صدیق

ویکی شیعہ سے
(صدیق اکبر سے رجوع مکرر)

صدیق، یعنی بہت سچ بونے والا، جس کے منہ سے صرف سچائی ہی نکلے اور جھوٹ کبھی سرزد نہ ہو۔ قرآن میں بعض انبیاء کو اس لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ صدیق اکبر کا لقب حضرت علیؑ کے لئے مخصوص ہے۔ رسول خداؐ نے آپؑ کو صدیق اکبر اور فاروق کا لقب دیا ہے۔ صدیقہ اور صدیقہ کبریٰ حضرت زہراء(س) کا لقب ہے۔

لغت اور قرآن میں

رسول خدا(ص):

صدیقین تین افراد ہیں: حبیب بن مری دجار (مومن آل یاسین)، اور حزقیل (مومن آل فرعون) اور علی بن ابی طالب کہ ان میں سے تیسرا سب سے برتر ہے

ابن حنبل، فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؑ، صص238، 278۔
امیرالمؤمنین:

"انا عبداللہ و اخو رسولہ و انا الصدّیق الاکبر لا یقولہا بعدی الا کاذب مفتر"۔
(ترجمہ: میں خدا کا بندہ، رسول خدا کا بھائی اور صدیق اکبر ہوں، میرے بعد کوئی بھی ایسا سخن نہیں کہے گا، مگر یہ کہ وہ جھوٹا ہو۔

سائی، سنن، ج۵، ص۱۰۷؛ کنزالعمال، ج۱۳، ص۱۲۲؛ حاکم نیشابوری، ج۳، ص۱۱۲۔

صدیق کا جمع صدیقون اور صدیقین ہے۔ صدیق مبالغہ کا صیفہ ہے۔ جس شخص کے ساتھ سچائی لازم و ملزوم کی طرح ہو یا جس کی رفتار اس کے کردار کی تصدیق کرے اسے صدیق کہا جاتا ہے۔ یا ایک قول کے مطابق صدیق اس شخص کو کہا جاتا ہے جس سے کبھی جھوٹ سرزد ہی نہ ہو۔ [1] صدیق قرآن میں مفرد کی صورت میں چار بار اور جمع کی صورت میں دو بار استعمال ہوا ہے۔ [2][3] قرآن میں حضرت ابراہیم [4] اور حضرت ادریس [5] کو صدیق اور حضرت مریم کو صدیقہ[6] کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ روایات میں حضرت علیؑ کو صدیق [7] اور حضرت فاطمہ زہراء(س) کو صدیقہ یا صدیقہ کبریٰ کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ [8]

صدیقین کا مقام

راغب کے بقول فضیلت میں پیغمبروں کے بعد صدیقین کا مقام ہے۔ [9] اہل تشیع حدیثی کتابوں میں موجود بعض احادیث کے مطابق صدیقہ کو صدیق کے علاوہ کوئی غسل نہیں دے سکتا۔ اسی بنا پر حضرت علیؑ نے حضرت فاطمہ(س) کو اور حضرت عیسیٰ نے حضرت مریم کو غسل دیا۔ [10]

صدیق اکبر

شیعہ اور اہل سنت سے مروی احادیث میں حضرت علیؑ کو صدیق اکبر کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور یہ لقب آپؑ کو رسول خداؐ نے دیا ہے۔ [11] ایک روایت میں رسول اکرمؐ نے علی ابن ابی طالبؑ، مومن آل فرعون اور حبیب نجار کو صدیقین کا نام دیا اور حضرت علیؑ کو ان سب سے بہتر قرار دیا۔ [12]

اہل سنت کے منابع کے مطابق حدیث معراج میں یہ لقب ابوبکر کو بھی دیا گیا ہے۔[13]بعض نے کہا ہے کہ وہ جاہلیت کے زمانے میں اس لقب سے مشہور تھے۔[14] البتہ اہل سنت کے بعض علماء اس حدیث کو مردود قرار دیتے ہیں۔ [15] ابن جوزی نے اس حدیث کو اپنی کتاب الموضوعات میں ذکر کیا ہے۔ [16]

