استطاعت، یعنی انسان مکہ جا کر حج کے اعمال بجا لانے کی توانائی رکھتا ہو۔ فقہاء کے مطابق انسان پر حج صرف اس وقت واجب ہوتا ہے جب اس میں حج بجا لانے کی استطاعت پائی جاتی ہو۔ استطاعت کی بحث چار چیزوں مال،امنیت، سلامت بدن اور زمان میں مطرح ہوتی ہے۔

استطاعت مالی یعنی سفر حج نیز اس سفر سے واپس آنے تک اس کے واجب النفقہ افراد کے اخراجات موجود ہو۔ امنیت کے حوالے سے استطاعت سے مراد یہ ہے کہ اس سفر میں اور مکہ میں قیام کے دوران اس کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہو۔ استطاعت بدنی، سفر پر جانے اور اعمال حج بجائے لانے کی جسمانی طاقت کو کہا جاتا ہے اور استطاعت زمانی یہ ہے کہ اتنا وقت ہو جس میں مکہ جا کر مخصوص ایام میں اعمال حج بجا لا سکے۔

من جملہ استطاعت سے مربوط فقہی احکام میں سے ایک یہ ہے کہ کسی سے قرضہ لے کر سفر حج اور اس دوران واجب النفقہ افراد کے اخراجات مہیا کرنا استطاعت نہیں کہلائے گا اور اگر حج پر چلا بھی جائے تو یہ اس کا واجب حج شمار نہیں ہو گا۔

فقہی مفہوم

حج میں استطاعت سے مراد یہ ہے کہ انسان مخصوص ایام میں مکہ جا کر اعمال حج بجا لا سکے۔ یہاں استطاعت سے مراد عقلی استطاعت نہیں ہے؛ یعنی اسطرح نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص مشقتیں برداشت کر کے حج پر جا سکتا ہو تو یہ استطاعت شمار نہیں ہو گا؛ بلکہ یہاں پر استطاعت سے مراد شرعی استطاعت ہے؛ یعنی فقہ میں حج کے لئے جو شرائط قرار دئے گئے ہیں ان شرائط پر پورا اترتا ہو۔[1] جو شخص استطاعت رکھتا ہے اسے مُستَطیع کہا جاتا ہے۔[2]

حج واجب ہونے کے لئے استطاعت کی شرط

تمام فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ صرف اس صورت میں انسان پر حج واجب ہو گا جب وہ استطاعت رکھتا ہو۔[3] یہ فتوا سورہ آل‌عِمران کی آیت نمبر 97 سے مستند ہے جس میں حج کے واجب ہونے کو استطاعت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے: "وَلِلّهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیهِ سَبِیلًا (ترجمہ: اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لیے اس گھر کا حج کریں جو اس کی استطاعت (قدرت) رکھتے ہیں)[؟؟][4]

شرایط

فقہاء کے فتوا کے مطابق استطاعت چار چیزوں میں مطرح ہے جس میں مال، امنیت، سلامت بدن اور زمان شامل ہے اور ان چیزوں کی درج ذیل شرائط ہیں:

  • انسان حج کے لئے مکہ جانے نیز اس سفر سے واپس آنے تک اس کے اہل عیال میں سے واجب النفقہ افراد کے اخراجات رکھتا ہو۔ اسی طرح اس سفر کے بعد بھی اپنی اور اہل عیال کی زندگی کے اخراجات پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔[5]
  • اس کے لئے مکہ جانا ممکن ہو اور اس کی جان، مال اور عزت و آبرو[6] کے لئے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ [7]
  • مکہ جانے نیز وہاں اعمال حج بجا لانے کی طاقت رکھتا ہو۔[8]
  • مکہ جانے نیز مخصوص ایام میں حج کے مناسک انجام دینے کے لئے مناسب وقت موجود ہو۔[9]

عورت کی استطاعت

اہل سنت اکثر فقہاء کے مطابق عورت کی استطاعت میں یہ بھی شرط ہے کہ اس کے محام میں سے ایک حج کے سفر میں اس کے ساتھ ہو؛ لیکن شیعہ فقہاء محارم کی معیت کو استطاعت میں شرط قرار نہیں دیتے ہیں۔[10]

احکام

استطاعت سے متعلق بعض فقہی احکام درج ذیل ہیں:

