امام محمد تقی علیہ السلام

فاقد تصویر
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(حضرت امام محمد تقیؑ سے رجوع مکرر)
امام محمد تقی علیہ السلام
حرم کاظمین
منصبشیعہ اثنا عشری کے نویں امام
ناممحمد بن علی
کنیتابو جعفر ثانی
القابتقی، جواد
تاریخ ولادت10 رجب 195 ہجری
جائے ولادتمدینہ
مدت امامت17 سال (203 تا 220ھ)
شہادتسنہ 220 ہجری
مدفنکاظمین، عراق
رہائشمدینہ
والد ماجدامام رضا
والدہ ماجدہسبیکہ خاتون
ازواجسمانہ مغربیہ، ام فضل بنت مامون
اولادعلی، موسی، فاطمہ اور امامہ
عمر25 سال
ائمہ معصومینؑ
امام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام محمد باقرؑامام صادقؑامام موسی کاظمؑامام رضاؑامام محمد تقیؑامام علی نقیؑامام حسن عسکریؑامام مہدیؑ


محمد بن علی بن موسی (سنہ 195-220ھ)، امام محمد تقی ؑ اور امام جوادؑ کے نام سے مشہور شیعہ امامیہ کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر اور لقب جواد اور ابن الرضا ہے۔ آپؑ کو جواد لقب ملنے کہ وجہ آپؑ کی بکثرت بخشش و عطا ہے۔ آپؑ نے دوران خلافت مامون عباسی اور معتصم عباسی 17 سال امامت کے فرائض انجام دیے۔ اکثر منابع تاریخی کے مطابق امام محمد تقیؑ سنہ 220ہجری ماہ ذی القعدہ کی آخری تاریخ کو 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ شیعہ ائمہؑ میں آپ جوان ترین امام ہیں جنہیں شہید کیے گئے۔ آپؑ کو کاظمین میں اپنے جد امجد امام موسی کاظمؑ کے جوار میں مقبرہ قریش میں دفن کیا گیا۔

بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب آپ کی امامت کے سلسلے میں شک و تردید کا شکار ہوئے۔ امام رضاؑ کے بعض اصحاب عبدالله بن موسی کی امامت کے قائل ہوئے جبکہ بعض دیگر احمد بن موسی شاہچراغ کو امام ماننے لگے۔ بعض نے واقفیہ کا راستہ اختیار کیا۔ البتہ اکثریت نے آپؑ کی امامت کو قبول کیا۔

امام محمد تقیؑ کا وکالتی نظام کے تحت خط و کتابت کے ذریعے لوگوں سے رابطہ رہتا تھا۔ آپؑ کے دور امامت میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرقے بہت سرگرم تھے اسی وجہ سے آپ اپنے ماننے والوں کو ان مذاہب کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے منع کرتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔

امام جوادؑ کے دوسرے مکاتب فکر کے علماء اور دانشوروں کے ساتھ کلامی مناظرے جیسے شیخین (ابو بکر و عمر) کی خلافت کا مسئلہ، کےعلاوہ فقہی مناظرے ہوئے؛ جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا اور احکام حج وغیر۔ امام محمد تقیؑ سے صرف 250 احادیث نقل ہوئی ہیں۔ نقل حدیث کی قلت کہ یہ وجہ بتائی گئی ہےکہ اولا امام کم عمری میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے ثانیا آپؑ کو اپنے ہم عصر خلفا نے اپنے تحت نظر رکھا۔ آپؑ سے روایت نقل کرنے والے راویوں اور اصحاب کی تعداد 115 سے 193 بتائی گئی ہے۔ احمد بن ابی‌نصر بزنطی، صفوان بن یحیی اور عبد العظیم حسنی آپؑ کے اصحاب مہیں شمار ہوتے ہیں۔ شیعہ کتبمیں آپؑ سےمنسوب کچھ کرامات کا تذکرہ ملتا ہے جن میں ولادت کے فورا بعد بات کرنا، طی الارض، مریضوں کو شفا دینا اور استجابت دعا شامل ہیں۔ اہل سنت کے علما بھی امام جوادؑ کے علمی اور روحانی مقام و مرتبے کے معترف ہیں لہذا وہ لوگ بھی آپؑ کی تعریف و تمجید اور احترام کرتے ہیں۔

نسب، کنیت اور القاب

محمد بن علی بن موسی بن جعفر شیعہ امامیہ کے نویں امام ہیں جو جواد الائمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب 6 واسطوں سے شیعوں کے پہلے امام، امام علی بن ابی طالب تک پہچتا ہے۔ آپ کے والد امام علی رضاؑ شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔[1] آپ کی والدہ ایک کنیز تھیں جن کا نام سبیکہ نوبیہ تھا۔[2]

آپؑ کی کنیت ابو جعفر و ابو علی ہے۔[3] منابع حدیث میں آپؑ کو ابو جعفر ثانی کہا جاتا ہے۔[4] تا کہ اسم کےلحاظ سے ابو جعفر اول امام محمد باقرؑ سے مشتبہ نہ ہو۔[5]

جواد اور ابن الرضا آپؑ کے مشہور القاب میں شمار ہوتے ہیں۔[6] جبکہ تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل،[7] مرتضی اور منتجَب[8] آپؑ کے دوسرے القاب ہیں۔

سوانح حیات

زندگی نامہ امام محمد تقیؑ

10رجب 195ھ ولادت امام محمد تقیؑ[9]
200ھ امام رضاؑ کا مرو کی طرف سفر
30 صفر 203ھ شہادت امام رضاؑ اور امام محمد تقیؑ کی امامت کا آغاز[10]
15ذی‌الحجہ 212ھ ولادت امام علی النقیؑ[11]
214ھ ولادت موسی مبرقع[12]
215ھ ام الفضل سے شادی[13]
18رجب 218ھ مأمون کی وفات اور معتصم کی خلافت کا آغاز[14]
28محرم 220ھ امام محمد تقیؑ کا معتصم کے توسط بغداد میں احضار[15]
30 ذ‌ی‌ القعدہ 220ھ شہادت امام محمد تقیؑ[16]

آپؑ کی ولادت سنہ 195 ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔[17] لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[18] زيادہ تر منابع نے آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں قرار دی ہے۔[19] بعض نے 15 رمضان[20] اور بعض دیگر نے 19 رمضان[21] نقل کی ہے۔[22] شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں آپ کی تاریخ ولادت 10 رجب ذکر کی ہے۔[23]

کتاب کافی کی روایت کےمطابق امام محمد تقیؑ کی ولادت سےقبل واقفی مذہب کے بعض افراد امام رضاؑ کے ہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے آپؑ کی امامت میں شک و تردید کرنے لگے۔[24] یہی سبب ہے کہ جس وقت امام محمد تقیؑ کی ولادت ہوئی امام رضاؑ نے انہیں شیعوں کے لئے با برکت مولود قرار دیا۔[25] ان کی ولادت کے باجود بھی بعض واقفیہ نے امام رضاؑ سے ان کے انتساب کا انکار کیا۔ وہ کہتے تھے کہ امام محمد تقیؑ شکل و صورت کے اعتبار سے اپنے والد امام رضاؑ سے شباہت نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ قیافہ شناس افراد کو بلایا گیا۔ ان کے کہنے سے آپ کو امام رضاؑ کا فرزند مانا گیا۔[26] آپ کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں چندان معلومات ذکر نہیں ہوئے ہیں۔[27] اس کا سبب عباسی حکومت کی طرف سے سیاسی طور پر نظر بندی، تقیہ اور آپ کی کم عمری بتایا گیا ہے۔[28] آپ مدینہ میں قیام پذیر تھے۔ ابن بیھق کے نقل کے مطابق آپ نے ایک بار اپنے والد سے ملاقات کے لئے خراسان کا سفر کیا[29] اور امامت کے بعد کئی بار آپ کو عباسی خلفاء کی طرف سے بغداد طلب کیا گیا۔

ازدواجی زندگی

سنہ 202ھ[30] یا 215ھ[31] میں امام محمد تقی کی شادی مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی۔ بعض مآخذ میں احتمال ظاہر کیا گیا ہے کہ امام محمد تقیؑ کی اپنے پدر امام رضاؑ سے خراسان میں ملاقات کے دوران مامون نے اپنی بیٹی کی شادی امام جوادؑ سے کرادی ہے۔[32] اہل سنت مورخ ابن کثیر((701-774ھ)) کے مطابق امام محمد تقیؑ کے ساتھ مامون کی بیٹی کا خطبۂ نکاح حضرت امام رضاؑ کی حیات میں پڑھا گیا لیکن شادی اور رخصتی سنہ 215 ہجری میں عراق کے شہر تکریت میں ہوئی۔[33]

