مندرجات کا رخ کریں

سعادت خان

ویکی شیعہ سے
میر محمد امین موسوی نیشابوری
اودھ شیعہ حکومت کے بانی
سعادت خان سے منسوب تصویر
سعادت خان سے منسوب تصویر
کوائف
ناممیر محمد امین موسوی نیشابوری
لقبسعادت خان. برہان الملک
والدمرزا محمد نصیر
مذہبشیعہ
حکومت
سمتاَوَدھ کے پہلے نواب
سلسلہنوابان اودھ
محدودہاودھ اترپردیش
آغازسنہ 1722ھ
انجامسنہ 1739
معاصرگورکانی مغل سلطنت
مرکزفیض آباد
اہم اقداماتاودھ کے شیعہ نوابوں کی حکومت کا قیام
قبل ازمحمد مقیم صفدر جنگ


میر محمد امین موسوی نیشاپوری المعروف سعادت خان اور برہان الملک (1680–1739ء) موسوی سادات میں سے ایک ایرانی نژاد سپہ سالار تھے جنہوں نے اودھ ہندوستان میں شیعہنوابوں کی حکومت کی بنیاد رکھی۔

وہ ہندوستان میں مغلیہ دربار میں "سادات بارہ" کے اثر و رسوخ کے دور میں اعلیٰ مناصب پر فائز ہوئے اور متعدد بغاوتوں کو کچلنے کے بعد پہلے آگرہ کے حاکم بنے، اور پھر سنہ 1732ء میں اودھ کی حکومت انہیں سونپی گئی۔

سعادت خان اور ان کے جانشینوں کی نیم خود مختار حکومت 140 سال سے زائد عرصے تک قائم رہی اور یہ دور ہندوستان میں شیعہ حکومتوں کے درخشاں ادوار میں شمار ہوتا ہے۔ اس دوران ہندوستان اور ایران کے مختلف علاقوں سے شیعوں نے اودھ کی طرف ہجرت کی۔

اودھ کی شیعہ حکومت کی بنیاد

میر محمد امین موسوی نیشاپوری، جو امام موسیٰ کاظمؑ کی نسل [1]سے اور نیشاپور کے رہنے والے تھے، اپنے والد کے ہندوستان ہجرت کرنے کے دو سال بعد یعنی سنہ 1120ھ میں ہندوستان پہنچے[2] اور سنہ 1722ء میں اودھ میں شیعہ نوابوں کی حکومت کی بنیاد رکھی۔

مغلیہ سلطنت کی سپہ سالاری

سعادت خان 1713ء میں مغل بادشاہ فرخ سیر کے لشکر کے سپہ سالار مقرر ہوئے۔ محمد شاہ مغل کے تخت پر آنے کے بعد، ان کے قریبی افراد میں شامل ہوگئے اور اہم عسکری ذمہ داریاں سنبھالیں۔[3] انہوں نے آگرہ کی بغاوت کو کچلا، 1721ء میں سپہ سالار کے عہدے پر فائز ہوئے، الہ آباد کے راجہ کو شکست دینے اور سید برادران کی بغاوت کو دبانے کے بعد، فوج کے سپہ سالار بن گئے اور "سعادت خان" کا لقب پایا۔[4]

حکومت کی تشکیل

محمد شاہ نے سعادت خان کو لکھنؤ میں شیخ زادگان کی بغاوت کو کچلنے کا حکم دیا۔ سعادت خان نے باغیوں کو شکست دی اور ان کے قلعوں پر قبضہ کیا۔[5] اسی طرح گونڈا، پرتاب گڑھ، رسول پور اور دیگر علاقوں میں بھی انہوں نے باغیوں کو شکست دے کر اودھ میں امن قائم کیا۔ انہوں نے ایودھیا میں شہرفیض آباد کی بنیاد رکھی اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔[6]

حکومت کا پھیلاؤ

محمد شاہ کو سعادت خان پر مکمل اعتماد تھا اور وہ ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا تھا۔ سعادت خان نے اودھ کی آمدنی ایک لاکھ ستر ہزار سے بڑھا کر بیس لاکھ روپیہ کردی اور "برہان الملک" کا لقب حاصل کیا۔[7] انہوں نے ایک خود مختار حکمران کی حیثیت سے جونپور، غازی پور، اور چنار وغیرہ کو 1728ء میں فتح کیا۔[8] 1737ء میں مرہٹوں کو شکست دی اور باجی راؤ کے حملے کے بعد دہلی کا امن بحال کیا۔[9] تاہم 1739ء میں داخلی اختلافات اور بعض لوگوں کی خیانت کی وجہ سے نادر شاہ کے حملے کو روکنے میں ناکام رہے کیونکہ داخلی اختلافات اور بعض افراد کی خیانت نے روڑے اٹکائے اور دہلی نادر شاہ کے قبضے میں چلی گئی۔[10]

شیعہ حکمرانوں میں حکومت کا تسلسل

سعادت خان نے اپنی وفات سے پندرہ سال قبل اپنے بھانجے محمد مقیم کو ایران سے بلوایا اور اپنا جانشین مقرر کیا۔ ان کی وفات کے بعد محمد شاہ نے محمد مقیم کو "صفدر جنگ" کا لقب دے کر ان کی حکومت کو تسلیم کیا۔[11] سعادت خان اور ان کے جانشینوں نے اودھ پر 142 سال تک حکومت کی، اور یہ دور اس علاقے میں شیعوں کا سنہرا دور تھا کیونکہ شمالی ہندوستان میں شیعوں کی پہلی خود مختار حکومت قائم ہوئی تھی۔[12] اس دور میں ایران کے شیعہ تاجر اور علماء نے اودھ کی طرف ہجرت کی جنہیں اودھ کے نوابوں کی حمایت حاصل رہی اور اہم مناصب سونپے گئے۔[13] بعد ازاں، سید دلدار علی نقوی (غفران مآب) کے ذریعہ ایک عظیم شیعہ حوزہ علمیہ قائم کیا اس کے بعد اودھ برصغیر میں شیعیت کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔[14]

وفات

سعادت خان 10 ذی الحجہ سنہ 1151ھ کو نادر شاہ کے دہلی میں داخل ہونے کے چند روز بعد انتقال کرگئے۔ ان کی وفات کی مختلف روایات ہیں؛ بعض کا کہنا ہے کہ نادر شاہ کی توہین کا تاوان ادا نہ کرنے کی شرمندگی کے باعث انہوں نے خود کشی کرلی۔[15] مگر زیادہ معتبر ایک روایت کے مطابق ان کی وفات ان کے پاؤں پر موجود ایک پرانے زخم کی وجہ سے ہوئی۔[16] نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ سالوں بعد ان کی ہڈیاں کربلا منتقل کر کے وہاں دفن کی گئیں۔[17]

حوالہ جات

  1. فہیمی، «برہان الملک»، 1393شمسی، ج3، ص1120۔
  2. حیدر حسنی، سوانحات سلاطین اودھ، 2009م، ص51؛ فہیمی، «برہان الملک»، 1393شمسی، ج3، ص1120۔
  3. گولدن، تاریخ ہند، ص451، بہ نقل از: رضوی، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، 1388شمسی، ص64۔
  4. پرساد، بوستان اودہ، 1881م، ص5
  5. پرساد، بوستان اودہ، 1881م، ص5۔
  6. حیدر حسنی،سوانحات سلاطین اودھ، 2009م، ص65؛ نجم الغنی خان، تاریخ اودھ، 1919م، ص36۔
  7. ایروین، اودھ کا پہلا نواب، ص42، بہ نقل از: رضوی، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، 1388شمسی، ص65۔
  8. دہلی میں اردو شاعری فکری و تہذیبی پس منظر، 1964م، ص30، بہ نقل از: رضوی، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، 1388شمسی، ص65۔
  9. پرساد، بوستان اودہ، 1881م، ص6۔
  10. نجم الغنی خان، تاریخ اودھ، 1919م، ص70؛ شری واستاو، سعادت خان، 1950م، ص31، منقول از: رضوی، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، 1388شمسی، ص66
  11. نارائن، صوبہ داران اودہ، 1960م، ص22، بہ نقل از: رضوی، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، 1388شمسی، ص67۔
  12. کریمخانی، «زمینہ ہای دینی بر گرایش ہندوہا بہ تشیع در قلمرو سلاطین اَودہ»، 1401شمسی، ص123۔
  13. Rizvi, A Socio -Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India,1986, p. 49، بہ نقل از: ضابط، «نقش علمای مہاجر ایرانی در ترویج تشیع در لکہنوی ہند»، 1384شمسی، ص98۔
  14. شمس، ہندوستان مین شیعیت کی تاریخ، ص76؛ لکہنوی، خانوادہ اجتہاد کی مرثیہ گو، ص66، بہ نقل از: ضابط، «نقش علمای مہاجر ایرانی در ترویج تشیع در لکہنوی ہند»، 1384شمسی، ص102۔
  15. پرساد، بوستان اودہ، 1881م، ص7؛ فہیمی، «برہان الملک»، 1393شمسی، ج3، ص1120۔
  16. فہیمی، «برہان الملک»، 1393شمسی، ج3 ص1120۔
  17. حیدر حسنی، تاریخ اودھ، 1907م، ص43۔

مآخذ

  • انڈیا کا باغ، بہ نقل از: رضوی، سید منظرعباس، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، مجلہ سخن تاریخ، شمارہ 6، پاییز 1388ہجری شمسی۔
  • ایروین، اودھ کا پہلا نواب، لکہنو، 1973م، بہ نقل از: رضوی، سید منظرعباس، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، مجلہ سخن تاریخ، شمارہ 6، پاییز 1388ہجری شمسی۔
  • پرساد، راجا دورگا، بوستان اودہ، مطبع ثمر ہند، لکہنو، 1881م
  • حیدر حسنی الحسینی المشہدی، کمال الدین، تاریخ اودھ، منشی نوال کیشور، کانپور، 1907ء۔
  • حیدر حسنی الحسینی المشہدی، کمال الدین، سوانحات سلاطین اودھ (قیصر التواریخ)، جدید طرز تحریر علامہ فروغ کاظمی، عباس بک ایجنسی، لکھنو، 2009ء۔
  • دہلی مین اردو شاعری فکری و تہذیبی پس منظر، علیگرہ، 1964م، بہ نقل از: رضوی، سید منظرعباس، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، در مجلہ سخن تاریخ، شمارہ 6، پاییز 1388ہجری شمسی۔
  • شری واستاو، سعادت خان، لکہنو یونیورسیتی، 1950م، بہ نقل از: رضوی، منظر عباس، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، در مجلہ سخن تاریخ، شمارہ 6، پاییز 1388ہجری شمسی۔
  • شمس، محمّدباقر، ہندوستان میں شیعیت کی تاریخ، بہ نقل از: ضابط، حیدر رضا، «نقش علمای مہاجر ایرانی در ترویج تشیع در لکہنوی ہند»، در مجلہ مشکوة، شمارہ 87، 1384ہجری شمسی۔
  • فہیمی، مہین، «برہان الملک»، دانشنامہ جہان اسلام (ج1)، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، 1393ہجری شمسی۔
  • کریم خانی، منا و دیگران، «زمینہ ہای دینی بر گرایش ہندوہا بہ تشیع در قلمرو سلاطین اَودہ»، مجلہ شیعہ شناسی، شمارہ 78، 1401ہجری شمسی۔
  • گولدن، تاریخ ہند، بہ نقل از: رضوی، منظر عباس، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، مجلہ سخن تاریخ، شمارہ 6، پاییز 1388ہجری شمسی۔
  • لکہنوی، ساحر، خانوادہ اجتہاد کی مرثیہ گو، ص66، بہ نقل از: ضابط، حیدر رضا، «نقش علمای مہاجر ایرانی در ترویج تشیع در لکہنوی ہند»، مجلہ مشکوة، شمارہ 87، 1384ہجری شمسی۔
  • نارائن، برج، صوبہ داران اودہ، فیض آباد، 1960م، بہ نقل از: رضوی، منظر عباس، «تاریخ سیاسی اودہ در ہند»، مجلہ سخن تاریخ، شمارہ 6، پاییز 1388ہجری شمسی۔
  • نجم الغنی خان، محمد، تاریخ اودھ، جلد 1، منشی نوال کیشور، لکھنو، 1919ء۔
  • Rizvi, Saiyid Athar Abbas: A Socio -Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India, New Delhi, 1986, vol. II، بہ نقل از: ضابط، حیدر رضا، «نقش علمای مہاجر ایرانی در ترویج تشیع در لکہنوی ہند»، مجلہ مشکوة، شمارہ 87، 1384ہجری شمسی۔