مہر المثل
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
![]() |
مَہرُ الْمِثل سے مراد وہ مہریہ ہے جسے ایک مرد اور عورت کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد مقرر کیا جاتا ہے؛ جبکہ عقد نکاح کے وقت اس کی تصریح نہیں کی گئی ہو اور زوجین کے مابین جماع بھی متحقق ہوچکا ہو۔ مہر المثل کا تعلق عقد دائم سے ہے عقد موقت سے نہیں ہے۔ اگر عقد موقت میں مہریہ متعین نہ ہو تو سرے سے نکاح ہی باطل ہے۔
فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق کسی عورت کے مہر المثل کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ عورت کی حیثیت پر توجہ دی جائے اور اس کا تعین عورت کی عمر، حُسن و جمال، بکارت اور خاندانی حیثیت جیسے معیارات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
شیعہ مرجع تقلید ناصر مکارم شیرازی کے فتویٰ کے مطابق غیر معمولی مہریے جیسے ایک ہزارسکہ بہار آزادی (ایران میں رائج سونے کا سکہ) وغیرہ باطل ہیں اور شرعی نقطہ نگاہ سے اس طرح کے مہریے مہر المثل میں تبدیل جاتے ہیں۔
مفہوم شناسی
"مہر المثل" سے مراد وہ مہریہ ہے جو شادی بیاہ کے بعد مقرر کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے مہریے کا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک مرد اور عورت نے نکاح دائم کی بنیاد پر شادی کی ہو اور جماع بھی متحقق ہوچکا ہو لیکن عقد نکاح میں مہریے کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔[1]
مہر المثل کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟
فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق ایک عورت کے لیے مہر المثل کا تعین کرنے کے لیے شان و حیثیت کے لحاظ سے اس کی مساوی یا اس سے ملتی جلتی عورتوں کے مہریے کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔[2] 13ویں صدی کے شیعہ فقیہ محمد حسن نجفی کہتے ہیں کہ مہر المثل کے تعین میں عورت کی خاندانی حیثیت، حُسن و جمال، عمر، بکارت، مال و دولت اور دیگر دوسری خصوصیات جن سے عورت کی حیثیت متمایز ہوتی ہے، کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔[3]
کن صورتوں میں مہر المثل کا تعین کیا جائے؟
فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق بیوی درج ذیل صورتوں میں مہر المثل کی حقدار ہے:
- دائمی عقد میں جب مہریے کا تعین نہ کیا گیا ہو اور ہمبستری بھی ہوچکی ہو۔[4] نکاح متعہ میں مہرالمثل نہیں ہوتا لہذا اگر نکاح کے وقت مہریہ متعین نہ ہو تو سرے سے عقد ہی باطل ہے۔[5]
- شبہہ ناک جماع کی صورت میں،[6] بشرطیکہ شک دونوں کے لیے یا صرف عورت کے لیے پیش آیا ہو؛ لیکن اگر عورت حرمت جماع سے واقف ہو تو وہ مہر المثل کی حقدار نہیں ہے۔[7]
- اگر مہریہ مبہم اور غیر واضح ہو۔ مثال کے طور پر اگر مہریہ قرآن مجید کی سورتوں میں سے کسی سورت کی تعلیم ہو اور اس سورت کی تصریح نہ کی گئی ہوتو مہریہ باطل ہے اور اگر ہمبستری متحقق ہوجائے تو مرد پر لازم ہے کہ وہ مہر المثل ادا کرے۔[8]
- اگر کوئی مرد مرتد ہو جائے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اسے اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے کا حق نہیں ہے تو شیخ طوسی جیسے فقہاء نے کہا ہے کہ اس شخص کو مہر المسمی(عقد کے دوران متعین شدہ مہریہ) کے علاوہ مہر المثل بھی ادا کرنا ہوگا۔[9]
- اگر کافر زوجین اسلام قبول کریں یا صرف مرد اسلام قبول کرے تو بعض فقہاء کے مطابق ان کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور اگر ہمبستری متحقق ہوجائے تو عورت کو مہر المثل دیا جائے گا۔[10]
- شیعہ مرجع تقلید مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ غیر معمولی مہریے جیسے بہار آزادی کے ہزار سکے(ایران میں رائج سونے کے سکے)، شرعی لحاظ سے باطل ہیں اور یہ خود بخود مہر المثل میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔[11]
ایرانی شہری قانون میں مہرالمثل کی حیثیت
ایرانی شہری قانون میں مہر المثل کا ذکر ملتا ہے۔ ضابطہ دیوانی کی دفعہ 1087 کے مطابق اگر دائمی نکاح میں مہریہ کا تعین نہ کیا گیا ہو یا مہریہ نہ رکھنے کی شرط کی جائے تو عقد تو صحیح ہے لیکن مہریہ کا تعین ضرور ہونا چاہیے۔ اگر ہمبستری متحقق نہیں ہوئی ہے تو مرد اور عورت باہمی رضامندی سے کسی بھی مقدار پر اتفاق کرسکتے ہیں؛ لیکن اگر آپس میں مقدار کے سلسلے میں اتفاق نہ کیا جائے اور جنسی رابطہ متحقق پایا ہو تو عورت مہر المثل کی حقدار ہے۔[12] اس کے علاوہ، ضابطہ دیوانی کی دفعہ 1090 کے مطابق، اگر مہر کا تعین عورت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ مہر المثل سے زیادہ کا تعین نہیں کر سکتی۔[13]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1382شمسی، ج6، ص39۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1382شمسی، ج6، ص42۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج31، ص52۔
- ↑ شبیری زنجانی، کتاب النکاح، مؤسسہ رایپرداز، ج9، ص3111۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1382شمسی، ج1، ص137۔
- ↑ طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، 1409ھ، ج2، ص808؛ شبیری زنجانی، کتاب النکاح، موسسہ رایپرداز، ج4، ص1258۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج32، ص378-379۔
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص269۔
- ↑ شبیری زنجانی، کتاب النکاح، موسسہ رای پرداز، ج17، ص5600۔
- ↑ شہید ثانی، مسالک الأفہام، 1425ھ، ج8، ص162۔
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1382شمسی، ج1، ص20۔
- ↑ محقق داماد، بررسی فقہی حقوق خانوادہ، 1384شمسی، ص251۔
- ↑ محقق داماد، بررسی فقہی حقوق خانوادہ، 1384شمسی، ص251۔
مآخذ
- شبیری زنجانی، سید موسی، کتاب النکاح، قم، موسسہ رای پرداز، بیتا۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الاسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، چاپ سوم، 1425ھ۔
- طباطبائی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1409ھ۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، موسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
- محقق داماد، سید مصطفی، بررسی فقہی حقوق خانوادہ نکاح و انحلال آن، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، چاپ یازدہم، 1384ہجری شمسی۔
- مدرسی، سید محمدتقی، احکام خانوادہ و آداب ازدواج، قم، انتشارات محبان الحسین، چاپ پنجم، 1388ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسۃ الامام امیر المؤمنین، 1382ہجری شمسی۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، تحقیق محمود قوچانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، بیتا۔
- ہاشمی شاہرودی، سید محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، قم، موسسۃ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ سوم، 1390ہجری شمسی۔