مہدویت کے جھوٹے دعویدار
مہدویت کے دعویدار [عربی =المتمہدیون] یا مہدی ہونے کے جھوٹے دعویدار وہ لوگ ہیں جو تاریخ میں جھوٹے دعوے کرکے خود کوامام مہدی کہلوائے یا وہ جنہوں نے خود کوئی دعوی نہیں کیا لیکن لوگوں نے لاعلمی اور نادانی یا بعض مقاصد کے حصول کی غرض سے انہیں مہدی موعود قرار دیا۔
اس جھوٹے دعوے کا انگیزہ
جو چیز مسئلہ مہدویت کی اہمیت کو نمایاں کرتی ہے یہ ہے کہ تاریخ میں ہمیں ایسے اشخاص ملتے ہیں جو اپنے لئے مہدی کا نام جعل کرتے یا مہدی موعود کا نام اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں یا پھر دوسروں کی طرف سے ان پر اس عنوان کا اطلاق کرتے ہوئے اپنے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں یا ان کے پیروکار ان کی طرف بڑی بڑی نسبتیں دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ چیز مسئلہ مہدویت کی حقایت اور اصالت پر بہترین دلیل ہے۔ کیونکہ اگر یہ مسئلہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا تو تاریخ میں اتنے سارے لوگ کیوں اپنے آپ کو مہدی ہونے اور مہدیت کے مسئلے کو اپنے ساتھ ملحق کرنے کی کوشش کرتے!!!؟
دعویداروں کی تعداد
اگر سبائیہ نامی فرقے کے وجود اور ان کی طرف سے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مہدی موعود ہونے کے دعوے کو یقینی نہ سمجھا جائے[1] تو بعض اہم ترین متمہدیوں کے نام حسب ذیل ہیں:
محمد حنفیہ کے بارے میں مہدویت کا دعوا
سب سے پہلے شخص جن پر اس نام کا اطلاق کیا گیا امیرالمؤمنین علیہ السلام کے فرزند محمد حنفیہ تھے؛ وہ یوں کہ فرقہ کیسانیہ کا عقیدہ تھا کہ وہ مہدی موعود ہیں۔ اس فرقے کے پیروکاروں نے ان کی وفات کے بعد دعوی کیا کہ وہ مرے نہیں ہیں بلکہ مدینہ کے قریب واقع "کوہ رضوٰی" میں دو شیروں کے درمیان ہیں جو ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ حالانکہ محمد حنفیہ سنہ 80 یا 81ہجری قمری میں دنیا سے رخصت ہوئے اور مدینہ کے قبرستان "جنت البقیع" میں سپرد خاک کئے گئے۔[2] انھوں نے کبھی خود مہدویت کا دعوی نہیں کیا۔ کیونکہ کہیں بھی کسی معتر ماخذ میں ایسی کسی بات یا کسی واقعے کا تذکرہ نہیں ملتا کہ انھوں نے امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کا انکار کیا ہو یا آپ(ع) کے مد مقابل آکر کھڑے ہوگئے ہوں یا لوگوں کو اپنی امامت کی طرف بلایا ہو۔[3]۔[4] بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ مختار نے محمد حنفیہ کی مہدویت کا دعوی کیا تھا لیکن شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعوی مختار کے بعد کیسانیہ سے الگ ہونے والی شاخوں کے پیروکاروں کا تھا۔[5]
نفس زکیہ کے بارے میں مہدویت کا دعوا
محمد بن عبداللہ محض بن حسن بن حسن بن علی، المعروف بہ نفس زکیہ جنہیں فرقہ جارودیہ نے مہدی کا عنوان دیا ہے۔ انھوں نے سنہ 145ہجری قمری میں مدینہ میں تحریک کا آغاز کیا اور منصور دوانیقی کی سازش کے نتیجے میں قتل ہوئے۔[6]
ابو جعفر محمد بن عبداللہ
یہ شخص منصور دوانیقی کا بیٹا ہے جس نے نفس زکیہ کے مقابلے میں اٹھ کر مہدویت کا دعوی کیا اور لوگوں کو اپنی امامت کی طرف دعوت دی۔[7]
عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں مہدویت کا دعوا
وہ اموی (مروانی) خلفاء میں سے ایک تھا اور سعید بن مسیب کا خیال تھا کہ وہی مہدی موعود ہے۔[8]
