"استطاعت" کے نسخوں کے درمیان فرق
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 7: | سطر 7: | ||
==معنی== | ==معنی== | ||
عربی میں استطاعت، کسی کام کو انجام دینے کی طاقت اور توانائی رکھنے کو کہا جاتا ہے۔<ref> | عربی میں استطاعت، کسی کام کو انجام دینے کی طاقت اور توانائی رکھنے کو کہا جاتا ہے۔<ref>جوہری؛ زبیدی، ذیل «طوع»</ref>اور اصلاح میں یا شرعی حکم کی انجام دہی پر قدرت رکھنے کو کہا جاتا ہے یا [[مناسک حج]] کو انجام دینے کی شرعی قدرت رکھنے کو کہا جاتا ہے۔<ref>عروة الوثقی، ج۴، ص۳۶۳</ref> پہلے معنی کے مطابق استطاعت احکام واجب ہونے کی شرایط میں سے جو علم کلام کی کتابوں میں شرطِ تکلیف سے مشہور ہے اور فقہ میں اس کے بجائے قدرت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور دوسرے معنی کے مطابق قرآن مجید کی اتباع کرتے ہوئے<ref>آلعمران، ۹۷</ref> استطاعت حج کے باب میں استعمال ہوا ہے۔ | ||
==مالی استطاعت== | ==مالی استطاعت== | ||
* شیعہ مشہور فقہا کی نظر کے مطابق، وہ شخص مالی اعتبار سے مستطیع کہلاتا ہے جو اپنی روزمرہ کی احتیاجات کے علاوہ مکان، گھریلو ضروریات کی چیزیں، خود اور ان لوگوں کے سال کا خرچہ جنکی کفالت کرنا اس پر فرض ہے اور سفر کے اخراجات حج سے پہلے اس کے پاس ہونے چاہیے۔ مالی استطاعت کسی اور کی طرف سے مدد کرنے یا سفر کے اخراجات برداشت کرنے سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن سفر کے دوران سفر کے اخراجات حاصل ہونا ممکن ہونے سے استطاعت حاصل نہیں ہوتی ہے۔<ref>مراجعہ کریں: ابن سعید، ص۱۷۴؛ | * شیعہ مشہور فقہا کی نظر کے مطابق، وہ شخص مالی اعتبار سے مستطیع کہلاتا ہے جو اپنی روزمرہ کی احتیاجات کے علاوہ مکان، گھریلو ضروریات کی چیزیں، خود اور ان لوگوں کے سال کا خرچہ جنکی کفالت کرنا اس پر فرض ہے اور سفر کے اخراجات حج سے پہلے اس کے پاس ہونے چاہیے۔ مالی استطاعت کسی اور کی طرف سے مدد کرنے یا سفر کے اخراجات برداشت کرنے سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن سفر کے دوران سفر کے اخراجات حاصل ہونا ممکن ہونے سے استطاعت حاصل نہیں ہوتی ہے۔<ref>مراجعہ کریں: ابن سعید، ص۱۷۴؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۷، ص۵۳؛ امام خمینی، ج ۱، ص۳۷۳ـ۳۷۴؛ خلخالی، ج ۱، ص۹۰ـ۹۱</ref> ملا احمد نراقی<ref>نراقی، ج ۱۱، ص۲۷</ref>،سفر کے دوران آمدنی حاصل کرنا اگر اس کی شان کے مطابق ہو یا ایسا کام ہو جو وطن میں اس کا پیشہ سمجھا جاتا ہو تو اسے استطاعت کہا جائے گا۔ سفر کے اخراجات کی مقدار ہر مکان اور ہر شخص دوسرے سے مختلف ہوسکتا ہے اور ہر شخص کی شان اور ضرورت کے مطابق مدنظر رکھا جائے گا۔<ref>مراجعہ کریں: موسوی عاملی، ج ۷، ص۴۰؛ حکیم، ۱۳۷۴ش، ص۲۰؛ خلخالی، ج ۱، ص۸۸، ۹۲ـ۹۳</ref> | ||
* استطاعت کے لئے حج سے واپسی کے اخراجات کو بھی شامل کرنا ہوگا۔<ref>نراقی، ج ۱۱، ص۲۶؛ امام خمینی، ج ۱، ص۳۷۳</ref> بعض شیعہ فقہا نے استطاعت حاصل ہونے کے لئے زاد و راحلہ کی کی شرط کو حسب ضرورت قرار دیا ہے جیسا کہ اگر حج پر جانا طولانی سفر طے کرنا پڑے۔ لیکن اگر زاد راحلہ یا دونوں میں سے کسی ایک کی ضرورت نہ ہو جیسے؛ جو لوگ مکے میں یا اس کے نزدیک رہتے ہیں تو ان فقہا کا کہنا ہے کہ ایسے موارد میں استطاعت زاد و راحلہ کے بغیر بھی ممکن ہے۔<ref>ر.ک: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵؛ | * استطاعت کے لئے حج سے واپسی کے اخراجات کو بھی شامل کرنا ہوگا۔<ref>نراقی، ج ۱۱، ص۲۶؛ امام خمینی، ج ۱، ص۳۷۳</ref> بعض شیعہ فقہا نے استطاعت حاصل ہونے کے لئے زاد و راحلہ کی کی شرط کو حسب ضرورت قرار دیا ہے جیسا کہ اگر حج پر جانا طولانی سفر طے کرنا پڑے۔ لیکن اگر زاد راحلہ یا دونوں میں سے کسی ایک کی ضرورت نہ ہو جیسے؛ جو لوگ مکے میں یا اس کے نزدیک رہتے ہیں تو ان فقہا کا کہنا ہے کہ ایسے موارد میں استطاعت زاد و راحلہ کے بغیر بھی ممکن ہے۔<ref>ر.ک: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۷، ص۵۲؛ نراقی، ج ۱۱، ص۲۸ـ۳۲؛ اس نظریے کے نقد کیلیے مراجعہ کریں: موسوی عاملی، ج ۷، ص۳۶؛ طباطبائی یزدی، ج ۴، ص۳۶۴؛ خلخالی، ج ۱، ص۷۸ـ۸۳، ۸۵</ref>. | ||
