النہایہ فی مجرد الفقہ و الفتاویٰ (کتاب)
النہایہ فی مجرد الفقہ و الفتاوی عربی زبان میں شیخ طوسی (385۔460ھ) کی فقہی کتاب ہے۔ اس کتاب میں تمام ابواب فقہ کو خلاصہ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اور بہت سے حاشیے اور مختلف شرحیں اس پر لکھی گئی ہیں۔ قلم کی روانی، اصل مسائل سے دور نہ ہونا اور ترتیب کی رعایت اس کی اہم خصوصیات سمجھی جاتی ہیں۔
اس کتاب کے کئی خطی نسخے ہیں جن میں سب سے قدیم نسخہ 507ھ کا ہے۔ النہایہ کا فارسی زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے آغا بزرگ تہرانی کا گمان ہے کہ کتاب کا ترجمہ بھی شیخ طوسی کی ہی تالیف ہے۔
مؤلف | شیخ طوسی (460ھ) |
---|---|
مترجم | قطب الدین راوندی یا حسکای رازی و یا حمدانی قزوینی |
مقام اشاعت | قم |
زبان | عربی |
موضوع | فقہ |
ناشر | مؤسسه امام ہادیؑ |
تاریخ اشاعت | سنہ 1400 ہجری شمسی |
مولف کے بارے میں
محمد بن حسن طوسی (385۔460ھ) المعروف بہ شیخ طوسی شیخ مفید اور سید مرتضی کے شاگردوں میں سے ہیں۔[1] سید مرتضی کے بعد شیعہ زعامت کا منصب ان کو سونپا گیا[2] شیخ طوسی نے حوزہ علمیہ نجف کی بنیاد رکھی اور وہاں علوم دینی کا مرکز تعمیر کیا۔[3] انہوں نے مختلف اسلامی علوم میں بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں جیسے حدیث میں تہذیب الاحکام و استبصار تفسیر میں التبیان، دعاوں میں مصباح المتہجد، اصول فقہ میں العدہ اور فقہ میں المبسوط۔[4]
کتاب کا تعارف
النہایہ فقہ کی کتاب ہے جس میں فقہی استدلال بیان نہیں ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں امامیہ فتاوی روایات [5] کی روشنی میں اور کسی سند کے بغیر بیان ہوئے ہیں۔ استدلال اور مخالفین کی آرا سے اجتناب کیا گیا ہے[6] ابن ادریس حلی کا ماننا ہے کہ اسی وجہ سے شیخ طوسی نے ان فتاوی کا ذکر بھی کیا ہے جن کو وہ نہیں مانتے۔[7] یہ مجموعی طور پر 22 کتابوں، 214 (215) باب[8] اور 36 ہزار مسئلوں پر مشتمل ہے۔[9] اس کتاب میں شیخ طوسی کا مقصد یہ تھا کہ فقہ پر ایک مختصر کتاب لکھی جائے جو روایات کی عبارات پر مشتمل ہو اور تمام فقہی ابواب کو بھی بیان کیا جا سکے تاکہ حفظ کرنے کے لیے مناسب ہو۔[10] النہایہ کی نگارش کی صحیح تاریخ واضح نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ شیخ طوسی کی پہلی تصنیف کے عنوان سے جانی جاتی ہے۔[11] کیونکہ مصنف نے اپنی اکثر فقہی کتابوں جیسے استبصار،[12] الاقتصاد،[13] الجمل والعقود،[14]الخلاف،[15] المبسوط،[16] اور مصباح المتھجد[17] میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
مقام و منزلت
النہایہ شرائع الاسلام کی تالیف تک حوزہ کی درسی نصاب میں شامل رہی ہے اسلیے اس پر بہت سی شرحیں لکھی گئی ہیں۔[18] آغا بزرگ تہرانی اور سید محسن امین النہایہ کو مصنف کی نمایاں تصنیف میں شمار کرتے ہیں۔[19] بعض تحقیقات کیے مطابق شیخ طوسی اچھی طرح کتاب کے مختلف موضوعات کی تقسیم بندی کر سکے ہیں۔[20]
خصوصیات
النہایہ کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
- ابواب کے احکام کلی اور مسائل اصلی سے خارج نہ ہونا اور احکام شرعی کے مصادیق کو پیش نہ کرنا۔ اس خصوصیت کا خیال دوسرے فقہا جیسے محقق حلی کی کتاب شرایع الاسلام اور علامہ حلی کی کتاب قواعد الاحکام میں بھی رکھا گیا ہے۔[21]
- امامیہ فقہی فروعات اور بعض اہل سنت کے فروعات کو سادہ عبارت میں بیان کرنا۔[22]
- اس زمانے کی تنہا کامل فقہی کتاب[23]
- مبہم خلاصے اور بے جا تفصیل سے پرہیز۔[24]
- ابواب اور موضوعات کی منطقی ترتیب اور فرعی مسائل کو مناسب جگہ پر قرار دینا۔[25]
- بعض روایات[26] کی سند کا ذکر یا استدلال[27] یا کتاب کے فتووں پر مشتمل ہونے کے باوجود ان میں مناقشہ کرنا[28]
شرحیں اور حاشیے
النہایہ کی بعض شرحیں اور حاشیے درج ذیل ہیں
- «المرشد الی المتعبد»[29] یا« المرشد الی سبیل التعبد»[30] تالیف حسن بن محمد طوسی ابن شیخ طوسی۔[31]
- «المغنی فی شرح النہایہ»[32] یا «المغنی فی شرح النہایۃالطوسیہ»[33] تالیف قطب الدین راوندی [34]
- «شرح مشکلات النہایہ»[35] یا «مشکلات النہایہ»[36] از قلم قطب الدین راوندی۔[37]
- «نہیۃ النہایہ[38] یا« نہایۃ النہایہ» مصنف قطب الدین راوندی۔[39]
- «غریب النہایۃ» مولف قطب الدین راوندی[40]
- «شرح ما یجوز و ما لا یجوز من النہایۃ» تالیفات قطب الدین راوندی[41]۔