تاریخی منابع کے مطابق یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی۔[34] مامون کا مقصد یہ تھا کہ اس شادی کے نتیجے میں وہ پیغمبر اکرم (ص) و امام علی (ع) کی نسل سے پیدا ہونے والے بچے کا نانا قرار پائے گا۔[35] کتاب الارشاد میں شیخ مفید کے نقل کے مطابھ، مامون نے امام محمد تقیؑ کے علم و فضل، دانش و حکمت، ادب و کمال اور امامؑ کی کم سنی کے باوجود بے مثال عقل کو دیکھ کر اپنی بیٹی کا عقد امام سے کیا۔[36] لیکن بعض محققین جیسے رسول جعفریان (پیدائش: 1343ہجری شمسی) کا ماننا ہے کہ مامون نے سیاسی مقصد کے حصول کے لیے یہ شادی کرادی تھی۔ منجملہ اس کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کے ذریعہ امامؑ اور شیعوں سے ان کے رابطے پر نظر رکھنا چاہتا تھا۔[37] یا خود کو علویوں کا چاہنے والا پیش کرے تاکہ وہ اس کے خلاف قیام نہ کریں۔[38] شیخ مفید کے نقل کے مطابق مامون کے قریبی بعض عباسیوں نے اس شادی پر اعتراض کیا۔ ان کے اعتراض کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ڈر محسوس ہوا کہ کہیں حکومت، عباسیوں کے ہاتھ سے نکل کر علویوں کے ہاتھ میں نہ چلی جائے۔[39] امامؑ نے اس ام الفضل کا حق مہر حضرت زہراءؑ کے حق مہر یعنی 500 درہم رکھا۔[40] ام الفضل سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[41]

امام محمد تقیؑ کی دوسری زوجہ سمانہ مغربیہ تھیں[42] وہ ایک کینز تھیں جنہیں خود امام کے حکم سے خریدی گئی تھی۔[43] امام کی تمام اولاد اسی زوجہ سے ہوئیں۔[44]

اولاد

شیخ مفید کی روایت کے مطابق امام محمد تقیؑ کی چار اولاد امام علی نقی، موسی مبرقع، فاطمہ اور اَمامہ ہیں۔[45] البتہ بعض راویوں نے آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد تین بتائی ہے جو کہ حکیمہ ، خدیجہ و ام کلثوم تھیں۔[46] چودہویں صدی ہجری سے مربوط بعض مصادر میں ام محمد، زینب اور میمونہ کو بھی آپ کی بیٹیوں میں شامل کیا گیا ہے۔[47] کتاب منتہی الآمال میں ضامن بن شدقم سے نقل ہوا ہے کہ امام محمد تقیؑ کے 4 بیٹے تھے جن کے نام ابوالحسن، امام علی نقی(ع)، ابواحمد موسی مُبَرقَع، حسین، عمران اور 4 بیٹیاں جن کے نام فاطمہ، حکیمہ، خدیجہ اور ام کلثوم بتائے گئے ہیں۔[48] بعض مورخین کے مطابق امامؑ کے 3 بیٹے تھے بنام امام علی نقیؑ، موسی مبرقع اور یحیٰ جبکہ 5 بیٹیاں تھیں بنام فاطمہ، حکیمہ، خدیجہ، بہجت اور بُرَیہہ۔[49]

شہادت

حرم کاظمین کی ایک پرانی تصویر

عباسی حکومت میں آپ کو دو مرتبہ بغداد طلب کیا گیا۔ پہلا سفر مامون کا زمانہ تھا یہ سفر زیادہ طولانی نہیں تھا۔[50] دوسری مرتبہ 28 محرم سنہ 220ھ کو معتصم کے طلب کرنے پر آپؑ بغداد میں داخل ہوئے اور اسی سال ذی القعدہ[51] یا ذی الحجہ کے مہینے میں[52] آپؑ کی شہادت ہوئی۔ زیادہ تر منابع میں آپ کی شہادت کا دن آخر ذی القعدہ ذکر ہوا ہے؛[53] البتہ بعض منابع میں امام کی شہادت کی تاریخ 5 ذی الحجہ[54] یا 6 ذی الحجہ[55] ذکر ہوئی ہے۔ آپ کے جسد کو مقبرہ قریش کاظمین میں آپ کے جد امام موسی کاظم (ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا۔[56] شہادت کے وقت آپ کی عمر 25 برس نقل ہوئی ہے۔[57] اس اعتبار سے آپ شہادت کے وقت جوان ترین شیعہ امام تھے۔

آپؑ کی شہادت کے اسباب کے حوالے سے مروی ہے کہ بغداد کے قاضی ابن ابی داؤد نے معتصم عباسی کے پاس چغل خوری کی اور اس سخن چینی کا اصل سبب یہ تھا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کی رائے پر عمل ہوا تھا اور یہ بات ابن ابی داؤد اور دیگر درباری فقہاء کی شرمندگی کا باعث ہوئی تھی۔[58]

آپ کو کس طرح شہید کیا گیا؟ اس سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ معتصم نے اپنے ایک وزیر کے منشی کے توسط سے زہر دلوا کر امامؑ کو شہید کر دیا۔[59] البتہ بعض دوسروں کی رائے ہے کہ امامؑ کو ام الفضل بنت مامون نے زہر دیا تھا۔[60] تیسری صدی ہجری کے مورخ مسعودی (متوفی: 346ھ) کا کہنا ہے: معتصم عباسی اور ام الفضل کا بھائی جعفر بن مامون مسلسل امامؑ کو زہر دینے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ چونکہ ام الفضل کی کوئی اولاد نہیں تھی اور امام علی نقی امام محمد تقی کی دوسری زوجہ سے تھے۔ جعفر نے اپنی بہن کو اکسایا کہ آپؑ کو زہر دے کر امام کو قتل کرے۔ چنانچہ اس نے زہرآلود انگور امامؑ کو کھلا دیا۔ مسعودی کے بقول ام الفضل امام کو زہر دینے کے بعد پشیمان ہوئی۔ امامؑ نے فرمایا وہ ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوجائے گی۔[61] ام الفضل کے ذریعہ آپ کی شہادت کی کیفیت کے سلسلہ میں دوسرےاقوال بھی نقل ہوئے ہیں۔[62]

ایک دوسری روایت کے مطابھ، جب لوگوں نے معتصم کے ہاتھوں پر بیعت کر لی تو اس نے مدینہ کے گورنر عبد الملک زیات کو خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ وہ امام (ع) کو ام الفضل کے ہمراہ بغداد روانہ کرے۔ جب امام بغداد میں وارد ہوئے تو اس نے ظاہری طور پر امام کا احترام کیا اور امام اور ام الفضل کے لئے تحائف بھیجے۔ اس روایت کے مطابق معتصم نے سنگترے کا شربت اپنے اشناش نامی غلام کے ذریعہ امام کے پاس بھیجا۔ اس نے امام سے کہا کہ خلیفہ نے یہ شربت بعض بزرگان منجملہ احمد بن ابی ‌داود و سعید بن خضیب کو پلایا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ بھی یہ شربت پی لیں۔ امام نے فرمایا: میں اسے شب میں نوش کروں گا۔ لیکن اس نے اصرار کیا کہ اسے ٹھنڈی حالت میں پیا جانا چاہیے، امام نے اسے نوش کر لیا اور اسی کی وجہ سے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔[63]

شیخ مفید (متوفی: 413ھ) امام کے زہر سے شہید ہونے والے قول کو نہیں مانتے،ان کا کہنا ہے کہ یہ چیز میرے لئے ثابت نہیں ہے تا کہ میں اس کی شہادت دے سکوں۔[64] شیخ مفید نے اپنی کتاب تصحیح اعتقادات الامامیہ میں بھی لکھا ہے کہ بعض اماموں منجملہ امام جوادؑ کی شہادت ثابت نہیں ہے۔[65] البتہ سید محمد صدر (شہادت: 1377ہجری شمسی) نے اپنی کتاب "تاریخ الغیبہ میں اس روایت «ما مِنّا إلّا مقتولٌ شهیدٌ»(ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے کہ جسے قتل یا شہید نہ کیا گیا ہو)[66] سے استناد کرتے ہوئے امام محمد تقیؑ کی شہادت کے قائل ہوئے ہیں۔[67] معاصر مورخ، رسول جعفریان بھی امام ؑ کی شہادت کے قائل ہیں اور اس سلسلے میں بعض شواہد بھی پیش کرتے ہیں۔[68] بعض مورخین منجملہ سید جعفر مرتضی عاملی شیخ مفید کے نظریے کی توجیہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ وہ بغداد میں قیام پذیر تھے اور اس بات کے پیش نظر کہ عباسی حکومت میں مکتب اہل بیت (ع) اور شیعوں کے خلاف جو فضا حاکم تھی، اس میں شیخ صراحت کے ساتھ شیعہ عقاید اور امام محمد تقی (ع) کی شہادت کے بارے میں اظہار نظر نہیں کر سکتے تھے لہذا انہوں نے اس مورد میں تقیہ کیا ہے۔ یہ احتمال بھی ذکر ہوا ہے کہ زیادہ منابع ان کی دسترس میں نہ ہونے اور منابع اصلی تک رسائی حاصل کرنے میں سختی کی وجہ سے یہ مطالب ان تک نہیں پہچ سکے ہیں۔[69]

