نماز وتر

ویکی شیعہ سے

نماز وَتْر در حقیقت نماز شب کی گیارہ رکعتوں میں سے آخری رکعت ہے۔[1] یہ نماز اور نماز شفع ملکر نماز شب کا افضل ترین حصہ ہیں[2] اور نماز وتر کو نماز شب سے افضل بتایا گیا ہے۔[3]

لفظ وتر کچھ لوگوں کی نظر میں نماز شفع و وتر کی تین رکعتوں کو کہا گیا ہے۔[4]

لفظ وتر کو "واؤ" پر زبر() اور زیر دونوں کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے اور یہ لفظ، طاق اور اکیلے کے معنی میں ہے اور لفظ شفع کے مقابلے میں ہے۔[5]

نماز وتر کے احکام

نماز وتر میں صرف ایک رکعت ہوتی ہے اور یہ نماز مستحب ہے۔[6] بعض علماء کی نظر میں اس نماز کو سات تکبیروں کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔[7] اور سورہ حمد کے بعد، سورہ توحید پڑھنا مستحب ہے۔[8] اسی طرح سورہ حمد کے بعد تین بار سورہ توحید کو سورہ فلق اور سورہ ناس کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔[9]

نماز وتر کے قنوت میں پڑھنے کے لئے متعدد دعائیں وارد ہوئی ہیں جنھیں شیخ طوسی نے لاتعداد بتایا ہے۔[10] سفارش کی گئی ہے کہ انسان اپنے گناہوں کے عذاب کے سبب اس نماز کے قنوت میں گریہ کرے یا گریہ کی حالت پیدا کرے لیکن دنیاوی مشکلات کے بارے میں گریہ نہ کرے۔[11]

اسی طرح سفارش کی گئی ہے کہ چالیس یا اس سے زیادہ مومنین کے لئے دعائے مغفرت کرے اور اس صورت میں دعا کرنے والے کی آرزو بھی پوری ہوگی۔[12]

قنوت کے لئے ایک اور سفارش یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کو اوپر اٹھائے اور دائیں ہاتھ سے ذکر کو شمار کرے۔[13]

ستر بار استغفار کرنا[14] اور تین سو بار، ذکر العفو بھی نماز وتر کے قنوت کے مستحبات میں بیان ہوا ہے۔[15] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آپ نماز وتر کے قنوت میں سات بار جملہ «هذا مَقَامُ الْعَائِذِ بِكَ مِنَ النَّار: یہ اس بندے کا مقام ہے جو دوزخ سے بچنے کے لئے تیری پناہ میں آیا ہے» کو پڑھا کرتے تھے۔[16]

اس کے علاوہ، نماز وتر میں استغفار سے پہلے دشمنوں پر نفرین کی بھی سفارش کی گئی ہے۔[17]

قنوت اور رکوع بجا لانے کے بعد اور سجدے سے پہلے اس دعا کا پڑھنا مستحب کہا گیا ہے جو شیخ طوسی نے تہذیب میں بیان کی ہے۔[18]

نماز ختم کرنے کے بعد تسبیحات حضرت زہرا(س) کی سفارش کی گئی ہے۔[19] اسی طرح دعاؤں کی کتابوں میں موجود دوسری دعاؤں کی سفارش بھی کی گئی ہے۔[20]

کچھ علماء کی نظر میں جو شخص کسی بھی وجہ سے نماز وتر نہیں پڑھ سکتا ہے اس کے لئے نماز وتیرہ قرار دے گئی ہے جو کہ نماز عشا کے بعد میں پڑھی جاتی ہے اور نماز وتیرہ پڑھنے سے نماز وتر کی تلافی ہو جاتی ہے۔[21]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، جامعہ مدرسین، ج۱، ص۴۸۹۔
  2. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۳۹۰ھ، ج۱، ص۱۳۶۔
  3. النجفی، جواہر الکلام فی ثوبہ الجدید، ۱۴۲۱ھ، ج۴، ص۲۸۔
  4. ہمدانی، مصباح الفقیہ، موسسہ جعفریہ، ج۲، ص۸۔
  5. قرشی بنایی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ھ، ج۷، ص۱۷۸؛ کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ھ، ص۳۴۲۔
  6. الحسینی السیستانی، المسائل المنتخبۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۱۱۲۔
  7. طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ص۱۵۲۔
  8. قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۸۔
  9. قمی، مفاتیح الجنان،مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۸۔
  10. نک:طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ص۱۵۲؛ قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۹۔
  11. طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ص۱۵۲۔
  12. طوسی، مصباح المتہجد، ج۱، ص۱۵۵؛ قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۹۔
  13. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۴۸۹؛ قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۹۔
  14. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۴۸۹۔
  15. طوسی، مصباح المتہجد، ج۱، ص۱۵۵؛ قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۹۔
  16. شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۴۸۹۔
  17. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۴۸۹
  18. قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۹۔
  19. قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۶۰۔
  20. نک:طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ص۱۵۲؛ قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۹۔
  21. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۶ھ، ج۲، ص۳۳۰و۳۳۱۔

مآخذ

  • امام خمينی، سیدروح اللہ، تحرير الوسيلۃ، نجف، آداب، بی تا۔
  • سيستانی، سیدعلی، المسائل المنتخبۃ، نجف، مکتب آیت اللہ سیستانی، ۱۴۱۴ھ۔
  • صدوق، محمّد بن علی بابویہ قمی، من لا يحضرہ الفقيہ، قم، جامعہ مدرسین، بی‎تا۔
  • صدوق، محمّد بن علی بابویہ قمی، علل الشرایع، نجف، منشورات المكتبۃ الحيدريۃ، ۱۳۸۶ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشيعۃ، ۱۴۱۱ھ۔
  • قمی، عباس، مفاتيح الجنان، قم، مجمع إحياء الثقافۃ الإسلاميّۃ، بی‎تا۔
  • قرشی بنایی، علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۱۲ھ۔
  • كفعمى عاملى، ابراہيم بن على‌، المصباح- جنۃ الأمان الواقيۃ و جنۃ الإيمان الباقيۃ، قم، زاہدی، ۱۴۰۵۔
  • ہمدانی، آقارضا، مصباح الفقيہ، قم، موسسہ جعفریہ،بے ‎تا۔