المبسوط فی فقہ الامامیہ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
المبسوط فی فقہ الامامیہ
مشخصات
مصنفشیخ طوسی
سنہ تصنیفپانچویں صدی ہجری
موضوعفقہ شیعہ
زبانعربی
مصححمحمد باقر بہبودی
تعداد جلد8
طباعت اور اشاعت
ناشرالمکتبۃ المرتضویۃ
مقام اشاعتتہران
سنہ اشاعت1387ھ


المَبسوطُ فی فِقہِ الإمامیّۃ شیخ طوسی (385-460 ھ) کی فقہی آثار میں سے ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔ شیخ طوسی نے "المبسوط" کو شیعوں کے مخالفین کے جواب میں لکھا ہے جو فقہ شیعہ اور اس کے مسائل کے ناچیز ہونے کے مدعی تھے۔ مؤلف کے بقول یہ کتاب فقہ کے ان تمام ابواب اور فروعات پر مشتمل ہے جو اہل سنت کے یہاں مطرح ہیں۔

شیعہ فقہاء اپنی کتابوں میں "المبسوط" سے استناد کرتے ہیں۔ یہ کتاب شیخ طوسی کی آخری فقہی تصنیف کے طور پر مشہور ہے۔

مؤلف

محمد بن حسن (385-460 ھ) جو شیخ طوسی اور شیخ الطایفہ کے نام سے معروف ہیں،[1] شیعہ علماء میں سے ہیں جو اپنی کم نظیر علمی مقام کی وجہ سے ان کے بعد 100 سال تک آنے والے علماء اور فقہاء نے صرف ان کے فتوے نقل کرتے تھے۔[2] آپ علم فقہ، تفسیر، رجال، کلام اور اصول فقہ میں صاحب‌ نظر تھے اور ان علوم میں مختلف آثار کے مالک ہیں۔[3] التہذیب، الاستبصار، النہایہ اور الخلاف آپ کے اہم علمی آثار میں سے ہیں جو "المبسوط" سے پہلے لکھے گئے تھے۔[4] ان میں سے، دو کتاب تہذیب و استبصار، کا شمار شیعوں کی معتبر کتب اربعہ میں ہوتا ہے۔[5]

اہمیت اور مضامین

آقا بزرگ تہرانی کتاب المبسوط کو فقہ شیعہ میں ایک مکمل دورہ قرار دیتے ہیں[6] اور شیخ طوسی اس کتاب کو فقہ کے تمام اصول اور فروع پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شیعہ اور اہل سنت کتابوں میں بے نظیر کتاب سمجھتے ہیں۔[7] شیعہ علماء اور فقہاء اپنی کتابوں میں "المبسوط" سے استناد کرتے ہوئے اس سے مطالب نقل کرتے ہیں۔[8] سید رضا صدر کتاب المبسوط کو شیعوں کی پہلی فقہی کتاب قرار دیتے ہیں جس میں فقہ کے فرعی مسائل کو بھی مورد بحث قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اس کتاب کو اپنے زمانے کی کامل‌ ترین اور محققانہ‌ ترین کتاب قرار دیتے ہوئے اسے شیخ طوسی وسعت علمی کی دلیل سمجھتے ہیں۔[9]

شیخ طوسی نے مذکورہ کتاب میں مختلف موضوعات من جملہ طہارت، نماز، روزہ، خمس، زکات، حج، اعتکاف، ازدواج، طلاق، اجارہ، وقف، صدقہ، حدود اور دیات کے فقہی احکام ذکر کئے ہیں۔ مذکورہ موضوعات میں سے ہر ایک سے مربوط احکام کو "کتاب" کے عنوان سے جمع‌ کیا ہے۔[یادداشت 1]

کتاب المبسوط چنانچہ شیخ طوسی خود تصریح کرتے ہیں، ادعیہ اور آداب کے ذکر سے خالی ہیں اور احکام کے بیان میں اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔[10] محمد باقر خوانساری "المبسوط" کو قیاس اور استحسان پر مشتمل قرار دیتے ہوئے[11] تقیہ کو اس کی دلیل قرار دیتے ہیں۔[12] شیخ طوسی نے اس کتاب میں سوائے ابن براج کے جن علماء سے مطالب نقل کئے ہیں ان کا نام نہیں لیا ہے۔[13]

