حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ

ویکی شیعہ سے
(فاطمہ کے گھر پہ حملہ سے رجوع مکرر)
حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ
زمانسنہ 11 ہجری
دورہخلافت ابوبکر
مکانمدینہ - حضرت فاطمہؑ کا گھر
سبببعض صحابی جنہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور حضرت زہراؑ کے گھر پناہ لی۔
مقاصدحضرت علیؑ سے ابوبکر کے لئے بیعت لینا۔
عناصرعمر بن خطاب، عبدالرحمان بن عوف و۔۔۔
اثراتفاطمہؑ کے گھر میں آگ، سقط محسن، شہادت حضرت زہراؑ
مربوطبنی‌ ہاشم کا محلہ، شهادت حضرت فاطمہؑ اور تشییع و تدفین حضرت فاطمہؑ


حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جو عمر بن خطاب اور ان کے ساتھی پیغمبر اکرمؐ کی بیٹی کے گھر کے سامنے امام علیؑ اور گھر پر موجود دیگر افراد سے ابوبکر کے لئے بیعت لینے حاضر ہوئے تھے۔ شیعہ اور اہل سنت کے مآخذ میں نقل ہوا ہے کہ یہ واقعہ پیغمبر اکرمؐ کی 28 صفر سنہ 11 ہجری کو رحلت کے بعد واقع ہوا جس میں عمر بن خطاب نے یہ دھمکی دی کہ اگر گھر والے باہر نہ نکلے تو اس گھر کو آگ لگا دیں گے۔

کتاب سلیم بن قیس ہلالی، اثبات الوصیہ اور تفسیر عیاشی جیسی شیعہ ابتدائی مصادر میں اس طرح سے نقل ہوا ہے کہ اس واقعے میں دروازہ توڑا گیا اور آگ لگائی گئی اس کے نتیجہ میں محسن بن علیؑ بطن حضرت زہرا میں سقط ہو گئے اور کچھ مدت کے بعد خود حضرت زہراؑ بھی شہید ہو گئیں۔ اہل سنت کے مآخذ، دروازے کو آگ لگانے اور حضرت زہراؑ کے زخمی ہونے کو انکار کرتے ہوئے اس واقعہ کے راویوں کو رافضی ہونے سے متہم کرتے ہیں۔

ابوبکر کا اپنی خلافت کے مقام کو مستحکم و استوار کرنے لئے حضرت علیؑ کی بیعت کو ضروری سمجھنا اور حضرت علیؑ کا اس بیعت سے انکار کرنا، اس واقعہ کے اہم اسباب میں سے جانے جاتے ہیں۔

تاریخ اسلام کے محقق محمد ہادی یوسفی غروی کے مطابق یہ واقعہ رحلت پیغمبرؐ کے تقریباً 50 دن بعد پیش آیا۔

کتاب سلیم بن قیس ہلالی اور کتاب الامامہ و السیاسہ کے مطابق، جب ابوبکر اور عمر نے حضرت زہراؑ سے ملاقات کی تو آنحضرت نے حدیث بضعۃ کو یاد دلانے کے ساتھ خدا کو گواہ بنایا کہ ان دونوں نے انہیں اذیت پہنچائی اور غضبناک کیا۔ اہل سنت کی کتابوں کے مطابق ابوبکر سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی عمر کے آخری لمحات میں کہا کہ اے کاش فاطمہ کے گھر میں گھسنے کی اجازت نہ دی ہوتی۔

اہمیت

حضرت زہراؑ کے گھر پہ حملے کا واقعہ، سقیفہ کے واقعہ کے بعد، خلافتِ ابوبکر کے لئے حضرت علیؑ کی بیعت حاصل کرنے کی غرض سے پیش آیا۔[1] اور حضرت فاطمہؑ کی شہادت پر تمام ہوا۔[2] اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو شیعہ اور اہل سنت کے درمیان آپسی تعلقات کے سلسلے میں کافی اثردار واقع ہوا ہے۔ شیعوں کی بعض ابتدائی مرجع کتابیں جیسے کتاب سلیم، اثبات الوصیۃ، تفسیر عیاشی اور دلائل الامامۃ میں اس حملے کی داستان اور اس کے اثرات نقل کئے گئے ہیں۔[3] اور دوسری طرف اہل سنت کی کتابوں میں دروازے میں آگ لگانے اور جناب محسن ابن علی کے سقط ہونے سے انکار کیا گیا ہے نیز اس کے راویوں کو بھی رافضی و غیر موثق قرار دیا گیا ہے۔[4]

ایام فاطمیہ میں شیعوں کی عزاداری

شیعہ حضرات، حضرت زہراؑ کی شہادت کے ایّام کو ایام فاطمیہ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ان کی شہادت کے عنوان سے عزاداری کرتے ہیں۔[5]

حضرت فاطمہؑ کے گھر اور گھر والوں کا مقام

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: اہل بیت اور حضرت فاطمہ کا گھر