ابو مسلم خراسانی کے بارے میں مہدیت کا دعوا
اتابک خرمی اور خرمیہ فرقے کے پیروکارں کا گمان تھا کہ ابو مسلم خراسانی وہی شخص ہے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ انھوں نے منصور دوانیقی کے ہاتھوں اس کے قتل کو جھٹلایا اور اس کے ظہور کے منتظر ہوئے۔[9]
امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں مہدویت کا دعوا
ناؤسیہ فرقے کا خیال تھا کہ گویا آپ(ع) مہدی موعود ہیں۔[10]
محمد بن قاسم بن عمر بن علی بن الحسین کے بارے میں مہدویت کا دعوا
زیدیہ کے ذیلی فرقے جارودیہ قائل ہوئے کہ محمد بن قاسم مہدی موعود ہیں، وہ قتل نہیں ہوئے اور ظہور کریں گے۔[11]
امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں مہدویت کا دعوا
فرقہ واقفہ کے پیروکار آپ(ع) کی مہدویت کے قائل ہوئے۔[12]
امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھائی محمد بن علی کے بارے میں مہدویت کا دعوا
فرقۂ محمدیہ کے پیروکار ان کی مہدویت کے قائل ہوئے۔[13]
امام حسن عسکریؑ کی مہدویت کا قائل ہونا
بعض لوگوں کا خیال تھا کہ گویا امام حسن عسکری علیہ السلام مہدی موعود ہیں۔[14]
جعفر بن علی امام حسن عسکری علیہ السلام کے دوسرے بھائی کے بارے میں امامت کا دعوا
بعض لوگ اس کے لئے امامت کے قائل ہوئے۔[15]
عبداللہ بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کے بارے میں مہدویت کا دعوا
بعض لوگ انہیں مہدی(عج) سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ زندہ ہیں اور اصفہان کے ایک پہاڑ میں رہائش پذیر ہیں اور بہر حال ظہور کریں گے۔ عبداللہ وہی شخص ہیں جنہوں نے مروان حمار کے زمانے میں اموی سلطنت کے خلاف فارس میں قیام کیا اور ابو مسلم خراسانی نے انہیں گرفتار کرکے کچھ عرصہ قید میں رکھا اور پھر قتل کیا۔[16]
یحیی بن عمر کے بارے میں مہدویت کا دعوا
انھوں نے سنہ 259ہجری قمری میں عباسی خلیفہ مستعین باللہ کے خلاف کوفہ سے قیام کیا؛ پس انہیں قتل کیا گیا اور ان کا سر تن سے جدا کیا گیا اور جارودیہ میں سے بعض لوگوں نے انہیں مہدی کا عنوان دیا۔[17] * موسی بن طلحہ بن عبداللہ: اس شخص نے مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے دور میں بصرہ میں قیام کیا اور بعض لوگ اس کی مہدویت کے قائل ہوکر اس کی طرف مائل ہوئے۔[18]
عبداللہ المہدی کے بارے میں مہدویت کا دعوا
انھوں نے اپنا تعارف ابو محمد عبیداللہ بن اسمعیل کے عنوان سے کرایا اور کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ انھوں نے سنہ 297ہجری قمری میں افریقہ سے قیام کیا اور سلسلۂ فاطمیہ کی بنیاد رکھی۔ یہ حکومت 270 برس بعد زوال پذیر ہوئی۔ بعض لوگوں نے دعوی کیا کہ وہ مہدی موعود ہیں۔[19]
محمد بن عبداللہ بن تومرث علوی المعروف بہ مہدی ہرغی
وہ قبیلہ مصامدہ سے تعلق رکھتا تھا اور مراکش کے پہاڑی سلسلے "اطلس" کا رہائشی تھا۔ اس نے سنہ 497ہجری قمری میں قیام کیا اور اسپین پر مسلط ہوا اور وہاں سلسلۂ موحدین کی بنیاد رکھی۔[20]
الناصر لدین اللہ
وہ عباسی خلفاء میں سے تھا جو سنہ 550ہجری قمری میں پیدا ہوا تھا۔ سبط بن تعاویذی نے اس کی تعریف مہدی منتظر کے عنوان سے کی ہے:
انت الامام المهدی لیس لنا * امام حق سواک ینتظر
تبدو لابصارنا خلاقاً لان *یزعم ان الامام منتظر[21]
اسحق سبتی
