یمن میں امام علی کا سریہ

ویکی شیعہ سے
(سریہ امام علی(یمن) سے رجوع مکرر)
یمن میں امام علی کا سریہ
تاریخ8 یا 10ھ
مقامیمن
علل و اسبابیمن والوں کو اسلام کی دعوت اور شرعی فیصلے
نتیجہیمن قبائل ہمْدان اور مَذْحِج کا مسلمان ہونا
فریق 1مسلمان
فریق 2یمن کے قبائل
سپہ سالار 1امام علی علیہ السلام
سپہ سالار 2یمن قبائل ہمدان اور مزحج کے سردار


یمن میں امام علی کا سَریّہ اسلام کی ترویج کے لئے پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے یمن میں امام علیؑ کو دیا گیا ایک مشن ہے۔ بعض مورخین یمن کی طرف امام علیؑ کی دو یا تین مسافرتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان مسافرتوں میں امام علیؑ ہَمْدان اور مَذْحِج قبائل کو اسلام کی طرف لانے میں کامیاب ہوئے جو بعد میں یمن کے تمام قبائل کا اسلام میں داخل ہونے کا سبب بنا۔ بعد میں قبیلہ ہمدان اور قبیلہ مذحج امام علیؑ، امام حسن اور امام حسینؑ کے اصحاب میں شامل ہو گئے۔

اس سریہ کے جنگی غنایم کی تقسیم میں امام علیؑ کے بعض سپاہیوں نے آپ کے خلاف پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں شکایت کی جس کے رد عمل میں پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کے بعض فضائل کی طرف اشارہ کیا۔ بعض اہل‌ سنت مورخین اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے خطبہ غدیر انہی شکایات کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا۔ اہل سنت کے اس نظریے کے جواب میں بعض محققین نے خطبہ غدیر اور پیغمبر اکرمؐ کے مذکورہ فرمائشات میں زمان، مکان، مضمون اور علل و اسباب کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ سازگار نہ ہونے کی بنا پر ان دونوں کو الگ الگ واقعات قرار دئے ہیں۔

پیغمبر اکرمؐ نے یمن کی طرف امام علیؑ کی ایک مسافرت میں آپؑ کو یمن کے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔

یمن کے قبائل کو اسلام کی دعوت

یمن میں سریہ امام علیؑ، پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے اس منطقے کے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے امام علیؑ کو بھیجا جانے والا ایک مشن ہے۔[1] اہل سنت مورخین ابن‌ ہِشام اور ابن‌سَعْد نے یمن میں امام علیؑ کے دو جداگانہ مشنوں کا تذکرہ کیا ہے۔[2] بعض مورخین نے ان کی تعداد تین تک بتائی ہیں۔[3] یمن میں امام علیؑ کی مسافرتوں اور وہاں کے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے حوالے سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے بعض قبیلہ ہمدان[4] اور بعض قبیلہ مذحج[5] کے ساتھ ملاقات کے لئے انجام پائے ہیں۔

قبیلہ ہَمْدان کو اسلام کی دعوت

تاریخ طبری کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے ابتداء میں خالد بن وَلید کو یمن روانہ فرمایا تھا، ان کی ناکامی کے بعد 10ھ کو رمضان کے مہینے میں امام علیؑ کو ایک خط کے ساتھ اس سر زمین کی طرف روانہ کیا۔[6] جب امام علیؑ نے یمن پہنچ کر پیغمبر اکرمؐ کا خط وہاں کے لوگوں کو سنایا تو قبیلہ ہَمْدان کے تمام افراد اسی وقت مسلمان ہو گئے۔[7] بعض محققین اس مسافرت کی تاریخ کو قرار دیتے ہیں۔[8]

قبیلہ مَذْحِج کو اسلام کی دعوت

واقدی،[9] ابن‌سعد[10] اور دوسرے مورخین [11] نے ایک سریہ کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ نے 300 سپاہیوں کے ساتھ امام علیؑ کو یمن روانہ فرمایا۔ اس مشن میں امام علیؑ نے شروع قبیلہ مَذْحِج کو اسلام کی دعوت دی لیکن انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا؛ جس پر امام علیؑ اور مذکورہ قبیلے کے درمیان جنگ شروع ہوئی جس میں ان کے تقریبا 20 افراد مارے گئے، اس کے بعد امام علیؑ نے دوبارہ ان کو اسلام کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کیا اور سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ یہ سریہ ماہ رمضان 10ھ کو پیش آیا۔[12]

کہا جاتا ہے کہ اس سفر میں یہودی دانشور کَعْبُ الاَحْبار نے امام علیؑ کے ساتھ ملاقات کر کے امام سے اسلام اور پیغمبر کے بارے میں سوالات کیا جس کے نتیجے میں وہ مسلمان ہو گیا اور اپنے علاقے کے دوسرے علماء کو بھی اسلام کی دعوت دی۔[13]

تقسیم غنائم اور حضرت علیؑ کے خلاف شکایت

قبیلہ مذحج کے ساتھ جنگ سے حاصل ہونے والے جنگی غنائم کو امام علیؑ نے خُمْس نکالنے کے بعد اپنے سپاہیوں میں تقسیم کیا۔[14] دوسرے سپہ سالاروں کی سنت کے مطابق امام کے بعض سپاہیوں نے خمس میں سے اپنے لئے کچھ دینے کا مطالبہ کیا جسے امامؑ نے رد کیا اور فرمایا پیغمبر اکرم حج کا ارادہ رکھتے ہیں لھذا پورا خمس پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں پہنچا دوں گا تاکہ آپؐ جس طرح مصلحت سمجھیں اسے خرچ کریں۔[15] بعض مورخین کے مطابق امام علیؑ نے ایک خط میں اس صورتحال سے پیغمبر اکرمؐ کو آگاہ کیا جس کے جواب میں پیغمبر اکرمؐ نے امام کو واپس مدینہ بلا لیا تاکہ موسم حج میں آپؐ کے ہمراہ حج ادا کر سکیں۔[16]

امام علیؑ نے طائف پہنچنے کے بعد لشکر کی سپہ سالاری اور خمس کی حفاظت کی ذمہ داری ابورافع کے سپرد کیا اور خود پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ملحق ہونے کے لئے مکہ روانہ ہو گئے۔ بعض افراد نے ابورافع سے خمس میں سے کچھ حصہ مانگا جس پر اس نے ان کا مطالبہ پورا کیا۔ امامؑ نے واپس آکر ابورافع کی سرنش کی اور اس کی طرف سے دئے گئے اموال کو واپس بیت المال میں جمع کیا جو ان افراد کی ناراضگی کا سبب بنا اور انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کے پاس امام علیؑ کے خلاف شکایت کی۔[17] کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ان افراد کی مزمت کرنے کے ساتھ امام علیؑ کے فضائل بیان کرتے ہوئے آپؑ کے اس عمل کی تأیید فرمائی۔[18] [یادداشت 1]

امام علیؑ کے خلاف پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں شکایت خالد بن وَلید کی روانگی کے وقت بھی گزارش کی گئی ہے وہاں بھی پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کی حمایت کرتے ہوئے آپؑ کے فضائل بیان کی۔[19] ابن‌ ہِشام امام علیؑ کے خلاف شکایت کے واقعے کو نجران کی طرف زکات لینے کے لئے امام کو بھیجنے کے واقعے سے مربوط قرار دیتا ہے۔[20]

خطبہ غدیر اور امام کے خلاف ہونے والی شکایت کا رابطہ

احمد بن حسین بیہقی،[21] ابن‌کثیر[22] اور بعض دوسرے اہل سنت مورخین[23] نے خطبہ غدیر کا مقصد یمن کے جنگ میں بعض مسلمانوں کی طرف سے امام علیؑ کے خلاف ہونے والی شکایت کا جواب قرار دیتے ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ خطبہ غدیر کا امام علیؑ کی بلا فصل خلافت کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔[24] اس کے جواب میں بعض محققین کہتے ہیں کہ یہ دونوں واقعے ایک دوسرے کے ساتھ بالکل مربوط نہیں ہے کیونکہ یہ واقعات زمان، مکان، موضوع اور علل و اسباب کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ بالکل مختلف اور متفاوت ہیں۔[25]