شیعہ اور سنی روایات میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ و علیؑ کے گھر کو سب سے بہترین گھر قرار دیا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں « فىِ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَ الاَْصَال؛ (یہ ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں خدا کا نام لیا جائے ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔»[6]

شیعہ اور اہل سنت کتابوں میں آیات قرآن کا شأن نزول، حضرت فاطمہؑ کے اہل خانہ حضرت علیؑ، فاطمہ زہراؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو شمار کیا گیا ہے، جیسے آیہ اطعام[7] اور آیہ تطہیر[8]۔

حضرت فاطمہ کے گھر کا ابھی کا محل وقوع، ستون مربعۃ القبر کے ساتھ (تصویر میں 7 نمبر)

علل و اسباب

پیغمبر اکرمؑ کی رحلت کے بعد کچھ مہاجرین و انصار نے اس اجتماع میں جو سقیفہ بنی ساعدہ میں وجود میں آئی، خلافت ابوبکر کی موافقت کی اور ان کی بیعت کر لی۔[9] ابن کثیر کے مطابق آنحضرتؐ کی تدفین سے قبل ہی ابوبکر کی بیعت کر لی گئی تھی۔[10] اور اسی وقت امام علیؑ آنحضرتؐ کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے۔[11]

پیغمبر اکرمؐ نے دسویں ہجری 18 ذی الحجہ کو حجۃ الوداع سے واپسی کے وقت علی ابن ابی طالبؑ کو اپنے خلیفہ و جانشین کے عنوان سے پہچنوایا تھا۔[12] اور عمر بن خطاب اس دن مبارک بادی دینے والے افراد میں شامل تھا۔[13]

’’کتاب تاریخ تشیع‘‘ کے مصنف حسین محمد جعفری کے مطابق عمر اور ابوبکر کو حضرت علیؑ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے شدید مخالفت کا خوف لاحق تھا اس لئے ان سے بیعت لینے لگے اور جب انکار کی صورت سامنے آئی تو زور آزمائی کا مظاہرہ کرنے لگے۔[14]

واقعہ کی تفصیل

تیسری صدی ہجری کے مورخ یعقوبی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ میں کچھ صحابہ جیسے عباس بن عبدالمطلب، فضل بن عباس، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر اور براء بن عازب نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا تھا۔ [15] پندرہویں صدی کے تاریخ کے محقق سید مرتضی عسکری کے مطابق جن لوگوں نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا تھا وہی لوگ حضرت علیؑ کے ساتھ حضرت فاطمہؑ کے گھر میں پناہ لئے ہوئے تھے۔[16] طبری کے مطابق طلحہ اور زبیر بھی ان افراد میں شامل تھے۔[17]

علیؑ اور ان کے ساتھیوں سے بیعت کے لئے ابوبکر کا حکم

ابوبکر اپنی بیعت کے بعد ان صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے جنہوں نے ابھی تک ان کی بیعت نہیں کی تھی۔[18] ابن قتیبہ کی کتاب الامامہ و السیاسہ کے مطابق ابوبکر نے چار مرتبہ عمر اور قنفذ کو حضرت فاطمہؑ کے گھر بھیجا تاکہ علیؑ اور وہ لوگ جو اس گھر میں ہیں ان سے بیعت لی جائے۔[19]

اس نقل کے مطابق پہلی مرتبہ میں امام علیؑ کے علاوہ باقی گھر پر موجود مرد عمر کی دھمکی کی وجہ سے گھر سے باہر آئے اور بیعت کر لی۔ لیکن امام علیؑ نے کہا کہ انہوں نے قرآن کی جمع آوری ختم ہونے تک گھر سے باہر نہ آنے کی قسم کھائی ہے۔ پھر ابوبکر نے دوسری اور تیسری مرتبہ قنفذ کو حضرت فاطمہ کے گھر بھیجا اور اسے بھی مثبت جواب نہیں ملا۔ چوتھی مرتبہ عمر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ در سیدہؑ پہ گیا اور علیؑ کو باہر نکال کے ابوبکر کے پاس لے آیا۔[20]

تاریخ اسلام و تشیع کے محقق محمد ہادی یوسفی غروی کے مطابق ابوبکر نے تین مرتبہ لوگوں کو حضرت علیؑ سے بیعت لینے کے لئے بھیجا۔ پہلی اور دوسری مرتبہ امامؑ نے انہیں واپس کر دیا اور لیکن تیسری مرتبہ میں خلیفہ اور ان کے ساتھیوں نے شدت عمل کا مظاہرہ کیا۔[21]

امام علیؑ نے رحلت پیغمبرؑ کے بعد پیش آنے والے واقعات کے بارے میں فرمایا

جب اللہ نے اپنے رسول کو اپنے پاس بلا لیا تو لوگ اپنے ماضی کی طرف واپس پلٹ گئے اور مختلف راستوں سے ہوکر گمراہی تک پہنچ گئے اور جن کو خود اختیار کیا تھا ان سے دوستی کر لی اور اپنے رشتہ داروں سے جدا ہو گئے۔ جن سے دوستی کا حکم دیا گیا تھا ان سے الگ ہو گئے اور اپنی جڑوں کو اکھاڑنے کے بعد دوسری جگی بسیرا کر لیا