تدوین کا مقصد

شیخ طوسی نے کتاب المبسوط کو شیعہ مخالفین کی جانب سے فقہ امامیہ کو ناچیز شمار کرنے کا جواب قرار دیتے ہیں۔[14] چنانچہ آپ کہتے ہیں ہمارے مخالفین فقہ امامیہ میں مطرح ہونے والے فروعات اور مسائل کو ناچیز سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل قیاس اور اجتہاد کا نہ ہونا قرار دیتے ہیں۔ لیکن شیخ طوسی کے مطابق وہ تمام فروعات اور مسائل جو اہل سنت کے فقہی کتابوں میں مطرح ہیں وہ سب کے سب ہمارے ائمہ سے منقول احادیث اور نصوص میں موجود ہیں[15] اسی بنا پر آپ نے کتاب المبسوط میں مختلف فقہی فروعات اہل بیت سے منقول احادیث سے استخراج کئے ہیں۔[16]

شیخ طوسی کے مطابق "المبسوط" کی تدوین سے پہلے کوئی کتاب جو مذہب شیعہ کے تمام فقہی اصول اور فروعات پر مشتمل ہو، موجود نہیں تھی۔[17]

زمان تدوین

محمد باقر خوانساری، کتاب روضات الجنات کے مصنف نے کتاب "المبسوط" کے مقدمے سے استناد کرتے ہوئے مذکورہ کتاب کو شیخ طوسی کی آخری فقہی تصنیف قرار دیتے ہیں۔[18] اسی طرح شیخ طوسی نے خود "المبسوط" میں کتاب مصباح المتہجد،[19] الخلاف[20] النہایہ[21] اور الجمل و العقود[22] کا حوالہ دیا ہے یا مذکورہ کتابوں سے مطالب نقل کئے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود شیخ طوسی کتاب الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد میں کتاب "المبسوط" کا حوالہ دیا ہے۔[23]

اشاعت اور نسخہ جات

کتاب المبسوط سنہ 1270 ھ میں محمد علی خوانساری کے قلم اور میرزا مسیح کی تصحیح کے ساتھ ایران میں شایع ہوئی ہے۔[24] اسی طرح انتشارات المکتبۃ المرتضویۃ نے سنہ 1387 ھ میں اس کتاب کو محمد تقی کشفی کے حاشیہ اور محمد باقر بہبودی کی تصحیح کے ساتھ 8 جلدوں میں شایع کیا ہے۔[25]

آقا بزرگ تہرانی "المبسوط" کے دو قدیمی نسخے جو سنہ 586 اور 613 ھ سے مربوط ہیں، کی طرف اشارہ کیا ہے۔[26] کتاب مقدمہ‌ای بر فقہ شیعہ میں مذکورہ کتاب کے مختلف نسخوں کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں سب سے قدیمی نسخہ 507 ھ کی ہے۔[27]

نوٹ

  1. کتاب طہارۃ، کتاب الصلاۃ، کتاب صلاۃ المسافر، کتاب صلاۃ الجمعہ، کتاب صلاۃ الجماعۃ، کتاب صلاۃ الخوف، کتاب صلاۃ العیدین، کتاب صلاۃ الکسوف، کتاب الجنائز، کتاب الزکاۃ، کتاب الفطرہ، کتاب الحج، کتاب الجہاد و سیرۃ الامام، کتاب الجزایا و احکامہا، کتاب قسمۃ الفیء و الغنائم، کتاب البیوع، کتاب السلم، کتاب الرہن، کتاب المفلس، کتاب الحجر، کتاب الصلح، کتاب الحوالہ، کتاب الضمان، کتاب الشرکۃ، کتاب الوکالۃ، کتاب الاقرار، کتاب العاریہ، کتاب الغصب، کتاب الشفعۃ، کتاب القراض و المضاربہ، کتاب المساقاۃ، کتاب الاجارات، کتاب المزارعہ، کتاب احیاء الموات، کتاب الوقوف و الصدقات، کتاب الہبات، کتاب اللقطہ، کتاب النفقات، کتاب العتق، کتاب المکاتب، کتاب التدبیر، کتاب امہات الاولاد، کتاب الایمان، کتاب النذر، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاطعمہ، کتاب السبق و الرمایہ کتاب الوصایا کتاب الفرائض و المواریث، کتاب الودیعہ، کتاب النکاح، کتاب الصداق، کتاب القسم، کتاب الخلع، کتاب الطلاق، کتاب الرجعہ، کتاب الایلاء، کتاب الظہار، کتاب اللعان، کتاب العدد، کتاب الرضاع، کتاب الجراح، کتاب الدیات، کتاب القسامہ، کتاب کفارۃ القتل، کتاب قتال اہل البغی، کتاب المرتد، کتاب الحدود، کتاب السرقۃ، کتاب قطاع الطریق، کتاب الاشربہ، کتاب قتال اہل الردہ، کتاب دفع عن النفس، کتاب الشہادات اور کتاب الدعاوی و البینات المبسوط کے اصلی عناوین میں سے ہیں۔