مدت امامت

امام محمد تقیؑ کے ہم عصر حکمران
امامت امام محمدتقیؑ 203-220ھ

امام محمد تقی ؑ کی امامت کا دور امام رضا کی شہادت کے سال 203 ھ سے شروع ہوتا ہے۔[70] آپؑ کی امامت کا زمانہ دو عباسی خلفاء کے معاصر ہے تقریبا 15 سال مامون (193۔218 ھ) کی حکومت کے دور میں اور دو سال معتصم (218۔227 ھ) کی حکومت کے دور میں گزرے۔[71] آپ کی مدت امامت 17 سال ہے۔ [72] سنہ 220 ھ میں ان کی شہادت کے بعد منصب امامت ان کے فرزند امام علی نقی (ع) کی طرف منتقل ہوگیا۔[73]

نصوص امامت

امام رضا (ع) نے متعدد موارد میں امام محمد تقی (ع) کی امامت کا اعلان اپنے اصحاب کے سامنے فرمایا تھا۔ کتاب الکافی،[74] کتاب الارشاد،[75] اعلام الوری[76] و بحار الانوار[77] میں سے تمام کتب میں امام محمد تقی (ع) کی امامت کے سلسلہ میں مستقل باب موجود ہے۔ ان میں بالترتیب 14، 11، 9، 26 روایات اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں۔ منجملہ ان روایات میں ایک روایت میں ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام تقی] کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے۔[78] یا ایک روایت میں آپ نے فرمایا: یہ ابو جعفر ہیں جنہیں میں نے اپنا جانشین قرار دیا ہے اور میں نے عہدہ امامت ان کے سپرد کیا ہے۔[79] شیعوں عقیدہ کے مطابق امام فقط سابق امام کی نص سے تعیین ہوتا ہے۔[80] یعنی ہر امام کو چاہئے کہ وہ واضح الفاط میں اپنے بعد کے امام کو معین کرے۔

بچپن میں امامت اور شیعوں کی آشفتگی

امام محمد تقی (ع) تقریبا آٹھ سال کی عمر میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔[81] آپ عمر کم ہونے کی وجہ سے امام رضا (ع) کے بعد آپ کی امامت میں اختلاف پیدا ہوگیا؛ بعض امام رضا کے بھائی عبد اللہ بن موسی کی طرف چلے گئے لیکن کچھ ہی مدت کے بعد انہیں احساس ہوگیا کہ ان میں امامت کی صلاحیت نہیں ہے لہذا ان سے روگردان ہوئے۔[82] بعض امام رضا کے دوسرے بھائی احمد بن موسی کی طرف مائل ہوگئے اور بعض واقفیہ سے ملحق ہوگئے۔[83] بہرحال امام رضا (ع) کے زیادہ تر اصحاب امام محمد تقی (ع) کی امامت کے معتقد رہے۔[84] منابع نے اس اختلاف کا سبب امام کی کم عمری ذکر کیا ہے۔ نوبختی کے بقول اس اختلاف کی علت یہ تھی کہ وہ لوگ امام کے لئے بالغ ہونے کو ضروری سمجھتے تھے۔[85] البتہ یہ مسئلہ امام رضا کی زندگی میں پیش آ چکا تھا۔ امام رضا نے اس کے جواب میں حضرت عیسی کو بچپن میں نبوت ملنے سے استناد کیا اور فرمایا: جب عیسی کو نبوت عطا ہوئی تو ان کی عمر میرے فرزند سے بھی کم تھی۔[86]

اسی طرح سے ان لوگوں کے جواب میں جو امام کے بچپن پر اعتراض ذکر کرتے تھے، قرآن کریم کی ان آیات سے جن میں حضرت یحیی کو بچپن میں نبوت ملنے[87] اور اسی طرح سے حضرت عیسی کے گہوارے میں گفتگو کرنے سے[88] استناد کیا گیا ہے۔[89] خود امام محمد تقی (ع) نے اپنے اوپر کئے جانے والے اعتراض کے جواب میں حضرت داود کے جانشین حضرت سلیمان کی طرف اشارہ کیا ہے جنہیں بچپن میں نبوت عطا ہوئی اور فرمایا: انہیں اس وقت نبوت عطا ہوئی جب وہ بچے تھے اور گوسفند چرایا کرتے تھے حضرت داود نے انہیں اپنا جانشین قرار دیا حالانکہ علمائے بنی اسرائیل اس بات سے انکار کرتے تھے۔[90]

شیعوں کے سوال و امام کے جواب

امام رضا (ع) متعدد مواقع پر امام محمد تقی (ع) کی امامت کی تصریح فرما چکے تھے۔[91] اس کے باوجود بعض شیعہ مزید اطمینان کی غرض سے آپ سے مختلف سوالات کرتے تھے۔[92] یہ آزمایش دوسرے ائمہ کے لئے بھی ہو چکی تھی۔[93] البتہ امام جواد کی عمر کم ہونے کی وجہ سے ان کے سلسلہ میں اس ضرورت کا زیادہ احساس کیا گیا۔[94] مورخ معاصر رسول جعفریان کے بقول، شیعوں کی طرف سے ایسا ہونے کی دلیل یہ تھی کہ کبھی بعض دلائل کی وجہ سے جیسے تقیہ و حفظ جان امام کے کئی افراد سے اس کی وصیت کی جاتی تھی۔[95]

منابع روایی میں مختلف گزارشات ذکر ہوئی ہیں جن کے مطابق شیعوں نے امام محمد تقی (ع) سے سوالات کئے اور امام کے جوابات ان کی منزلت بڑھانے اور ان کی امامت کے قبول کرنے کا سبب بنے۔[96] البتہ یہ سوال پوچھنے کی روش امام تقی سے مخصوص نہیں تھی۔ وہ اسی طریقے سے دوسروں کے امتحان بھی لے چکے تھے۔[97] روایات میں ذکر ہوا ہے کہ شیعوں کے مختلف گروہ جو بغداد اور مختلف شہروں سے حج کے لئے آئے تھے وہ امام جواد الائمہ کے دیدار کے لئے مدینہ گئے۔ انہوں نے مدینہ میں عبد بن موسی سے ملاقات کی اور ان سے سوالات پوچھے لیکن انہوں نے ان سوالوں کے غلظ جوابات دیئے۔ وہ لوگ حیران ہوگئے۔ اسی مجلس میں امام تقی (ع) وارد ہوئے تو انہوں نے ان ہی سوالات کو ان دریافت کیا اور امام (ع) کے جواب سے قانع ہوگئے۔[98]

شیعوں سے رابطہ

امام جوادؑ دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں میں وکیلوں کے توسط سے شیعیان اہل بیتؑ سے رابطے میں تھے۔ بغداد، کوفہ، اہواز، بصرہ، ہمدان، قم، رے، سیستان اور بُست میں آپ کے نمائندے موجود تھے۔[99] آپ کے وکلاء کی تعداد 13 نقل ہوئی ہے۔[100] وہ شیعوں سے موصول ہونے والی شرعی وجوہات کو امام تک پہچاتے تھے۔[101] ہمدان میں ابراہیم بن محمد ہمدانی[102] اور ابو حذاء بصرہ کے اطراف میں[103] آپ کے وکیل تھے۔ صالح بن محمد بن سہل قم میں امام کے موقوفات کی رسیدگی کرتے تھے۔[104] اسی طرح سے زکریا بن آدم قمی،[105] عبد العزیز بن مهتدی اشعری قمی،[106] صفوان بن یحیی،[107] علی بن مهزیار[108] و یحیی بن ابی‌ عمران[109] آپ کے وکلاء میں سے تھے۔ بعض اہل قلم نے بعض شواہد سے استناد کرتے ہوئے محمد بن فرج رخجی و ابو ہاشم جعفری کو بھی آپ کے وکلاء میں شمار کیا ہے۔[110] البتہ احمد بن محمد سیاری بھی وکالت کا دعوی کرتا تھا لیکن امام نے اس کے دعوی کو رد کرتے ہوئے انہیں شرعی وجوہات نہ دینے کا حکم دیا۔[111] آیتاللہ خامنہ ای اپنی ایک تحلیل میں کہتے ہیں کہ امام جوادؑ نے وکلائی نظام کے ذریعے امام مہدی(عج) کی غیبت کے لیے ماحول فراہم کیا حالانکہ امامؑ کے ہم عصر خلفا اس بات سے سخت خوف میں مبتلا تھے۔[112]

نقل ہوا ہے کہ امام دو دلیل کی وجہ سے مستقیم رابطے کے بجائے وکیلوں کے ذریعے سے اپنے شیعوں سے رابطہ برقرار رکھتے تھے:

امامؑ حج کے ایام میں بھی شیعوں سے ملاقات اور گفتگو کرتے تھے۔ بعض محققین کا ماننا ہے کہ امام رضا (ع) کا سفر خراسان سبب بنا کہ شیعوں سے ائمہ کے ساتھ ارتباط میں وسعت پیدا ہو۔[114] اسی بناء پر شیعہ خراسان، ری، بست و سجستان سے ایام حج میں امام سے ملاقات کے لئے آتے تھے۔