شهیدینهج البلاغه، خطبه 150،

شیخ مفید سے منسوب کتاب الاختصاص میں آیا ہے کہ جب علیؑ کو مسجد النبی کی طرف لے جارہے تھے تو زبیر جو حضرت فاطمہ کے گھر پر پہلے سے موجود تھے، اپنی تلوار نکال کر کہنے لگے: اے عبد المطلب کے بیٹوں! تم زندہ ہو اور علیؑ کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے؟ زبیر نے جیسے ہی عمر پہ حملہ کرنے کے لئے اپنی تلوار اٹھائی، خالد بن ولید نے ایک پتھر اٹھا کر زبیر کی طرف پھینکا جس سے ان کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی، عمر نے تلوار اٹھائی اور پتھر پر دے مارا جس سے تلوار ٹوٹ گئی۔[22] تیسری ہجری کے مورخ طبری کے مطابق زبیر جب فاطمہؑ کے گھر سے نکلے تو ان کے پیر لڑکھڑا گئے اور تلوار ان کے ہاتھ سے گر گئی۔[23]

اس کے بعد علیؑ کو ابوبکر کے پاس لے گئے اوربیعت نہ کرنے کی صورت میں گردن اڑانے کی دھمکی دی گئی۔[24] کتاب سلیم بن قیس ہلالی میں آیا ہے کہ علیؑ نے ان کے سامنے اپنی دلیلیں رکھیں اور جو لوگ وہاں حاضر تھے ان کو روز غدیر اور دوسرے مقامات پر پیغمبرؐ نے علیؑ کی جانشینی کے بارے میں جو کچھ بھی کہا تھا سب یاد دلایا لیکن ابوبکر نے کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ پیغمبرؐ نے فرمایا نبوت و خلافت ان کے اہلبیت میں جمع نہیں ہو سکتی۔[25]

شیخ مفید کے مطابق حضرت علیؑ نے سقیفہ کے روز ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی لیکن اس کے بعد بیعت کی یا نہیں اس سلسلہ میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں جیسے کہ چالیس دن بعد یا چھ ماہ بعد یا حضرت فاطمہؑ کی شہادت کے بعد بیعت کر لی تھی۔ جب کہ خود شیخ مفید کے مطابق حضرت علیؑ نے کبھی بھی بیعت نہیں کی تھی۔[26]

ایک روایت کی بنا پر جب علیؑ کو دھمکی دی گئی کہ اگر بیعت نہ کی تو گردن کاٹ دی جائے گی اس وقت پیغمبرؐ کے چچا عباس نے علیؑ کی مدد کے لئے ان کا ہاتھ پکڑا اور ابوبکر کے ہاتھ سے جدا کیا تو ان لوگوں نے بھی رہا کر دیا۔[27] لیکن الامامہ و السیاسہ کی نقل کے مطابق ابوبکر نے کہا کہ جب تک علی کے ساتھ فاطمہ ہیں انہیں بیعت کے لئے مجبور نہیں کریں گے۔[28]

حضرت فاطمہؑ کا ردّ عمل

جب پہلی مرتبہ ابوبکر کے آدمی حضرت علیؑ اور ان کے ساتھیوں کو لینے کے لئے حضرت فاطمہؑ کے گھر آئے تو آنحضرتؑ پشت در تشریف لائیں اور فرمایا: تم سے بدتر میں نے کسی قوم کو نہیں دیکھا کہ تم نے جنازہ رسول کو ہمارے سامنے چھوڑ کر مسئلہ خلافت کا فیصلہ کر لیا اور ہم سے ہمارا نظریہ بھی نہ پوچھا اور ہم کو ہمارے حق سے بھی محروم رکھا۔»[29]

جب چوتھی مرتبہ حضرت علیؑ کو لینے کے لئے عمر آیا تو حضرت فاطمہؑ نے فریاد کی: اے بابا جان! اے اللہ کے رسول! آپ کے بعد عمر بن خطاب اور ابوبکر بن قحافہ نے ہمارے ساتھ کیا کیا نہیں کیا! عمر کے بعض ساتھیوں نے جب یہ سنا تو بہت متأثر ہوئے اور واپس پلٹ گئے۔[30]

یعقوبی کے مطابق فاطمہؑ نے ان لوگوں سے خطاب کیا جو زبردستی گھر میں داخل ہو گئے تھے: خدا کی قسم اگر تم لوگ گھر سے باہر نہ گئے تو انصاف کا مطالبہ کرونگی۔ حضرت فاطمہؑ کی اس گفتگو سے جو لوگ گھر میں داخل ہو گئے تھے واپس چلے گئے۔[31]