شیعہ علماء نہ صرف اس بات کو مسترد کرتے ہیں بلکہ اہل سنت کے منابع[17] سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ صدیق اور فاروق دونوں حضرت علیؑ کے القابات میں سے ہیں۔ خود حضرت علیؑ نے بھی اپنی خلافت کے دوران بصرہ کے منبر پر اس لقب کو اپنے لئے استعمال کیا ہے۔ [18]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. لسان العرب، ج۱۰، ص۱۹۳-۱۹۴
  2. المعجم المفہرس، ص۴۰۶
  3. نساء، آیہ۶۹
  4. سورہ مریم، آیہ ۴۱: وَ اذْکُرْ فِی الْکِتابِ إِبْراہیمَ إِنَّہُ کانَ صِدِّیقاً نَبِیا
  5. مریم، آیہ۵۶: وَ اذْکُرْ فِی الْکِتابِ إِدْریسَ إِنَّہُ کانَ صِدِّیقاً نَبِیا۔
  6. مائدہ، آیہ ۷۵: مَا الْمَسیحُ ابْنُ مَرْیمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَ أُمُّہُ صِدِّیقَۃٌ
  7. کاشانی، ص۳۴۲؛ صدوق، الامالی، ص۲۷۴؛ صدوق، مسندالرضا، ج۲، ص9
  8. ابن شہرآشوب، ج۳، ص۱۳۳؛ امالی، شیخ صدوق، ص۶۶۸
  9. لمفردات، ص۲۲۷؛ ریاض السالکین، ج۵، ص۳۳۳
  10. افی، ج۳، ص۱۵۹؛ شیخ طوسی، تہذیب، ج۱، ص۴۴۰؛ وسائل الشیعہ، ج۲، ص۵۳۰
  11. کاشانی، ص۳۴۲؛ صدوق، الامالی، ص۲۷۴؛ صدوق، مسندالرضا، ج۲، ص۹، کنزالعمال، ج۱۱، ص۶۱۶؛ کشف الغمہ، ج۲، ص۱۲؛ المناقب، ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۸۶؛ ابن کثیر، ج۱، ص۴۳۱؛ ابن ابی شیبہ، ج۷، ص۴۹۸؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۰۰؛ طبرانی، ج۶، ص۲۶۹
  12. بن مغازلی، ص۲۰۰؛ کنزالعمال، ج۱۱، ص۶۰۱
  13. ابن قتیبہ، ص۱۶۷؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۶؛ ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰
  14. دروزہ، ص۲۶
  15. متقی ہندی، کنزالعمال، ج۱۳، ص۲۳۶؛ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱، ص۵۴۰؛ ابن حبان، المجروحین، ج۲، ص۱۱۶
  16. ابن جوزی، ج۱، ص۳۲۷
  17. بلاذری، انساب، ج۲، ص۱۴۶؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۰؛ ابن ماجہ، ج۱، ص۴۴؛ نسائی، ص۲۱-۲۲؛ جوینی، ج۱، ص۱۴۰، ۲۴۸؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۲۸؛ ابن کثیر، ج۳، ص۲۶؛ سیوطی، الجامع، ج۲، ص۵۰
  18. عاملی، ج۲، ص۲۶۳-۲۷۰؛ امینی، ج۲، ص۳۱۲-۳۱۴