آپ وکلا کے علاوہ خط و کتابت کے ذریعے بھی اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ شیعہ اپنے سوالات خط و کتابت کے ذریعے بھجواتے تھے اور آپؑ ان کا جواب دیتے تھے جن میں سے اکثر کا تعلق فقہی مسائل سے ہوتا تھا۔[115] موسوعۃ ‌الامام ‌الجواد [116] میں امامؑ کے والد اور فرزند کے علاوہ 63 افراد کے نام حدیث و رجال کے مآخذ سے اکٹھے کئے گئے ہیں جن کا خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطہ رہتا تھا۔ البتہ امامؑ نے بعض خطوط اپنے پیروکاروں کے گروہوں کے نام تحریر فرمائے ہیں۔[117]

دوسرے گروہوں سے مقابلہ

شیعہ منابع میں نقل ہونے والے شیعوں کے سوالات اور امام محمد تقی (ع) کے جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دور امامت میں اہل حدیث، واقفیہ، زیدیہ و غلات جیسے فرقے سرگرم تھے۔ روایات کے مطابق امام کے زمانہ میں محدثین کے درمیان جو بحثیں ہوتی تھیں ان کے اعتبار سے بعض شیعہ خدا کے جسم ہونے کے بارے میں شک میں مبتلا ہو گئے تھے۔ امام نے خدا سے جسم و جسمانیت کی نسبت کو رد کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا جو خدا کے جسم ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے بلکہ ایسے لوگوں کو زکات دینے سے بھی منع فرمایا۔ امام نے ابو ہاشم جعفری کے اس آیت کریمہ لا تُدْرِکهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ یدْرِک الْأَبْصار[118] کی تفسیر میں کئے گئے سوال کے جواب میں فرمایا: خداوند عالم کو ان ظاہری آنکھوں سے دیکھنا (عقیدہ مجسمہ) ممکن نہیں ہے۔ دل کی آنکھوں سے دیکھنا ان آنکھوں سے زیادہ دقیق تر ہے۔ انسان نے جن چیزوں کو نہیں دیکھا ہے وہ ان کا تصور کر سکتا ہے لیکن انہیں دیکھ نہیں سکتا ہے۔ جب اوہام قلوب خدا کو درک نہیں کر سکتے ہیں تو آنکھیں جس طرح سے اسے درک کر پائیں گی؟[119]

امام (ع) سے واقفیہ کی مذمت میں روایات نقل ہوئی ہیں۔[120] آپ نے واقفیہ و زیدیہ کو نواصب کی فہرست میں قرار دیا ہے۔[121] آپ فرماتے تھے: آیہ کریمہ: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ۔ ترجمہ: اس دن کچھ چہرے تذلل کا منظر پیش کرنے والے ہوں گے (2) بہت کام کیے ہوئے بڑی محنت و مشقت اٹھائے ہوئے ہیں (مگر بے سود)۔[122] ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[123] اسی طرح سے نے آپ نے اپنے اصحاب سے واقفیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔[124]

امام جواد (ع) غالیوں، ابو الخطاب اور اس کے ماننے والوں پر لعنت کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سے آپ ان لوگوں پر بھی لعنت کرتے تھے جو ان پر لعنت میں شک و تردید کرتے تھے۔[125] آپ ابو الغمر، جعفر بن واقد و ہاشم بن ابی‌ ہاشم جیسے افراد کو ابو الخطاب کا پیرو شمار کرتے تھے اور فرماتے تھے یہ لوگ ہم (اہل بیت) کے نام سے لوگوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔[126] اس روایت کے مطابق جو رجال کشی میں ذکر ہوئی ہے، آپ نے غلات میں سے ابو السَّمہری اور ابن ابی‌ زرقاء نامی دو لوگوں کے قتل کو جائز قرار دیا تھا اور اس کی دلیل آپ نے شیعوں کو گمراہ کرنے میں ان کے کردار کو قرار دیا تھا۔[127] اسی طرح سے آپ نے اس دور کے غالیوں کے عقاید سے مقابلہ بھی کیا اور کوشش کی کہ ان کے عقاید کی تبیین سے شیعوں کو ان کی پیروی سے دور کریں۔[128] اسی طرح سے آپ نے محمد بن سنان کو خطاب کرتے ہوئے مفوضہ کے اس دعوی کو کہ اللہ نے تخلیق و تدبیر سب کچھ محمد و آل محمد کے حوالے کر دیا، رد کیا۔ البتہ احکام کو تفویض کرنے کے عقیدہ کو صحیح عقیدہ کے طور پر پیش کیا اور اسے مشیت االہی سے منسوب کیا اور فرمایا: یہ وہ عقیدہ ہے کہ جو بھی اس سے آگے بڑھے گا وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا، جو اس کو قبول نہیں کرے گا وہ (اس کا دین) نابود ہو جائے گا اور جو اسے قبول کرے گا وہ حق سے ملحق ہو جائے گا۔[129]

مناظرات و احادیث

امام محمد تقی (ع) سے تقریبا دو سو پچاس احادیث نقل ہوئی ہیں۔[130] یہ روایات فقہی، تفسیری و اعتقادی موضوعات پر مشتمل ہیں۔ دوسرے ائمہ (ع) کی بنسبت آپ سے کم احادیث نقل ہونے کا سبب، آپ کا تحت نظارت ہونا اور شہادت کے وقت آپ کی عمر کم ہونا ذکر ہوا ہے۔ سید بن طاووس نے اپنی کتاب مہج الدعوات میں آپ سے ایک حرز مامون عباسی کی حٖفاظت کے لئے نقل کیا ہے۔[131] اسی طرح سے یہ حرز: يَا نُورُ يَا بُرْهَانُ يَا مُبِينُ يَا مُنِيرُ يَا رَبِّ اكْفِنِي الشُّرُورَ وَ آفَاتِ الدُّهُورِ وَ أَسْأَلُكَ النَّجَاةَ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، آپ سے منسوب ہے۔[132] حرز امام جواد اپنے ہمراہ رکھنا شیعوں کے درمیان متداول ہو چکا ہے۔[133]

امام (ع) نے اپنے دور امامت میں متعدد مرتبہ مامون عباسی کے بعض درباری فقہاء کے ساتھ مناظرے کئے ہیں۔ تاریخی گزارشات کے مطابق ان میں سے بعض مناظرے مامون و معتصم کے درباریوں کی درخواست پر اور امام (ع) کو آزمانے کی غرض سے ہوتے ہیں اور اس کے نتائج حاضرین کے استعجاب و تحسین کا باعث بنتے تھے۔[134] مصادر میں امام جواد کے 9 مناظروں و گفتگو کا تذکرہ ہوا ہے۔ جن میں چار بار یحیی بن اکثم کے ساتھ اور ایک بار قاضی القضاۃ بغداد احمد بن ابی داود کے ساتھ ہونے والا مناظرہ شامل ہے۔ اسی طرح سے عبد الله بن موسی، ابو ہاشم جعفری، عبد العظیم حسنی و معتصم کے ساتھ ہونے والی آپ کی گفتگو بھی نقل ہوئی ہے۔ ان بحثوں کا موضوع فقہی مباحث میں حج، طلاق، چوری کی سزا و دیگر مباحث میں امام زمانہ (ع) کے اصحاب کی خصوصیات، شیخین کے جعلی فضائل اور اسماء و صفات خداوند شامل ہیں۔[135]

حج سے متعلق ایک فقہی مسئلے پر مناظرہ

جب مامون نے امام محمد تقیؑ سے اپنی بیٹی ام فضل کی شادی کا فیصلہ کیا تو بنی عباس کے بزرگوں نے اس فیصلے پر اعتراض کیا جس کے جواب میں مامون نے کہا تم ان (امام جواد) کا امتحان لے لو۔ انہوں نے قبول کیا اور دربار کے سب سے بڑے عالم اور فقیہ یحیی بن اکثم کو امام جوادؑ کے ساتھ مناظرے کے لئے انتخاب کیا۔

مناظرے کا دن آن پہنچا۔ یحیی بن اکثم نے مناظرے کا آغاز کرتے ہوئے امام سے سوال کیا: اگر کوئی مُحرِم (وه شخص جو حج کے احرام کی حالت میں ہو) کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟[136] امامؑ نے اس مسئلے کی مختلف صورتیں بیان کیں اور ابن اکثم سے کہا: تم کون سی صورت کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟ یحیی جواب نہ دے سکا۔ اس کے بعد امامؑ نے محرم کے شکار کی مختلف صورتوں کے احکام الگ الگ بیان کئے تو تمام اہل دربار اور عباسی علما نے آپؑ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون ـ جس پر اپنے انتخاب کے حوالے سے نشاط و سرور کی کیفیت طاری تھی ـ نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔[137] تاریخی نقل کے مطابق مامون نے امام جوادؑ کے جوابات کو سننے کے بعد کہا کہ اس خاندان کے فضل و علم سب پر عیاں ہے ان کی کم عمری ان کے کمالات اور فضائل کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ اس نے مزید کہا پیغمبرخداؐ نے امام علیؑ کو بلا کر اپنی تبلیغ کا آغاز کیا حالانکہ اس وقت علیؑ کی عمر صرف 10 تھی۔[138] ایک روایتکے مطابق مامون نے اپنے اطرافیوں سے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ خاندان رسولؐ کا معاملہ دوسروں سے بالکل الگ ہے۔ اسی لیے کہا تھا کہ ان سے سوال کر کے امتحان لے لیں۔[139]