ابوبکر جوہری (متوفی سنہ 323 ھ) نے اپنی کتاب السقیفہ و فدک میں نقل کیا ہے کہ جب عمر نے حضرت علیؑ کو زبردستی گھر سے باہر نکالا تو فاطمہؑ پشت در آ گئیں اور ابوبکر کو خطاب کر کے فرمایا: تم لوگ کتنی جلدی رسول اللہ کے اہل بیت پر حملہ کرنے لگے! خدا کی قسم میں عمر سے کبھی بات نہ کرونگی یہاں تک کہ اپنے پروردگار سے ملاقات کر لوں۔[32] [یادداشت 1]اسی حدیث میں آگے آیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد ابوبکر فاطمہؑ کے پاس گئے اور عمر کے لئے شفاعت بھی کی اور فاطمہؑ اس سے راضی ہو گئیں۔[33] اس کے باوجود وہ روایت جو صحیح بخاری میں آئی ہے کہ مسئلہ فدک کی وجہ سے حضرت زہراؑ ابوبکر سے ناراض تھیں اور جب تک زندہ رہیں ان سے راضی نہ ہوئیں اور نہ ان سے کبھی بات کی۔[34]

تفسیر عیاشی میں آیا ہے کہ جب حضرت علیؑ کو گھر سے باہر لے گئے تو حضرت فاطمہؑ امام حسنؑ و حسینؑ کو لیکر ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا: اگر علیؑ کو نہ چھوڑوگے تو میں قبر پیغمبرؐ پہ جاؤنگی اور اپنے کھلے بالوں کے ساتھ اللہ سے شکایت کرونگی۔ امام علیؑ نے سلمان کو حضرت فاطمہؑ کے پاس بھیجا کہ وہ ایسا کام نہ کریں۔ جیسے ہی فاطمہؑ نے حضرت علیؑ کا پیغام سنا اپنے گھر واپس آ گئیں۔[35]

گھر پر آگ لگانے کی دھمکی

ابوبکر کے حکم سے عمر بن خطاب حضرت فاطمہؑ کے گھر آیا تاکہ علیؑ اور ان کے ساتھیوں کو بیعت کے لئے لے جائے۔ اور جیسے ان لوگوں نے جانے اور بیعت سے انکار کیا تو عمر نے لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیتے ہوئے دھمکی دی کہ گھر کو اس میں رہنے والوں کے ہمراہ آگ لگا دی جائے گی۔ عمر کی گھر کو آگ لگانے والی دھمکی اہلسنت کی بعض کتابوں جیسے العقد الفرید،[36] تاریخ طبری،،[37] انساب الاشراف،[38] المصنَّف،[39] اور الامامۃ و السیاسۃ[40] میں نقل ہوئی ہے۔ تیسری اور چوتھی ہجری کے ادیب و مورخ ابن عبد ربہ کے مطابق، ابوبکر نے عمر سے کہا اگر اہل خانہ گھر سے باہر نہ آئیں تو ان سے جنگ کرنا۔ عمر نے بھی مشعل کو ہاتھ میں لیکر آواز دی کہ اگر اہل خانہ نے بیعت نہیں کی تو گھر کو آگ لگا دی جائے گی۔[41] الامامہ و السیاسہ کے مطابق جب عمر نے یہ دھمکی دی تو اس سے کہا گیا کہ اس گھر میں فاطمہؑ ہیں۔ عمر نے جواب دیا چاہے فاطمہ ہی کیوں ہوں۔[42]

جو لوگ عمر کے ساتھ اس حملہ میں شامل تھے تاریخ کی کتابوں میں ان کے نام بیان ہوئے ہیں: اُسَید بن حُضَیر، سَلَمَۃ بن سَلامۃ بن وقش،[یادداشت 2] ثابت بن قَیس بن شَمّاس خزرجی‏[43] عبدالرحمان بن عوف، محمد بن مسلمہ[44] اور زید بن اَسلم۔ [45]

سید جعفر شہیدی کے مطابق عمر کا حضرت فاطمہؑ کے گھر کو آگ لگانا جو اہل سنت کی کتاب انساب الاشراف[46] اور العقد الفرید[47] میں نقل ہوا ہے یہ شیعہ حامیوں یا ان سے متفق سیاسی ٹھیکیداروں کے ذریعہ من گھڑت یا جعل نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ ابتدائے صدی میں نہ تو ان کے پاس اقتدار تھا بلکہ وہ اقلیت میں بھی تھے۔ اس کے علاوہ یہ دستاویز مغرب اسلامی کے مآخذ میں بھی درج ہے جہاں شیعہ موجود نہیں تھے۔[48] شہیدی کا خیال ہے کہ سقیفہ میں موجود افراد دین سے زیادہ حکومت کے فکرمند تھے۔[49]