===مقروض ہونا=== | ===مقروض ہونا=== | ||
تمام اسلامی مذاہب کے فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر لوگوں کا قرض یا اللہ کا قرض جیسے [[خمس]] اور [[زکات]] ادا کرنے سے حج کا سفر ناممکن ہوتا ہو تو یہ مالی استطاعت کے لئے مانع بنتا ہے۔ اور اگر اس کا کسی پر قرض ہو لیکن وہ قرض ابھی نہیں لے سکتا ہو تو یہ بھی استطاعت کا موجب نہیں ہے۔<ref>مراجعہ کریں: | تمام اسلامی مذاہب کے فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر لوگوں کا قرض یا اللہ کا قرض جیسے [[خمس]] اور [[زکات]] ادا کرنے سے حج کا سفر ناممکن ہوتا ہو تو یہ مالی استطاعت کے لئے مانع بنتا ہے۔ اور اگر اس کا کسی پر قرض ہو لیکن وہ قرض ابھی نہیں لے سکتا ہو تو یہ بھی استطاعت کا موجب نہیں ہے۔<ref>مراجعہ کریں: ابنقدامہ، ج ۳، ص۱۷۲ـ ۱۷۳؛ نووی، المجموع، ج ۷، ص۶۸ـ۶۹؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۷، ص۵۶؛ خلخالی، ج ۱، ص۱۱۴ـ۱۱۵</ref> دین موجل (یعنی وہ قرض جس کو ادا کرنے کی تاریخ سے پہلے حج کا سفر ممکن ہو) یا ایسا قرضہ ہو جس کو قرض والا شخص مطالبہ نہ کر رہا ہو تو بعض فقہا نے ایسے قرض کو استطاعت کے لیے مانع نہیں سمجھا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: نووی، المجموع، ج ۷، ص۶۸؛ موسوی عاملی، ج ۷، ص۴۳؛ فاضل ہندی، ج ۵، ص۹۸</ref> | ||
===ہدیہ اور استطاعت=== | ===ہدیہ اور استطاعت=== | ||
ممکن ہے کہ کسی کی طرف سے زاد و راحلہ دینے کی وجہ سے انسان کو استطاعت حاصل ہوجائے؛ جیسے باپ اپنے بیٹے کو سفر کا خرچہ دے؛ تو اس کو استطاعت بَذْلی کہا جاتا ہے۔ شیعہ فقہا نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 97 اور روایات سے استناد کرتے ہوئے ایسی صورت میں ہدیہ اور ہبہ قبول کرنے کو لازم اور حج کو واجب قرار دیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵؛ خلخالی، ج ۱، ص۱۵۷ـ۱۶۲، ۱۷۵ـ۱۷۶</ref>، لیکن اکثر اہل سنت فقہا نے ایسا ہبہ یا ہدیہ قبول کرنے کو واجب نہیں سمجھا ہے۔[[محمد بن ادریس شافعی|شافعی]] نے بغیر منت گذاری کے دئے جانے والے ہدیے؛ جیسے باپ کی طرف سے بیٹے کو حج کا خرچہ دینے کو استطاعت کا موجب قرار دیا ہے۔ اور اسی طرح مالیکوں نے ایسے شخص کے لئے جو لوگوں سے بھیک مانگ کی عادت کر چکا ہے اور حج کے سفر کے دوران دوسروں سے مدد لے سکتا ہے تو اس پر حج واجب قرار دیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: کاسانی، ج ۲، ص۱۲۲؛ | ممکن ہے کہ کسی کی طرف سے زاد و راحلہ دینے کی وجہ سے انسان کو استطاعت حاصل ہوجائے؛ جیسے باپ اپنے بیٹے کو سفر کا خرچہ دے؛ تو اس کو استطاعت بَذْلی کہا جاتا ہے۔ شیعہ فقہا نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 97 اور روایات سے استناد کرتے ہوئے ایسی صورت میں ہدیہ اور ہبہ قبول کرنے کو لازم اور حج کو واجب قرار دیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵؛ خلخالی، ج ۱، ص۱۵۷ـ۱۶۲، ۱۷۵ـ۱۷۶</ref>، لیکن اکثر اہل سنت فقہا نے ایسا ہبہ یا ہدیہ قبول کرنے کو واجب نہیں سمجھا ہے۔[[محمد بن ادریس شافعی|شافعی]] نے بغیر منت گذاری کے دئے جانے والے ہدیے؛ جیسے باپ کی طرف سے بیٹے کو حج کا خرچہ دینے کو استطاعت کا موجب قرار دیا ہے۔ اور اسی طرح مالیکوں نے ایسے شخص کے لئے جو لوگوں سے بھیک مانگ کی عادت کر چکا ہے اور حج کے سفر کے دوران دوسروں سے مدد لے سکتا ہے تو اس پر حج واجب قرار دیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: کاسانی، ج ۲، ص۱۲۲؛ ابنقدامہ، ج ۳، ص۱۷۰؛ زحیلی، ج ۳، ص۲۸، ۳۳</ref>. | ||
