تلخیص البیان فی مجازات القرآن (کتاب)

ویکی شیعہ سے

تلخیص البیان فی مجازات القرآن سید رضی (406ہ) کی عربی زبان کی تالیف ہے۔ جس میں قرآن کے استعارات اور قرآن کے مجازی معانی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس کتاب کے مؤلف چوتھی صدی ہجری کے آخری پچاس سال کی شیعہ علما کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے قرآنی علوم کی پہلی تصنیف ہے۔

اسم کتاب

ابن خلکان[1] کے مطابق یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے بے نظیر ہے۔ مؤلف نے المجازات النبویہ[2] اور ابن عنبہ[3] اور سید محسن امین،[4] اس کتاب کا نام تلخیص البیان عن مجازات القرآن ذکر کرتے ہیں لیکن بعض مصادر میں تلخیص البیان من مجازات القرآن آیا ہے۔[5] بعض دیگر علما کتاب کے موضوع کی بنا پر مجاز یا مجازات القرآن ذکر کرتے ہیں۔[6] اس بنا پر مطبوعہ صورت میں اس کا نام تلخیص البیان فی مجازات القرآن ہی آایا ہے۔

اہمیت

شریف رضی کی خوبصورت نثر[7] اور علوم بلاغت میں ید طولا کی عکاسی کرنے والی اصیل اور فصیح عبارتوں کے انتخاب [8] کی وجہ سے اسے چوتھی صدی ہجری کی اہم ترین کتابوں میں سے شمار کرتے ہیں۔[9] یہ کتاب سورتوں کی ترتیب اور آیات کے مطابق قرآن میں موجود مجاز، استعارات‌ اور کنایوں‌ کے ذکر کو شامل ہے نیز انہیں ثابت کرنے کی غرض سے عربی کے اکثر اشعار ذکر کئے ہیں۔[10] اسے قرآن کی ایک تفسیر بیانی کہا جا سکتا ہے کہ جسے قرآن کریم کے علم بلاغت اور بیان کے پہلو کو اجاگر کرنے کیلئے لکھا گیا ہے۔[11]

یہ پہلی جداگانہ کتاب ہے جسے قرآن کے استعاروں اور کنایوں کو بیان کرنے کی غرض سے لکھا گیا۔ خود مؤلف اس نکتے کی جانب المجازات النبویۃ میں اشارہ[12] کرتے ہیں۔ اس سے پہلے اگرچہ چند کتابیں جیسے مَجاز القرآن میں ابوعبیدہ مَعمر بن مثنّی (متوفا ۲۰۹ق) نے مجاز کو محور قرار دے کر اپنی کتاب تالیف کی لیکن اس کے نزدیک مجاز کا معنا عام مراد تھا اور اس سے مراد وہ راستے ہیں کہ جنہیں قرآن نے اپنے مقاصد بیان کرنے کیلئے انتخاب کیا ہے۔[13] اس لحاظ سے تفسیر، معنی، تقدیر اور تأویل جیسے کلمات مجاز کے مترادف ہو گئے ہیں اور یوں مؤلف کے پیش نظر علم بلاغت کا مجاز نہیں تھا بلکہ اس نے ایک عام معنا مراد لیا ہے۔[14]

زمان تالیف

شریف رضی نے تلخیص البیان میں اپنے والد سے نقل کرتے ہوئے کہا:ابواحمد حسین بن موسی، رضی اللّہ عنہ و أرضاہ نے کہا۔[15]. ان کے والد کے سن وفات (۴۰۰ق) اور ان کے اپنے سال وفات (۴۰۶ق) کی بنا پر یہ کتاب سید نے اپنی زندگی کے آخری 6سالوں میں لکھی گئی۔مؤلف نے اس کتاب میں اپنے بعض اساتذہ جیسے ابن جنّی، قاضی عبدالجبار معتزلی و ابوبکر محمد بن موسی خوارزمی سے بھی مطالب نقل کئے ہیں۔[16]

خصوصیات

اس کتاب کی اہم خصوصات قابل ذکر ہیں:

  • سبعہ قراء کی قراتوں کے مطابق آیات کی مختلف قرآت کا ذکر۔[17]
  • الفاظ کے معانی کی ابحاث اور انکے قرآنی استعمالات۔ [18]
  • شاہد کے طور پر پیش کئے جانے والے اشعار میں موجود مشکلات کو برطرف کرنا اور اختلافی مسائل میں اپنی رائے کا اظہار۔[19]
  • قرآنی استعمالات اور مجاز پر مشتمل احادیث سے استفادہ۔[20]

قلمی نسخے

پہلی مرتبہ سید محمد مشکوۃ نے اس کتاب کے خطی نسخے کو پیش کیا اور اس کتاب کی مختلف فہرستوں کو مقدمے کے ساتھ ۱۳۲۹ شمسی میں تہران سے چاپ کیا۔ پھر ایک مصری محقق محمد عبدالغنی حسن نے اسی قلمی نسخے کی تحقیق کیا اور ۱۳۷۴ق/ ۱۹۵۵م میں مصر طبع کروایا اور اسکی آفسٹ چاپ بیروت سے ہوئی۔

ان دو چاپوں کے بعد نجف کے کتابخانہ سید محمد جزائری سے ایک نسخہ ملا جسے مکی سید جاسم نے ۱۳۷۵ق میں عراق کے شہر بغداد چاپ کروایا۔پھر ایک 1407ق میں تہران سے چاپ ہوا۔سید محمد باقر سبزواری نے ۱۳۳۰ش میں اسے فارسی میں ترجمہ کیا اور فارسی اشعار کے شواہد کے ساتھ تہران ست چھپوایا۔ [21]

