آقا بزرگ تہرانی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | محمد محسن بن علی تہرانی منزوی |
لقب/کنیت | آقا بزرگ تہرانی |
تاریخ ولادت | 11 ربیع الاول 1293 ھ |
آبائی شہر | تہران |
تاریخ وفات | 13 ذی الحجہ 1379 ھ |
علمی معلومات | |
اساتذہ | آخوند ملا محمد کاظم خراسانی، سید احمد حائری تہرانی .... |
شاگرد | الذریعۃ، توضیح الرشاد فی تاریخ حصر الاجتہاد،..... |
اجازہ روایت از | میرزا حسین نوری ،شیخ عبد الوہاب شافعی، شیخ محمد علی ازہری مالکی (رئیس مدرسین مسجد الحرام) ... |
اجازہ روایت | حاج آقا حسین بروجردی، شیخ عبد الحسین امینی ،... |
خدمات |
محمد محسن بن علی منزوی تہرانی (1293-1389 ھ)، آقا بزرگ تہرانی کے نام سے معروف شیعہ عالم دین، فقیہ اور ماہر کتاب شناس تھے۔ انہوں نے بہت سے آثار چھوڑے مگر ان میں الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ شیعہ کتب و آثار کے تعارف کا نہایت ضخیم ذخیرہ و طبقات اعلام الشیعہ چوتھی صدی ہجری سے لیکر چودہویں صدی ہجری کے شیعہ علماء کے احوال اور آثار کا دائرۃ المعارف، سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
زندگی نامہ
آقا بزرگ تہرانی 11 ربیع الاول 1293 ھ میں ایران کے شہر تہران میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اور دادا اسی شہر کے علمائے دین میں سے تھے۔ پردادا حاج محسن تاجر تھے جنہوں نے منوچہر خان معتمد الدولہ گرجی کی معاونت سے ایران میں سب سے پہلا چاپ خانے کی سنگ بنیاد رکھی۔ آپ نے دو شادیاں کیں جن سے 5 بیٹے اور 4 بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ علی نقی منزوی اور احمد منزوی ان بیٹوں میں سے ہیں جنہوں نے الذریعہ کی تالیف میں باپ کی مدد کی۔
تعلیمی سفر
ابتدائی تعلیمات کا آغاز مدرسہ دانگی پھر مدرسہ پامنار اور مدرسہ فخریہ (مروی) میں اسے جاری رکھا۔ عرب ادبیات شیخ محمد حسین خراسانی اور شیخ محمد باقر معزالدولہ، منطق مرزا محمد تقی، علم اصول سید عبد الکریم مدرسی، سید محمد تقی گرکانی اور شیخ علی نور ایلکائی کے پاس پڑھا۔ ریاضی کا کچھ حصہ مرزا ابراہیم زنجانی کے پاس پڑھا۔ اسی طرح تاریخ ادبیات اور رجال حدیث کا علم حاصل کیا۔ 10 جمادی الثانی 1315 ھ میں مزید تعلیم کے حصول کی لئے نجف گئے اور 1329 ھ تک وہاں رہے۔ یہاں حاج میرزا حسین نوری، شیخ محمد طہ نجف، سید مرتضی کشمیری، حاج مرزا حسین میرزا خلیل، آخوند ملا محمّد کاظم خراسانی، سید احمد حائری تہرانی، مرزا محمد علی چہاردہی، سید محمد کاظم یزدی اور شیخ الشریعہ اصفہانی کے دروس میں شرکت کی۔
تدوین کتاب الذریعہ
طویل عرصے سے شیعہ مصنفین کے آثار کی فہرست کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ دوسرے مسلمان مذاہب نے اپنے مصنفین کے آثار کی فہرستیں مرتب کرتے رہے لیکن شیعہ آثار بے توجہی کا شکار ہو رہے تھے۔ انہی سالوں میں عیسائی ادیب جرجی زیدان نے اپنی کتاب تاریخ آداب اللغہ العربیہ میں اسلامی معاشرے اور فرہنگ کی تشکیل میں تشیع کے کردار کو معمولی شمار کیا۔ یہ بات شیعہ فقہاء پر گران گزری اور چند علما اکٹھے ہوئے، ان میں سے تین علماء نے شیعہ آثار کے تعارف اور اس مؤرخ کے اعتراض کے جواب دینے کا ارادہ کیا۔ علوم اسلامی میں شیعوں کا کردار سید حسن صدر کے حوالے ہوا پس انہوں نے کتاب تأسیس الشیعہ الکرام لفنون الاسلام اسی غرض سے لکھی۔ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء نے جرجی زیدان کی کتاب میں موجود غلطیوں اور لغزشوں کے بیان میں المراجعات الریحانیہ کو لکھنا شروع کیا اور آقا بزرگ تہرانی نے تألیف الذریعہ کا عہدہ اپنے ذمہ لیا جس کا مکمل نام الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ہے۔
وہ 1329 ھ میں کاظمین گئے اور وہاں الذریعہ کی تدوین کی خاطر تحقیق و جستجو شروع کی۔ کچھ مدت بعد سامرا گئے وہاں اس کام کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مرزا محمد تقی شیرازی کے درس خارج میں شرکت کی۔ 1335 ھ میں دوبارہ کاظمین واپس آ گئے دو سال یہاں رہنے کے بعد مرتبہ پھر سامرا چلے گئے۔ 1354 ھ میں نجف واپس لوٹ آئے اور یہاں اس کتاب کی چھپائی کیلئے مطبعہ السعاده کے نام سے چاپخانے کا سنگ بنیاد رکھا لیکن عراقی حکومت اس کام میں رکاوٹیں ڈالتی رہی یہان تک کہ شیخ نے الذریعہ کی پہلی جلد مطبعہ الغری سے چھپوائی لیکن حکومت عراق اس کتاب کے منتشر میں بھی رکاوٹ بنی یہاں تک کہ یہ کتاب چھ مہینے کی تاخیر سے منتشر ہوئی۔
آقا بزرگ تہرانی نے اس دائرۃ المعارف کی تدوین کیلئے بہت لمبے سفر کئے۔ جن میں عراق، ایران، شام، فلسطین، مصر، حجاز نیز دیگر اور بہت سے عمومی کتب خانوں اور انہی ممالک کے خصوصی کتابخانوں کے دورے کئے۔ ذاتی طور پر انہوں 62 کتب خانوں کو دیکھا نیز ان کے علاوہ دیگر بہت سے کتب خانوں کی فہرستوں کا مطالعہ کیا۔
وفات
وہ طویل مدت تک بیمار رہ کر 13 ذی الحجہ 1389 ھ میں نجف میں فوت ہوئے اور اپنی وصیت کے مطابق اپنے ہی کتب خانے میں دفن ہوئے کہ جسے علما اور طلاب کے عمومی استفادے کیلئے وقف کیا تھا۔
اجازۂ روایت
آقا بزرگ تہرانی کے پاس مختلف مذاہب کے محدثین کے روایت نقل کرنے کے اجازت نامے موجود تھے، مثلا:
- میرزا حسین نوری
- سید محمد علی شاه عبد العظیمی
- شیخ علی خاقانی
- شیخ محمد صالح آل طعان بحرانی
- شیخ موسی کرمان شاہی
- سید ابوتراب خوانساری
- شیخ علی کاشف الغطاء
- سید حسن صدر
- شیخ محمد علی ازہری مالکی (رئیس مدرسین مسجد الحرام)
- شیخ عبد الوہاب شافعی (امام جماعت مسجد الحرام)
- شیخ ابراہیم بن احمد الاحمدی (از فقهائے مدینہ)
- شیخ عبد القادر طرابلسی (مدرس حرم شریف)
- شیخ عبد الرحمن علیش حنفی (مدرس الازہر)
جن افراد کے پاس بزرگ تہرانی سے روایت نقل کرنے کے اجازت نامے موجود ہیں:
- حاج آقا حسین بروجردی
- سید عبد الحسین شرف الدین موسوی عاملی
- شیخ عبد الحسین امینی
- سید عبد الہادی شیرازی
- شیخ محمد رضا آل یاسین
- شیخ محمد حسن مظفر
- سید ہبۃ الدین شہرستانی
- میرزا محمد علی اردوباری
- سید محمد حسین طباطبائی
- سید محمد صادق بحر العلوم
- سید شہاب الدین مرعشی نجفی
آثار
الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ اور طبقات اعلام الشیعہ بزرگ تہرانی کے اہم ترین آثار میں سے ہیں۔ ان میں سے الذریعہ ضخامت کے اعتبار سے 26 جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کی نویں جلد 4 جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب 1357-1397 ھ/1938-1977 ء میں نجف اور بیروت سے چھپ چکی ہے۔
نیز انکے علاوہ دیگر آثار درج ذیل ہیں:
- نوابغ الرواه فی رابعہ امات، بیروت، دار الکتاب العربی، 1391ھ /1971 ء
- الثقاه و العیون فی سادس القرون، بیروت، دار الکتاب العربی، 1392ھ /1972 ء
- الضیاء اللامع فی عباقره القرن التاسع، دانشگاه تہران، 1362 ش
- احیاء الداثر فی مآثر اهل القرن العاشر، دانشگاه تہران
- روضہ النضره فی تراجم علماء المائہ الحادیہ عشره
- الکواکب المنتشره فی القرن الثانی بعد العشره (خطی)
- الکرام البرره فی القرن الثالث بعد العشره، نجف، 1373-377ھ /1954-1958 ء
- نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، نجف، 1373 ھ
- مصفی المقال فی مصنفی علم الرجال، تہران، 1337 ش
- المشیخہ، نجف، 1356ھ /1938 ء
- هدیہ الرازی الی المجدد الشیرازی، کربلا، 1383 ھ/1964 ء
- النقد اللطیف فی نفی التحریف عن القرآن الشریف (خطی)
- توضیح الرشاد فی تاریخ حصر الاجتہاد، قم، 1401 ھ/1981 ء
- تفنید قول العوام بقدم الکلام (خطی)
- ذیل المشیخہ، نجف، 1355 ھ/1937 ء
- ضیاء المفازات فی طریق مشایخ الاجازات، (خطی)
- اجازات الطوسی، نجف، 1376 ھ/1956 ء، (اسی طرح مقدمہ تفسیر التبیان طبع ہوا ہے: بیروت، دار احیاء التراث العربی)
- مستدرک کشف الظنون: یا ذیل کشف الظنون، تہران، مکتبہ الاسلامیہ و جعفری تبریزی 1387ھ /1967 ء
لائبریری
بزرگ تہرانی ایک وسیع کتب خانے کے مالک تھے۔ اس میں مختلف علوم کی 5000 جلد سے زیادہ کتابیں تھیں جن میں تاریخ، عمرانیات، عمومی فہرستیں، خصوصی فہرستیں مختلف دائرة المعارف و ... شامل ہیں۔ ان کی ساری زندگی میں طلاب اور اہل مطالعہ تحریر و تحقیق میں اس کتاب خانے سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ عمر کے آخری سالوں میں ضعیفی اور کہولت کے باوجود لائیبریری میں آنے والوں کی راہنمائی اور مدد کرتے رہتے۔ اس لائبریری کی تاسیس 1354 ھ کو عمل میں آئی تھی۔ اس بزرگ عالم دین نے اسے محفوظ اور پراکندگی سے بچانے کی خاطر 1375 ھ میں اسے وقف کر دیا۔ پھر 1380 ھ میں اپنے وقف نامے میں تجدید نظر کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے لکھا کہ اگر اس کتب خانے کے متولیوں اور منتظمین کیلئے اس کی حفاظت نہ رہے تو اس کتاب خانے کو کتابخانۂ امیرالمؤمنین میں منتقل کر دیں۔[1]
حوالہ جات
- ↑ حکیمی، محمد رضا، حماسہ غدیر، قم: دلیل ما، ۱۳۸۹، ص۳۱۵-۳۱۶
مآخذ
- تہرانی، آقا بزرگ، تاریخ حصر الاجتہاد، قم، مطبعہ الخیام، ۱۴۰۱ ھ، ص ۵۵-۶۶
- تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ ۱/مقدمہ، ۱۲۹، ۳۰۸، ۲/۷۰، ۴۲۸، ۳/۷۱، ۴/۲۱۶، ۳۸۳، ۵/۸، ۷/۳۴، ۸/۸۶، ۸۷، ۱۰//۲۶، ۲۷، ۵۱، ۱۱/۳۰۴، ۱۳/۳۱، ۱۵/۱۲۷، ۱۲۸، ۱۳۰، ۱۴۶، ۲۰۲، ۱۸/۱۸، ۲۶۹، ۲۰/۸۲، ۱۵۱، ۲۱/۵۰۴، ۱۳۰، ۲۴/۱، ۱۱۵، ۲۷۱، ۲۷۸، ۳۱۵، ۲۵/۱۲۳، ۲۰۷، ۲۷۴
- تہرانی، آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، (القرن الرابع)، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۹۷۱ ء، مقدمہ؛ حکیمی، #محمد رضا، شیخ آقا بزرگ، تہرانی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی ص ۳۔۲۸
- خلیلی، جعفر، موسوعہ العتبات المقدسہ، بغداد، دار التعارف، ۱۹۶۵ ء ۲/۲۶۱-۲۶۲
- زیدان، جرجی، تاریخ آداب اللغۃ العربیہ، قاہره، دار الہلال، ۱۹۵۷ ء، ۲/۳۸۴
- عبد الرحیم، محمد علی، شیخ الباحثین آغا بزرگ الطهرانی، نجف، ۱۳۹۰ ھ
- مشار، خان بابا، فہرست چاپی عربی ص ۵۸، ۳۴۴، ۳۹۲، ۶۰۵، ۸۵۷
- منزوی، علی نقی، الذریعہ و آقا بزرگ تہرانی، آینده، س ۶، شم۔۳۔۴، ۷۔۸ (خرداد۔تیر، مہر۔آبان، ۱۳۵۹ ش) ص ۲۴۷۔۲۵۳، ۵۸۸۔۵۹۶