ان دو وقعات کا زمان و مکان کے اعتبار سے مختلف ہونا

بعض محققین کے مطابق یمن میں امام علیؑ کے سپاہیوں کی طرف سے آپ کے خلاف کی جانے والی شکایات کے متعلق آیا ہے که پیغمبر اکرمؐ نے اسی وقت شکایت کرنے والوں کو صریحا جواب دیا تھا اور کوئی مبہم چیز باقی نہیں تھی جسے واضح کرنے کے لئے بعد میں خطبہ دینے کی ضرورت پڑے؛[26] چنانچہ کہا گیا ہے کہ واقعہ غدیر خُم اور امام کے خلاف ان کے بعض سپاہیوں کی طرف سے ہونے والی شکایت کی جگہ بھی ایک نہیں ہے۔ مورخین کے مطابق واقعہ غدیر مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام پر رونما ہوا ہے؛[27] جبکہ امام کے خلاف ہونے والی شکایت کی جگہ بعض احادیث میں مدینہ اور بعض دوسری احادیث میں مکہ قرار دی گئی ہے۔[28]

مضمون کے اعتبار سے دونوں واقعات کا مختلف ہونا

کہا گیا ہے کہ واقعہ غدیر مضمون کے اعتبار سے بھی امام علیؑ کے خلاف ہونے والی شکایت کے ساتھ سازگار نہیں ہے؛ کیونکہ حدیث غدیر میں مذکورہ شکایت کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا؛ جبکہ یمن میں امام علیؑ کی مسافرت کے بارے میں ارشاد ہونے والے پیغمبر اکرمؐ کے کلمات میں شکایت کی بات آئی ہے: جیسے "لاتشکوا علیاً..."۔[29] اس کے علاوہ واقعہ غدیر میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے لوگوں سے یہ اقرار لینا کہ آپؐ مؤمنین کی نسبت خود ان سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں، امام علیؑ کی شکایت نہ کرنے اور انہیں دوست رکھنے کی سفارش کے ساتھ بھی کوئی سازگاری نہیں ہے۔ اسی طرح واقعہ غدیر میں حاضرین کی طرف سے امام علیؑ کو "امیر المؤمنین" یعنی مؤمنین کے امیر بننے کی مبارک بادی اور آپ کی بیعت کرنا اس بات کی علامت قرار دیتے ہیں کہ سامعین کو خطبہ غدیر سے یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ اس میں امام علیؑ کی ولایت اور جانشینی کا اعلان ہوا ہے۔[30]

سبب کے اعتبار سے بھی دونوں واقعات کے مختلف ہونے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ شکایت کے مسئلے میں پیغمبر اکرمؐ کی جانب سے امام علی کی فضیلت اور خوبیوں کا بیان کرنا ان کے خلاف ہونے والی شکایت کی وجہ سے تھا؛ جبکہ واقعہ غدیر کے بارے میں شیعہ بلکہ بہت سارے اہل‌ سنت محدثین کا نظریہ ہے کہ خطبہ غدیر آیت تبلیغ کے نازل ہونے کی وجہ سے دیا گیا تھا اور اس کے بعد آیت اکمال نازل ہوئی تھی۔[31]

یمن میں امام علی کے فیصلے

مُسند احمد ابن‌ حنبل[32] اور حاکم نیشابوری کی المُستدرک علی الصحیحین[33] جیسے منابع میں ایک ایسے مشن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ سے یمن جا کر وہاں کے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں جب امام علیؑ نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاید لوگ میری جوانی اور کم عمری کی وجہ سے میرے فیصلوں کو قبول نہ کریں؛ تو پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو خصوصی ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ آپ کی کامیابی کے لئے دعا فرمائی۔ بعض مورخین قبیلہ ہَمْدان اور مَذْحِج کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے کی جانے والی مسافرتوں کے ضمن میں اس مشن کے انجام پانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔[34] اور بعض یہ احتمال دیتے ہیں کہ یہ مشن جنگ کے لئے نہیں تھا اور 8 اور کے درمیان واقعہ ہوا اور یمن میں امام علیؑ کے متعدد فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ آپ نے یمن میں کافی عرصہ گزارا ہے۔[35]

