محاربہ

ویکی شیعہ سے
(محارب سے رجوع مکرر)

مُحاربہ، لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے غرض سے اسلحہ اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ فقہا اسلحہ کے زور پر کسی کو لوٹنے یا اسے یرغمال بنانے والے کو محارب قرار دیتے ہیں۔ فقہاء سورہ مائدہ کی آیت نمبر 33 سے استناد کرتے ہوئے محارِب کی سزا قتل، صلب (صلیب کی شکل میں لٹکانا)، مخالف سمت سے ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کا کاٹنا اور جلا وطنی تجویز کرتے ہیں۔

شیخ صدوق، شیخ مفید اور دوسرے فقہاء کے مطابق قاضی محارب کو مذکورہ چار سزاؤں میں سے کوئی بھی سزا تجویز کر سکتا ہے جبکہ بعض دوسرے فقہاء من جملہ شیخ طوسی اور صاحب جواہر کہتے ہیں کہ مجرم کے جرم کے تناظر میں قاضی مذکورہ چار سزاؤں میں سے کسی ایک یا چند سزاؤں کا انتخاب کر سکتا ہے۔

محاربہ کی تعریف اور دوسرے مشابہ مفاہیم جیسے افساد فی الارض، بغاوت اور سول نافرمانی کے ساتھ اس کے فرق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ محارب لوگوں کے ساتھ جنگ کرتا ہے، جبکہ باغی حاکم وقت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ شیعہ فقہا اس بات کے معتقد ہیں کہ محارب اگر گرفتاری سے پہلے توبہ کرے تو اس کی سزا ساقط ہوگی مگر یہ کہ اس کی گردن پر کوئی حق‌الناس ہو تو وہ متعلقہ سزا کا حقدار ہوگا۔

اہمیت

فقہ میں لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی غرض سے ان پر اسلحہ اٹھانے کو مُحاربہ کہا جاتا ہے۔[1] فقہاء کے مطابق ہر وہ شخص جو اسلحہ کے زور پر آشکارا کسی کا مال چھینے یا لوگوں کو یرغمال بنائے محارب کہلاتا ہے۔[2] یہاں اسلحہ سے مراد ہر وہ آلہ ہے جو انسانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جیسے تلوار، تیر و کمان اور آج کل کے جدید اسلحے۔[3]

محاربہ کی سزا ارتداد، زنا اور شراب کی طرح حدود میں سے ہے؛ یعنی شریعت میں ان کے لئے باقاعدہ سزا تعیین کی گئی ہے۔[4] اس کے باوجود محاربہ اور دوسرے جرائم میں یہ فرق ہے کہ اس کے لئے چار سزائوں میں سے کسی ایک سزا کا انتخاب کیا جاتا ہے۔[5]

تعریف

فقہی کتابوں میں محاربہ کے محقق ہونے کی شرائط پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔[6] شیعہ اور اہل سنت فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ محاربہ اسلحہ اٹھائے بغیر محقق نہیں ہوگا۔[7] اکثر شیعہ فقہا لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کا ارادہ رکھنے کو بھی محاربہ کے تحقق میں شرط قرار دیتے ہیں۔[8] پندرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ سید عبدالکریم موسوی اردبیلی کے مطابق شہید ثانی اپنی ایک کتاب میں اس شرط کو قبول نہیں کرتے،[9] لیکن دوسری کتاب میں اس مسئلے میں شہید ثانی بھی دوسرے فقہا کی طرح خوف و ہراس پھیلانے کی قصد کو شرط قرار دیتے ہیں۔[10]