دروازہ پہ آگ لگانا، حضرت فاطمہؑ کا زخمی ہونا اور محسن کا سقط

شیعوں کے بعض قدیم مآخذ میں نقل ہوا ہے کہ حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ کی صورت میں دروازہ کو آگ لگا دی گئی اور بی بیؑ زخمی ہو گئیں اور محسن شہید ہو گئے۔ کتاب سُلیم بن قیس میں آیا ہے کہ عمر بن خطاب نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا اور در سیدہ پہ آگ لگا کر گھر میں داخل ہو گیا اور جب حضرت زہراؑ کی مقاومت دیکھی تو غلاف شمشیر سے بی بیؑ کے پہلو پہ مارنے لگا۔[50] اسی طرح چوتھی ہجری قمری کے مورخ علی بن حسین مسعودی کی کتاب اثبات الوصیہ کے مطابق: گھر پہ حملہ کیا، دروازہ کو آگ لگائی، علیؑ کو زبردستی گھر سے باہر لے گئے اور سیدۂ عالم کو دروازہ کے پیچھے ایسا فشار دیا کہ جناب محسن بطن مادر میں شہید ہو گئے۔»[51] دلائل الامامہ کے مطابق عمر نے قنفذ کو حکم دیا کہ وہ فاطمہ کو مارے۔[52]

زمانۂ غیبت صغری کے شیعہ محدث عیاشی نے بھی کہا ہے کہ حضرت فاطمہؑ کا دروازہ جو کھجور کی شاخ سے بنا تھا اسے عمر نے اپنے پیروں سے ٹھوکر مار کے توڑا اور گھر میں داخل ہو کر علیؑ کو گھر سے باہر لے آیا۔[53]

واقعے کا وقت

تاریخ اسلام و تشیع کے محقق محمد ہادی یوسفی غروی شواہد کی بنا پر معتقد ہیں کہ حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ واقعہ سقیفہ اور ابوبکر کی بیعت کے فورا بعد نہیں تھا بلکہ تقریبا پچاس دن یا اس سے زیادہ رحلت پیغمبرؐ کے بعد پیش آیا۔[54] اس مسئلہ پر سب سے پہلا گواہ اور شاہد یہ ہے کہ ایک شخص بُرَیدۃ بن حُصَیب اَسلمی جو سپاہ اسامہ کے ساتھ موتہ کی طرف گیا تھا وہ جب مدینہ واپس آیا اور سقیفہ کے ماجرے سے با خبر ہوا تو اپنے قبیلہ کے کچھ افراد کے ساتھ حضرت علیؑ کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ جب تک علی بیعت نہ کریں ہم بھی بیعت نہیں کریں گے۔ اس ماجرے کے بعد ہی خلیفہ اور ان کے ساتھی علیؑ سے بیعت لینے کے لئے نکل پڑے۔ یوسفی غروی کے مطابق اگر سپاہ کے آنے جانے کا وقت اور اس کے قبل و بعد کے حوادث پر نظر کی جائے تو گھر پر حملے کا واقعہ رحلت پیغمبرؐ کے پچاس دن بعد پیش آیا ہے۔[54]

نتائج

در فاطمہؑ پہ حملے کے بعض نتائج یہ ہیں:

فاطمہؑ کی عمر و ابوبکر سے ناراضگی

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: حدیث بضعۃ


کتاب سلیم بن قیس، الامامۃ و السیاسۃ اور دلائل الامامۃ میں آیا ہے کہ در فاطمہؑ پر حملے کے بعد ابوبکر اور عمر عذر خواہی اور رضایت فاطمہؑ کو حاصل کرنے لئے آمادہ ہوکر ان سے ملاقات کے لئے آئے۔ فاطمہؑ نے انہیں اجازت نہیں دی لیکن ان دونوں نے حضرت علیؑ کو واسطہ بنایا اور حضرت فاطمہؑ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بی بیؑ نے ان دونوں سے اپنے چہرے کو پھیر لیا اور پیغمبر کی اس حدیث «فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی» کو یاد دلایا پھر فرمایا کہ میں خدا کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے اذیت بھی دی اور غضبناک بھی کیا۔[55] [یادداشت 3]

محسن کا سقط اور سیدہؑ کی شہادت

گھر پر حملے کی داستان میں محسنؑ کے سقط ہونے کا حوالہ دینے والا سب سے قدیم مآخذ پہلی صدی ہجری کے ذرائع سے سُلیم ابن قیس کی کتاب ہے اور بعد میں آنے والے زیادہ تر مآخذ جیسے احمد بن علی طبرسی کی تألیف الاحتجاج، سید ہاشم بحرانی کی تألیف غایۃ المرام و حجۃ الخصام اور علامہ مجلسی کی تألیف بحارالانوار میں اسی کتاب سے نقل کیا گیا ہے۔[56]

ابوبکر کی پشیمانی

اہل سنت کے بعض مآخذ جیسے تاریخ مدینہ دمشق،[57] اِبن عَساکِر کی تألیف اَلمُعْجَمُ الکَبیر،[58] تألیف طَبَرانی اور ذہبی کی تألیف تاریخ الاسلام[59] میں آیا ہے کہ ابوبکر اپنی عمر کے آخری حصہ میں تین کام کرنے سے پشیمان ہوئے اور اظہار افسوس کیا اور کہتے تھے کہ کاش فاطمہ کے گھر میں گھسنے کی اجازت نہ دی ہوتی۔