- «نکت النہایۃ »بقلم محقق حلی۔[42]
- «شرح النہایۃ »اثر نظام الدین صہر شتی[43]
کتاب کے نسخے
کتاب النہایہ کے بہت سے نسخوں کی بات کی گئی ہے۔[44] عربی کا قدیم ترین نسخہ[45] نسخۂ مہدوی 544 ش ہے[46] اور اس کا قدیم ترین فارسی نسخہ[47] ۵۰۷ش کا ہے جو قم میں کتب خانہ آیت اللہ مرعشی نجفی میں موجود ہے۔[48] عربی نسخہ پہلی بار 1376ش میں شائع ہوا[49] اس کی پہلی طباعت 1373ش میں انتشارات دار الکتاب العربی کی کوشش سے بیروت میں انجام پائی۔[50]
ترجمہ یا فارسی نسخہ
آغا بزرگ تہرانی کے مطابق النہایہ کے دو نسخے عربی اور فارسی میں ہیں اور یہ ممکن ہے کہ فارسی کا نسخہ بھی شیخ طوسی کی تالیف ہو [51] لیکن کچھ دوسرے لوگ اسے بعید سمجھتے ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ اس کتاب کا ترجمہ قطب الدین راوندی یا حسکای اور یا حمدانی قزوینی کی کوشش سے انجام پایا ہے.[52] فارسی نسخہ شیخ طوسی کی وفات کے ہزار سال مکمل ہونے کی مناسبت سے 1382 ش میں محمد تقی دانش پژوہ کی تصحیح کے ساتھ فارسی اور عربی نسخے کے ساتھ دو جلدوں میں شائع ہوا۔[53]
حوالہ جات
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۹، ص۱۵۹۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۹، ص۱۵۹۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۹، ص۱۶۰؛ آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، ۱۴۳۰ھ، ج۲، ص۱۶۲۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۹، ص۱۶۱۔
- ↑ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۷۹ و ۸۰؛ خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ش، ج۶، ص۲۲۱۔
- ↑ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۷۹ و ۸۰۔
- ↑ ابن ادریس، السرائر، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۶۴۲ و ج۲، ص۲۵، ۴۴، ۱۷۲۔
- ↑ محقق حلی، نکت النهایۃ، ۱۴۱۲، ج۱، ص۱۸۱۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲۴، ص۴۰۳۔
- ↑ شیخ طوسی، استبصار، مشیخہ، ۱۳۹۰ھ، ص۳۰۵۔
- ↑ بحر العلوم، الفوائد الرجالیہ، ۱۳۶۳ش، ج۳، ۲۳۰؛ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۷۶ و ۷۷؛ خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ش، ج۶، ص۲۲۲۔
- ↑ شیخ طوسی، استبصار، ۱۳۹۰ھ، ج۱، ص۵۔
- ↑ مثال کے لیے رجوع کیجیے: شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۳۷۵ھ، ص۲۵۳، ۳۰۲ و ۳۱۶۔
- ↑ مثال کے لیے رجوع کیجیے: شیخ طوسی، الجمل و العقود، ۱۳۸۷ھ، ص۵۵، ۱۱۷ و ۱۳۷۔
- ↑ مثال کے لیے رجوع کیجیے: شیخ طوسی، الخلاف، ج۱، ص۳۶۸، ۴۶۱، ۴۷۹ و ج۲، ص۳۹۷٬۳۹۹ و ج۳، ص۴۳۴۔
- ↑ مثال کے لیے رجوع کیجیے: شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ھ، ج۱، ص۲، ۴۲ و ۲۳۴۔
- ↑ مثال کے لیے رجوع کیجیے: شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۳ و ۲۲۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۹، ص۱۶۰؛ آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، ۱۴۳۰ھ، ج۲، ص۱۶۲۔
- ↑ شیخ طوسی، النہایہ، ۱۴۰۰ھ، ص۲۹؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۹، ص۱۶۶۔
- ↑ طباطبائی، «پژوہشی در فقہ شیخ طوسی قدس سره»، ص۲۲۶۔
- ↑ طباطبائی، «پژوہشی در فقہ شیخ طوسی قدس سره»، ص۲۲۶۔
- ↑ طباطبائی، «پژوہشی در فقہ شیخ طوسی قدس سره»، ص۲۲۶۔
- ↑ محمدی، «معرفی دو نسخہ خطی النہایہ و الاستبصار اور یاد کردی از شیخ طوسی مؤلف اثر»، ص۴۸۔
- ↑ طباطبائی، «پژوهشی در فقہ شیخ طوسی قدس سره»، ص۲۲۶۔
- ↑ طباطبائی، «پژوهشی در فقہ شیخ طوسی قدس سره»، ص۲۲۶۔
- ↑ مثال کے لیے رجوع کیجیے: شیخ طوسی، النہایہ، ۱۴۰۰ھ، ص۱۰۸، ۳۵۰ و ۳۵۱۔
- ↑ مثال کے لیے رجوع کیجیے: شیخ طوسی، النہایہ، ۱۴۰۰ھ، ص۶۷۷، ۶۷۸، ۲۹۸ و ۵۲۱۔
- ↑ مثال کے لیے رجوع کیجیے: شیخ طوسی، النہایہ، ۱۴۰۰ھ، ص۶۶۷۔
- ↑ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۹۷۔
- ↑ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۷۹۔
- ↑ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۹۷؛ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۷۹۔
- ↑ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۹۷۔
- ↑ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۷۹۔
- ↑ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۷۹؛ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۹۸۔