خلفاء کے بارے میں مناظرہ

امام جوادؑ نے مامون عباسی کی موجودگی میں بعض فقہاء اور درباریوں کے ساتھ مناظرہ کیا اور ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی بن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔ یحیی نے کہا: جبرائیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ(ص) سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟! امامؑ نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ(ص) سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ آپ (ص) نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بے شک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے: "وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِسورہ ق آیت 16۔ترجمہ: اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس سے رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں۔ تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔[140]

بعد از اں یحیی نے اس روایت کا حوالہ دیا کہ "أنّ مثل أبي بكر و عمر في الاَرض كمثل جبرئيل و ميكائيل في السماءترجمہ: بے شک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔[141] امامؑ نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرائیل و میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر و عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔[142]

چور کے ہاتھ کاٹنےکی سزا کا مسئلہ

امام جوادؑ کے قیام بغداد کے دوران بعض واقعات پیش آئے جو لوگوں کے درمیان امامت کی منزلت سے آگہی کا سبب بنے۔ مثال کے طور پر چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کے فتوے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ فقہا کے درمیان اختلاف اس بات پر رونما ہوا کہ کیا چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹنا چاہئے یا پھر کہنی سے!!! بعض فقہاء نے کلائی سے ہاتھ کاٹنے پر رائے دی اور بعض نے کہنی سے کاٹنے کے حکم کو اختیار کیا۔ عباسی خلیفہ معتصم نے اس سلسلے میں امام جوادؑ کی رائے پوچھی۔ امامؑ نے ابتدا میں معذرت کی لیکن معتصم نے اصرار کیا تو آپؑ نے فرمایا: "چور کے ہاتھ کی چار انگلیاں کاٹی جاتی ہیں۔ آپؑ نے اس فتوی کی دلیل بیان کرتے ہوئے آیت کریمہ کا حوالہ دیا جہاں ارشاد ہوا ہے: "وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً۔[143] ترجمہ: اور یہ کہ سجدے کے مقامات اللہ کے لئے مخصوص ہیں لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو خدا نہ کہو۔ معتصم کو امامؑ کا جواب پسند آیا اور چور کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔[144]

فضائل و کرامات

حرم امام محمد تقیؑ اور امام موسی کاظمؑ

احادیث میں امام محمد تقیؑ کے بکثرت فضائل و کرامات منقول ہوئے ہیں۔

کثرت جود و بخشش

امام محمد تقیؑ کو جواد کا لقب اسی لیے ملا ہے کہ آپؑ نہایت درجہ جود و بخشش کے مالک تھے۔[145] جس وقت امام رضاؑ نے خراسان سے آپؑ کو جواد کے لقب دیکر ایک خط بھیجا اسی وقت سے ہی آپؑ کی بخشش و سخاوت زبان زد عام تھی۔ جس وقت آپ کے والد خراسان میں تھے، اصحاب آپ کو گھر کے پہلو والے دروازہ سے باہر لے جاتے تھے تا کہ آپ کا سامنا دروازے پر جمع نیازمند افراد سے کمتر ہو۔ اس روایت کے مطابھ، امام رضاؑ نے آپ کو خط تحریر کیا اور فرمایا کہ ان لوگوں کی بات پر عمل نہ کریں جو آپ کو اصلی دروازے کے بجائے پہلو والے دروازہ سے خارج ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جب بھی گھر سے باہر نکلنا چاہیں اپنے ساتھ کچھ درہم و دینار رکھا کریں۔ تاکہ جو بھی آپ سے سوال کرے اسے خالی ہاتھ کبھی جانے نہ دینا۔[146]

کثرت عبادت

عراقی مورخ باقر شریف قرشی نے جواد الائمہ کو اپنے زمانے کا سب سے بڑے عبادت گزار اور مخلص ترین شخص کے عنوان سے امام کا تعارف کرایا ہے۔ قرشی کہتے ہیں امام جوادؑ کثرت سے نافلہ نماز پڑھتے تھے۔ ان کے بقول امام جواد اپنی نافلہ نماز میں ہر رکعت میں حمد کے بعد ستر مرتبہ توحید کی تلاوت فرماتے تھے۔[147] سید بن طاووس نے منقول روایت کے مطابق جب بھی قمری مہینہ شروع ہوتا تھا، آپؑ دو رکعت نماز پڑھتے تھے جس کی پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد تیس مرتبہ سورہ توحید اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد تیس بار سورہ قدر کی تلاوت کرتے تھے اور اس کے بعد صدقہ دیتے تھے۔[148]

کرامات

شیعہ منابع حدیثی میں بعض کرامات کو امام محمد تقیؑ سے منسوب کیا گیا ہے؛ منجملہ ولادت کے دورا بعد بات کرنا، اپنے والد امام رضاؑ کی تدفین کے لیے مدینہ سے طی الارض کر کے خراسان پہنچنا، بیماروں کو شفا دینا، مستجاب الدعوۃ ہونا، لوگوں کے باطن کی خبر دینا اور آئندہ کی پیشنگوئی کرنا وغیرہ آپ کے کرامات میں سے ہیں۔[149]

محدث قمی نے قُطب راوندی سے اور انہوں نے محمد بن میمون سے نقل کیا ہے، ابن میمون کہتا ہے: "جس وقت امام رضاؑ خراسان نہیں گئے تھے، امام کو مکہ کی جانب ایک سفر پیش آیا، میں بھی امام کی خدمت میں تھا۔ جب میں واپس آنا چاہا تو امام سے عرض کیا کہ میں واپس مدینہ جارہا ہوں اگر اپنے بیٹے محمد تقیؑ کو کوئی خط بھیجنا ہے تو میں لے جاتا ہوں۔ امام رضاؑ نے ایک خط لکھا۔ میں وہ خط لیکر مدینہ کی طرف حرکت کی، جس وقت مدینہ پہنچا میری اپنی بینائی کھو چکا تھا۔ امام جوادؑ کے غلام موفق نے امام کو میری طرف رہنمائی کی۔ امام نے اپنے غلام سے خط کھولنے کا حکم دیا، پھر میری خبر لیتے ہوئے سوال کیا اے محمد! تماہری آنکھوں کا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا یابن رسول اللہ! میں اپنی بینائی کھو چکا ہوں۔ امام نے اپنے دست مبارک کو میری آنکھوں پر پھیرا۔ میری بینائی لوٹ آئی اور میں شفایاب ہوگیا۔"[150]

نیز منقول ہے کہ جس وقت امام محمد تقیؑ بغداد سے مدینہ واپس آرہے تھے، بعض لوگوں نے آپ کو خداحافظی کی۔ مغرب کے وقت آپ نماز پڑھنے کے لیے کسی مسجد کے نزدیک میں میوہ سے خالی ایک بیری کے درخت کے پاس وضو کیا اور نماز پڑھ لی، امام کے ساتھ موجود لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ بیری کے درخت پر میوے لگے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے درخت سے کاٹ کر میٹھے اور بے دانہ میوے کھائے۔ لوگوں کو تعجب ہوا۔ شیخ مفید نے نقل کیا ہے چند سالوں کے بعد اس درخت کو دیکھا کہ اس سے میوہ تناول کیا تھا۔[151]

صلوات مخصوص امام جوادؑ

اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَىٰ عَلَمِ التُّقىٰ، وَنُورِ الْهُدَىٰ، وَمَعْدِنِ الْوَفاءِ، وَفَرْعِ الْأَزْكِياءِ، وَخَلِيفَةِ الْأَوْصِياءِ، وَأَمِينِكَ عَلَىٰ وَحْيِكَ . اللّٰهُمَّ فَكَما هَدَيْتَ بِهِ مِنَ الضَّلالَةِ، وَاسْتَنْقَذْتَ بِهِ مِنَ الْحَيْرَةِ، وَأَرْشَدْتَ بِهِ مَنِ اهْتَدىٰ، وَزَكَّيْتَ بِهِ مَنْ تَزَكَّىٰ، فَصَلِّ عَلَيْهِ أَفْضَلَ مَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ أَحَدٍ مِنْ أَوْلِيائِكَ، وَبَقِيَّةِ أَوْصِيائِكَ، إِنَّكَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ. خدایا! درود بھیج محمد بن علی بن موسی پر جو علامت تقوا، نور ہدایت، وفا کا سرچشمہ، پاک طینت، اوصیاء کا جانشین اور تیری وحی کے امین ہیں۔ خدایا! چنانکہ تو ان کے وسیلے سے لوگوں کو گمراہی سے نجات دے کر وادی ہدایت کی طرف راہنمائی کی اور تحیر و سرگردانی سے انہیں نجات دی۔ اسی کے ذریعے ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت کی اور تربیت شدہ لوگوں کی تربیت کی، پس اس پر درود بھیج، وہ بہترین درود جسے تو نے اپنے اولیاء اور اوصیاء سے مخصوص کر رکھا ہے۔ بے شک تو غالب آنے والا اور با حکمت ہے

مجلسی، بحارالانوار، ج94، ص77۔

اصحاب

شیخ طوسی نے آپ کے تقریبا 115 اصحاب کے نام ذکر کئے ہیں۔[152] قرشی نے اپنی کتاب حیاۃ الامام محمد الجواد (ع) میں 132،[153] عبد الحسین شبستری نے کتاب سُبُلُ الرَّشاد إلی اَصحاب الاِمام الجَواد میں 193 [154] افراد کو اصحاب کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ عطاردی نے مسند الامام الجواد میں آپ سے روایت نقل کرنے والے راویوں کی تعداد 121 ذکر کی ہے۔[155] آپ کے بعض اصحاب، امام رضا (ع)[156] و امام علی نقی (ع) کے ساتھ بھی مصاحبت رکھتے تھے اور انہوں نے ان دونوں اماموں سے بھی روایت نقل کی ہے۔[157] آپ سے روایت نقل کرنے والے راویوں میں دیگر فرقے منجملہ اہل سنت بھی موجود ہیں۔[158] آپ سے نقل کرنے والے غیر امامی راویوں کی تعداد 10 ذکر ہوئی ہے۔[159]

عبد العظیم حسنی، احمد بن ابی نصر بزنطی، صفوان بن یحیی، حسن بن سعید اہوازی، احمد بن محمد برقی، زکریا بن آدم، احمد بن محمد بن عیسی اشعری، ابراہیم بن ہاشم اور ابو ہاشم جعفری آپ کے مشہور اصحاب میں سے ہیں۔[160]

اہل سنت کے ہاں امام تقیؑ کا مقام و مرتبہ

اہل سنت علما امام محمد تقیؑ کا ایک عالم دین ہونے کے لحاظ سے احترام کرتے ہیں۔[161] ان کے بعض علما نے جواد الائمہؑ کی علمی شخصیت کو ممتاز شمار کیا ہے۔ref>برای نمونه نگاه کنید به: سبط بن جوزی، تذکرة الخواص، 1418ھ، ص321.</ref> مامون امام جوادؑ کے زمان طفولیت میں علمی اور روحانی شخصیت کو دیکھ تحیر کا شکار ہوتا تھا۔[162] علمائے اہل سنت امام کی دوسری خصوصیات جیسے زہد و تقوی، سخاوت وغیرہ میں بھی امام کو برتر و افضل سمجھتے ہیں۔[163] بطور نمونہ؛ آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت محدث شمس‌ الدین ذَهَبی[164] اور ابن‌تیمیہ[165] نے امامؑ کو جواد لقب ملنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ امام جواد ؑ سخاوت و بخشش میں مشہور تھے۔ دوسری صدی ہجری کےمعتزلی ادیب و متکلم جاحظ عثمان نے بھی محمد بن علیؑ کو عالم، زاہد، عبادت گزار، شجاع، سخی اور پاک طینت کے عنوان سے متعارف کرایا ہے۔[166] ساتویں صدی ہجری کے شافعی عالم دین محمد بن طلحہ شافعینے امام جوادؑ کے بارے میں یوں لکھا ہے: "وہ(امام تقیؑ) اگرچہ کم سن تھے لیکن بلند مرتبہ، اعلی مقام اور سب کے ہاں مشہور انسان تھے۔"۔[167]

امام (ع) سے توسل

بعض شیعہ وسعت رزق اور مادی امور کی آسانی کے لئے بعض شیعہ علماء کی سفارشات کے مطابق امام محمد علیہ السلام سے توسل کرتے ہیں اور انہیں باب الحوائج مانتے ہیں۔ ان سفارشات کا ایک نمونہ علامہ مجلسی نے ابو الوفاء شیرازی سے نقل کیا ہے۔ جس میں انہوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے خواب میں انہیں مادی امور میں امام محمد تقی (ع) سے توسل کی سفارش کی ہے۔[168]

اس روایت کے مطابق جسے داوود صیرفی نے امام علی نقی علیہ السلام سے نقل کیا ہے، جواد الائمہ کے روضہ کی زیارت کا بہت اجر و ثواب ہے۔[169] اسی طرح سے ابراہیم بن عقبہ نے ایک نامہ میں امام علی نقی (ع) سے امام حسین علیہ السلام امام جواد و امام موسی کاظم (ع) کی زیارت کے بارے میں سوال کیا۔ امام علی نقی نے امام حسین کی زیارت کو مقدم و برتر شمار کرتے ہوئے فرمایا: تینوں زیارتیں کامل تر ہیں اور ان کا بہت ثواب ہے۔[170] امام محمد تقی و امام موسی کاظم کا روضہ بغداد میں مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔ وہ حرم کاظمین میں آپ کے مرقد کی زیارت کرتے ہیں۔ آپ سے توسل کرتے ہیں اور آپ کا زیارت نامہ پڑھتے ہیں۔[171]

