سلام (نماز)

ویکی شیعہ سے

سلام، نماز کا آخری جزو ہے جسے تشہد کے بعد پڑھا جاتا ہے۔ سلام نماز کے غیر رکنی ارکان میں سے ہے اور سوائے نماز میت کے تمام نمازوں میں ایک دفعہ پڑھنا واجب ہے ۔

تعریف

لغوی اعتبار سے سلام س، ل، م سے مشتق ہے جس کا معنی سلامتی ،امنیت اور صلح کے ہیں [1]۔امیرالمؤمنین سے منقول ہے کہ آپ سے السلام علیکم کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا :جب یہ الفاظ کہے جاتے ہیں تو یہ سب کو مخاطب ہو کر کہا جاتا ہے کہ قیامت کے آپ سب عذاب الہی سے محفوظ ہیں۔[2]

اسی طرح امام جعفر صادقؑ ایک حدیث میں فرماتے ہیں: نماز کے آخر میں سلام امان ہے۔ یعنی جو شخص خدا کے حکم اور پیغمبر کی سنت پر خضوع و خشوع کے سلاتھ عمل کرتا ہے وہ دنیا اور آخرت کی ہر مصیبت اور بلا سے محفوظ رہے گا ۔[3]

نماز کا سلام

نماز میت کے علاوہ ہر نماز کی آخری رکعت میں تشہد کے بعد مجموعی طور پر درج ذیل تین سلام پڑھے جاتے ہیں:

  • اَلسَّلامُ عَلَیک اَیهَا النَّبِی وَ رَحْمَةُ اللَّـه وَبَرَکاتُهُ'
نبی اکرم ! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکت آپ پر نازل ہوں۔
  • اَلسَّلامُ عَلَینا وَ عَلی عِبادِ اللَّـه الصّالِحینَ'
ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔
  • اَلسَّلامُ عَلَیکمْ وَ رَحْمَةُ اللَّـه وَ بَرَکاتُهُ'
تم ہر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکت نازل ہو۔

[4]

مخاطبین

پہلے سلام کے مخاطب رسول خدا، دوسرے سلام کے مخاطب تمام مؤمنین اور اللہ کے صالح بندے جبکہ تیسرے سلام کے مخاطبین مبہم ہیں۔ بعض روایات میں اس کے مصادیق انسان پر موکل ملائکہ، تمام فرشتے یا تمام انبیا بیان ہوئے ہیں۔[5] یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نمازی پہلے سلام میں رسول خدا پر، دوسرے سلام میں تمام نماز گزاروں، انبیا، شائستہ بندگان خدا اور ملائکہ پر سلام بھیجتا ہے اور تیسرے سلام میں مجموعی طور پر اوپر مذکور تمام پر سلام بھیجتا ہے۔[حوالہ درکار]


حدیث معراج

حدیث معراج میں خداوند کریم نے رسول اللہ کو اپنے اور اپنے اہل بیت پر سلام بھیجنے پھر اپنے پیچھے صف بستہ فرشتوں پر سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ اس موقع پر رسول اللہ نے یوں سلام پیش کیا: اَلسَّلامُ عَلَیکمْ وَ رَحْمَةُ اللَّـه وَ بَرَکاتُهُ' [6]

نماز میں سلام کا سبب

نماز کے آخر میں حمد یا تسبیح کی بجائے سلام پھیرنے کی حکمت امام رضا علیہ السلام یون بیان فرماتے ہیں :نماز گزار نماز شروع کرنے کے ذریعے اپنے اوپر دوسری مخلوق سے گفتگو حرام قرار دیتا ہے اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اختتامِ نماز میں مخلوق کی جانب متوجہ ہونے کیلئے پہلی بات اور کلام سلام کے ذریعے کرتا ہے۔[7]

کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرمؑ، خدا کے نیک بندوں اور تمام نماز گزاروں پر سلام و درود بھیجنا نماز کا آخری جز ہے۔ نماز جو کہ مؤمن کی معراج ہے اور اس معراج کا آغاز "تکبیرۃ الاحرام" کے ذریعے ہوتا ہے اس کے آخر میں خدا کے نیک اور صالح بندوں پر "سلام " بھیجنے کے ذریعے معراج سے نیچے اترنے کا اعلان کرتے ہیں۔[8]

نماز میں سلام کے احکام

  • پہلا اور دوسرا سلام مستحب ہے یعنی نماز گزار صرف تیسرے سلام پر اکتفاء کر سکتا ہے۔[9]
  • اگر نمازی سلام پھیرنا بھول جائے اور نماز کی حالت سے خارج ہونے سے پہلے یاد آئے یعنی ابھی نماز کو باطل کرنے ولا کوئی عمدی یا سہوی کام انجام نہ دیا ہو تو نمازی کو چاہئے اسی وقت سلام پھیرے تو اس کی نماز صحیح ہو گی۔[10]

حوالہ جات

  1. معجم الوسیط ذیل سلم
  2. وسائل الشیعۃ، ج۶، ص۴۱۷، ابواب التسلیم۔
  3. مصباح الشریعۃ، ترجمہ مصطفوی، ص۷۲۔
  4. «ترجمہ تشہد و سلام نماز»، پایگاہ اطلاع رسانی آقا مجتبی تہرانی۔
  5. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۲، ص۳۰۶۔
  6. الکافی (ط - الإسلامیۃ)، ج‌۳، ص۴۸۶۔
  7. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۲، ص۳۰۶؛ و وسائل، ابواب تسلیم، باب ۱، ح ۱۱.۔
  8. «معنای سلام آخرر نماز»، مرکز ملی پاسخگویی بہ سؤالات دینی۔
  9. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۳۸۶ق، ج۱، ص۶۲۴۔
  10. سلام کے احکام

مآخذ

  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مصباح الشریعۃ، منسوب بہ جعفر بن محمد علیہ السلام، ترجمہ حسن مصطفوی، تہران، انتشارات انجمن اسلامی حکمت و فلسفہ ایران، چاپ اول، ۱۳۶۰ہجری شمسی۔
  • بحار الأنوار(ط- بیروت)، مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • وسائل الشیعۃ، شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، مصحح مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