لوگوں پر اسلحہ اٹھانے والے کا فاسد ہونا یعنی پہلے بھی اس کام میں ملوث ہونا اور لوگوں کا اس سے خوفزدہ ہونا بھی محارب کی اختلافی شرائط میں سے ہے۔[11] آخری شرط کے بارے میں بحث یہ ہے کہ محاربہ متحقق ہونے کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ لوگ بھی اس سے خوفزدہ ہوں یا فقط محارب کی طرف سے ڈرانے کا قصد رکھنا کافی ہے چاہے لوگ خوفزدہ ہوں یا نہ ہوں؟۔[12] شہید اول، شہید ثانی اور صاحب ریاض اس سلسلے میں خوف و ہراس پھیلانے کے قصد کو کافی سمجھتے ہیں۔[13] لیکن دوسری طرف سے محقق اردبیلی، فاضل اصفہانی اور امام خمینی جیسے فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے ان پر اسلحہ اٹھائے لیکن لوگ اس سے خوفزدہ نہ ہوں تو یہ شخص محارب نہیں کہلائے گا۔[14]

اسی طرح اگر کوئی شخص ذاتی دشمنی کی بنا پر اسلحہ اٹھائے تو ایسا شخص بھی محارب شمار نہیں ہو گا۔[15] ایران کے اسلامی قوانین کی رو سے محاربہ کا جرم اس وقت متحقق ہو گا جب یہ عمل عمومی پہلو رکھتا ہو اور متعلقہ شخص معاشرے کے امن و امان کو سلب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔[16]

مصادیق

مسلمان فقہاء آیہ محاربہ میں محارب کے مصداق کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں؛[17] بعض کہتے ہیں کہ محارِب سے مراد اہل ذمہ ہیں، جب اہل ذمہ پیمان‌ شکنی کرے اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ پر اتر آئے۔ جبکہ دوسرا گروہ مذکورہ آیت کی شأن نزول کو مد نظر قرار دیتے ہوئے محارب سے مُرتَدّ مراد لیتے ہیں اسی طرح بعض مفسرین راہزنوں کو اس کا مصادق قرار دیتے ہیں۔[18] شیخ طوسی کے مطابق شیعہ فقہاء کا نظریہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ جو بھی لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی غرض سے اسلحہ اٹھائے وہ محارب کہلائے گا۔[19]

محارب اور مفسد فی الارض میں فرق

بعض فقہا آیہ محاربہ سے استناد کرتے ہوئے مفسد فی الارض اور محارب کے درمیان فرق کے قائل ہیں جبکہ دوسرا گروہ ان دو عناوین کو ایک شمار کرتے ہیں۔

امام خمینی (1281-1368شمسی) مفسد فی‌الارض اور محارب کو ایک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ محارب اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی غرض سے ان پر اسلحہ اٹھائے۔[20]

آیت اللہ مؤمن (1316-1397شمسی) کے مطابق مذکورہ آیت میں اصل موضوع "مفسد فی‌الارض" ہے اور محارب اس کا ایک مصداق ہے، اس بنا پر جب بھی "زمین میں فساد پھیلانے" کا عنوان صدق آجائے اگرچہ محاربہ کے بغیر ہی کیوں نہ ہو مذکورہ چار سزائیں (قتل، پھانسی، ہاتھ پاؤں کاٹنا اور جلا وطنی) بھی لاگو ہونگی۔[21]

آیت اللہ فاضل لنکرنی (1310ش-1386شمسی) مفسد فی‌الارض اور محارب کے درمیان عموم و خصوص مطلق کی نسبت کے قائل ہیں؛ یعنی ہر محارب مفسد فی‌الارض ہے لیکن ہر مفسد فی الارض محارب نہیں ہو سکتا اور ہر مفسد فی الارض پر محاربہ کی سزائیں لاگو نہیں ہونگی۔[22]

آیت اللہ مکارم شیرازی (متولد 1305شمسی) اس بات کے معتقد ہیں کہ مفسد فی‌الارض اور محارب دو الگ الگ موضوع ہیں؛ مثلاً جو شخص بھاری مقدار میں منشیات کی سمگلنگ کرتا ہے وہ مفسد فی‌الارض ہے لیکن اسے محارب نہیں کہا جا سکتا؛ کیونکہ اس نے اسلحہ نہیں اٹھایا ہے، دوسری طرف سے اگر کوئی شخص ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہو اگر لوگوں کے اوپر اسلحہ اٹھائے تو یہ شخص محارب شمار ہو گا لیکن اس پر مفسد فی‌الارض کا عنوان صدق نہیں آئے گا، مگر یہ کہ وہ یہ کام بار بار انجام دے۔[23]