اہل سنت کا نظریہ

حضرت فاطمہؑ کے گھر پر عمر کی آگ لگانے والی دھمکی سے متعلق اہل سنت کے مآخذ جیسے انساب الاشراف،[60] تاریخ طبری،[61] العقد الفرید،[62] المصنَّف،[63] اور الامامۃ و السیاسۃ[64] میں آیا ہے لیکن گھر کے دروازہ میں آگ لگانے، فشارِ در کی وجہ سے حضرت فاطمہؑ کے زخمی ہونے اور محسن کے سقط ہونے سے انکار کرتے ہوئے ایسی روایات کے راویوں کو رافضی ہونے سے متہم کرتے ہیں۔

مِلل و نِحل کے مصنف محمد بن عبد الکریم شہرستانی جو اشعری مذہب تھے انہوں نے اپنی کتاب میں معتزلہ کے ایک فرقہ ہزیلیہ کے متعلق لکھا کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ بیعت والے دن عمر نے فاطمہ کو زخمی کیا جس کی وجہ سے بطن مادر میں محسن شہید ہوئے۔ شہرستانی نے اس مطلب کو جھوٹ کہا ہے۔[65]

خلیل بن ایبک صفدی (متوفی 746 ہجری) نے اپنی کتاب الوافی بالوفیات میں ابراہیم بن سیار کی معرفی کرتے ہوئے جو نَظام کے نام سے معروف اور معتزلہ کے بزرگان میں شمار ہوتے تھے، انہیں رافضہ کی طرف مائل سمجھتے ہیں اور ان کا ایک قول نقل کیا ہے کہ عمر نے فاطمہ کو زخمی کیا جس کے اثر سے محسن سقط ہو گئے۔[66]

مونوگراف

حضرت فاطمہ کے گھر پر حملہ کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • الهجوم علی بیت فاطمة علیها السلام، بقلم مهدی عبدالزهرا، یہ کتاب عربی میں لکھی گئی ہے اور جس میں حملے کو شیعہ اور اہل سنت مآخذ سے بیان کیا ہے۔[67]
  • حقیقت ہجوم بہ خانہ حضرت فاطمہ زہراؑ از منابع عامہ جسے جعفر تبریزی نے فارسی میں تدوین کیا ہے۔ مصنف کے مطابق اس کتاب میں پیغمبر اکرمؑ کی رحلت کے بعد حضرت زہرا پر پیش آنے والے واقعات کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں اس حملے کو اہل سنت کے مصادر سے بیان کرنے اور اس حوالے سے کئے جانے والے شبہات کے جوابات بیان ہوئے ہیں۔[68] یہ کتاب «الهجوم علی بیت السیده فاطمه الزهراء(ع) من الاعتداء الی الاعتراف (بلسان مصادر اهل السنه و الجماعه)» کے عنوان سے عربی میں ترجمہ بھی ہوئی ہے۔[69]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31۔
  2. طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص134۔
  3. سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، 1420ھ، ج1، ص150؛ مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384ش، ج1، ص146؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص67۔
  4. صفدی، الوافی بالوفیات، 1420ھ، ج6، ص15؛ ذہبی، سیر اعلا النبلاء، 1405ھ، ج15، ص578؛ ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، 2002م، ج1، ص609۔
  5. «ایام شہادت حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا در پاکستان‎»، خبرگزاری ایرنا؛«مراسم سوگواری شہادت حضرت فاطمہ(س) در جمہوری آذربایجان و تاجکستان»، رادیو ایران تاجیک؛ سوگواری ایام فاطمیہ در مرکز اسلامی مرکز اسلامی ہامبورگ»، خبرگزاری مہر۔
  6. سورہ نور، آیہ36۔
  7. ملاحظہ کریں: طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج10، ص211؛ طبرسی، مجمع البیان، دارالمعرفة، ج10، ص611و612؛ حسکانی،‌ شواهد التنزیل، 1411ق، ج2، ص403-408؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج30، ص746.
  8. ملاحظہ کریں: ترمذی، سنن الترمذی، 1403ق، ج5، ص699؛ صدوق، معانی الاخبار، 1403ق، ج2، ص403؛ طبری، جامع البیان، 1420ق، ج20، ص264-267؛ ابن‌ابی‌حاتم، تفسیر القرآن العظیم، مکتبة نزار مصطفی الباز، ج9، ص341-343.
  9. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق ج3، ص206؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، ج2، ص327۔
  10. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج5، ص248۔
  11. دیکھئے ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص212۔
  12. ابن کثیر، البدیۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج5، ص209-210؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج42، ص233؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص177۔
  13. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج8، ص284؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص177۔
  14. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، 1386ش، ص67-68۔
  15. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص124۔
  16. عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌گیری حکومت پس از پیامبر، 1387ش، ص99۔