حوالہ جات

  1. دوانی، ہزارہ شیخ طوسی، ۱۳۸۶ش، ص۴۷۔
  2. دوانی، ہزارہ شیخ طوسی، ۱۳۸۶ش، ص۶۶۔
  3. دوانی، ہزارہ شیخ طوسی، ۱۳۸۶ش، ص۵۵-۵۶ و ۶۶۔
  4. خوانساری، روضات الجنات، مکتبۃ اسماعیلیان، ج۶، ص۲۲۲۔
  5. دوانی، ہزارہ شیخ طوسی، ۱۳۸۶ش، ص۶۵۔
  6. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۸ق، ج۱۹، ص۵۴۔
  7. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۳؛ خوانساری، روضات الجنات، مکتبۃ اسماعیلیان، ج۶، ص۲۲۳۔
  8. ابن ادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۶۴۷؛ بحرانی، الحدائق الناضرہ، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۴۵۹۔
  9. صدر، «مقام فقہی شیخ طوسی»، ص۳۸۸۔
  10. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۳۔
  11. خوانساری، روضات الجنات، مکتبۃ اسماعیلیان، ج۶، ص۲۱۷۔
  12. خوانساری، روضات الجنات، مکتبۃ اسماعیلیان، ج۶، ص۲۱۸۔
  13. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۱۱۔
  14. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱-۳۔
  15. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱-۳۔
  16. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱-۳۔
  17. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۳۔
  18. خوانساری، روضات الجنات، مکتبۃ اسماعیلیان، ج۶، ص۲۲۲۔
  19. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۱۷۔
  20. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۱، ج۴، ۶۳، ۱۱۱۔
  21. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۱۱، ج۷، ص۵۴۔
  22. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۳۔
  23. شیخ طوسی، الاقتصاد الہادی، ۱۳۷۵ق، ص۲۳۹، ۳۱۶۔
  24. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۸ق، ج۱۹، ص۵۴۔
  25. نگاہ کریں: شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق۔
  26. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۸ق، ج۱۹، ص۵۴۔
  27. مدرسی طباطبایی، مقدمہ‌ای بر فقہ شیعہ، ۱۳۶۸ش، ص۷۹۔

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، قم و تہران، اسماعیلیان و کتابخانہ اسلامیہ، ۱۴۰۸ق۔
  • ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۰ق۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرۃ، تصحیح: محمد تقی ایروانی و سید عبد الرزاق مقرم، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۵ق۔
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات، تحقیق اسداللہ اسماعیلیان، قم، مکتبۃ اسماعیلیان، بی‌تا۔
  • دوانی، علی، ہزارہ شیخ طوسی: مقالہ‌ہا و خطابہ‌ہایی بہ مناسبت ہزارمین سال ولادت شیخ طوسی، تہران، مؤسسہ انتشارات امیر کبیر، ۱۳۸۶ش۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تصحیح سید محمد تقی کشفی، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لاحیاء الآثار الجعفریہ، ۱۳۸۷ق۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد، تہران، کتابخانہ جامع چہل ستون، ۱۳۷۵ق۔
  • صدر، سید رضا، «مقام فقہی شیخ طوسی: در سہ کتاب پرارج وی: نہایہ، خلاف و مبسوط»، در ہزارہ شیخ طوسی: مقالہ‌ہا و خطابہ‌ہایی بہ مناسبت ہزارمین سال ولادت شیخ طوسی، مقدمہ، ترجمہ و تدوین علی دوانی، تہران، مؤسسہ انتشارات امیر کبیر، ۱۳۸۵ش۔
  • مدرسی طباطبایی، سید حسین، مقدمہ‌ای بر فقہ شیعہ، ترجمہ محمد آصف فکرت، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، ۱۳۶۸۔