محاربہ اور بغاوت میں فرق

فقہ میں محاربہ اور بغاوت دو الگ الگ موضوع ہیں جو تعریف، احکام اور دوسرے مسائل میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں؛[24] محارِب لوگوں پر اسلحہ اٹھاتا ہے، جبکہ باغی حاکم وقت کے خلاف اسلحہ اٹھاتا ہے۔[25] فقہاء نے بغاوت کے بارے میں کتاب الجہاد میں جبکہ محاربہ کے بارے میں کتاب الحدود میں بحث کی ہیں۔[26] ان دونوں کے حکم کا مستند اور مبنا بھی مختلف ہے اسی طرح بعض شرائط میں بھی یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں مثلا یہ کہ فساد، ناامنی، اور لوگوں کا خوفزدہ ہونا بغاوت کے متحقق ہونے میں شرط نہیں ہے۔[27]

محاربہ اور سول نافرمانی میں فرق

فقہ سیاسی کے محقق سید جواد ورعی اس بات کے معتقد ہیں کہ سول نافرمانی اور اور سول مزاحمتی تحریک کسی خاص قانون، سیاست یا کسی خاص مدیر وغیرہ کی تبدیلی یا خاتمے کے لئے چلائی جاتی ہے اور اس کا مقصد پورے نظام کی نابودی اور معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانا نہیں ہوتا۔ اس بنا پر سول نافرمانی کو محارب یا باغی قرار نہیں دیا جا سکتا جس طرح کسی محارب کی بھی سول نافرمانی کے عنوان سے حمایت نہیں کی جا سکتی۔[28]

سزائیں

فقہا آیہ محاربہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات پر متفق ہیں کہ محاربہ کی سزا چار چیزیں ہو سکتی ہیں: قتل، صلب[29]، مخالف سمٹ سے ہاتھ پاؤں کا کاٹنا اور جلاوطنی۔[30] البتہ ان سزاؤں کے نافذ کرنے کی نوعیت کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔[31] سید عبدالکریم موسوی اردبیلی کے مطابق اہل‌ سنت فقہاء کے درمیان بھی اسی نوعیت کا اختلاف پایا جاتا ہے۔[32]

تخییر کانظریہ

شیخ صدوق، شیخ مفید، محقق حلی، علامہ حلی، شہید اول، شہید ثانی اور امام خمینی اس بات کے معتقد ہیں کہ آیہ محاربہ میں مذکور چار سزاؤں میں سے کسی ایک کو بھی محارِب پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔[33]

ترتیب کا نظریہ

بعضص دوسرے فقہاء جیسے شیخ طوسی، ابن‌زہرہ، ابن‌بَرّاج، ابوصلاح حلبی، صاحب ریاض، صاحب جواہر اور آیت اللہ خوئی کے مطابق ان سزاؤں میں ترتیب ضروری ہے؛ یعنی جرم کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ سزاؤں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔[34] آیت اللہ خویی محاربہ کے سزاؤں کی تربیت یوں بیان کرتے ہیں: جس نے اسلحہ کے زور پر صرف لوگوں میں خوف و ہراس پھیلایا ہو تو اس کی سزا جلاوطنی ہے؛ جس شخص اسلحہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ کسی کو نقصان بھی پہنچایا ہے تو اس کی سزا قصاص اور جلاوطنی ہے، جس شخص نے اسحلہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ چوری بھی کی ہے تو اس کی سزا مخالف سمت سے ہاتھ اور پاؤں کا کاٹنا ہے اور جس نے اسلحہ اٹھانے کے ساتھ کسی کو قتل کی ہے لیکن چوری نہیں کی ہے تو اس کی سزا قتل ہے اسی طرح جس شخص نے کسی کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ چوری بھی کی ہے تو اس صورت میں پہلے اس کے دائیں ہاتھ کو کاٹ کر مقتول کے ورثا کے حوالے کیا جائے گا تاکہ وہ اس سے اپنا مال لے سکیں، اس کے بعد اسے قتل کر دیا جائے، یہاں پر اگر مقتول کے ورثاء اسے معاف کر دے تو حاکم شرع اسے قتل کر دے گا۔[35]

ایران کے اسلامی قوانین کے مطابق محارب کو پھانسی، صَلب، دائیں ہاتھ اور بائیں پائیں کو کاٹنا اور جلاوطنی میں سے کوئی ایک سزا دی جا سکتی ہے۔[36]

محارِب کی توبہ

شیعہ فقہاء کے مطابق اگر محارِب گرفتار ہونے سے پہلے توبہ کرے تو اس کی شرعی سزا ساقط ہوگی لیکن اگر اس کی گردن پر کسی کا حق‌ ہو؛ یعنی کسی کو قتل کیا ہو یا کسی کو کوئی نقصان پہنچایا ہو یا کسی کا مال لوٹا ہو تو اس صورت میں اگر صاحب حق یا اس کے ورثا کی طرف سے نہ بخشنے کی صورت میں اس پر حد جاری ہو گا۔ لیکن اگر گرفتار ہونے کے بعد توبہ کرے تو اس کی سزا ساقط نہیں ہوگی۔[37] شیعہ فقہاء کا اس مسئلہ پر اجماع ہے۔[38]

یہ نظریہ آیہ محاربہ کے بعد والی آیت سے لیا گیا ہے جس میں إِلَّا الَّذِینَ تٰابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَیہِمْ (ترجمہ: مگر وہ لوگ جو توبہ کر لیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ۔)[؟؟] [39] گرفتار ہونے سے پہلے توبہ کرنے والوں کو سزا سے متثناء قرار دیا گیا ہے۔[40] اس نظریے کی تائید میں بعض احادیث بھی نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ امام صادقؑ سے منقول ہے کہ: اگر حاکم شرع کی طرف سے گرفتار کرنے سے پہلے محارِب توبہ کرے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔[41]

آیہ محاربہ

خط کوفی میں قرآن کا قدیمی نسخہ، سورہ مائدہ آیہ نمبر 33 جس میں محاربہ کی سزا بیان ہوئی ہے

محاربہ کے حکم کو سورہ مائدہ کی آیت نمبر 33 استنباط کیا جاتا ہے۔[42] اس آیت میں آیا ہے: إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یحَارِبُونَ اللہَ وَرَسُولَہُ وَیسْعَوْنَ فِی الْأَرْضِ فَسَادًا أَن یُقَتَّلُوا أَوْ یُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَیدِیہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ یُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ... (ترجمہ: بے شک جو لوگ خدا اور رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہ ہے کہ (1) انہیں قتل کر دیا جائے۔ (2) یا سولی پر چڑھا دیا جائے۔ (3) یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں۔ (4) یا جلا وطن کر دیئے جائیں۔ یہ تو ہوئی ان کی رسوائی دنیا میں اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔)[؟؟][43]

تفسیر نمونہ میں اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ: یہ آیت اسلام قبول کرنے والے مشرکین کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں مدینہ کا آب ہوا مناسب نہ ہونے کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے ایک معتدل آب و ہوا والی جگہ منتقل کیا گیا تھا۔ یہ منطقہ اونٹوں کی چراگاہ تھی۔ ایک دن اس گروہ نے مسلمان چرواہوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ان کے اونٹوں کو لوٹا اور اسلام سے خارج ہو گئے۔ اس آیت میں ان افراد کی سزا بیان ہوئی ہے۔[44]

فقہی کتابوں میں اس آیت کے ضمن میں محارب کی سزا کی نوعیت اور محارب کے مصادیق کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔[45]

حوالہ جات

  1. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج4، ص167۔
  2. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، 1431ھ، ص475۔
  3. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، 1431ھ، ص475؛ موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص515۔
  4. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج1، ص4۔
  5. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج1، ص4۔
  6. رجوع کریں: موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص511-524۔
  7. رجوع کریں: موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص511تا516۔
  8. رجوع کریں: موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص516و517۔
  9. رجوع کریں: موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص517۔
  10. رجوع کریں: موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص518۔
  11. رجوع کریں: موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص518و521۔
  12. رجوع کریں: موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص518۔
  13. رجوع کریں: موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص519۔
  14. رجوع کریں: موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص519۔
  15. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، 1431ھ، ص475۔
  16. قانون مجازات اسلامی، مصوب 1392ش، مادہ، 279۔
  17. شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج8، ص47۔
  18. شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج8، ص47۔
  19. رجوع کریں: شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج8، ص47۔
  20. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، 1390ھ، ج2، ص492۔
  21. مؤمن قمی، کلمات سدیدہ، 1415ھ، ص409۔
  22. لنکرانی، تفصیل الشریعۃ، 1422ھ، ص428۔
  23. «وجہ تفاوت افساد فی‌الارض و محاربہ»، سایت اطلاع‌رسانی دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی۔
  24. رجوع کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص307تا310؛ خوئی، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج1، ص389و390۔
  25. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، 1431ھ، ص476۔
  26. ورعی، «بررسی مفہومی بغی، محاربہ و نافرمانی مدنی»، ص143۔
  27. ورعی، «بررسی مفہومی بغی، محاربہ و نافرمانی مدنی»، ص143۔
  28. ورعی، «بررسی مفہومی بغی، محاربہ و نافرمانی مدنی»، ص148۔
  29. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص609۔
  30. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص558۔
  31. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص557۔
  32. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص558۔
  33. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص558و559۔
  34. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص562۔
  35. رجوع کریں: خوئی، تکملۃ المنہاج، 1410ھ، ص51۔
  36. قانون مجازات اسلامی، مادہ 282۔
  37. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج4، ص168۔
  38. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص590۔
  39. سورہ مائدہ، آیہ 34، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  40. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص590۔
  41. حر عاملی، وسایل‌الشیعہ، 1409ھ، ج28، ص313۔
  42. رجوع کریں: موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص493۔
  43. ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  44. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج4، ص358و359۔
  45. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ھ، ج3، ص493۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ إلی تحصیل مسائل الشریعۃ، تحقیق و تصحیح مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌السلام، قم، مؤسسۃ آل‌البیت علیہم‌السلام، چاپ اول، 1409ھ۔
  • خمینی (امام)، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، نجف اشرف، دار الکتب العلمیۃ، 1390ھ۔
  • خویی، سیدابوالقاسم، تکملۃالمنہاج، قم، مدینۃالعلم، چاپ بیست و ہشتم، 1410ھ۔
  • خویی، سیدابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، مدینۃالعلم، چاپ بیست و ہشتم، 1410ھ۔
  • «زورگیری با سلاح سرد مجازات محاربہ دارد»، اطلاعات، 8 دی 1392، دیدہ‌شدہ در 20 اسفند 1396۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الإمامیہ، تصحیح و تحقیق سیدمحمدتقی کشفی، قم، المکتبۃ الرضویہ لإحیاء الآثار الجعفریہ، چاپ سوم، 1387ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، تفصیل الشریعۃ، قم، مرکز فقہ الائمۃ الاطہار، 1422ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، بیروت منشورات الرضا، چاپ اول، 1431ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374شمسی۔
  • موسوی اردبیلی، سیدعبدالکریم، فقہ الحدود و التعزیرات‌، قم، مؤسسۃ النشر لجامعۃ المفید رحمہ اللہ‌، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، چاپ اول، 1389شمسی۔
  • مؤمن قمی، محمد، کلمات سدیدہ، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1415ھ۔
  • «وجہ تفاوت افساد فی الارض و محاربہ»، سایت اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی، تاریخ بازدید: 2 آذر 1400شمسی۔
  • ورعی، سید جواد، «بررسی مفہومی بغی، محاربہ و نافرمانی مدنی»، فصلنامہ سیاست متعالیہ، شمارہ 9، تابستان 1394شمسی۔