- ↑ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۸۰؛ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۹۸۔
- ↑ ابن شہر آشوب، معالم العلماء، دار الاضواء، ص۵۵۔
- ↑ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۸۰؛ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۹۸۔
- ↑ حکیم، «بازماندهہایی از چند کتاب مفقود شیعی»، ص۱۰۸۔
- ↑ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۸۰؛ دانشپژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۹۸۔
- ↑ حکیم، «بازماندهہایی از چند کتاب مفقود شیعی»، ص۱۰۸؛ دانشپژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۹۸۔
- ↑ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۸۰؛ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۹۸۔
- ↑ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۸۰؛ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۱۰۰۔
- ↑ محقق حلی، نکت النهایة، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۸۰۔
- ↑ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۸۱۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲۴، ص۴۰۴۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲۴، ص۴۰۴؛ محقق حلی، نکت النهایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۸۲۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲۴، ص۴۰۴۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲۴، ص۴۰۴؛ محقق حلی، نکت النہایہ، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۱۸۱۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲۴، ص۴۰۳۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲۴، ص۴۰۳ و ۴۰۴۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲۴، ص۴۰۳ و ۴۰۴۔
- ↑ دانش پژوه، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، ص۱۰۵ و ۱۰۶۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲۴، ص۴۰۴۔
مآخذ
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۰۳ھ۔
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، طبقات اعلام الشیعہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۳۰ھ۔
- ابن ادریس، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
- ابن شہر آشوب، محمد بن علی، معالم العلماء فی فہرست کتب الشیعہ و اسماء المصنفین قدیما و حدیثا، بیروت، دار الاضواء، بے تا۔
- امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۳ھ۔
- بحرالعلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، تہران، مکتبۃ الصادق(ع)، ۱۳۶۳ش۔
- حکیم، محمد حسین، «بازماندههایی از چند کتاب مفقود شیعی»، در مجلہ آینہ پژوہش، شماره۳، مرداد و شہریور ۱۳۹۹ش۔
- خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، ۱۳۹۰ش۔
- دانش پژوه، محمد تقی، «شیخ طوسی و کتاب نہایہ»، در فرہنگ ایران زمین، تہران، جلد۴، ۱۳۳۵ش۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاستبصار فیما اختلف من الاخبار، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۹۰ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد، تہران، کتابخانہ جامع چہل ستون، ۱۳۷۵ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الجمل و العقود فی العبادات، مشہد، موسسہ نشر دانشگاه فردوسی، ۱۳۸۷ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۷ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، نجف، المکتبۃ الرضویہ، بےتا۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تہران، المکتبۃ المرتضویہ لاحیاء الآثار الجعفریہ، ۱۳۸۷ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، النهایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۴۰۰ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، موسسہ فقہ الشیعہ، ۱۴۱۱ھ۔
- طباطبائی، سید مہدی، «پژوہشی در فقہ شیخ طوسی قدس سره»، در مجلہ فقہ اہل بیت، شماره۲۳، پاییز ۱۳۷۹ش۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، نکت النہایہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۲ھ۔
- محمدی، ناصر، «معرفی دو نسخہ خطی النہایہ و الاستبصار و یادکردی از شیخ طوسی مؤلف اثر»، در مجلہ پیام بہارستان، شماره ۶۵، آبان ۱۳۸۵ش۔