  • جو شخص قرضہ لے کر سفر حج کے اخراجات مہیا کرے وہ مستطیع شمار نہیں ہو گا اور اسطرح اگر حج انجام دے تو یہ اس کا واجب حج حساب نہیں ہو گا۔[11] البتہ بعض مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق یہ شخص اگر اپنا قرضہ آسانی کے ساتھ ادا کر سکتا ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔[12]
  • بعض فقہاء من جملہ محقق حلی اور صاحب‌ جواہر کے مطابق اگر کسی کے پاس حج کے اخراجات موجود ہو لیکن فی الحال اس رقم کو استعمال نہیں کر سکتا ہو تو اس شخص پر حج کے لئے قرضہ لینا واجب ہے۔[13]
  • اگر کوئی شخص کسی کو حج کے اخراجات بطور ہدیہ دے دے تو مذکورہ شخص مستطیع شمار ہو گا اور اس پر حج واجب ہو گا۔[14]
  • جس شخص کے ہاں مکہ جانے کے اخراجات نہ ہو لیکن کوئی دوسرا شخص ان اخراجات کی کفالت لے اور اسے اس شخص کے کہنے پر یقین ہو تو وہ مستطیع شمار ہو گا اور اس پر حج واجب ہو گا۔[15]
  • جو شخص مستطیع ہونے کی بعد حج ادا کئے بغیر فقیر ہو جائے اس شخص پر کسی طرح بھی حج ادا کرنا واجب ہے اگرچہ یہ اس کے لئے مشقت کا باعث ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مستطیع ہونے کے بعد بڑھاپے یا کمزوری کے باعث حج پر نہ جا سکے اور کوئی امید بھی نہ ہو کہ وہ خود دوبارہ حج کر سکے گا تو اس شخص پر واجب ہے کسی اور کو اپنی طرف سے حج بجا لانے کے لئے اجیر بنائے۔[16]

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۰ش، ج۱، ص۴۵۷.
  2. نمونہ کے لئے رجوع کریں: شہید ثانی، الروضۃ البہیہ، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۱۶۱؛ نجفی، جواہرالکلام، ج۱۷، ص۲۲۳؛ بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۱۸۵.
  3. عاملی، مدارک الاحکام، ۱۴۱۱ق، ج۷، ص۳۴.
  4. مراجعہ کریں: عاملی، مدارک‌الاحکام، ۱۴۱۱ق، ج۷، ص۳۴.
  5. نجفی، جواہرالکلام، ج۱۷، ص۲۴۸و۲۵۴و۲۵۵و۲۷۳و۲۷۴؛ بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۱۸۵.
  6. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۱۸۵.
  7. نجفی، جواہرالکلام، ج۱۷، ص۲۷۹و۲۸۱؛ بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۱۸۵.
  8. نجفی، جواہرالکلام، ج۱۷، ص۲۷۹و۲۸۱؛ بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۱۸۵.
  9. نجفی، جواہرالکلام، ج۱۷، ص۲۷۹و۲۸۱؛ بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۱۸۵.
  10. حسینی آہق، «حج (مباحث قرآنی و حدیثی و فقہی)»، ص۵۸۶.
  11. فلاح‌زادہ، منتخب مناسک حج، ۱۴۲۶ق، ص۱۱.
  12. فلاح‌زادہ، منتخب مناسک حج، ۱۴۲۶ق، ص۱۱.
  13. نجفی، جواہرالکلام، ج۱۷، ص۲۶۰؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ص۲۰۱.
  14. نجفی، جواہرالکلام، ج۱۷، ص۲۶۱؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ص۲۰۱.
  15. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۱۸۸.
  16. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۱۹۱و۱۹۲.

مآخذ

  • بنی‌ہاشمی خمینی، سیدمحمدحسن، توضیح‌المسائل مراجع مطابق با فتاوای سیزدہ نفر از مراجع معظم تقلید، قم، انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ق۔
  • حسینی آہق، مریم، «حج (مباحث قرآنی و حدیثی و فقہی)»، دانشنامہ جہان اسلام، ج۱۲، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۷ش۔
  • شہید ثانی، زين‌الدين عاملی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، قم، کتابفروشی داوری، چاپ اول، ۱۴۱۰ق۔
  • عاملی، محمد بن علی، مدارک الاحکام فی شرح عبادات شرائع الاسلام، بیروت، مؤسسہ آل‌البیت، چاپ اول، ۱۴۱۱ق۔
  • فلاح‌زادہ ابرقویی، محمدحسین، منتخب مناسک حج، قم، مشعر، ۱۴۲۶ق،
  • محقق حلّی، جعفر بن الحسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۷ق۔
  • مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم‌السّلام، قم، مؤسّسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ سوم، ۱۳۹۰ش۔
  • نجفى، محمدحسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ق۔