حوالہ جات

  1. ابن خلّکان، ج۴، ص۴۱۶
  2. سید رضی، المجازات النبویہ، ص۹
  3. ابن عنبہ، ص ۲۰۷
  4. امین، اعیان الشیعہ، ج۹، ص۲۱۸
  5. ابن شہر آشوب، ص ۵۱؛ حرّ عاملی، قسم۲، ص ۲۶۱
  6. نجاشی، ص۳۹۸؛ آقا بزرگ، ج۴، ص۴۲۱؛ فروخ، ج۳، ص۶۰
  7. رجوع کنید بہ باخرزی، ج۱، ص۲۹۳؛ ابن جوزی، ج۱۵، ص۱۱۵؛ متز، ج۱، ص۴۸۷، ۴۹۱؛ تستری، ج۸، ص۱۴۸
  8. رک: شریف رضی، ص۱۶۱، ۳۰۴، مقدمہ، ص م
  9. ضیف، ص ۱۳۹
  10. ضیف، ص۱۴۰؛ نمونہ کیلئے دیکھیں: تلخیص شریف رضی، ص۱۴۳، ۱۶۹، ۱۷۹
  11. شریف رضی، مقدمہ، ص ۶۱
  12. شریف رضی، ص۱۰
  13. ج ۱، مقدمہ سزگین، ص ۱۹
  14. ابن مثنی، ص۱۸۱۹؛ مقایسہ کنید با ابوعبیدہ و سیدرضی، ص۱۳۳، ۱۳۹؛ مثالوں کیلئے دیکھیں: ابن مثنی، ج۱، ص۳، ۱۴۷، ۲۰۵
  15. ص ۳۲۲
  16. شریف رضی، ص۴۸، ۲۱۲، ۲۸۰۲۸۱
  17. ر ک: شریف رضی، ص۱۱۴، تعلیقہ۲، ص۱۲۷، تعلیقہ۱
  18. ر ک: شریف رضی، فہرست، ص۴۴۷ ۴۵۸
  19. شریف رضی، مقدمہ، ص م
  20. رجوع کنید بہ شریف رضی، ص۱۵۷، ۱۷۴، ۲۷۴
  21. دیکھیں: شریف رضی، ترجمہ سبزواری، ص۴۴۴۵، ۴۹، ۶۰

مآخذ

  • آقا بزرگ طہرانی، م‍ح‍م‍دم‍ح‍س‍ن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ن‍ج‍ف‌، م‍ک‍ت‍ب‍ہ‌ ص‍اح‍ب‌ ال‍ذری‍ع‍ہ‌ ال‍ع‍ام‍ہ‌، بی تا.
  • ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، چاپ محمد عبدالقادرعطا و مصطفی عبدالقادرعطا، بیروت، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • ابن شہرآشوب، معالم العلماء، نجف ۱۳۸۰/ ۱۹۶۱م.
  • ابن عنبہ، عمدۃ الطّالب فی انساب آل ابی طالب، چاپ محمدحسن آل طالقانی، نجف، ۱۳۸۰/۱۹۶۱.
  • معمربن مثنّی ابوعبیدہ، مجاز القرآن، چاپ محمدفؤاد سزگین، قاہرہ، ۱۹۸۸م.
  • امین، محسن، اعیان الشیعۃ، چاپ حسن امین، بیروت، ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳.
  • باخرزی، علی بن حسن، دمیۃ القصر و عصرۃ اہل العصر، چاپ محمد تونجی، ج ۱، دمشق، ۱۳۹۱/۱۹۷۱.
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، تہران، ۱۳۷۹۱۳۹۱.
  • حر عاملی، محمدبن حسن، امل الا´مل، چاپ احمد حسینی، قسم ۲، قم، ۱۳۶۲ش.
  • شریف رضی، محمدبن حسین، تلخیص البیان فی مجازات القرآن، چاپ محمد مشکوۃ، تہران، ۱۳۲۹ ۱۳۳۲ش.
  • شریف رضی، محمدبن حسین، چاپ محمد عبدالغنی حسن، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶.
  • شریف رضی، محمدبن حسین، ترجمۃ محمدباقر سبزواری، تہران، ۱۳۳۰ش.
  • شریف رضی، محمدبن حسین، المجازات النبویۃ، چاپ طہ محمد زینی، قاہرہ ۱۹۶۸، چاپ افست قم، بی‌تا.
  • ضیف، شوقی، البلاغۃ تطور و تاریخ، قاہرہ، ۱۹۸۷.
  • علوی مقدم، محمد، «مقایسۃ مجازالقرآن ابوعبیدہ و تلخیص البیان سیدرضی»، در یادنامۃ علامہ شریف رضی، بہ اہتمام ابراہیم سیدعلوی، تہران، ۱۳۶۶ش.
  • فروخ، عمر، تاریخ الادب العربی، ج ۳، بیروت، ۱۹۸۹.
  • متز، آدام، الحضارۃ الاسلامیۃ فی القرن الرابع الہجری، نقلہ الی العربیۃ محمد عبدالہادی ابوریدۃ، قاہرہ، ۱۳۷۷/۱۹۵۷.
  • نجاشی، احمدبن علی، فہرست اسماء مصنّفی الشیعۃ المشتہر ب رجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق.