ایام حج

ویکی شیعہ سے

ایام حج ان دنوں کو کہا جاتا ہے جن میں حج کے اعمال انجام دئے جاتے ہیں۔ ماہ ذی الحجہ کی آٹھ تاریخ یعنی یوم ترویہ سے اس مہینے کی تیرہ تاریخ تک کے دنوں کے لیے ایام حج کی تعبیر استعمال ہوتی ہے۔ گیارہ تاریخ سے تیرہ تاریخ تک کا مجموعی نام ایام تشریق ہے۔ «ایام المَوْسِم»، «ایام معدودات» اور «ایام معلومات»؛ ایام حج کے دیگر اسامی ہیں۔ فقہی کتابوں میں ان چھ دنوں میں سے ہر دن کا مخصوص نام بھی ذکر ہوا ہے؛ جیسے آٹھویں تاریخ کو یوم الترویۃ، نویں دن کو یوم عرفہ، دسویں دن کو عید قربان یا یوم النحر اور گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو ایام تشریق کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور اہل بیتؑ کی روایات کے مطابق ذی الحجہ کے دسویں دن یعنی عید قربان کو ایام حج میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس دن کی بڑی عظمت بیان ہوئی ہے۔ قدیم الایام سے ہی لوگوں کے درمیان ایام حج کے موقع پر چند قسم کے رسومات عام رائج تھے۔ ان میں سے ایک اہم رسم حاجیوں کے لیے اطعام کا انتظام تھا۔پیغمبر خداؐ کے جد بزرگوار ہاشم بن عبد مناف نے اس رسم کی بنیاد رکھی تھی اور اسلام کی آمد کے بعد بھی چند صدیوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

لوگوں کے لیے ایام حج؛ جدید نظریات سے آگاہ ہونے کے لیے نہایت مناسب موقع ہوا کرتے تھے؛ بعثت پیغمبر اسلام (ص) کے آغاز میں ایام حج کے موقع پر اہل جزیرۃ العرب، مکہ کے لوگوں سے حضرت رسولؐ کے بارے میں مختلف سوالات کرتے تھے۔ مسلمانوں کی رسول خداؐ کی قیادت میں مدینہ کی جانب ہجرت کا میدان بھی ایام حج کے موقع پر فراہم ہوا۔ ایام حج میں اہالیان مکہ اور مدینہ کے مابین پیمان عقبہ منعقد ہوا۔ ایام حج کے موقع پر ہی شیعیان اپنے اماموں سے ملاقات اور ان کے ساتھ رابطہ قائم کرتے تھے۔ امام جعفر صادقؑ کے ساتھ "سید اسماعیل حمیری" کی ملاقات اس کا ایک آشکارا نمونہ ہے۔

مفہوم‌ اور مقام و مرتبہ

ایام حج کا مفہوم کیا ہے اور ان سے کونسے ایام مراد ہیں؛ اسلامی متون میں ان سوالوں کا تفصیلی جواب بیان نہیں ہوا ہے[حوالہ درکار] البتہ فقہی احکام سے متعلق کتابوں کے مطابق ایام حج چند مختلف دنوں پر اطلاق آتے ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • ایام حج سے مراد ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہے۔[1]
  • ماہ شوال اور ذی القعدہ کے سارے ایام اور ماہ ذی الحجہ کے پہلے تیرہ دن؛ ایام حج کہلاتے ہیں۔[2]
  • شوال، ذی القعده اور ذی الحجه تینوں مہینے ایام حج کہلاتے ہیں۔[3]
  • ماہ ذی الحجہ کے نویں دن سے تیرہویں دن تک کے ایام، حج کے ایام ہیں۔ [4]

لیکن تمام فقہی کتابوں اور اکثر تاریخی کتابوں میں ایام حج سے مراد معمولا وہی ایام ہیں جن میں حج کے اعمال عروج پر ہوتے ہیں۔ جن میں منیٰ میں وقوف، عرفات میں وقوف اور قربانی کرنے کا عمل شامل ہیں۔ یعنی آٹھ ذی الحجہ سے تیرہویں تاریخ کے اختتام تک یہ سارے اعمال سرانجام پاتے ہیں۔[حوالہ درکار]


پیغمبر اسلام کے مکی دور رسالت میں جزیرہ نما عرب کے اطراف و اکناف سے عرب لوگ ایام حج میں خانہ خدا کی زیارت کے لیے آتے تھے اور اہالیان مکہ سے نبوت و رسالت پیغمبر خداؐ کی حقانیت کے سلسلے میں پوچھتے تھے۔[5] پیغمبر اکرم بھی ان ایام میں عرب کے مختلف لوگوں سے ملتے تھے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی بنیاد بھی انہی لوگوں میں سے ایک ملاقات اور بیعت عقبہ کے دوران رکھی گئی تھی۔[6] مختلف مذاہب کے پیروکار اہل سلام حج کے ایام کی فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان مذاہب کے علما اور دانشوروں سے بہرہ مند ہوتے تھے۔[7] اسی طرح شیعہ حضرات بھی انہی ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اماموں سے ملاقات کرتے تھے جبکہ مختلف ادوار میں ظالم حکمرانوں کی جانب سے شیعوں کو اپنے پیشواؤں سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1373ہجری شمسی، ج14، ص87.</ref> حج کے ایام میں شیعوں کی اپنے اماموں سے ملاقات کا ایک نمونہ سید اسماعیل حمیری کی امام جعفر صادقؑ سے ملاقات ہے جس میں حمیری نے امام صادقؑ سے بہرہ مند ہوتے ہوئے فرقہ کیسانیہ چھوڑ کر فرقہ ناجیہ اپنا لیا۔[8]

دوسرے نام

دینی مختلف مآخذ میں ایام حج کے لیے مختلف نام ذکر ہوئے ہیں؛ جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: ایام حج کے لیے قرآن نے «ایام معلومات» کی تعبیر استعمال کی ہے؛ احادیث کے مطابق جس کے معنی ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہیں۔[9] حضرت امام علیؑ کی ایک حدیث میں «ایام الله» کی تعبیر آئی ہے جس سے بعض محققین نے ایام حج مراد لی ہے۔[10] اسی طرح «ایام الموسم»، [11] اور کبھی «ایام منی»(اس لحاظ سے کہ اعمال حج کی ابتدا اور اختتام منیٰ میں ہوتا ہے)[12] کی تعبیر بھی ایام حج کے لیے استعمال ہوئی ہے۔

ماہ ذی الحجہ کی دسویں کی رات میں حاجیوں کا وقوف در مشعر

ایام حج کے ایک مجموعی نام کے علاوہ ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ سے لے کر تیرہویں تاریخ تک کی تاریخوں کے لیے الگ الگ نام بھی استعمال ہوا ہے:

دن نام
آٹھویں روز
نویں کا دن
دسویں کی رات
دسویں کا دن
گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کا دن
گیارہویں کی رات اور دن یوم و لیلة القَرّ (ٹھہرنے کی رات اور دن) [یادداشت 2]
بارہویں کا دن یوم النَفْر الأول (کوچ کرنے کا پہلا دن)[21]
تیرہویں کی رات لیلة التَحْصیب (کنکریاں پھینکنے کی رات)[22]
تیرہویں کا دن
  • یوم النَفْر الثانی (کوچ کرنے کا دوسرا دن)[23]
  • یوم النَفْر الآخر (کوچ کرنے کا آخری دن)[24]
  • یوم الصَدَر (حاجیوں کا اپنے اپنے وطن کی جانب پلٹنے کا دن)[25]

اعمال و مناسک

سانچہ:اصلی ایام حج کے ہر دن میں کچھ خاص اعمال اور مناسک انجام دئے جاتے ہیں، جن کی تفصیل درجہ ذیل ہے:

حج کے ایام متعلقہ اعمال
ذی الحجہ کا آٹھواں دن
نویں ذی الحجہ کی رات (شب عرفہ)
  • منیٰ میں بیتوتہ (رات گزارنا) اور
  • یہاں نماز مغربین کی ادائیگی (جو کہ سنت مؤکده ہے)[27]
ذی الحجہ کا نواں دن (روز عرفہ)
دسویں ذی الحجہ کی رات (شب عید قربان)
دسویں ذی الحجہ کا دن (روزعید قربان)
ذی الحجہ کی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کی راتیں منیٰ کی طرف پلٹ آنا اور یہاں بیتوتہ کرنا(رات گزارنا) [یادداشت 3]

سنتیں اور رسومات

قدیم الایام سے ہی حج کے دنوں میں درج ذیل مختلف سنتیں اور رسومات رائج تھے:

  • جاہلیت کے دور سے ہی قبیلہ قریش ایام حج میں اپنے سال بھر کے خرچے سے اضافی اموال کو اکٹھے کرتے تھے اور حاجیوں کو پانی پلانے اور کھانے کے انتظام میں خرچ کرتے تھے اسی طرح وہ ضرورت مند حاجیوں کی مدد بھی کرتے تھے۔ قبیلہ قریش سے اموال جمع کرنے کی ذمہ داری رسول خداؐ کے جد امجد ہاشم بن عبد مناف کے کاندھوں پر تھی۔ خود ہاشم نے اپنے مال و جائیداد کا چوتھائی حصہ اسی راہ میں خرچ کرنے کا عہد کر رکھا تھا۔[36] ہاشم کے بعد ان کے بیٹے عبدالمطلب اس اہم کام کے ذمہ دار تھے، انہوں نے اپنے والد سے زیادہ اس کام پر توجہ دی اور اس سلسلے کو جاری رکھا۔[37] حاجیوں کو کھانا کھلانے کی یہ سنت اسلام کی آمد کے بعد بھی چند صدیاں جاری رہی۔ [38]
  • جاہلیت کے دور میں یہ رسم تھا کہ اگر کوئی شخص اپنے ہمسائے کے ساتھ کسی خیانت کا ارتکاب کرتا تو ایام حج کے دوران منیٰ کے نزدیک ایک پہاڑی پر آگ روشن کرتے تھے اور سب یہ جملہ دہراتے ہوئے فریاد کرتے تھے: «هذه غدرة فلان» یعنی یہ ہے فلاں شخص کا دھوکہ و فریب! لوگ اس فریاد کو سن کر خیانت کار پر لعن و طعن کرتے تھے۔ اس سلگائی ہوئی آگ کو «نار العار»(ننگ و عار کی آگ) کہتے تھے۔[39]
  • محمد بن جریر طبری صغیر (متوفی: 310ھ) نے اس آیت «قُلْ مَنْ حَرَّمَ زينَةَ اللهِ الَّتي‏ أَخْرَجَ لِعِبادِهِ وَ الطَّيِّباتِ مِنَ الرِّزْقِ»[40] کے ذیل میں اسماعیل بن عبدالرحمن سُدّی (متوفی: 127ھ) سے نقل کیا ہے کہ زمان جاہلیت میں جو لوگ ننگے ہوکر کعبہ کا طواف کرتے تھے ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جب تک ایام حج میں حرم میں موجود ہیں اس وقت تک گوشت کی چربی اور تیل کا استعمال ان پر حرام ہے۔[41]
  • بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اسلام کی آمد کے بعد بھی بعض لوگ ایام حج میں اپنے تجارتی کاموں کو انجام نہیں دیتے تھے اور یہ آیت: «لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُم‏»[42] نازل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ ایام حج میں اپنے تجارتی امور کو جاری رکھیں کیونکہ یہ ایک جائز عمل ہے۔[43]

صحرائے عرفات میں غروب آفتاب کا منظر (2019ء)

سنت «نَسیء» اور ایام حج کو مؤخر کرنا

مفسرین کے مطابق آیت: «إِنَّمَا النَّسِي‌ءُ زِيٰادَةٌ فِي الْكُفْرِ»(«حرمت کے مہینوں میں» تقدیم و تاخیر بے شک کفر میں اضافہ کرتا ہے) [44] کا تعلق دور جاہلیت میں رائج رسم "نسیء" سے ہے۔ اس رسم و رواج کے مطابق عرب ہر سال اپنی قمری تقویم کے مہینوں کے آخر میں کچھ دنوں کا اضافہ کرتے تھے تاکہ قمری مہینے پورے سال کے دوران ثابت رہنے پائیں۔ یہ سلسلہ حجۃ الوداع تک جاری رہا، اتفاقا اس سال بھی ایام حج، ماہ ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں قرار پائے، اسی دوران قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی اور رسول خداؐ نے فرمایا: «إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِہ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ»، (زمانہ گھومتا رہا اور اب وہی شکل اختیار کر گیا ہے جس وقت زمین و آسمان کی تخلیق ہوئی تھی)؛ اس کے بعد جاہلیت کا یہ رسم و رواج اپنے اختتام کو پہنچا۔[45] کچھ دیگر تاریخی منابع میں آیا ہے کہ عرب کی جانب سے رسم "نسیء" کو رواج دینے کا مقصد یہ تھا کہ ایام حج، مکہ میں تجارتی کاروانوں کی آمد و رفت کی وجہ سے سال کے پر رونق ایام میں تبدیل ہوجائیں۔اس لیے قمری مہینوں میں رد و بدل کرتے تھے۔[46]

نوٹ

  1. بعض احادیث میں بھی دو قرآنی تعبیر«ایام معلومات» اور «ایام معدودات» سے یہی ایام(11،12 اور 13ویں دن) مراد لی گئی ہے۔(صدوق، معانی الأخبار، 1403ھ، ص297)
  2. اس نام سے موسوم کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ حاجی لوگ اس دن منیٰ میں ٹھہر جاتے ہیں۔(قاضی نعمان، دعائم الإسلام، 1385ھ، ج‌1، ص329؛ ابن‌ادریس، السرائر، 1410ھ، ج‌1، ص611)
  3. یہ عمل معمولا ذی الحجہ کی گیارہویں اور بارہویں رات میں انجام دیا جاتا ہے ، صرف چند صورتوں میں اسے تیرہویں کی رات بھی انجام دیا جانا چاہیے (ملاحظہ کریں: علامہ حلی، تحرير الأحكام الشرعيۃ، 1420ھ، ج‌2، ص7؛ نجفی، جواہر الكلام، 1404ھ، ج‌20، ص3).

حوالہ جات

  1. اردبیلی، زبدة البیان فی احکام القرآن، المکتبۃ الجعفریہ، ص259.
  2. قاضی نعمان، تأویل الدعائم، قاہره، ج1، ص316.
  3. ملاحظہ کریں:‌ ابن‌ادریس حلی، السرائر، 1410ھ، ج‌1، ص540؛ علامه حلی، منتهى المطلب، 1412ھ، ج‌11، ص222؛ خویی، المعتمد في شرح المناسک، 1410ھ، ج‌1، ص91.
  4. سرخسی، المبسوط، 1414ھ، ج4، ص178.
  5. بلاذری، أنساب الأشراف، دار الفکر، ج1، ص133.
  6. مکارم شیرازی، مديريت و فرماندهی در اسلام، 1389ہجری شمسی، ص30.
  7. ملاحظہ کریں: ذهبی، تذکرة الحفاظ، ج1، ص193.
  8. قاضی، الکیسانیة في التاریخ و الأدب، 1974ء، ج1، ص331.
  9. صدوق، معانی الأخبار، 1403ھ، ص296؛ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص365.
  10. عطاردی، تحقیق نہج البلاغہ، ص560.
  11. ملاحظہ کریں: ازرقی، اخبار مکة، دار الاندلس، ج1، ص109؛ شیخ صدوق، معانی الأخبار، 1403ھ، ص391.
  12. ملاحظہ کریں:‌ ابن‌ہشام، السیرة النبویة، 1375ھ، ج1، ص130؛ زبیری، نسب قریش، دار المعارف، ص305.
  13. قاضی نعمان، دعائم الإسلام، 1385ھ، ج‌1، ص329؛ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص365.
  14. قاضی نعمان، دعائم الإسلام، 1385ھ، ج‌1، ص329؛ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص365.
  15. ملاحظہ کریں: حمیری، قرب الإسناد، 1413ھ، ص54؛ شیخ مفید، المقنعة، 1413ھ، ص416
  16. ملاحظہ کریں: قاضی نعمان، دعائم الإسلام، 1385ھ، ج‌1، ص322؛ صدوق، من لايحضره الفقيه، 1404ھ، ج‏2، ص544.
  17. اس سلسلے میں منقول احادیث سے مزید آگاہی کے لیے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1429ھ، ج8، ص270؛ قاضی نعمان، دعائم الإسلام، 1385ھ، ج‌1، ص329 اور ملاحظہ کریں: طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص365.
  18. صدوق، الخصال، 1362ہجری شمسی، ج‏1، ص316؛ طوسی، النهاية في مجرد الفقه و الفتاوى، 1400ھ، ص136.
  19. قاضی نعمان، دعائم الإسلام، 1385ھ، ج‌1، ص329؛ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص365.
  20. طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص365.
  21. قاضی نعمان، دعائم الإسلام، 1385ھ، ج‌1، ص329؛ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص365.
  22. طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص365.
  23. طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص365.
  24. قاضی نعمان، دعائم الإسلام، 1385ھ، ج‌1، ص329
  25. ابن‌ادریس، السرائر، 1410ھ، ج‌1، ص611؛ علامه حلی، منتهى المطلب في تحقيق المذهب، 1412ھ، ج‌11، ص421.
  26. ملاحظہ کریں: طوسی، المبسوط في فقه الإمامية، 1387ھ، ج‌1، ص365. روایت کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ کریں: قاضی نعمان، دعائم الإسلام، ج1، ص319.
  27. ابوصلاح حلبی، الکافی فی الفقه، ص198؛ ابن‌زہره حلبی، غنیة النزوع، ص186.
  28. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، تذكرة الفقہاء، ج‌8، ص182؛ شہید ثانی، رسائل الشہيد الثانی، 1421ھ، ج‌1، ص349
  29. ملاحظہ کریں: طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج‌1، ص365؛ اردبیلی، مجمع الفائدة و البرہان في شرح إرشاد الأذہان، 1403ھ، ج‌6، ص238 متعلقہ حدیث کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ کریں: کلینی، الكافی، 1430ھ، ج‏8، ص284؛ طوسی، تہذیب الأحكام، 1407ھ، ج‏5، ص182.
  30. صدوق، من لا يحضره الفقيہ، 1413ھ، ج‌2، ص316؛ شریف مرتضی، جمل العلم و العمل، 1387ھ، ص109.
  31. ملاحظہ کریں: صاحب ریاض، رياض المسائل، 1418ھ، ج‌6، ص364.
  32. ملاحظہ کریں: بحرانی، الحدائق الناضرة، 1405ھ، ج‌16، ص422. اور متعلقہ حدیث کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ کریں:‌ طوسی، تہذيب الأحكام، 1407ھ، ج‏5، ص188.
  33. ملاحظہ کریں: صاحب ریاض، رياض المسائل، 1418ھ، ج‌6، ص364. متعلقہ احادیث کی تفصیل جاننے کے لیے ملاھظہ کریں: صدوق، من لا يحضره الفقيه، 1413ھ، ج‌2، ص545-546.
  34. ملاحظہ کریں: صاحب ریاض، رياض المسائل، 1418ھ، ج‌6، ص364.
  35. ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج‌1، ص240؛ علامہ حلی، منتہى المطلب فی تحقيق المذہب، 1412ھ، ج‌11، ص339.
  36. ابن‌حبیب، المنمق، 1405ھ، ص27.
  37. ابن‌حبیب، المنمق، 1405ھ، ص28.
  38. ملاحظہ کریں:‌ابن‌ہشام، السیرة النبویۃ، 1375ھ، ج1، ص130.
  39. آبی، نثر الدر فی المحاضرات، 1424ھ، ج6، ص244؛ ابن‌سعيد اندلسی، نشوة الطرب في تاريخ جاہليۃ العرب، مكتبة الأقصی، ص801.
  40. سورهٔ اعراف، آیه 32.
  41. طبری، جامع البیان، 1420ھ، ج12، ص395.
  42. سورهٔ بقره، آیهٔ 198.
  43. مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل، 1423ھ، ج1، ص175؛ طبری، جامع البیان، ج4، ص164.
  44. سورہ توبہ، آیہ، 37
  45. ملاحظہ کریں:‌ ماوردی، النکت و العیون، دار الکتب، ج2، ص338. مزید ملاحظہ کریں: ابوریحان بیرونی، الآثار الباقیۃ، 1380ہجری شمسی، ص16.
  46. قلقشندی، صبح الأعشى، دار الکتب، ج2، ص425.

مآخذ

  • آبی، منصور بن حسين، نثر الدر في المحاضرات، تحقیق: خالد عبدالغني محفوط، بیروت، دار الكتب العلمية، 1424ھ.
  • ابو الصلاح حلبی، تقى الدين بن نجم الدين‌، الكافي في الفقه‌، تحقیق:‌ رضا استادى‌، اصفهان، كتابخانه عمومى امام امير المؤمنين (ع)، 1403ھ.
  • ابوریحان بیرونی، محمد بن احمد، الآثار الباقیة عن القرون الخالیة، تحقیق: پرویز اذکایی، تهران، مرکز پژوهشی ميراث مکتوب، 1380ہجری شمسی.
  • ابن‌ادريس، محمد بن احمد، السرائر، تحقیق: حسن بن احمد الموسوى؛ ابو الحسن‏ ابن‌مسيح، قم، جامعه مدرسين، 1410ھ.‏
  • ابن‌حبيب بغدادی، محمد بن حبیب، المنمق في أخبار قريش، تحقیق: خورشيد احمد فاروق، بیروت، عالم الكتب، 1405ھ.
  • ابن‌زهره حلبی، حمزة بن على، غنية النزوع إلى علمي الأصول و الفروع‌، قم، مؤسسه امام صادق (ع)، 1417ھ.
  • ابن‌سعيد اندلسی، علی بن موسی، نشوة الطرب في تاريخ جاهلية العرب، تحقیق: نصرت عبد الرحمن، عمان، مكتبة الأقصى، بی تا.
  • ابن‌هشام، عبد الملک، السيرة النبوية، تحقيق: مصطفى السقا؛ ابراهيم الأبياري؛ عبد الحفيظ الشلبي، مصر، مطبعة مصطفى البابي الحلبي و أولاده بمصر، 1375ھ.
  • اردبيلى، احمد بن محمد‌، زبدة البيان في أحكام القرآن‌، تحقیق: محمدباقر‌ بهبودى، تهران، المكتبة الجعفرية لإحياء الآثار الجعفرية‌، بی‌تا.
  • اردبیلی، احمد بن محمد‌، مجمع الفائدة و البرهان في شرح إرشاد الأذهان، تحقیق: آقامجتبى عراقى؛ على‌پناه اشتهاردى؛ آقاحسين يزدى اصفهانى، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین، 1403ھ.
  • ازرقی، محمد بن عبد الله، أخبار مكة و ما جاء فيها من الآثار، تحقیق: رشدي الصالح ملحس، بیروت، دار الأندلس للنشر، بی‌تا.
  • بحرانى، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرة، تحقیق: محمدتقى ايروانى؛ عبدالرزاق مقرم‌، قم، جامعه مدرسين، 1405ھ.
  • بلاذرى‏، احمد بن يحيى، أنساب الأشراف، تحقيق: سهيل زكار؛ رياض زركلى، بيروت، دار الفكر، 1417ھ.
  • حمیرى، عبد الله بن جعفر، قرب الإسناد، قم، آل البیت (ع)‏، 1413ھ.
  • خويى، ابوالقاسم، المعتمد في شرح المناسک، قم، منشورات مدرسة دار العلم، 1410ھ.
  • ذهبی، محمد بن احمد، تذكرة الحفاظ، بیروت، دار الكتب العلمية، 1419ھ/1998ء.
  • راوندی، سعید بن هبة الله، فقه القرآن‌، تحقیق: سيد احمد حسينى‌ اشکوری، قم، آية الله مرعشى نجفى، 1405ھ.
  • سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفة، 1414ھ.
  • شريف مرتضى، على بن حسين موسوى‌، جمل العلم و العمل‌، نجف، 1387ھ.
  • صاحب ریاض، على بن محمد، رياض المسائل، قم، مؤسسه آل البيت، 1418ھ.
  • صدوق، محمد بن علی، معاني الأخبار، تحقیق علی اکبر غفاری، قم، جامعه مدرسين، 1403ھ.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البيان في تأويل القرآن/تفسیر الطبری، تحقیق: احمد محمد شاكر، بیروت، الرسالة، 1420ھ،
  • طوسى، محمد بن حسن‌، المبسوط في فقه الإمامية، تحقیق: سيد محمد تقى كشفى‌، تهران، المكتبة المرتضوية، 1387ھ.
  • طوسی، محمد بن حسن، تهذيب الأحكام، تحقیق: حسن موسوی خرسان، تهران، دار الكتب الإسلامية، 1407ھ.
  • عبد الرزاق بن همام، تفسير عبد الرزاق، تحقیق: دار الكتب العلمية، 1419ھ.
  • عطاردی، عزیزالله، تحقیق نهج البلاغه، تهران، بنیاد نهج البلاغه، 1413ھ.
  • علامه حلی، حسن بن يوسف بن مطهر، تحرير الأحكام الشرعية على مذهب الإمامية، تحقیق: ابراهيم بهادرى‌، قم، مؤسسه امام صادق (ع)، 1420ھ.
  • علامه حلی، حسن بن يوسف بن مطهر، تذكرة الفقهاء، قم، مؤسسه آل البيت (ع)، 1414ھ.
  • علامه حلی، حسن بن يوسف بن مطهر، منتهى المطلب في تحقيق المذهب‌، مشهد، مجمع البحوث الإسلامية‌، 1412ھ.
  • قاضی نعمان، نعمان بن محمد، تأويل الدعائم، تحقیق: محمد حسن اعظمى‌، قاهره، دار المعارف‌، 1968-1972ء.
  • قاضی نعمان، نعمان بن محمد، دعائم الإسلام، تحقیق: آصف فيضی، قم، آل البيت (ع)، 1427ھ.
  • قاضی، وداد، الکیسانیة في التاریخ و الأدب، بیروت، دار الثقافة، 1974ء.
  • كلینی، محمد بن یعقوب، الكافی، قم، دار الحدیث، 1429ھ.
  • محقق حلی، جعفر بن حسن‌، شرائع الإسلام في مسائل الحلال و الحرام‌، تحقیق: عبدالحسين محمد على بقال‌، قم، مؤسسہ اسماعيليان‌، 1408ھ.
  • مفيد، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، كنگره جہانى ہزاره شيخ مفيد، 1413ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر و گروهی از نویسندگان، تفسیر نمونہ، تهران، دار الکتب الإسلامیة، 1374–1373ہجری شمسی.
  • مکارم شیرازی، ناصر، مديريت و فرماندهي در اسلام، قم، نسل جوان، 1389ہجری شمسی.
  • نجفى (صاحب جواهر)، محمد حسن‌، جواهر الكلام، تحقیق: عباس قوچانى؛ على آخوندى‌، بیروت، دار إحياء التراث العربي‌، 1404ھ.