجری شمسی۔
  • النجاشی؛ ابوالعباس، رجال نجاشی، تصحیح آیت اللہ شبیری، قم، موسسہ نشراسلامی، 1416ہجری قمری۔
  • النراقی، احمدبن محمد مہدی، مستند الشیعہفی احکام الشریعہ۔ قم، مؤسسہ آل البیت، الطبعہالاولی، 1419ہجری قمری۔
  • ناشناس؛ مجمل التواریخ و القصص، بہ کوشش محمد رمانی، تہران، کلالہ خاور، 1309ہجری۔
  • النعمانی، محمد بن ابراہیم، غیبت نعمانی ترجمہ سید احمد فہری زنجانی‏، تہران‏، انتشارات اسلامیہچ چہارم‏ 1362ہجری قمری‏۔
  • النراقی، احمدبن محمد مہدی، مستند الشیعہفی احکام الشریعہ۔ قم، مؤسسہ آل البیت، الطبعہالاولی، 1419ہجری قمری۔
  • النوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، تصحیح سید محمد صادق آل بحر العلوم، نجف، المکتبہالمرتضویہ، 1355ہجری قمری۔
  • النیشابوری‏، فتال، روضہالواعظین و بصیرہالمتعظین‏، چاپ اوّل، ‏قم‏، دلیل ما، 1423ہجری قمری‏۔

بیرونی ربط