مآخذ

  • ابن ابی‌شیبة کوفی، المصنف، تحقیق و تعلیق: سعید اللحام، دارالفکر للطباعة والنشر والتوزیع، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.
  • ابن ابی‌الحدید، عبدالحمید بن هبه‌الله، شرح نهج‌البلاغه، به کوشش محمد ابوالفضل ابراهیم، قاهره، ۱۳۷۸ق/ص۱۹۵۹م.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابة، قاهره، ۱۲۸۶ق.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت،‌ دار صادر.
  • ابن حنبل، احمد، فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابی‌طالب، تحقیق سید عبدالعزیز طباطبایی، قم،‌ دار التفسیر، ۱۴۳۳ق.
  • ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، نجف، المکتبة الحیدریة، بی‌تا.
  • ابن قتیبه، عبدالله بن مسلم، المعارف، به کوشش ثروت عکاشه، قاهره، ۱۹۶۰م.
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷/ ۱۹۸۶.
  • ابن کثیر، السیرة النبویة،‌ دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزیع، بیروت، ۱۳۹۶ق/۱۹۷۶م.
  • ابن ماجه، محمد بن یزید، سنن، به کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، قاهره، ۱۳۷۳ق/۱۹۵۴م.
  • ابن مغازلی، مناقب علی بن ابی‌طالب(ع)، انتشارات سبط النبی(ص)، ۱۴۲۶ق/۱۳۸۴ش.
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف(ج۱)، به کوشش محمد حمیدالله، قاهره، ۱۹۵۹م.
  • جوینی، ابراهیم بن محمد، فرائد السمطین، به کوشش محمدباقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۸ق/۱۹۷۸م.
  • حاکم نیشابوری، المستدرک، تحقیق: إشراف: یوسف عبدالرحمن المرعشی.
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، بیروت،‌ دار الکتب العلمیة، الطبعة الاولی، ۱۴۱۱ق.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، تحقیق: مؤسسة آل‌البیت، قم، مؤسسة آل‌البیت، ۱۴۱۴ق.
  • دروزه، محمد عزه، تاریخ العرب فی الاسلام، بیروت، المکتبه المصریه.
  • سیوطی، جلال‌الدین عبد الرحمان، الجامع الصغیر، قاهره، ۱۳۷۳ق/۱۹۵۴م.
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، تحقیق: قسم الدراسات الإسلامیة-مؤسسة البعثة، مرکز الطباعة والنشر فی مؤسسة البعثة، قم، ۱۴۱۷ق.
  • صدوق، محمد بن علی، الخصال، تحقیق: تصحیح و تعلیق: علی‌اکبر غفاری، مؤسسة النشر الإسلامی التابعة لجماعة المدرسین بقم المشرفة، ۱۴۰۳ق/۱۳۶۲ش.
  • صدوق، محمد بن علی، عیون hخبار الرضا(ع)، تحقیق: تصحیح و تعلیق و تقدیم: شیخ حسین الأعلمی، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، بیروت، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴م.
  • طوسی، محمد بن حسن، امالی، تحقیق: قسم الدراسات الإسلامیة، مؤسسة البعثة، دارالثقافة للطباعة والنشر والتوزیع، قم، ۱۴۱۴ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الأحکام، تحقیق: سید حسن الموسوی الخرسان، دارالکتب الإسلامیة، طهران، ۱۳۶۴ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری، دارالکتب الإسلامیة، طهران، ۱۳۶۷ش.
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ق.
  • طبرانی، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالمجید السلفی، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۵/۱۹۸۵م
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراهیم، بیروت، دار التراث، الطبعة الثانیة، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی، قم، ۱۴۰۰ق.
  • اربلی، علی بن ابی‌الفتح٬ کشف الغمة فی معرفة الأئمة، دارالأضواء، بیروت.
  • کاشانی، ملا فتح الله، منهج الصادقین فی الزام المخالفین، چاپ‌خانه محمد حسن علمی، ۱۳۳۳ش.
  • نسائی، احمد بن شعیب، خصائص أمیر المؤمنین علی بن ابی‌طالب، تحقیق: احمد میرین البلوشی، الکویت، مکتبة المعلا، الطبعة الاولی، ۱۴۰۶ق.
  • نسائی، احمد بن شعیب، سنن الکبری، تحقیق: عبد الغفار سلیمان البنداری و سید کسروی حسن، دارالکتب العلمیة، بیروت، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م.
  • ابن جوزی، عبدالرحمان، الموضوعات، تحقیق: عبدالرحمن محمد عثمان، المکتبة السلفیة، مدینة، ۱۳۸۶ق/۱۹۶۶م.
  • ابن حبان البستی، ابوحاتم محمد، المجروحین، تحقیق: محمود إبراهیم زاید، مکة، دارالباز للنشر والتوزیع٬ بی‌تا.
  • متقی هندی، علی بن حسام‌الدین، کنزالعمال، ضبط و تفسیر: شیخ بکری حیانی، تصحیح: شیخ صفوة السقا، مؤسسة الرسالة، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.
  • ذهبی، شمس‌الدین محمد، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، تحقیق: علی محمد بجاوی، دار المعرفة للطباعة والنشر، بیروت، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۳م.