واقعہ تہنیت

ویکی شیعہ سے
(حدیث تہنیت سے رجوع مکرر)
شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید


واقعہ تَہنیَت اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب، خاص کر پہلا اور دوسرا خلیفہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر غدیر خم میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے حضرت علیؑ کی ولایت اور جانشینی کی اعلان کے بعد مبارک بادی دی تھی۔جس میں وہاں موجود صحابہ خاص کر خلیفہ اول اور دوم کی طرف سے امام علیؑ کو مبارک باد پیش کی گئی۔ اس واقعے کو امام علیؑ کی امامت اور ولایت کی حقانیت پر دلیل قرار دی جاتی ہے جس کا اعلان پیغمبر خداؐ نے واقعہ غدیر میں حاجیوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔

مبارک بادی کی تعبیر

واقعہ تہنیت پیغمبر اکرمؐ کی مبارکبادی کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جو 18 ذوالحجہ 10ھ غدیر خم میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے حضرت علیؑ کی ولایت اور جانشینی کی اعلان کے بعد پیش آیا۔.[1] خلیفہ دوم نے "بَخْ بَخْ لَک یا عَلِی أَصْبَحْتَ مَوْلَای وَ مَوْلَی کلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَۃٍ" (اے علی بہت مبارک ہو آج میرے اور تمام مومن و مومنات کے مولا بن گئے)کہہ کر امام علیؑ کو مبارک باد دی۔[2] بعض منابع میں لفظ علی کی جگہ "ابن ابی طالب"[3] یا "امیرالمؤمنین"[4] آیا ہے۔ اسی طرح بعض منابع میں مؤمن اور مؤمنہ کی جگہ مسلم آیا ہے۔[5] احمد بن حنبل نے خلیفہ دوم کے جملے کو یوں نقل کیا ہے: "ہَنِیئًا یا ابْنَ أَبِی طَالِبٍ، أَصْبَحْتَ وَأَمْسَیتَ مَوْلَی کلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَۃ" (ترجمہ: اے ابوطالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو صبح و شام ہوگئی اور آپ مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے)[6] خطیب بغدادی کی کتاب تاریخ بغداد میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ عمر بن خطاب کی امیر المومنین کو مبارک بادی کے بعد آیہ اکمال نازل ہوئی۔[7]

حضرت علیؑ کو مبارک دینے والے ا صحاب

صحابہ میں سے ابوبکر، عمر بن خطاب، طلحہ اور زبیر نے غدیر خم میں حضرت علیؑ کو مبارک باد دی۔[8] بعض مصنفین کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر نے یہ کام پیغمبر اکرمؐ کے حکم[9] اور اس تذکر کے بعد انجام دیا کہ اس کی مخالفت کفر کا سبب بنے گا۔[10] جبکہ بعض دوسرے منابع میں اس موقع پر خلیفہ دوم کی طرف سے اظہار مسرت کے ساتھ،[11] دوسروں سے بڑھ چڑھ کر حضرت علیؑ کو مبارک باد دینے[12] یا ان کو اس کام میں سب سے پہلے انجام دینے والا[13] یا انھیں اس کام میں سبقت لینے والوں میں سے[14] قرار دیا گیا ہے۔[یادداشت 1] اگرچہ بہت سارے منابع میں اس تہنیتی جملے کی نسبت عمر بن خطاب کی طرف دی گئی ہے۔[15] لیکن بعض منابع میں آیا ہے کہ ابوبکر اور عمر نے ایک ساتھ مبارک باد دی تھی۔[16]

اسی طرح بعض دیگر کتب میں آیا ہے کہ حدیث تہنیت سید آل عدی[17] یا سید بنی عدی[18](خلیفہ دوم کا نسب بھی عدی بن کعب سے ملتا ہے۔[19]) یا بغیر نام کسی شخص [20] کے توسط سے نقل ہوئی ہے۔