اس شخص نے سنہ 986ہجری قمری میں سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ محمد چہارم کے زمانے میں مہدویت کا دعوی کیا۔ وہ بنیادی طور پر ترک تھا اور ازمیر کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔ ال 986 هـ به نام مهدویت قیام کرد و اصالتا ترک و از اهالی ازمیر بود. [22]
محمد مہدی سنوسی
وہ شیخ محمد سنوسی کا بیٹا تھا جو انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں مغرب سے اٹھا اور اپنی موت سے قبل اپنے مریدوں کو سمجھایا کہ مہدی وہ نہیں بلکہ اس کے بعد آئے گا اور یوں اپنی مہدویت کی نفی کردی؛ اور شاید اس کا اشارہ اپنے بیٹے کے قیام و خروج کی طرف تھا۔ [23]
میرزا غلام احمد قادیانی
وہ انیسویں صدی عیسوی کے اوائل (سنہ 1826عیسوی) ہندوستان کے صوبے پنجاب سے اٹھا اور ابتداء میں مہدویت اور پھر نبوت کا اعلان کیا اور ان دو دعوؤں کی بنیاد پر سکھوں کے خلاف لڑا۔ اور قادیانی فرقے کی بنیاد رکھی جس کو پیروکار آج بھی ہندوستان (اور پاکستان) میں پائے جاتے ہیں۔[24]
سید احمد ابن محمد بریلوی
اس کو مہدی وہابی بھی کہا جاتا ہے۔ وہ سنہ 1224ہجری کو میں ہندوستان کے شہر بریلی میں پیدا ہوا۔ تیرہویں صدی کے نصف اول کے دوران ہندوستان میں وہابی فرقے کی تبلیغ و ترویج میں مصروف ہوا اور اپنا تعارف شیعیان اہل بیت کے دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام کی اولاد کے طور پر کرایا اور اسی عنوان سے شہرت کمائی، بعدازاں ہندؤوں اور سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور جنگ کے شعلے بھڑکے تو مغلوب اور مقتول ہوا۔[25]
علی محمد شیرازی
المعروف بہ علی محمد باب: یہ شخص سنہ 1235ہجری قمری کو شیراز میں پیدا ہوا؛ اس نے ابتداء میں "باب" اور "خلیفۃ الخلیفہ" کے عنوان سے خروج کیا اور جب تھوڑی سے شہرت پائی تو "باب المہدی المنتظر" کا عنوان اختیار کیا اور آخر کار مہدویت کا دعوی کیا۔[26]
اس جھوٹے دعوے کے محرکات
جن لوگوں نے تاریخ میں اس عنوان سے شہرت پائی ہے، ایک لحاظ سے تین گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں:
- وہ لوگ جنہیں دوسروں نے خاص محرکات کی بنیاد پر مہدی یا نجات دہندہ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
- وہ لوگ جنہوں نے اقتدار طلبی اور شہرت طلبی کی بنا پر یہ جھوٹا دعوی کیا اور مہدی کہلوانے کی کوشش کی۔
- وہ لوگ جو سامراجی سازشوں اور دشمنان اسلام کے اشارے پر یہ مکارانہ اور شرمناک دعوی کیا اور اپنا تعارف نجات دہندہ اور مہدی موعود کے طور پر کرایا۔
پہلا گروہ
اس قسم کے دعؤوں کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض افراد جن کو مہدویت کی نسبت دی گئی ہے، نہ تو خود اس امر کے محرک تھے اور نہ ہی اس قسم کے دعؤوں پر راضی تھے؛ بلکہ ان کے دوستوں اور پیروکاروں نے انہیں اس قسم کے عناوین دیئے ہیں اور اس قسم کے تفکر کو اس زمانے کے لوگوں اور مراکز میں رائج کرچکے ہیں۔ ان کے پیروکاروں نے حضرت مہدی(عج) کے ظہور کے بعض علائم کو ـ جو بہت سی روایات میں مذکور ہیں ـ کا اطلاق ان افراد پر کیا ہے۔
اس گروہ میں نمایاں ترین افراد کے نام:
دوسرا گروہ
یہ وہ اشخاص تھے جنہوں نے مکارانہ اور طاقت پسندانہ یا شہرت پسندانہ محرکات کی بنا پر خود ہی مہدی ہونے کا دعوی کیا اور لوگوں کے جذبات کو موہ لینے اور دلوں کو مسخر کرنے نیز طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کی غرض سے نجات دہندہ مہدی کہلوائے۔
