| یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
یہ مقالہ مس میت
کے بارے میں ہے۔ اسی نام کے غسل کے بارے میں جاننے کے لئے ،
غسل مس میت دیکھئے۔
مَسّ مَیِّت، میت (مردہ انسان) کو چھونے کے معنی میں ہے۔[1] فقہی کتابوں میں مس میت کے متعلق، احکام طہارت کے باب میں گفتگو ہوتی ہے۔[2]
مس میت سے مربوط احکام
- شیعہ فقہاء کے فتوے کے مطابق، مردہ انسان کے بدن کو چھونے سے اس وقت غسل واجب ہو جاتا ہے جب میت کا بدن ٹھنڈا ہو گیا ہو اور میت کو چھونا غسل میت سے پہلے ہو۔[3]
- معصوم کے بدن کو چھونا، میدان جنگ میں ہونے والے شہید اور وہ شخص جس نے حد یا قصاص جاری ہونے سے پہلے غسل کیا ہو یہ تمام چیزیں غسل میت کا سبب نہیں ہوتی ہیں۔[4] البتہ بعض فقھاء نے یہ احتمال دیا ہے کہ شہید کے بدن کو چھونا غسل مس میت کا سبب ہوتا ہے۔[5]
- فقہا کی مشہور نظر کے مطابق، مسّ میت وضو کو باطل نہیں کرتا ہے۔[6] البتہ بعض فقہاء کا یہ نظریہ ہے کہ مس میت وضو کو باطل کر دیتا ہے۔[7]
- اکثر مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق، انسان کے بدن سے جدا عضو کا چھونا، جب اس میں ہڈی ہو تو غسل کا سبب ہو جاتا ہے۔[8] اسی کے مقابلہ میں آیت اللہ سیستانی معتقد ہیں کہ بدن سے جدا عضو کا چھونا، چاہے اس میں ہڈی اور گوشت ہی کیوں نہ ہو غسل کا سبب نہیں بنتا۔[9]
- بعض فقھاء کی نظر کے مطابق، غسل مس میت صرف ان امور کے لئے واجب ہے جن میں وضو کی ضرورت ہوتی ہے؛ جیسے نماز اور قرآن کے الفاظ کو چھونا۔ بعض لوگ مس میت کو حدث اکبر جانتے ہیں۔ اس بناء پر مس میت کا ان تمام اعمال کے لئے انجام دینا ضروری ہے جن میں طہارت کی شرط ہے جیسے نماز، طواف، روزہ اور مسجد میں ٹھہرنا۔[10]
متعلقہ مضمون
حوالہ جات
مآخذ
|
---|
| اعتقادات | |
---|
| احکام اموات |
|
---|
| اموات سے متعلق | |
---|
| مربوطہ | |
---|
|