یمن میں امام علیؑ کی کامیابیاں

بعض روایات کے مطابق یمن کی طرف امام علیؑ کا سفر اور قبیلہ ہمدان اور قبیلہ مذحج کے اسلام لانے کی وجہ سے یمن کے دوسرے قبائل بھی اسلام لے آئے۔[36] کہا گیا ہے کہ یمن کے لوگ خاص کر قبیلہ ہمدان اور قبیلہ مذحج شروع سے امام علیؑ کے پیروکاروں میں سے تھے اور کوفہ میں آپ کی حکومت کے دوران یہ لوگ آپ کے قریبی اصحاب میں سے تھے[37] اور جنگ‌ صَفّین[38] اور نَہرَوان[39] میں انہوں نے امامؑ کا ساتھ دیا۔ امام علیؑ کے بعد انہوں نے امام حسنؑ[40] اور امام حسینؑ[41] کی بھی حمایت کی۔ بعض مورخین اس بات کے قائل ہیں کہ امام علیؑ کے حوالے سے ان کی جانثاری اور خالصانہ پیروی ان کی اسلام اور امام علیؑ کے مقام و منزلت خاص کر ولایت اور جانشینی کی حقیقی معرفت کا نتیجہ تھا۔[42]

نوٹ

  1. بعض روایات کے مطابق امام علیؑ کی غیر موجودگی میں ابورافع کی کمانڈ میں موجود بعض سپاہیوں نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلے میں ملنے والے کپڑوں کو احرام کے طور پر استعمال کیا تھا جس پر امام علیؑ نے ان افراد سے وہ کپڑے واپس لیا۔ یہ افراد امام علیؑ کے شدید غم و غصے اور رد عمل کی وجہ سے امام سے ناراض ہو گئے اور اس سلسلے میں آپ کے خلاف پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں شکایت کی۔ رسول خداؐ نے اپنے ایک صحابہ کو حکم دیا کہ وہ ان افراد کے درمیان کھڑے ہو کر امام علیؑ کی حمایت میں آپؐ کا پیغام سنائیں جس میں آپ نے فرمایا تھا: علی کے خلاف بدگوئی سے پرہیز کرو۔ وہ خدا کے احکام کو نافذ کرنے میں کسی قسم کی پروا نہیں کرتے اور وہ چاپلوس نہیں ہے۔ (مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج 21، ص385؛ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ہجری شمسی، ص927۔)