ایک اور نقل کے مطابق خلیفہ دوم نے امام علیؑ کی ولایت کے اعلان کے بعد رسول خداؐ سے ایک ایسے جوان کا حوالہ دیتا ہے جس نے کہا کہ سوائے منافقین کے اس اعلان کی مخالفت کوئی نہیں کرے گا، اس موقع پر پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا وہ جوان جبرئیل تھا۔[21]

امام علیؑ کی امامت پر دلالت

خلیفہ دوم کی طرف سے امام علیؑ کو مبارک باد دینا حقیقت میں واقعہ غدیر میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے حضرت علیؑ کی جانشینی[22] دوسروں پر امام علیؑ کی برتری[23] اور اعلمیت پر دلیل قرار دی جاتی ہے۔[24] بعض منابع میں آیا ہے کہ امام علیؑ نے بعد میں خلیفہ اول سے ملاقات کے وقت اسی مطلب کو خلافت پر اپنی حقانیت کی دلیل قرار دیا ہے۔[25] فیض کاشانی کے مطابق خلیفہ دوم نے اس جملے کی ادائیگی کے بعد حضرت علیؑ کو امیرالمؤمنین کے عنوان سے سلام کیا۔[26]

یہ واقعہ کب پیش آیا

اکثر منابع کے مطابق صحابہ نے واقعہ غدیر میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے امام علیؑ کی جانشینی کے اعلان کے بعد مبارک باد دی۔[27] ایک نقل کے مطابق امام علیؑ کی جانشینی کے علان کے بعد پیغمبر اسلامؑ نے حضرت علیؑ کے لئے ایک الگ خیمہ نصب کرنے اور تمام اصحاب کو ایک ایک کر کے آپؑ کو مابرک باد دینے کے لئے اس خیمے کے اندر جانے کا حکم دیا۔[28]

بعض منابع میں اس واقعے کو روز مباہلہ یا عقد اخوت کے ساتھ ربط دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے امام علیؑ کی جانشینی کے اعلان کے بعد عمر بن خطاب نے آپؑ کو مبارک باد دی۔[29]

حوالہ جات

  1. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج1، ص508۔
  2. ہلالی، کتاب سلیم بن قیس، 1405ھ، ج2، ص829؛ فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص516؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص177۔
  3. التفسیر المنسوب الی الإمام العسکری، 1409ھ، ص112؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج8، ص284؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، 1415ھ، ج42، ص233۔
  4. خصیبی، الہدایۃ الکبری، 1419ھ، ص104۔
  5. صدوق، الأمالی، 1376شمسی، ص2؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج 8، ص284؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص349۔
  6. ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، 1416ھ، ج30، ص430۔
  7. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج8، ص284.
  8. حلی، العدد القویۃ، 1408ھ، ص183۔
  9. التفسیر المنسوب الی الإمام العسکری، 1409ھ، ص112۔
  10. ہلالی، کتاب سلیم بن قیس، 1405ھ، ج2، ص 829۔
  11. اربلی، کشف الغمۃ، 1381ھ، ج1، ص237۔
  12. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص177؛ طبرسی، إعلام الوری، 1390ھ، ص133۔
  13. مفید، مسار الشیعۃ، 1422ھ، ص44؛ بحرانی، مدینۃ معاجز، 1413ھ، ج2، ص269۔
  14. ابن طاووس، طرف من الأنباء و المناقب، 1420ھ، ص362۔
  15. ہلالی، کتاب سلیم بن قیس، 1405ھ، ج2، ص829؛ التفسیر المنسوب الی الإمام العسکری، 1409ھ، ص112؛ خصیبی، الہدایۃ الکبری، 1419ھ، ص104؛ صدوق، الأمالی، 1376شمسی، ص2؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص177۔
  16. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج1، ص512۔
  17. شامی، الدر النظیم، 1420ھ، ص444۔
  18. دیلمی، غرر الاخبار، 1427ھ، ص356۔
  19. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1144۔
  20. فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص516۔
  21. شامی، الدر النظیم، 1420ھ، ص253۔
  22. کراجکی، کنز الفوائد، 1410ھ، ج2، ص 96۔
  23. شامی، الدر النظیم، 1420ھ، ص268۔
  24. دیلمی، غرر الاخبار، 1427ھ، ص349۔
  25. دیلمی، ارشاد القلوب، 1412ھ، ج2، ص264؛ خصیبی، الہدایۃ الکبری، 1419ھ، ص103 – 104۔
  26. فیض کاشانی، نوادر الأخبار، 1371شمسی، ص166۔
  27. ہلالی، کتاب سلیم بن قیس، 1405ھ، ج2، ص 828- 829؛ التفسیر المنسوب الی الإمام العسکری، 1409ھ، ص112؛ فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص516؛ صدوق، الأمالی، 1376شمسی، ص2؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص175؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، 1415ھ، ج42، ص234۔
  28. ہلالی، کتاب سلیم بن قیس، 1405ھ، ج2، ص 829؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص176؛ طبرسی، إعلام الوری، 1390ھ، ص132۔
  29. ابن بطریق، عمدۃ عیون، 1407ھ، ص169؛ ابن شاذان، الروضۃ، 1423ھ، ص 76– 77؛ اربلی، کشف الغمۃ، 1381ھ، ج1، ص328۔

