بغاوت
بَغاوت، امام برحق اور اسلامی حکومت کے خلاف جنگ اور مسلح جد و جہد کو کہا جاتا ہے اور بغاوت کے مرتکب شخص کو باغی کہا جاتا ہے۔ اسلام میں بغاوت کے کچھ خاص احکام ہیں جن پر فقہی کتابوں میں بحث کی جاتی ہیں۔ شیعہ فقہاء کے مطابق حاکم اسلامی پر ابتدا میں باغیوں کی ہدایت اس کے بعد نہ ماننے کی صورت میں ان ساتھ جنگ کرنا واجب ہے۔
بعض مسلمان فقہاء باغیوں کو کافر اور بعض انہیں فاسق سمجھتے ہیں۔ شیعہ فقہاء امام علیؑ کی حکومت کے خلاف لڑنے والوں کو باغی قرار دیتے ہیں جن میں خوارج اور جنگ جَمل اور صِفّین میں شرکت کرنے والے شامل ہیں۔
تعریف
بغاوت فقہی اصطلاح میں امام عادل اور برحق کے خلاف لڑنے اور جنگ کرنے کو کہا جاتا ہے اور بغاوت کے مرتکب شخص کو باغی کہا جاتا ہے۔[1] فقہی مآخذ میں امام علیؑ کی حکومت کے خلاف جنگ کرنے والوں کو باغی کے مصادیق میں سے قرار دیئے گئے ہیں جن میں جنگ جمل، صفین کے مسببن اور خوارج شامل ہیں۔[2]
باغیوں سے جنگ اور اس کے شرائط
شیعہ فقہاء کے فتوے کے مطابق اسلام حاکم پر شروع میں باغیوں کی ہدیت کر کے ان کو بغاغت سے منصرف کرنا واجب ہے،[3] اس کے بعد نہ ماننے کی صورت میں ان سے جنگ کرنا واجب ہے۔[4] شیعہ فقیہ کاشف الغطاء (1156-1228ھ) کے مطابق باغیوں کے ساتھ جنگ کرنا صرف اس وقت واجب ہے جب بات چیت اور دیگر ذرایع سے انہیں بغاوت سے منصرف کرنے سے عاجر ہو۔[5]
فقہی کتابوں کے مطابق باغیوں کے ساتھ جنگ کرنے کے بعض دوسرے شرائط درج ذیل ہیں:
- بغاوت کرنے والا امام عادل اور مسلمانوں سے جدا ہو کر ان کے خلاف مسلح جد و جہد کرے؛[6] جس کی بنا پر وہ راہزنوں اور محاربوں کے زمرے میں آجائیں۔[7]
- علامہ حلی اور شہید ثانی کے مطابق بغاوت صرف اور صرف امام معصوم کے خلاف قیام کرنے کے ذریعے محقق ہوگا؛[8] لیکن کاشف الغطاء امام معصوم کے نائب خاص یا نائب عام کے خلاف قیام کرنے کو بھی بغاوت شمار کرتے ہیں۔[9]
- بغاوت کرنے والوں کا امام یا حاکم اسلامی کے تحت قدرت سے خارج ہو کر کسی اور جگہ جمع ہونا۔[10]
- بغاوت کرنے والے اتنے قدرت مند ہوں کہ ان کو جنگ کے علاوہ کسی اور طریقے سے باز رکھنا ممکن نہ ہو۔[11]
- بغاوت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو۔[12] البتہ شہید اول کے مطابق ایک شخص کے ذریعے بھی بغاوت محقق ہو سکتی ہے۔[13]
دوسرے احکام
بغاوت سے متعلق دیگر فقہیِ احکام کچھ یوں ہیں:
- باغی اس بغاوت کے نتیجے میں آنے والے جانی اور مالی نقصان کا ضامن ہے۔[14] لیکن باغیوں کے نقصانات کے مسلمان ضامن نہیں ہیں۔[15]
- شیخ طوسی جنگ کے دوران باغیوں کے اموال سے غنیمت لینے کو جائز قرار دیتے ہیں؛[16] لیکن سیدِ مرتضی اور ابنادریس حلی باغیوں کے اموال سے غنیمت لینے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[17]
- باغیوں کے اہل و عیال اسیر اور قید نہیں ہونگے۔[18]
- باغی اسیروں کے ساتھ برتاؤ ان کے «ذوفئہ» ہونے (یعنی منظم گروہ اور مشخص قیادت رکھنے) اور «ذوفئہ» نہ ہونے کے حساب سے مختلف ہو گا: پہلی صورت (جیسے اصحاب صِفّین)، ان کے اسیروں کو قتل اور فراریوں کا پیچھا کیا جائے گا؛[19] لیکن دوسری صورت میں (جیسے اصحاب جمل)، نہ ان کے اسیروں کو قتل کیا جائے گا اور نہ ان کے فراریوں کا پیچھا کیا جائے گا؛[20]
- بعض فقہاء جیسے صاحبْ جواہر کے مطابق باغیوں کو صرف بغاوت کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیئے جا سکتے؛[21] لیکن شیخ طوسی اور بعض دوسرے شیعہ فقہاء صرف بغاوت کو ہی باغیوں کی کفر کا موجب قرار دیتے ہیں۔[22]