بعض شیعہ فقہا کے مطابق مالی استطاعت حاصل ہونے کے بعد اسے ختم کرنا، مثلا استطاعت حاصل ہونے اور حج کا وجوب ثابت ہونے کے بعد مال کو دوسروں کے لیے ہدیہ دینا جائز نہیں ہے؛ لیکن جس شخص کے پاس استطاعت نہیں ہے اس پر مالی استطاعت کا حصول واجب نہیں ہے۔<ref>مراجعہ کریں: میرزای قمی، ج ۱، ص۳۱۸ـ ۳۱۹؛ خلخالی، ج ۱، ص۱۳۰ـ۱۳۴</ref> | بعض شیعہ فقہا کے مطابق مالی استطاعت حاصل ہونے کے بعد اسے ختم کرنا، مثلا استطاعت حاصل ہونے اور حج کا وجوب ثابت ہونے کے بعد مال کو دوسروں کے لیے ہدیہ دینا جائز نہیں ہے؛ لیکن جس شخص کے پاس استطاعت نہیں ہے اس پر مالی استطاعت کا حصول واجب نہیں ہے۔<ref>مراجعہ کریں: میرزای قمی، ج ۱، ص۳۱۸ـ ۳۱۹؛ خلخالی، ج ۱، ص۱۳۰ـ۱۳۴</ref> | ||
سطر 24: | سطر 24: | ||
[[شیعہ]] فقہا نے بدنی استطاعت کو حج واجب ہونے کے لئے شرط جانا ہے اور وہ بیمار لوگ جو مشکل سے گاڑی یا جہاز اور سواری پر سوار ہوسکتے ہیں، ان پر واجب نہیں جانا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵ـ۱۶۶؛ نجفی، ج ۱۷، ص۲۸۰ـ ۲۸۱؛ امام خمینی، ج ۱، ص۳۸۰</ref>. | [[شیعہ]] فقہا نے بدنی استطاعت کو حج واجب ہونے کے لئے شرط جانا ہے اور وہ بیمار لوگ جو مشکل سے گاڑی یا جہاز اور سواری پر سوار ہوسکتے ہیں، ان پر واجب نہیں جانا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵ـ۱۶۶؛ نجفی، ج ۱۷، ص۲۸۰ـ ۲۸۱؛ امام خمینی، ج ۱، ص۳۸۰</ref>. | ||
==راستے میں امنیت== | ==راستے میں امنیت== | ||
حج میں استطاعت کی ایک اور قسم راستے میں امن کا ہونا ہے یعنی حاجی کی جان اور مال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔<ref>فقہ امامیہ کے لیے مراجعہ کریں: ابنسعید، ص۱۷۵؛ | حج میں استطاعت کی ایک اور قسم راستے میں امن کا ہونا ہے یعنی حاجی کی جان اور مال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔<ref>فقہ امامیہ کے لیے مراجعہ کریں: ابنسعید، ص۱۷۵؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۷، ص۷۸؛ فقہ اہل سنت کے لیے مراجعہ کریں: نَوَوی، المجموع، ج ۷، ص۷۹ـ۸۰؛ زُحَیلی، ج ۳، ص۲۹، ۳۱، ۳۵</ref>. روایات میں «مُخَلّی سَرْبُہ» (راستہ کھلا ہو اور امن ہو) کی تعبیر<ref>مراجعہ کریں: کلینی، ج ۴، ص۲۶۷؛ ابنبابویہ، ۱۴۰۴، ج ۲، ص۲۹۶</ref>، استطاعت کی اسی قسم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اگر راستے میں خطرہ ہو تو شافعیوں کے نزدیک کسی شخص کو محافظ کے طور پر لانا واجب ہے۔ اور مالکیوں اور بعض شافعیوں کا کہنا ہے کہ اگر مکہ تک پہنچنے کے لیے صرف سمندری راستہ ہو اور اس میں ہلاک ہونے کا خطرہ زیادہ ہو تو ایسی صورت میں حج واجب نہیں ہے۔<ref>مراجعہ کریں: نووی، المجموع، ج ۷، ص۸۲ـ۸۳؛ دسوقی، ج ۲، ص۸؛ زحیلی، ج ۳، ص۲۷، ۲۹، ۳۱</ref> | ||
==زمانی استطاعت== | ==زمانی استطاعت== | ||
سطر 34: | سطر 34: | ||
===اہل تشیّع کی نظر میں=== | ===اہل تشیّع کی نظر میں=== | ||