ان ہی میں سے ایک مہدی عباسی ہے جس کے باپ منصور دوانیقی نے دعوی کیا کہ اس کہ بیٹا (مہدی عباسی) مہدی موعود ہے۔
جعفر کذاب اسی گروہ کے دیگر افراد میں سے ہے۔
تیسرا گروہ
اس گروہ میں شامل دعویدار وہ افراد تھے جنہوں نے استعمار (= سامراج) کے منصوبوں اور استعماری طاقتوں کے اشارے پر مہدویت کا دعوی کیا۔ جن چیزوں سے اس میدان میں ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ان میں ایک عقیدۂ مہدویت تھا۔ استعمار نے اس سلسلے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بعض افراد کو پالا اور ان کی تربیت کی اور اپنے تمام وسائل سے ان کی مدد کی۔ اس حوالے سے علی محمد باب کا نام نمونے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
متعلقہ مآخذ
حوالہ جات
- ↑ شهرستانی، ملل ونحل، ج2، ص11۔
- ↑ شیخ طوسی، الغیبه، ص192۔
- ↑ شهرستاني، ملل و نحل، ج1، ص133۔
- ↑ محقق طوسی، تلخيص المحصل، ص 414۔
- ↑ فرق الشيعه نوبختي ص 28۔
- ↑ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص221۔
- ↑ سعد محمد حسن، المهدیة فی الاسلام، ص49۔
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج5، ص245۔
- ↑ سعد محمد حسن، المهدیه فی الاسلام، ص184۔
- ↑ شیخ طوسی، الغیبه، ص192۔
- ↑ سعد محمد حسن؛ المهدیه فی الاسلام، ص125۔
- ↑ شیخ طوسی، الغیبه، ص192-198۔
- ↑ شیخ طوسی، الغیبه، ص192-198۔
- ↑ شهرستانی، ملل ونحل، ج2، ص7۔
- ↑ شیخ طوسی، الغیبه، ص225-222۔
- ↑ سعد محمد حسن، المدیه فی الاسلام، ص48۔
- ↑ سعد محمد حسن، المدیه فی الاسلام، ص135۔
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج5، ص245۔
- ↑ ابن خلدون، مقدمه، ص374۔
- ↑ ابن خلدون، مقدمه، ص366۔
- ↑ سعد محمد حسن، المهدیه فی الاسلام، ص135۔
- ↑ دارمستیتر (James Darmesteter)، مهدی از صدر اسلام تا قرن سیزدهم، ص173۔
- ↑ أحمد أمین، المهدی و المهدویة، مصر، دار المعارف ص98۔
- ↑ سعد محمد حسن، المهدیة فی الاسلام، ص270۔
- ↑ سعد محمد حسن، المدیه فی الاسلام، ص268۔
- ↑ رضا برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، ص88۔
مآخذ
- ابن سعد، طبقات الکبری، دار صادر، بیروت، بیتا.
- ابن خلدون، مقدمہ ابن خلدون، الجزء الاول من کتاب العبر و دیوان المبتدا و الخبر، بیروت 1391ہجری قمری/1971عیسوی۔
- ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، تحقیق کاظم مظفر، مکتبہ حیدریہ، نجف، بیتا.
- أحمد أمین، المہدی و المہدویۃ، مصر، دارالمعارف، بیتا.
- برنجکار، رضا، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، طہ - حوزہ علمیہ خواہران، 1382ہجری شمسی۔
- الطوسی، المحقق الخواجہ نصیر الدین، تلخیص المحصل المعروف ب"نقد المحصل"۔ دار الاضواء، بیروت ـ لبنان۔ الطبعۃ الثانیۃ، 1405ہجری قمری / 1985عیسوی۔
- دارمستیتر (James Darmesteter)، (1849-1894) مہدی از صدر اسلام تا قرن سیزدہم، محسن جہانسوز، کتابفروشی ادب، تہران، 1317ہجری شمسی۔
- سعدمحمد حسن، المہديۃ في الاسلام منذ اقدم العصور، مصر، دارالکتب الاسلامیہ، بیتا.
- شہرستانی، الملل و النحل، تحقیق محمدسید کیلانی، دارالمعرفہ، بیروت.
- شیخ طوسی؛ محمد بن حسن، الغیبہ، تہران، مکتبہ نینوی.