اہل سنت کا نظریہ
بغاوت کی تعریف اور اس کے احکام سے متعلق اہل سنت کے بعض نظریات کچھ یوں ہیں:
- اہل سنت فقیہ ابن قُدامہ (۵۴۱ـ۶۲۰ھ)،[23] کے مطابق اکثر اہل سنت فقہاء باغیوں کو خَوارج میں سے قرار دیتے ہوئے ان کی جان اور مال کو مسلمانوں کے لئے حلال سمجھتے ہیں۔[24] وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ ان کے ساتھ جنگ کرنا ان کے مفسد فی الارض ہونے کی وجہ سے ہے نہ ان کے کافر ہونے کی وجہ سے۔[25]
- مذہب حنفیہ کے بعض فقہاء بغاوت کی تعریف امام کی اطاعت سے خارج ہونے کے ذریعے کرتے ہہیں؛[26] فقہ مالکی اور فقہ شافعی میں امام کے ساتھ جنگ کرنے کے علاوہ امام کو اس کا حق ادا نہ کرنے کو بھی بغاوت سمجھتے ہیں؛[27] چنانچہ ابن عربی خلیفہ اول کے زمانے میں زکات نہ دینے والوں کے ساتھ جنگ کو بھی باغیوں کے ساتھ جنگ شمار کرتے ہیں۔[28]
- مذہب حنفیہ کے فقہاء کے علاوہ دیگر اہل سنت فقہاء کے مطابق باغیوں کے ساتھ جنگ سے مراد ان کے شر سے نجات پانا ہے۔ اس بنا پر ان کے مطابق نہ باغیوں کے اسراء کو قتل کئے جائیں گے اور نہ ان کے فراریوں کا پیچھا کیا جائے گا اور ان کے اموال جب تک وہ باغی ہیں، امام کے پاس محفوظ ہونگے۔[29]
مونوگراف
«اسلامی حکومت میں بغاوت اور سرپیچی» کے عنوان سے لکھی گئی کتاب کے مصنف مہدی پورحسین ہیں۔ اس کتاب کے چار فصلِ ہیں، پہلی فصل: بغاوت کی تعریف؛ دوسری فصل: اسلامی حکومت میں حاکم اور رعایا کے حقوق؛ تیسری فصل: مخالفین، متمردین اور تخریب کار؛ چوتھی فصل: باغیوں کے ساتھ مقابلہ۔[30]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ شیخ طوسی، النہایۃ، ۱۴۰۰ق، ص۲۹۶؛ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵۲۲۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۵۸-۲۶۰؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۰۷؛ زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۱۴۲۔
- ↑ علامہ حلی، تذکرۃالفقہا، ۱۴۱۴ق، ج۹، ص۴۱۰ ۔
- ↑ زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۱۴۲-۱۴۳؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۴۰۷-۴۰۸۔
- ↑ کاشفالغطاء، كشف الغطاء عن مبہمات الشريعۃ الغراء، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۳۶۸۔
- ↑ طوسی، الوسيلۃ إلى نيل الفضيلۃ، ۱۴۰۸ق، ص۲۰۵۔
- ↑ ترابی، «بغی»، ۱۳۷۸ش، ج۳، ص۵۹۶۔
- ↑ علامہ حلی، تذکرۃالفقہا، ۱۴۱۴ق، ج۹، ص۳۹۳-۳۹۸؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۴۰۷-۴۰۸۔
- ↑ کاشفالغطاء، كشف الغطاء عن مبہمات الشريعۃ الغراء، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۳۶۷۔
- ↑ شیخ طوسى، ۱۳۸۷ق، المبسوط، ج ۷، ص ۲۶۵۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۲۱، ص۳۲۳-۳۲۷۔
- ↑ محقق كركى، جامع المقاصد في شرح القواعد، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۴۸۳۔
- ↑ شہيد اول، اللمعۃ الدمشقيۃ، ۱۴۱۰ق، ص۸۳۔
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۳۰۹؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۹۴؛ صالحی نجفآبادی، جہاد در اسلام، ۱۳۸۲ق، ص۱۴۲۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ش، ج۲۱، ص۳۴۷-۳۴۵؛ زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۱۴۴-۱۴۵۔
- ↑ شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۴۰۰ق، ص۳۱۵۔
- ↑ عمانى، مجموعہ فتاوى ابن أبی عقيل، بیتا، ص۱۱۱؛ ابن ادریس حلی، السرائر، ج۲، ص۱۵-۱۹۔
- ↑ مشكينى، مصطلحات الفقہ، بیتا، ص۱۰۲۔
- ↑ خويى، منہاج الصالحين، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۸۹-۳۹۱۔
- ↑ علامہ حلی، تحرير الأحكام، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۲۳۳۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج۲۱، ۱۴۰۴ق، ص۳۳۷-۳۳۸۔
- ↑ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۳۶-۳۳۵۔
- ↑ كتاب المغني لابن قدامۃ - ط مكتبۃ القاہرۃ، وبگاہ المكتبۃ الشاملۃ۔
- ↑ ابنقدامہ، المغنی، ۱۳۸۸ق، ج۸، ص۵۲۴۔
- ↑ ابنقدامہ، المغنی، ۱۳۸۸ق، ج۸، ص۵۲۴۔
- ↑ عودہ، عبدالقادر، التشریع الجنایی الاسلامی، بیتا، ج۲، ص۶۷۳۔
- ↑ عودۃ، التشریع الجنایی الاسلامی، ج۲، بیتا، ص۶۷۳۔
- ↑ ابنعربی، احکام القرآن، ۱۴۰۸ق ج۴، ص۱۷۲۱۔
- ↑ ابنعربی، احکام القرآن، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۲۰-۱۷۲۳؛ زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۱۴۳-۱۴۶۔
- ↑ کتاب «بغی و تمرد در حکومت اسلامی» بہ چاپ دوم رسید، وبگاہ خبرگزاری رسمی حوزہ۔
مآخذ
- ابنقدامہ، أبومحمد، المغنی، مصر، مکتبۃ القاہرۃ، ۱۳۸۸ھ۔
- ابنادریس حلی، محمد بن منصور، کتاب السرائر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
- ابنعربی، احکام القرآن، تحقیق علیمحمد بجاوی، بیروت، دارالجیل، ۱۴۰۸ھ۔
- ترابی، اکبر، «بغی»، دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
- زحیلی، وہبہ مصطفی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، دمشق، دارالفکر، ۱۴۰۵ھ۔
- شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ فی فقہ الإمامیۃ، بیروت، دار التراث - الدار الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، ۱۴۱۳ھ۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق محمد کلانتر، بیروت، ۱۴۱۰ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد، قم، تہران، مطبعۃ الخیام، منشورات مکتبۃ جامع چہلستون، ۱۴۰۰ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۷ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الإمامیہ، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، ۱۳۸۷ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ والفتاوی، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۰ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
- صالحی نجفآبادی، نعمتاللہ، جہاد در اسلام، تہران، نشر نی، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃالفقہا، قم، مؤسسۃ آل البیت، ۱۴۱۴ھ۔
- عودہ، عبدالقادر، التشریع الجنایی الاسلامی، بیروت، دارالکتب العربی، بیتا۔
- کاشفالغطاء، کشفالغطاء عن مبہمات شریعۃ الغراء، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۴۲۲ھ۔
- «كتاب المغنی لابن قدامۃ - ط مكتبۃ القاہرۃ»، وبگاہ المكتبۃ الشاملۃ، تاریخ مشاہدہ: ۲۰ دی ۱۴۰۱ہجری شمسی۔
- کتاب «بغی و تمرد در حکومت اسلامی» بہ چاپ دوم رسید، وبگاہ خبرگزاری رسمی حوزہ، تاریخ درج مطلب: ۱۹ آبان ۱۴۰۱ش، تاریخ مشاہدہ: ۷ دی ۱۴۰۱ہجری شمسی۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تحقیق عبد الحسین محمد علی بقال، قم، اسماعیلیان، ۱۴۰۸ھ۔
- محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، ۱۴۱۴ھ۔
- معاونت حقوقی ریاست جمہوری، قانون مجازات اسلامی، معاونت تدوین، تنقیح و انتشار قوانین و مقررات، ۱۳۹۲ہجری شمسی۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، تحقیق عباس قوچانی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ہجری شمسی۔