شیعہ فقہا کی نظر میں محرم کا ساتھ ہونا عورت کی استطاعت کے لئے شرط نہیں ہے بلکہ امن ہونے کا اطمینان ہونا کافی ہے۔<ref>مراجعہ کریں: طوسی، | شیعہ فقہا کی نظر میں محرم کا ساتھ ہونا عورت کی استطاعت کے لئے شرط نہیں ہے بلکہ امن ہونے کا اطمینان ہونا کافی ہے۔<ref>مراجعہ کریں: طوسی، النہایہ، ص۲۷۴ـ۲۷۵؛ نجفی، ج ۱۷، ص۳۳۰ـ۳۳۱</ref>. بعض اہل سنت مذاہب میں وفات یا طلاق کی عدت کے دوران عورت کے لئے حج انجام دینے سے منع ہوئی ہے۔<ref>مراجعہ کریں: زحیلی، ج ۳، ص۳۶ـ ۳۷</ref>. | ||
تمام مذاہب اسلامی کے مشہور نظر کے مطابق کوئی بھی شوہر اپنی بیوی کو واجب حج سے نہیں روک سکتا ہے لیکن مستحب حج سے منع کرسکتا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۸؛ زحیلی، ج ۳، ص۳۵</ref>. | تمام مذاہب اسلامی کے مشہور نظر کے مطابق کوئی بھی شوہر اپنی بیوی کو واجب حج سے نہیں روک سکتا ہے لیکن مستحب حج سے منع کرسکتا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۸؛ زحیلی، ج ۳، ص۳۵</ref>. | ||
سطر 45: | سطر 45: | ||
{{حج و عمرہ}} | {{حج و عمرہ}} | ||
== مآخذ == | |||
{{طومار}} | |||
* اسماعیلبن حماد جوہری، الصحاح: تاجاللغة و صحاحالعربیة، چاپ احمد عبدالغفور عطار، قاہرہ ۱۳۷۶، چاپ افست بیروت ۱۴۰۷. | |||
* محمدبن محمد زبیدی، تاج العروس من جواہرالقاموس، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴. | |||
* حسنبن یوسف علامہ حلّی، تذکرةالفقہاء، قم ۱۴۱۴. | |||
== | |||
{{ | |||
* اسماعیلبن حماد | |||
* محمدبن محمد زبیدی، تاج العروس من | |||
* حسنبن یوسف | |||
* محمد شوکانی، نیل الاوطار من احادیث سیدالاخیار: شرح منتقیالاخبار، بیروت ۱۹۷۳. | * محمد شوکانی، نیل الاوطار من احادیث سیدالاخیار: شرح منتقیالاخبار، بیروت ۱۹۷۳. | ||
* رضا خلخالی، معتمد العروة الوثقی، محاضرات | * رضا خلخالی، معتمد العروة الوثقی، محاضرات آیةاللّہ خوئی، قم ۱۴۰۵ـ ۱۴۱۰. | ||
* حسینبن محمد راغب | * حسینبن محمد راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، چاپ محمد سیدکیلانی، تہران، ۱۳۳۲ش. | ||
* ابنسعید، الجامع للشرائع، قم ۱۴۰۵. | * ابنسعید، الجامع للشرائع، قم ۱۴۰۵. | ||
* امام خمینی، تحریرالوسیلة، نجف ۱۳۹۰. | * امام خمینی، تحریرالوسیلة، نجف ۱۳۹۰. | ||
* احمدبن | * احمدبن محمدمہدی نراقی، مستند الشیعة فی احکام الشریعة، ج ۱۱، قم ۱۴۱۷. | ||
* محمدبن علی موسوی عاملی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، قم ۱۴۱۰. | * محمدبن علی موسوی عاملی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، قم ۱۴۱۰. | ||
* محسن حکیم، دلیل الناسک، چاپ محمدقاضی طباطبایی، ]بیجا.[: مدرسة الحکمة، ۱۳۷۴ش. | * محسن حکیم، دلیل الناسک، چاپ محمدقاضی طباطبایی، ]بیجا.[: مدرسة الحکمة، ۱۳۷۴ش. | ||
* جعفربن حسن محقق حلّی، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، چاپ صادق شیرازی، | * جعفربن حسن محقق حلّی، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، چاپ صادق شیرازی، تہران، ۱۴۰۹. | ||
* | * ابنقدامہ، المغنی، بیروت: دارالکتاب العربی، بیتا. | ||
* یحییبن شرف نووی، المجموع: شرح | * یحییبن شرف نووی، المجموع: شرح المہذّب، بیروت : دارالفکر، بیتا. | ||
* محمدبن حسن فاضل | * محمدبن حسن فاضل ہندی، کشف اللثام عن قواعدالاحکام، قم، ج ۵ و ۶، ۱۴۲۲. | ||
* ابوبکربن مسعود کاسانی، کتاب بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، | * ابوبکربن مسعود کاسانی، کتاب بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کویتہ ۱۴۰۹/۱۹۸۹. | ||
* | * وہبہ مصطفی زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلّتہ، دمشق ۱۴۰۹/۱۹۸۹. | ||
* ابوالقاسمبن محمدحسن میرزای قمی، جامعالشتات، چاپ مرتضی رضوی، | * ابوالقاسمبن محمدحسن میرزای قمی، جامعالشتات، چاپ مرتضی رضوی، تہران ۱۳۷۱ش. | ||