متعلقہ مضامین

مزید مطالعہ

تحفۃ المتقين، سيد أولاد حيدر بلگرامی

حوالہ جات

  1. طبری، دلائل الامامہ، 1413ھ، ص396.
  2. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص492؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ھ، ص216.
  3. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، نشر علامہ، ج4، ص379.
  4. کلینی، اصول کافی، ج1، ص315و492۔ مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص1۔
  5. اربلی، کشف الغمہ، 1421ھ، ج2، ص857.
  6. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص281.
  7. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، نشر علامہ، ج4، ص379؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج50، ص12، 13.
  8. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص295.
  9. طوسی، مصباح المتہجد، المکتبۃ الاسلامیۃ، ص805.
  10. طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص41.
  11. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص297.
  12. بحرانی، عوالم العلوم و المعارف، قم، ج23، ص553.
  13. مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1426ق، ص223.
  14. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج8، ص646.
  15. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص295.
  16. اشعری، المقالات و الفرق، 1361ش، ص99؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص106.
  17. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص273؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص91.
  18. نگاه کریں:‌ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص91؛ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، 1379ھ، ج4، ص379.
  19. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص273؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص91.
  20. برای نمونہ نگاه کریں: اشعری، المقالات و الفرھ، 1361یجری شمسی، ص99.
  21. اربلی، کشف الغمہ، 1421ھ، ج2، ص867؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ھ، ص216؛ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، 1379ھ، ج4، ص379.
  22. ابن فتال، روضة الواعظین، 1375ھ، ج1، ص243.
  23. طوسی، مصباح المتهجد، المکتبة الاسلامیة، ص805.
  24. نگاه کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص320.
  25. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج50، ص20،23،35.
  26. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص323.
  27. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص476.
  28. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص476-477.
  29. بیهقی، تاریخ بیهھ، 1361یجری شمسی، ص46.
  30. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج8، ص566.
  31. مسعودی، اثبات الوصیة، 1426ھ، ص223.
  32. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص478.
  33. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج10، ص295۔
  34. برای نمونہ نگاه کریں: مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص281.
  35. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص455.
  36. مفید، الارشاد، 1372یجری شمسی، ج2، ص281-282.
  37. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص478.
  38. پیشوایی، سیره پیشوایان، 1379یجری شمسی، ص558.
  39. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص281؛ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، 1379ھ، ج4، ص380-381.
  40. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص285.
  41. ابن‌شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، نشر علامہ، ج4، ص380.
  42. قمی، منتہی الامال، ج2، ص235۔
  43. حسّون، أعلام النساء المؤمنات، 1421ھ، ص517.
  44. قمی، منتهی الامال، 1386یجری شمسی، ج2، ص497.
  45. مفید، الارشاد، ج2، ص284۔
  46. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج 4،ص 380۔
  47. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج4، ص316؛ شیخ عباس قمی، منتهی الامال، ج2، ص432.
  48. بحرالعلوم گیلانی، انوار پراکنده در ذکر احوال امامزادگان و بقاع متبرکه ایران، 1376یجری شمسی، ج1، ص378.
  49. بحرالعلوم گیلانی، انوار پراکنده در ذکر احوال امامزادگان و بقاع متبرکه ایران، 1376یجری شمسی، ج1، ص378.
  50. ملاحظہ کیجیے: ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، نشر علامہ، ج4، ص380.
  51. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص295.
  52. ابن ابی‌ الثلج، تاریخ الائمة، 1406ھ، ص13.
  53. اشعری، المقالات و الفرھ، 1361یجری شمسی، ص99؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص106.
  54. ابن ابی‌ الثلج، تاریخ الائمة، 1406ھ، ص13.
  55. ابن فتال، روضة الواعظین، 1375ھ، ج1، ص243.
  56. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص295.
  57. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص273، 295.
  58. نگاه کریں: عیاشی، تفسیر، 1380ھ، ج1، ص320.
  59. عیاشی، تفسیر، ج1، ص320۔
  60. عاملی، زندگانی سیاسی امام جواد، ص153۔
  61. المسعودی، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص192۔
  62. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، نشر علامہ، ج4، ص391.
  63. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، نشر علامہ، ج4، ص384؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج50، ص8.
  64. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص295.
  65. شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، 1414ھ، ص132.
  66. صدوھ، من لا یحضره الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص585.
  67. صدر، تاریخ الغیبه، 1412ھ، ج1، ص229-237۔
  68. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص481-482.
  69. نگاه کریں: عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، 1426ھ، ج33، ص181-193۔
  70. طبری، دلائل الامامہ، 1413ھ، ص394.
  71. پیشوایی، سیره پیشوایان، 1379یجری شمسی، ص530.
  72. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص273.
  73. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص295.
  74. کلینی، الکافی، ج1، 1407ھ، ص320-323.
  75. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص274-280.
  76. طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص92-96.
  77. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج50، ص18-37.
  78. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص265۔
  79. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص266.
  80. نگاه کریں: جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص476.
  81. نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ھ، ص88.
  82. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، نشر علامہ، ج4، ص383.
  83. نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ھ، ص77-78.
  84. جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، 1386یجری شمسی، ص78.
  85. نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ھ، ص88.
  86. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص322.
  87. سوره مریم، آیہ 12.
  88. سوره مریم، آیات 30-32.
  89. نوبختی،‌ فرق الشیعہ، 1404ھ، ص90؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص382.
  90. نگاه کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص383.
  91. برای نمونہ نگاه کریں: کلینی، الکافی، ج1، 1407ھ، ص320-323.
  92. پیشوایی، سیره پیشوایان، 1379یجری شمسی، ص539.
  93. برای نمونہ نگاه کریں: کشّی، رجال، ص282-283.
  94. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص476.
  95. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص476.
  96. جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، 1386یجری شمسی، ص78.
  97. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، نشر علامہ، ج4، ص383.
  98. طبری، دلائل الامامة، 1413ھ، ص390-389؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج50، ص99-100.
  99. جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص79۔
  100. جباری، سازمان وکالت، 1382یجری شمسی، ج2، ص427.
  101. جباری، سازمان وکالت، 1382یجری شمسی، ج2، ص282.
  102. جباری، سازمان وکالت، 1382یجری شمسی، ج1، ص123.
  103. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص316.
  104. نگاه کریں: طوسی، الغیبہ، 1425ھ، ص351.
  105. طوسی، الغیبہ، 1425ھ، ص348.
  106. طوسی، الغیبہ، 1425ھ، ص349.
  107. نجاشی، رجال النجاشی، 1365یجری شمسی، ص197.
  108. نجاشی، رجال النجاشی، 1365یجری شمسی، ص253؛ نگاه کریں: طوسی، الغیبہ، 1425ھ، ص349.
  109. راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج2، ص717.
  110. جباری، سازمان وکالت، 1382یجری شمسی، ج2، ص532.
  111. کشی، رجال الکشی، ص1409ُ، ص606.
  112. «بیانات در سالروز شهادت امام جواد علیه‌السلام در مهدیه تهران»
  113. دشتی، نقش سیاسی سازمان وکالت در عصر حضور ائمہ، ص103.
  114. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص494.
  115. رجوع کریں: كلینی‌، ج‌3، ص‌399، ج‌4، ص‌275، 524، ج‌5، ص‌347۔ كشّی‌، الرجال، ص610- 611۔
  116. ج‌2، ص‌416ـ 508۔
  117. نمونے کے طور پر رجوع کریں: كلینی‌، الکافی، ج‌3، ص331، 398، ج‌5، ص394‌، ج‌7، ص163‌۔ كشّی‌، رجال، ص‌606، 611۔
  118. سوره انعام، آیہ 103.
  119. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص99.
  120. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج48 ص267؛ عطاردی، مسند الامام الجواد، 1410ھ، ص150.
  121. کشی، رجال الکشی، 1409ھ، ص460.
  122. سوره غاشیہ، آیات 2 و3.
  123. کشی، رجال الکشی، 1409ھ، ص229، 460.
  124. صدوھ، من لا یحضر، 1413ھ، ج1، ص379؛ طوسی، تهذیب، 1407ھ، ج3، ص28.
  125. کشی، رجال الکشی، 1409ھ، ص529-528.
  126. کشی، رجال الکشی، 1409ھ، ص529-528.
  127. کشی، رجال الکشی، 1409ھ، ص529-528.
  128. نگاه کریں: حاجی ‌زاده، «غالیان در دوره امام جواد(ع) و نوع برخورد حضرت با آنان»، ص226.
  129. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص441.
  130. عطاردی، مسند الامام الجواد، 1410ھ، ص249.
  131. سید ابن طاووس، منهج الدعوات، 1411ھ، ص39-42.
  132. سید ابن طاووس، منهج الدعوات، 1411ھ، ص42.
  133. نگاه کریں: دهخدا، لغت ‌نامہ، ذیل «حرز جواد»
  134. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ص443.
  135. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ص441-449؛ میانجی، مکاتیب الائمہ (ع)، ج5 ص381٬427 و...
  136. تفصیل کے لئے رجوع کریں: | یحیی بن اکثم سے امام جواد (علیہ السلام) کا مناظرہ۔
  137. طبرسی، احتجاج، ص443و444۔ مسعودی، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ السلام، صص 189-191۔
  138. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج50، ص78.
  139. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج50، ص75.
  140. طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
  141. سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304 اصبہانی یا اصفہانی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غیر مانوس اور غريب ہے اور اس کا واحد راوی رباح ہے جس نے اسے ابن عجلان سے نقل کیا ہے۔
  142. طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔ مناظرے کی تفصیل کے لئے رجوع کریں:| امام محمد تقی (علیہ السلام) اور جعلی احادیث کا مقابلہ۔
  143. سوره جن، آیت 18۔
  144. عیاشی، کتاب التفسیر، ج1،صص 319و320۔ مجلسی، بحار الانوار،ج50، ص5و6۔
  145. قرشی، حیاة‌ الامام محمد الجواد، 1418ھ، ص70-71.
  146. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص43۔
  147. قرشی، حیاة‌ الامام محمد الجواد، 1418ھ، ص67-68.
  148. سید ابن طاووس، 1415ھ، الدروع الواقیه، ص44.
  149. باغستانی، «الجواد، امام»، ص245 و 246.
  150. قمی، منتهی الآمال، 1386یجری شمسی، ج2، ص469-470.
  151. ابن‌شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، نشر علامه، ج4، ص390؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص278.
  152. طوسی، رجال الطوسی، 1373یجری شمسی، ص373-383.
  153. قرشی، حیاة الامام محمد الجواد، 1418ھ، ص128-178.
  154. شبستری، سبل الرشاد، 1421ھ، ص19-289.
  155. عطاردی، مسند الامام الجواد، 1410ھ، ص249.
  156. برقی، ص57.
  157. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص491.
  158. عطاردی، مسند الامام الجواد، 1410ھ، ص314، 315، 262، 283، 319، 271.
  159. واردی، گونہ‌ شناسی راویان امام جواد، ص30-31.
  160. ملاحظہ کریں: طوسی، رجال الطوسی، 1415ھ، ص373-383.
  161. نگاه کنید به طبسی، «امام جواد(ع) به روایت اهل سنت»، فصلنامه فرهنگ کوثر.
  162. هیثمی، الصواعق المحرقة، 1424ھ، ص288.
  163. سبط ابن‌جوزی، تذکرة الخواص، 1418ھ، ص321.
  164. ذهبی، تاریخ الاسلام، 1407ھ، ج15، ص385.
  165. ابن‌تیمیه، منهاج السنه، 1406ھ، ج4، ص68-69.
  166. عاملی، الحیاة السیاسیة للامام الجواد، 1425ھ، ص137.
  167. نصیبی شافعی، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، مؤسسه البلاغ، ص303.
  168. راوندی، دعوات الراوندی، 1407ھ، ص191، ح530؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج91، ص35.
  169. مفید، المزار، 1413ھ، ص207.
  170. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص583-584.
  171. «برپایی دسته عزای خادمان حرم حضرت معصومه (س) در سالروز شهادت امام جواد(ع)»، ایسنا.