  17. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج‏3، ص202.
  18. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31۔
  19. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31۔
  20. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31۔
  21. یوسفی غروی، «تاریخ ہجوم بہ خانہ حضرت زہرا»، ص14۔
  22. منسوب بہ شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص186۔
  23. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج‏3، ص202۔
  24. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31۔
  25. سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، 1420ھ، ج1، ص153-155۔
  26. مفید، الفصول المختارۃ، 1413ھ، ص56-57۔
  27. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص68۔
  28. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31۔
  29. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31؛ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج33، ص360۔
  30. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31؛ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج33، ص360۔
  31. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص126۔
  32. جوہری، السقیفۃ و فدک، 1401ھ، ص53۔
  33. جوہری، السقیفۃ و فدک، 1401ھ، ص53۔
  34. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج8، ص149، ح6726۔
  35. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص67۔
  36. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، دارالکتب العلمیۃ، ج5، ص13۔
  37. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج‏3، ص202۔
  38. بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج‏1، ص586۔
  39. ابن ابی‌ شیبہ، المصنف، 1425ھ، ج13، ص469۔
  40. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30۔
  41. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، دارالکتب العلمیۃ، ج5، ص13۔
  42. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31۔
  43. شیبانی بغدادی، السنّۃ، 1406ھ، ج2، ص553؛ دیار بکری، تاریخ الخمیس، دارصادر ،ج‏2، ص169۔
  44. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج5، ص250۔
  45. علامہ حلی، نہج الحق، 1982م، ص271۔
  46. بلاذری، انساب الأشراف، 1417ھ، ج‏1، ص586۔
  47. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، 1404ھ، ج5، ص13۔
  48. شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا، 1363ش، ص109۔
  49. شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا، 1363ش، ص111-112۔
  50. سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، 1420ھ، ج1، ص150۔
  51. مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384ش، ج1، ص146۔
  52. طبری، دلائل الإمامۃ، 1413ھ، ص134۔
  53. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص67۔
  54. 54.0 54.1 یوسفی غروی، «تاریخ ہجوم بہ خانہ حضرت زہرا»، ص9-14۔
  55. سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، 1420ھ، ج1، ص869؛ ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص31؛ طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص134-135۔
  56. اللہ‌اکبری، «محسن بن علی(ع)»، ص69۔
  57. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، 1415ھ، ج30، ص422۔
  58. طبرانی، المعجم الکبیر، قاہرہ، ج1، ص62۔
  59. ذہبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج3، ص118۔
  60. بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج‏1، ص586۔
  61. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج‏3، ص202۔
  62. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، دارالکتب العلمیۃ، ج5، ص13۔
  63. ابن ابی‌ شیبہ، المصنف، 1425ھ، ج13، ص469۔
  64. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30۔
  65. شہرستانی، الملل و النحل، دارالمعرفۃ، ج1، ص57۔
  66. صفدی، الوافی بالوفیات، 1420ھ، ج6، ص15۔
  67. عبدالزهرا، نگرشی به اسناد و مدارک هجوم به خانه صدیقه طاهره(س)، 1391ش، ص10.
  68. تبریزی، حقیقت هجوم به خانه حضرت فاطمه زهرا(ع) از منابع عامه، 1397ش، ص10 و 11.
  69. «کتاب الهجوم علی بیت السیده فاطمه الزهراء (ع) من الاعتداء الی الاعتراف (بلسان مصادر اهل السنه و الجماعه)» شبکه جامع کتاب گیسوم.