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت ۱۴۰۱ | * کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت ۱۴۰۱ | ||
* ابن | * ابن بابویہ، کتاب مَن لایحضُرُہ الفقیہ، چاپ علیاکبر غفاری، قم ۱۴۰۴. | ||
* محمدبن احمد دسوقی، حاشیة الدسوقی علی الشرح الکبیر، بیروت: داراحیاء الکتب العربیة، بیتا. | * محمدبن احمد دسوقی، حاشیة الدسوقی علی الشرح الکبیر، بیروت: داراحیاء الکتب العربیة، بیتا. | ||
* محمدبن حسن طوسی، | * محمدبن حسن طوسی، النہایة فی مجرد الفقہ و الفتاوی، قم: قدس محمدی، بیتا. | ||
* محمدکاظمبن عبدالعظیم طباطبائییزدی، العروة الوثقی، قم ۱۴۱۷ـ۱۴۲۰ | * محمدکاظمبن عبدالعظیم طباطبائییزدی، العروة الوثقی، قم ۱۴۱۷ـ۱۴۲۰ | ||
{{ | {{خاتمہ}} | ||
== | ==بیرونی روابط== | ||
* منبع | * منبع مقالہ: [http://rch.ac.ir/article/Details/9457 دانشنامہ جہان اسلام، مقاله حج] | ||
[[fa: استطاعت (حج)]] | [[fa: استطاعت (حج)]] | ||
سطر 97: | سطر 80: | ||
[[tr:İstitaet]] | [[tr:İstitaet]] | ||
[[زمرہ:احکام حج، اصطلاحات فقہی]] | |||
[[ | |||
نسخہ بمطابق 16:11، 21 فروری 2018ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Hakimi (حصہ · شراکت) نے 7 سال قبل کی۔ |
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
![]() |
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
استطاعت، ایک فقہی اصطلاح اور حج واجب ہونے کی شرائط میں سے ایک ہے۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 97 وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَ مَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ترجمہ:اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا واجب ہے اگر اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کافر ہوجائے تو خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔ اور دیگر اسلامی روایات کی روشنی میں اسلامی مذاہب کے فقہا نے استطاعت کو حج واجب ہونے کی مہم شرط قرار دیا ہے۔ شیعہ فقہا کے مطابق مالی اعتبار سے وہ شخص مستطیع کہلاتا ہے جو اپنی روزمرہ کی احتیاجات کے علاوہ مکان، گھریلو ضروریات کی چیزیں، خود اور ان لوگوں کے سال کا خرچہ جنکی کفالت کرنا اس پر فرض ہے اور سفر کے اخراجات حج سے پہلے اس کے پاس ہونے چاہیے۔ مالی استطاعت کسی اور کی طرف سے مدد کرنے یا سفر کے اخراجات برداشت کرنے سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ تمام اسلامی مذاہب کے فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر لوگوں کا قرض یا اللہ کا قرض جیسے خمس اور زکات ادا کرنے سے حج کا سفر ناممکن ہوتا ہو تو یہ مالی استطاعت کے لئے مانع بنتا ہے۔
معنی
عربی میں استطاعت، کسی کام کو انجام دینے کی طاقت اور توانائی رکھنے کو کہا جاتا ہے۔[1]اور اصلاح میں یا شرعی حکم کی انجام دہی پر قدرت رکھنے کو کہا جاتا ہے یا مناسک حج کو انجام دینے کی شرعی قدرت رکھنے کو کہا جاتا ہے۔[2] پہلے معنی کے مطابق استطاعت احکام واجب ہونے کی شرایط میں سے جو علم کلام کی کتابوں میں شرطِ تکلیف سے مشہور ہے اور فقہ میں اس کے بجائے قدرت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور دوسرے معنی کے مطابق قرآن مجید کی اتباع کرتے ہوئے[3] استطاعت حج کے باب میں استعمال ہوا ہے۔
مالی استطاعت
- شیعہ مشہور فقہا کی نظر کے مطابق، وہ شخص مالی اعتبار سے مستطیع کہلاتا ہے جو اپنی روزمرہ کی احتیاجات کے علاوہ مکان، گھریلو ضروریات کی چیزیں، خود اور ان لوگوں کے سال کا خرچہ جنکی کفالت کرنا اس پر فرض ہے اور سفر کے اخراجات حج سے پہلے اس کے پاس ہونے چاہیے۔ مالی استطاعت کسی اور کی طرف سے مدد کرنے یا سفر کے اخراجات برداشت کرنے سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن سفر کے دوران سفر کے اخراجات حاصل ہونا ممکن ہونے سے استطاعت حاصل نہیں ہوتی ہے۔[4] ملا احمد نراقی[5]،سفر کے دوران آمدنی حاصل کرنا اگر اس کی شان کے مطابق ہو یا ایسا کام ہو جو وطن میں اس کا پیشہ سمجھا جاتا ہو تو اسے استطاعت کہا جائے گا۔ سفر کے اخراجات کی مقدار ہر مکان اور ہر شخص دوسرے سے مختلف ہوسکتا ہے اور ہر شخص کی شان اور ضرورت کے مطابق مدنظر رکھا جائے گا۔[6]
- استطاعت کے لئے حج سے واپسی کے اخراجات کو بھی شامل کرنا ہوگا۔[7] بعض شیعہ فقہا نے استطاعت حاصل ہونے کے لئے زاد و راحلہ کی کی شرط کو حسب ضرورت قرار دیا ہے جیسا کہ اگر حج پر جانا طولانی سفر طے کرنا پڑے۔ لیکن اگر زاد راحلہ یا دونوں میں سے کسی ایک کی ضرورت نہ ہو جیسے؛ جو لوگ مکے میں یا اس کے نزدیک رہتے ہیں تو ان فقہا کا کہنا ہے کہ ایسے موارد میں استطاعت زاد و راحلہ کے بغیر بھی ممکن ہے۔[8].
مقروض ہونا
تمام اسلامی مذاہب کے فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر لوگوں کا قرض یا اللہ کا قرض جیسے خمس اور زکات ادا کرنے سے حج کا سفر ناممکن ہوتا ہو تو یہ مالی استطاعت کے لئے مانع بنتا ہے۔ اور اگر اس کا کسی پر قرض ہو لیکن وہ قرض ابھی نہیں لے سکتا ہو تو یہ بھی استطاعت کا موجب نہیں ہے۔[9] دین موجل (یعنی وہ قرض جس کو ادا کرنے کی تاریخ سے پہلے حج کا سفر ممکن ہو) یا ایسا قرضہ ہو جس کو قرض والا شخص مطالبہ نہ کر رہا ہو تو بعض فقہا نے ایسے قرض کو استطاعت کے لیے مانع نہیں سمجھا ہے۔[10]
ہدیہ اور استطاعت
ممکن ہے کہ کسی کی طرف سے زاد و راحلہ دینے کی وجہ سے انسان کو استطاعت حاصل ہوجائے؛ جیسے باپ اپنے بیٹے کو سفر کا خرچہ دے؛ تو اس کو استطاعت بَذْلی کہا جاتا ہے۔ شیعہ فقہا نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 97 اور روایات سے استناد کرتے ہوئے ایسی صورت میں ہدیہ اور ہبہ قبول کرنے کو لازم اور حج کو واجب قرار دیا ہے۔[11]، لیکن اکثر اہل سنت فقہا نے ایسا ہبہ یا ہدیہ قبول کرنے کو واجب نہیں سمجھا ہے۔شافعی نے بغیر منت گذاری کے دئے جانے والے ہدیے؛ جیسے باپ کی طرف سے بیٹے کو حج کا خرچہ دینے کو استطاعت کا موجب قرار دیا ہے۔ اور اسی طرح مالیکوں نے ایسے شخص کے لئے جو لوگوں سے بھیک مانگ کی عادت کر چکا ہے اور حج کے سفر کے دوران دوسروں سے مدد لے سکتا ہے تو اس پر حج واجب قرار دیا ہے۔[12]. بعض شیعہ فقہا کے مطابق مالی استطاعت حاصل ہونے کے بعد اسے ختم کرنا، مثلا استطاعت حاصل ہونے اور حج کا وجوب ثابت ہونے کے بعد مال کو دوسروں کے لیے ہدیہ دینا جائز نہیں ہے؛ لیکن جس شخص کے پاس استطاعت نہیں ہے اس پر مالی استطاعت کا حصول واجب نہیں ہے۔[13]
بدنی استطاعت
بعض حنفی علما کے نظرئے کے مطابق وہ لوگ جو بیمار، زمین گیر، مفلوج اور نابینا انسان پر حج واجب نہیں ہے۔ اگرچہ ان کے لیے کوئی راہنما ہو بھی تو۔ لیکن اہل سنت کے باقی فقہا کے مطابق جس نابینا انسان کے ہمراہ کوئی ہو تو اس پر حج واجب ہے۔ شافعی علما کا کہنا ہے کہ جسمی توانایی اس قدر ہونا ضروری ہے کہ کسی مشقت کے بغیر اپنی سواری پر سوار ہوسکے۔ اور مالکیوں کا کہنا ہے کہ انسان کسی غیر معمولی مشقت کے بغیر سوار یا پیدل مکہ پہنچنے کی جسمانی توانائی رکھے تو یہ بدنی استطاعت کے حصول کے لیے کافی ہے۔[14]
شیعہ فقہا نے بدنی استطاعت کو حج واجب ہونے کے لئے شرط جانا ہے اور وہ بیمار لوگ جو مشکل سے گاڑی یا جہاز اور سواری پر سوار ہوسکتے ہیں، ان پر واجب نہیں جانا ہے۔[15].
راستے میں امنیت
حج میں استطاعت کی ایک اور قسم راستے میں امن کا ہونا ہے یعنی حاجی کی جان اور مال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔[16]. روایات میں «مُخَلّی سَرْبُہ» (راستہ کھلا ہو اور امن ہو) کی تعبیر[17]، استطاعت کی اسی قسم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اگر راستے میں خطرہ ہو تو شافعیوں کے نزدیک کسی شخص کو محافظ کے طور پر لانا واجب ہے۔ اور مالکیوں اور بعض شافعیوں کا کہنا ہے کہ اگر مکہ تک پہنچنے کے لیے صرف سمندری راستہ ہو اور اس میں ہلاک ہونے کا خطرہ زیادہ ہو تو ایسی صورت میں حج واجب نہیں ہے۔[18]
زمانی استطاعت
شافعی، حنبلی اور شیعہ فقہا نے ایک اور استطاعت یعنی زمانی استطاعت کو بھی بیان کیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حج تک پہنچنے کے لئے وقت کافی ہو۔[19]
عورت کی استطاعت
اہل سنت کی نظر میں
اہل سنت مذاہب کے اکثر فقہا نے مذکورہ شرائط کے علاوہ عورت کو استطاعت حاصل ہونے کے لئے شوہر یا کسی ایک محرم ساتھ ہونے کو ضروری سمجھا ہے۔ اور اگر شوہر یا کوئی محرم شخص نہ ہو یا حج پہ اس کے ساتھ نہیں آسکتا ہو تو شافعی اور مالکیوں نے عورتوں کا ایک قابل اعتماد گروہ ساتھ ہونے کو کافی سمجھا ہے۔[20]
اہل تشیّع کی نظر میں
شیعہ فقہا کی نظر میں محرم کا ساتھ ہونا عورت کی استطاعت کے لئے شرط نہیں ہے بلکہ امن ہونے کا اطمینان ہونا کافی ہے۔[21]. بعض اہل سنت مذاہب میں وفات یا طلاق کی عدت کے دوران عورت کے لئے حج انجام دینے سے منع ہوئی ہے۔[22].
تمام مذاہب اسلامی کے مشہور نظر کے مطابق کوئی بھی شوہر اپنی بیوی کو واجب حج سے نہیں روک سکتا ہے لیکن مستحب حج سے منع کرسکتا ہے۔[23].
حوالہ جات
- ↑ جوہری؛ زبیدی، ذیل «طوع»
- ↑ عروة الوثقی، ج۴، ص۳۶۳
- ↑ آلعمران، ۹۷
- ↑ مراجعہ کریں: ابن سعید، ص۱۷۴؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۷، ص۵۳؛ امام خمینی، ج ۱، ص۳۷۳ـ۳۷۴؛ خلخالی، ج ۱، ص۹۰ـ۹۱
- ↑ نراقی، ج ۱۱، ص۲۷
- ↑ مراجعہ کریں: موسوی عاملی، ج ۷، ص۴۰؛ حکیم، ۱۳۷۴ش، ص۲۰؛ خلخالی، ج ۱، ص۸۸، ۹۲ـ۹۳
- ↑ نراقی، ج ۱۱، ص۲۶؛ امام خمینی، ج ۱، ص۳۷۳
- ↑ ر.ک: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۷، ص۵۲؛ نراقی، ج ۱۱، ص۲۸ـ۳۲؛ اس نظریے کے نقد کیلیے مراجعہ کریں: موسوی عاملی، ج ۷، ص۳۶؛ طباطبائی یزدی، ج ۴، ص۳۶۴؛ خلخالی، ج ۱، ص۷۸ـ۸۳، ۸۵
- ↑ مراجعہ کریں: ابنقدامہ، ج ۳، ص۱۷۲ـ ۱۷۳؛ نووی، المجموع، ج ۷، ص۶۸ـ۶۹؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۷، ص۵۶؛ خلخالی، ج ۱، ص۱۱۴ـ۱۱۵
- ↑ مراجعہ کریں: نووی، المجموع، ج ۷، ص۶۸؛ موسوی عاملی، ج ۷، ص۴۳؛ فاضل ہندی، ج ۵، ص۹۸
- ↑ مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵؛ خلخالی، ج ۱، ص۱۵۷ـ۱۶۲، ۱۷۵ـ۱۷۶
- ↑ مراجعہ کریں: کاسانی، ج ۲، ص۱۲۲؛ ابنقدامہ، ج ۳، ص۱۷۰؛ زحیلی، ج ۳، ص۲۸، ۳۳
- ↑ مراجعہ کریں: میرزای قمی، ج ۱، ص۳۱۸ـ ۳۱۹؛ خلخالی، ج ۱، ص۱۳۰ـ۱۳۴
- ↑ مراجعہ کریں: کاسانی، ج ۲، ص۱۲۱؛ نووی، المجموع، ج ۷، ص۶۳، ۸۵؛ زحیلی، ج ۳، ص۲۷ـ۲۹
- ↑ مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵ـ۱۶۶؛ نجفی، ج ۱۷، ص۲۸۰ـ ۲۸۱؛ امام خمینی، ج ۱، ص۳۸۰
- ↑ فقہ امامیہ کے لیے مراجعہ کریں: ابنسعید، ص۱۷۵؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۷، ص۷۸؛ فقہ اہل سنت کے لیے مراجعہ کریں: نَوَوی، المجموع، ج ۷، ص۷۹ـ۸۰؛ زُحَیلی، ج ۳، ص۲۹، ۳۱، ۳۵
- ↑ مراجعہ کریں: کلینی، ج ۴، ص۲۶۷؛ ابنبابویہ، ۱۴۰۴، ج ۲، ص۲۹۶
- ↑ مراجعہ کریں: نووی، المجموع، ج ۷، ص۸۲ـ۸۳؛ دسوقی، ج ۲، ص۸؛ زحیلی، ج ۳، ص۲۷، ۲۹، ۳۱
- ↑ مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵؛ نووی، المجموع، ج ۷، ص۸۸ـ ۸۹؛ نراقی، ج ۱۱، ص۳۰؛ زحیلی، ج ۳، ص۳۲، ۳۵
- ↑ مراجعہ کریں: کاسانی، ج ۲، ص۱۲۳؛ نووی، المجموع، ج ۷، ص۸۶ـ۸۷
- ↑ مراجعہ کریں: طوسی، النہایہ، ص۲۷۴ـ۲۷۵؛ نجفی، ج ۱۷، ص۳۳۰ـ۳۳۱
- ↑ مراجعہ کریں: زحیلی، ج ۳، ص۳۶ـ ۳۷
- ↑ مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۸؛ زحیلی، ج ۳، ص۳۵
مآخذ
- اسماعیلبن حماد جوہری، الصحاح: تاجاللغة و صحاحالعربیة، چاپ احمد عبدالغفور عطار، قاہرہ ۱۳۷۶، چاپ افست بیروت ۱۴۰۷.
- محمدبن محمد زبیدی، تاج العروس من جواہرالقاموس، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴.
- حسنبن یوسف علامہ حلّی، تذکرةالفقہاء، قم ۱۴۱۴.
- محمد شوکانی، نیل الاوطار من احادیث سیدالاخیار: شرح منتقیالاخبار، بیروت ۱۹۷۳.
- رضا خلخالی، معتمد العروة الوثقی، محاضرات آیةاللّہ خوئی، قم ۱۴۰۵ـ ۱۴۱۰.
- حسینبن محمد راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، چاپ محمد سیدکیلانی، تہران، ۱۳۳۲ش.
- ابنسعید، الجامع للشرائع، قم ۱۴۰۵.
- امام خمینی، تحریرالوسیلة، نجف ۱۳۹۰.
- احمدبن محمدمہدی نراقی، مستند الشیعة فی احکام الشریعة، ج ۱۱، قم ۱۴۱۷.
- محمدبن علی موسوی عاملی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، قم ۱۴۱۰.
- محسن حکیم، دلیل الناسک، چاپ محمدقاضی طباطبایی، ]بیجا.[: مدرسة الحکمة، ۱۳۷۴ش.
- جعفربن حسن محقق حلّی، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، چاپ صادق شیرازی، تہران، ۱۴۰۹.
- ابنقدامہ، المغنی، بیروت: دارالکتاب العربی، بیتا.
- یحییبن شرف نووی، المجموع: شرح المہذّب، بیروت : دارالفکر، بیتا.
- محمدبن حسن فاضل ہندی، کشف اللثام عن قواعدالاحکام، قم، ج ۵ و ۶، ۱۴۲۲.
- ابوبکربن مسعود کاسانی، کتاب بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کویتہ ۱۴۰۹/۱۹۸۹.
- وہبہ مصطفی زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلّتہ، دمشق ۱۴۰۹/۱۹۸۹.
- ابوالقاسمبن محمدحسن میرزای قمی، جامعالشتات، چاپ مرتضی رضوی، تہران ۱۳۷۱ش.
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت ۱۴۰۱
- ابن بابویہ، کتاب مَن لایحضُرُہ الفقیہ، چاپ علیاکبر غفاری، قم ۱۴۰۴.
- محمدبن احمد دسوقی، حاشیة الدسوقی علی الشرح الکبیر، بیروت: داراحیاء الکتب العربیة، بیتا.
- محمدبن حسن طوسی، النہایة فی مجرد الفقہ و الفتاوی، قم: قدس محمدی، بیتا.
- محمدکاظمبن عبدالعظیم طباطبائییزدی، العروة الوثقی، قم ۱۴۱۷ـ۱۴۲۰
بیرونی روابط
- منبع مقالہ: دانشنامہ جہان اسلام، مقاله حج