نوٹ

  1. وَ أَظْهَرَ عُمَرُ بِذَلِكَ سُرُوراً كَامِلًا وَ قَالَ فِيمَا قَالَ بَخْ بَخْ لَكَ يَا عَلِيُّ أَصْبَحْتَ مَوْلَايَ وَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ

مآخذ

  • ابن بطریق، یحیی بن حسن، عمدۃ عیون صحاح الأخبار فی مناقب إمام الأبرار، قم، جامعہ مدرسین، 1407ھ۔
  • ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند الإمام أحمد بن حنبل، تحقیق عبداللہ بن عبدالمحسن ترکی و دیگران، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1416ھ۔
  • ابن شاذان قمی، شاذان بن جبرئیل، الروضۃ فی فضائل أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب(ع)، تحقیق علی شکرچی، قم، مکتبۃ الأمین، 1423ھ۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، طرف من الأنباء و المناقب، تحقیق قیس عطار، مشہد، تاسوعا، 1420ھ۔
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، 1412ھ۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق و ذکر فضلہا و تسمیۃ من حلہا من الأماثل أو اجتاز بنواحیہا من واردیہا و أہلہا، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، تحقیق ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، بنی ہاشمی، 1381ھ۔
  • امینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، 1416ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم بن سلیمان، مدینۃ معاجز الأئمۃ الإثنی عشر، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
  • التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری(ع)، تحقیق مدرسہ امام مہدی(عج)، قم، 1409ھ۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1411ھ۔
  • حلی، علی بن یوسف بن المطہر، العدد القویۃ لدفع المخاوف الیومیۃ، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1408ھ۔
  • خصیبی، حسین بن حمدان، الہدایۃ الکبری، بیروت، البلاغ، 1419ھ۔
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1417ھ۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، إرشاد القلوب إلی الصواب، قم، الشریف الرضی، 1412ھ۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، غرر الاخبار و دُرَر الآثار فی مناقب ابی الائمۃ الاطہار، تحقیق اسماعیل ضیغم، قم، دلیل ما، 1427ھ۔
  • شامی، یوسف بن حاتم، الدر النظیم فی مناقب الأئمۃ اللہامیم، قم، جامعہ مدرسین، 1420ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، اسلامیہ، چاپ سوم، 1390ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد محسن، نوادر الأخبار فیما یتعلق بأصول الدین، تہران، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، 1371ہجری شمسی۔
  • کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، تحقیق عبداللہ نعمۃ، قم، دارالذخائر، 1410ھ۔
  • کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق محمدکاظم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، مؤسسۃ الطبع و النشر، 1410ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، مسار الشیعۃ فی مختصر تواریخ الشریعۃ، چاپ شدہ در «مجموعۃ نفیسۃ فی تاریخ الأئمۃ(ع)»، بیروت، دارالقاری، 1422ھ۔
  • ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، تحقیق محمد انصاری زنجانی خوئینی، قم، الہادی، 1405ھ۔