حوالہ جات

  1. طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج3، ص131-132۔
  2. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، بی‌تا، ج2، 641؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج‌2، ص128۔
  3. رضانژاد و رادفرد، «حدیث غدیر و شبہہ شکایت از امیرالمؤمنینؑ نزد پیغمبر اکرمؐ»، ص85-89۔
  4. طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج3، ص131-132۔
  5. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص1079۔
  6. طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج3، ص131-132۔
  7. طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج3، ص131-132؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، قاہرہ، ص238۔
  8. دحلان، السیرۃ النبویہ، 1421ھ، ج2، ص371۔
  9. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص1079۔
  10. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج‌2، ص128-129۔
  11. مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ھ، ج2، ص95-96؛ صالحی، سبل الہدی، 1414ھ، ج6، ص238۔
  12. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج4، ص5۔
  13. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص1083؛ ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج5، ص482۔
  14. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج‌2، ص128- 129۔
  15. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص1079۔
  16. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص1081-1082۔
  17. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص1079؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ھ، ج2، ص96۔
  18. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، بی‌تا، ج2، ص603؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج3، ص631۔
  19. بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج7، ص44؛ صالحی شامی، سبل الہدی، 1414ھ، ج6، ص235۔
  20. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، بی‌تا، ج2، ص602-603۔
  21. بیہقی، الاعتقاد، 1423ھ، ص477-478۔
  22. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج5، ص208۔
  23. حلبی شافعی، السیرۃ الحلبیۃ، 1427ھ، ج3، ص384۔
  24. بیہقی، الإعتقاد، 1423ھ، ص477-478۔
  25. رضانژاد و رادفرد، «حدیث غدیر و شبہہ شکایت از امیرالمؤمنینؑ نزد پیغمبر اکرمؐ»، ص89-90۔
  26. رضانژاد و رادفرد، «حدیث غدیر و شبہہ شکایت از امیرالمؤمنینؑ نزد پیغمبر اکرمؐ»، ص92۔
  27. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بی‌تا، ج2، ص112
  28. رضانژاد و رادفرد، «حدیث غدیر و شبہہ شکایت از امیرالمؤمنینؑ نزد پیغمبر اکرمؐ»۔ ص93۔
  29. رضانژاد و رادفرد، «حدیث غدیر و شبہہ شکایت از امیرالمؤمنینؑ نزد پیغمبر اکرمؐ»، ص94-95۔
  30. رضانژاد و رادفرد، «حدیث غدیر و شبہہ شکایت از امیرالمؤمنینؑ نزد پیغمبر اکرمؐ» ص95۔
  31. رضانژاد و رادفرد، «حدیث غدیر و شبہہ شکایت از امیرالمؤمنینؑ نزد پیغمبر اکرمؐ» ص95-97۔
  32. ابن‌حنبل، مسند احمد، 1421ھ، ج2، ص225۔
  33. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص145۔
  34. جعفریان، سیرہ رسول خداؐ، 1383ہجری شمسی، ص667۔
  35. امین، فی رحاب ائمۃ اہل‌البیتؑ، 1412ھ، ج1، ص256-257۔
  36. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، قاہرہ، ص238؛ حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن، 1416ھ، ج2، ص753۔
  37. جعفریان، سیرہ رسول خداؐ، 1383ہجری شمسی، ص666 – 667۔
  38. منقری، وقعہ الصفین، 1382ھ، ص252، 436؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج5، ص20؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص389۔
  39. طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج5، ص79۔
  40. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بیروت، ص72۔
  41. منتظرالقائم، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، 1385ہجری شمسی، ص19-20۔
  42. منتظرالقائم، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، 1385ہجری شمسی، ص13-14۔

مآخذ

  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا۔
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1412ھ۔
  • ابن‌حجر، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • ابن‌حنبل، احمد بن محمد بن حنبل، مسند احمد، تحقیق شعیب الأرنؤوط و دیگران، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1421ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا۔
  • امین، سید محسن، فی رحاب ائمۃ اہل‌البیتؑ، بیروت،‌ دار التعارف للمطبوعات، 1412ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، قاہرہ، وزارۃ الاوقاف، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • بیہقی، احمد بن حسین، الاعتقاد و الہدایۃ إلی سبیل الرشاد علی مذہب السلف أہل السنۃ و الجماعۃ۔ تحقیق عبداللہ محمد درویش، بیروت،‌ دار الیمامۃ، 1423ھ۔
  • جعفریان، رسول، سیرہ رسول خداؐ، قم، دلیل ما، چاپ سوم، 1383ہجری شمسی۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1411ھ۔
  • حجری یمانی، محمد بن احمد، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، صنعا، دارالحکمہ الیمانیہ، چاپ دوم، 1416ھ۔
  • حلبی شافعی، ابوالفرج، السیرۃ الحلبیۃ، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • دحلان، احمد بن زینی، السیرۃ النبویہ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، 1421ھ۔
  • رضانژاد، عزّالدین و مہدی رادفرد، «حدیث غدیر و شبہہ شکایت از امیرالمؤمنینؑ نزد پیغمبر اکرمؐ»، در مجلہ کلام اسلامی، دورہ 21، شمارہ 83، پاییز 1391ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، بوستان کتاب، 1385ہجری شمسی۔
  • صالحی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1414ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، 1387ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الإشراف، تصحیح عبد اللہ اسماعیل الصاوی، قاہرۃ،‌ دار الصاوی، بی‌تا
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالہجرۃ، 1409ھ۔
  • مقریزی، أحمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1420ھ۔
  • منتظرالقائم، اصغر، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، قم، پژوہشگاہ، حوزہ و دانشگاہ، 1385ہجری شمسی۔
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، القاہرۃ، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، چاپ دوم، 1382ھ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، چاپ سوم، 1409ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن أبی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا۔