مآخذ

  • ابن‌شعبه حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، جامعه مدرسین، 1404ھ۔
  • ابن‌ابی‌الثلج، تاریخ الائمة، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، چاپ محمود مرعشی، قم، کتابخانه آیت‌اللّه مرعشی نجفی، 1406ھ۔
  • ابن‌تیمیه، احمد بن عبدالحلیم، منهاج السنة النبویة فی نقض کلام الشیعة القدریة، تحقیق محمد رشاد سالم، ریاض، جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامیة، چاپ اول، 1406ق-1986م.
  • ابن‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، تحقیق هاشم رسولی، قم، نشر علامه، بی‌تا.
  • ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، تحقیق علی شیری، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، 1408ھ۔
  • احمدی میانجی، علی، مکاتیب الائمه(ع)، تحقیق مجتبی فرجی، قم، دارالحدیث، 1426ھ۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه فی معرفة الائمه، قم، رضی، 1421ھ۔
  • اشعری، سعد بن عبدالله، المقالات و الفرھ، تهران، مرکز انتشارات علمی و فرهنگی، 1361ہجری شمسی۔
  • انجمن تاریخ پژوهان حوزه، مجموعه مقالات همایش سیره و زمانه امام جواد علیه‌السلام، به کوشش: حمیدرضا مطهری، قم، مرکز مدیریت حوزه‌های علمیه، 1395ہجری شمسی۔
  • باغستانی، اسماعیل، «الجواد، امام»، در دانشنامه جهان اسلام، ج11، تهران، بنیاد دایرة‌المعارف اسلامی، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
  • بحرالعلوم گیلانی، محمدمهدی، انوار پراکنده در ذکر احوال امامزادگان و بقاع متبرکه ایران، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، چاپ اول، 1376ہجری شمسی۔
  • بحرانی، عبدالله، عوالم العلوم و المعارف، مستدرک- حضرت زهرا تا امام جواد(ع)، مؤسسة الإمام المهدی عجّل الله تعالی فرجه الشریف، قم.
  • «برپایی دسته عزای خادمان حرم حضرت معصومه (س) در سالروز شهادت امام جواد(ع)»، ایسنا، تاریخ نشر: 6 تیر 1401ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 9 تیر 1401ہجری شمسی۔
  • «بیانات در سالروز شهادت امام جواد علیه‌السلام در مهدیه تهران»، دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله العظمی خامنه‌ای، بازدید 22 آبان 1402ہجری شمسی۔
  • بیهقی، علی بن زید، تاریخ بیهھ، تحقیق احمد بهمنیار، تهران، انتشارات فروغی، 1361ہجری شمسی۔
  • پیشوایی، مهدی، سیره پیشوایان، قم، مؤسسه امام صادھ، 1379ہجری شمسی۔
  • جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ترجمه محمدتقی آیت اللهی، تهران، مؤسسه انتشارات امیر کبیر، 1386ہجری شمسی۔
  • جباری، محمدرضا، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمه علیهم‌السلام، قم، مؤسسه آموزشی پژوهشی امام خمینی،1382ش
  • جعفریان، رسول، حیات فکری سیاسی امامان شیعه(ع)، قم، انصاریان، چاپ پنجم، 1381ہجری شمسی۔
  • حاجی‌زاده، یدالله، «غالیان در دوره امام جواد(ع) و نوع برخورد حضرت با آنان»، در مجلہ تاریخ اسلام، شماره65، بهار1395ہجری شمسی۔
  • حَسّون، محمد، أعلام النساء المؤمنات، تهران، دارالاسوه، 1421ھ۔
  • خزعلی، ابوالقاسم، موسوعة الامام الجواد علیه‌السلام، قم، مؤسسه ولی العصر علیه‌السلام للدراسات الاسلامیه، 1419ھ۔
  • دشتی، محمد، «نقش سیاسی سازمان وکالت در عصر حضور ائمه علیهم‌السلام»، فصلنامه فرهنگ جهاد،‌ قم، وزارت جهاد کشاوزی، تابستان 1384.
  • ذهبی، شمس‌الدین، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ اول، 1407ھ۔
  • سبط بن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرة الخواص، قم، الشریف الرضی، 1418ھ۔
  • سید ابن‌ طاووس، علی بن موسی، الدروع الواقیه، بیروت، مؤسسة آل البیت، 1415ق/1995م.
  • سید ابن‌ طاووس، علی بن موسی، مهج الدعوات و منهج العبادات، تصحیح ابوطالب کرمانی و محمدحسن محرر، قم، دار الذخائر، 1411ھ۔
  • شبستری، عبدالحسین، سبل الرشاد الی اصحاب الامام الجواد علیه‌السلام، قم، کتابخانه تخصصی تاریخ اسلام و ایران، 1421ھ۔
  • شفیعی، علی، آثار و برکات دعا، تصحیح و تعلیق محمدحسین شفیعی شاهرودی، قم، مؤسسه میراث نبوت، چاپ اول، 1400ہجری شمسی۔
  • صدر، سید محمد، تاریخ الغیبه، بیروت، دارالتعارف، 1412ھ۔
  • صدوھ، محمد بن علی، التوحید، تصحیح: هاشم حسینی، قم، جامعه مدرسین، 1398ھ۔
  • صدوھ، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ترجمه: علی اکبر غفاری، تهران، نشر صدوھ، 1373ہجری شمسی۔
  • صدوھ، محمد بن علی، من لایحضره الفقیه، تصحیح: علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامع مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، مشهد، نشر المرتضی، 1403ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، قم، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث، 1417ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، دارالتراث، 1387ق/1967م.
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، قم، تصحیح: قسم الدراسات الاسلامیة مؤسسة البعثة، قم، بعثت، 1413ھ۔
  • طبسی، محمدمحسن، «امام جواد(ع) به روایت اهل سنت»، فصلنامه فرهنگ کوثر، شماره 65، بهار 1385ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفة الرجال، تصحیح: حسن مصطفوی، مشهد، دانشگاه مشهد، 1348ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الاحکام، تصحیح: حسن موسوی خرسان، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ: چهارم، 1407ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبه، تحقیق: عبادالله تهرانی و علی احمد ناصح، قم، مؤسسة المعارف الاسلامیه، 1425ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتهجد، قم، المکتبة الاسلامیة، بی‌تا.
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، قم، دارالحدیث، 1426ھ۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الحیاة السیاسیة للامام الجواد، بیروت، المرکز الاسلامی للدراسات، الطبعة الثالثة، 1425ھ۔
  • عطاردی، عزیزالله، مسند الامام الجواد ابی‌جعفر محمد بن علی الرضا علیهما‌السلام، مشهد، آستان قدس رضوی، 1410ھ۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر (تفسیر العیاشی)، تصحیح: هاشم رسولی محلاتی، تهران، المکتبة العلمیه الاسلامیه، 1380ھ۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضة الواعظین، قم، منشورات الشریف الرضی، 1375ھ۔
  • قاضی‌زاهدی، احمد، پرسشهای مردم و پاسخ‌های امام جواد(ع)، قم، عصر ظهور، 1392ہجری شمسی۔
  • قرشی، باقر شریف، حیاة‌ الامام محمد الجواد علیه‌السلام، بی‌جا، امیر، چاپ: دوم، 1418ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن هبة‌الله، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسة الامام المهدی علیه‌السلام، 1409ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن هبة‌الله، دعوات الراوندی، قم، منشورات مدرسة الامام المهدی، 1407ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، منتهی الآمال، قم، موسسه انتشارات هجرت، چاپ هفدهم، 1386ہجری شمسی۔
  • «کتاب‌شناسی توصیفی امام جواد(ع)»، وبگاه کتابخانه تخصصی علوم قرآن و حدیث، درج مطلب: 14 بهمن 1397ہجری شمسی، بازدید: 19 تیر 1400ہجری شمسی۔
  • کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفة الرجال، تحقیق مهدی رجائی، قم، موسسة آل البیت لإحیاء التراث، 1404ھ۔
  • کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی- اختیار معرفة الرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، تصحیح: حسن مصطفوی، مشهد، مؤسسه نشر دانشگاه مشهد، 1409ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق: علی‌اکبر غفاری، تهران، دارالکتب الاسلامیة، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، داراحیاء التراث العربی، بیروت، الطبعة الثالثه، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، زاد المعاد، تصحیح علاءالدین اعلمی، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، 1423ھ۔
  • محلاتی، ذبیح‌الله، ریاحین الشریعه در ترجمه بانوان شیعه، تهران، دار الکتب الاسلامیه، 1368ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیة للامام علی بن ابی‌طالب علیه‌السلام، قم، مؤسسة أنصاریان، الطبعة الثالثة،‌ 1426ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، انتشارات کنگره جهانی شیخ مفید، 1413ھ۔
  • مفید، تصحیح اعتقادات الامامیة، بیروت، دار المفید للطباعة و النشر، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، کتاب المزار-مناسک المزار، تصحیح محمدباقر ابطحی، قم، کنگره جهانی هزاره شیخ مفید، 1413ھ۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی التابعة لجامعة المدرسین بقم المشرفة، 1365ہجری شمسی۔
  • نصر اصفهانی، اباذر، «کتاب‌شناسی امام جواد»، در مجموعه مقالات همایش سیره و زمانه امام جواد(ع)، ج3، قم، مرکز مدیریت حوزه علمیه قم،‌ چاپ اول، 1395ہجری شمسی۔
  • نصیبی شافعی، محمد بن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، تصحیح عبدالعزیز طباطبایی، بیروت، مؤسسه البلاغ، بی‌تا.
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعه، بیروت، دارالاضواء، چاپ:دوم، 1404ھ۔
  • «همایش ابن‌الرضا، سیره و زمانه امام جواد(ع) در قم برگزار شد»، خبرگزاری مهر، درج مطلب: 30 فروردین 1395ہجری شمسی، بازدید: 15 تیر 1400ہجری شمسی۔
  • هیثمی، احمد بن حجر، الصواعق المحرقة، استانبول، مکتبة الحقیقة، 1424ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی‌تا.
معصوم دہم:
امام علی رضا علیہ السلام
14 معصومین
امام محمد تقی علیہ السلام
معصوم دوازدہم:
امام علی نقی علیہ السلام
چودہ معصومین علیہم السلام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
بارہ امام
امام علی علیہ السلام امام سجّاد علیہ‌السلام امام موسی کاظم علیہ السلام امام علی نقی علیہ السلام
امام حسن مجتبی علیہ السلام امام محمد باقر علیہ السلام امام علی رضا علیہ السلام امام حسن عسکری علیہ السلام
امام حسین علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام امام مہدی علیہ السلام