نوٹ

  1. قالت يا أبا بكر ما أسرع ما أغرتم على أهل بيت رسول الله و الله لا أكلم عمر حتى ألقى الله
  2. بعض دوسری نقل میں سلمۃ بن اَسلم بن جُرَیش آیا ہے۔ (طبری امامی، المسترشد فی الإمامۃ، 1415ھ، ص378۔)
  3. فرفعت يدها إلى السماء فقالت : اللهم إنهما قد آذياني فأنا أشكوهما إليك وإلى رسولك ، لا والله لا أرضى عنكما أبدا حتى ألقى أبي رسول الله واخبره بما صنعتما فيكون هو الحاكم فيكما. (علامہ مجلسی، بحارالانوار،1403ق، 43، ص199.)

مآخذ

  • ابن‌ابی‌حاتم، عبدالرحمان بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: اسعد محمد الطیب، مکه، مکتبة نزار مصطفی الباز، بی‌تا.
  • ابن ابی‌ شیبہ، عبداللہ بن محمد، المصنف، تحقیق محمد لحیدان، ریاض، مکتبۃ الرشد، 1425ھ۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، بیروت، دار البشائر الإسلامیۃ، 2002م۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، الطبعۃ الاولی، 1410ق/1990م۔
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، المناقب، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • ابن عبد ربہ، احمد، العقد الفرید، بی‌جا، دار الکتب العلمیۃ، بی‌تا۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
  • ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، قم، سید رضی، 1413ھ۔
  • ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، بے‌تا۔
  • ابن ہشام، ہشام بن عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، مصر، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی وأولادہ، دوم، 1375ھ۔
  • ابو حیان توحیدی، علی بن محمد، البصائر و الذخائر، بیروت، دارصادر، 1408ھ۔
  • ابو نعیم اصفہانی، احمد بن عبداللہ، معرفۃ الصحابۃ، ریاض، دارالوطن للنشر، 1419ھ۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، قم، رضی، 1421ھ۔
  • اللہ‌اکبری، محمد، «محسن بن علی(ع)»، مجلہ طلوع، سال ہشتم، شمارہ 29، 1388ہجری شمسی۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف، 1403ھ۔
  • «ایام شہادت حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا در پاکستان‎»، خبرگزاری ایرنا، انتشار 18 فروردین 1399ش، مشاہدہ 2 خرداد 1400ہجری شمسی۔
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، مؤسسہ بعثت، بے‌تا۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، دارطوق النجاۃ، الطبعۃ الاولی، 1422ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، دار الفکر، 1417ھ۔
  • تبریزی، حقیقت هجوم به خانه حضرت فاطمه زهرا(ع) از منابع عامه، دار الصدیقة الشهیدة، ۱۳۹۷ش.
  • ترمذی، محمّد بن عیسی، سنن الترمذی، تحقیق و تصحیح عبدالوهاب عبداللطیف، بیروت، دارالفکر،‏‎ ‎‏چاپ دوم، 1403ھ۔
  • جعفری، حسین محمد، تشیع در مسیر تاریخ، تہران، ترجمہ محمدتقی آیت‌اللہی، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چہاردہم، 1386ش
  • جوہری بصری، ابوبکر احمد بن عبدالعزیز، السقیفۃ و فدک، بیروت، شرکۃ الکتبی للطباعۃ والنشر، دوم، 1401ھ۔
  • حسکانی،‌ عبیدالله بن عبدالله، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1411ھ۔
  • دیار بکری، حسین، تاریخ الخمیس، بیروت، دارصادر، بے‌تا۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، بیروت، دارالکتاب االعربی، 1413ھ۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1405ھ۔
  • سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، قم، الہادی، 1420ھ۔
  • سمہودی، علی بن احمد، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 2006م،
  • سیوطی، جلال‌الدین، الدر المنثور، بیروت، دارالفکر، بے‌تا۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، بیروت، دارالمعرفۃ، بے‌تا۔
  • شہیدی، سید جعفر، زندگانی فاطمہ زہرا، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1363ہجری شمسی۔
  • شوشتری، قاضی نوراللہ احقاق الحق و ازہاق الباطل، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1409ھ۔
  • شیبانی بغدادی، عبداللہ بن احمد، السنّۃ، دمام (سعودی)، دار ابن القیم،1406ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، تہران، نشر جہان، 1378ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن‌ علی، معانی الأخبار، تحقیق علی اکبر‌ غفاری، قم، انتشارات اسلامی، 1403ھ۔
  • صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، بیروت، دار إحیاء التراث، 1420ق
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، قاہرہ، مکتبۃ ابن تیمیہ، 1415ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، دارالمعرفة، بی‌تا.
  • طبری امامی، محمد بن جریر، المسترشد فی الإمامۃ، قم، کوشانپور، 1415ھ۔
  • طبری امامی، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الإمامة، قم، بعثت، ۱۴۱۳ق.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، مؤسّسۃالاعلمی، بیروت، چہارم، 1403ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تأویل القرآن، بیروت، مؤسسة الرسالة، 1420ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، داراحیاء‌التراث العربی، بی‌تا.
  • عبدالزہرا، مہدی، نگرشی به اسناد و مدارک هجوم به خانه صدیقه طاهره(س) از قرن اول هجری تا کنون، تهران، نشر تک، چاپ پنجم، 1391 ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، 1982م۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، 1380ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث، 1420ھ۔
  • گنجی شافعی، محمد بن یوسف‏، کفایۃ الطالب فی مناقب علی بن ابی‌طالب‏، تہران، دار إحیاء تراث أہل البیت‏، دوم، 1404ھ۔
  • «مراسم سوگواری ایام فاطمیہ در مرکز اسلامی مرکز اسلامی ہامبورگ»، خبرگزاری مہر، انتشار 14 اسفند 1395ش، مشاہدہ 2 خرداد 1400ہجری شمسی۔
  • «مراسم سوگواری شہادت حضرت فاطمہ(س) در جمہوری آذربایجان و تاجیکستان»، رادیو ایران تاجیک، انتشار 25 فروردین 1392ش، مشاہدہ 2 خرداد 1400ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ، قم، انصاریان، 1384ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقيق: أسعد داغر، قم، دارالهجرة، چ دوم، 1409ق.
  • مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارہ، تصحیح علی میرشریفی، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، الؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، 1413ھ۔
  • منتظری مقدم، حامد، «رشک بر امیرمؤمنان(ع) درآمدی بر روان‌شناسی مناسبات در تاریخ اسلامۃ»، مجلہ تاریخ در آیینہ پژوہش، سال 1383ہجری شمسی، شمارہ3۔
  • ہیثمی، علی بن ابی‌بکر، مجمع الزوائد، قاہرہ، مکتبۃ القدسی، 1414ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، بے‌تا۔
  • یوسفی غروی، محمدہادی، «تاریخ ہجوم بہ خانہ حضرت زہرا (علیہا السلام)»، آینہ پژوہش، شمارہ 27، پاییز 1379ہجری شمسی۔