سید روح الله موسوی خمینی

ویکی شیعہ سے
(سید روح‌اللہ خمینی سے رجوع مکرر)
امام خمینیؒ
کوائف
لقبآیت اللہ، امام، آیت اللہ العظمی
تاریخ پیدائش24 ستمبر 1902ء، 20 جمادی الثانی 1320ھ‍،
آبائی شہرخمین
ملکایران
شریک حیاتخدیجہ ثقفی
اولادبیٹے: مصطفی خمینی و سیداحمد خمینی
بیٹیاں: زہرا مصطفوی، صدیقہ و فریدہ
دیناسلام
مذہبشیعہ
سیاسی کوائف
مناصبانقلاب اسلامی ایران کے بانی و رہبر
جانشینآیت اللہ خامنہ‌ای
علمی و دینی معلومات
اساتذہحائری یزدی، میرزا محمد علی شاہ آبادی، میرزا جواد ملکی تبریزی وغیرہ۔
تالیفاتتحریر الوسیلہ، چہل حدیث، کتاب البیع، ولایت فقیہ، صحیفہ نور، جنود عقل و جہل، آداب الصلاۃ، و غیرہ۔
رسمی ویب سائٹhttp://www.imam-khomeini۔ir
دستخط


سید روح‌ اللہ موسوی خمینی (1902-1989ء)، امام خمینی کے نام سے مشہور، شیعہ مرجع تقلید اور ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر اور بانی ہیں۔ آپ نے سنہ 1962ء سے ایران میں پہلوی نظام بادشاہت کے خلاف علی الاعلان جدوجہد شروع کی۔ حکومت وقت نے دو مرتبہ آپ کو گرفتار کیا۔ دوسری مرتبہ آپ کو پہلے ترکی اور پھر عراق جلاوطن کردیا۔ حوزہ علمیہ نجف میں 13 سال تک انقلابی افراد کی قیادت کی اور ساتھ ہی دینی علوم کی تدریس اور تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایران میں حکومت کے خلاف عوامی تحریکوں میں تیزی آنے کے بعد یکم فروری سنہ 1979ء کو آپ ایران واپس آئے۔ 11 فروری سنہ 1979ء کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اپنی عمر کے آخری لمحات تک اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اور قائد رہے۔

ولایت مطلقہ فقیہ آپ کا سب سے اہم سیاسی نظریہ ہے جو تشیع کے اعتقادات پر مبنی ہے۔ آپ نے ایران کی اسلامی حکومت اور اس کے آئین کو اسی نظریے کے مطابق تشکیل دینے کی کوشش کی۔ امام خمینی کی نظر میں اسلامی حکومت کے قیام کا فلسفہ ہی فقہ اور شریعت کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ فقہ کے بارے میں اسی نظریے کی بنا پر آپ فقہ کے روایتی ڈھانچے کو محفوظ رکھتے ہوئے اس میں جدت پسندی کے قائل تھے۔ اجتہاد میں زمان و مکان کی تاثیر کا نظریہ اور بعض دیگر مؤثر فتوے اسی نقطہ نظر کا نتیجہ ہیں۔

دنیا کے تمام مسلمان خاص طور پر شیعہ آپ کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ آپ کے جنازے کی تشییع میں تقریباً ایک کروڑ افراد نے شرکت کی جو اب تک پوری دنیا میں تشییع جنازہ کا سب سے بڑا اجتماع شمار کیا جاتا ہے۔ ہر سال آپ کے مرقد پر برسی منائی جاتی ہے جس میں سیاسی اور مذہبی شخصیات شرکت کرتی ہیں۔

آپ حوزہ علمیہ کے رائج علوم یعنی فقہ اور اصول کے علاوہ اسلامی فلسفہ اور عرفان نظری میں بھی صاحب نظر اور صاحب تالیف تھے۔ اسی طرح آپ کا شمار علمائے اخلاق میں بھی ہوتا تھا اور حوزہ علمیہ قم میں تدریس کے دوران آپ مدرسہ فیضیہ میں درس اخلاق بھی دیا کرتے تھے۔ آپ نہایت سادہ زیست اور زاہدانہ طریقت کے مالک تھے۔

زندگی نامہ

امام خمینی 20 جمادی الثانی سنہ 1320ھ بمطابق 24 ستمبر سنہ 1902ء کو ایران کے مرکزی صوبے اراک کے خمین نامی شہر میں پیدا ہوئے۔[1] آپ کے والد سید مصطفی موسوی(1278–1320ھ)[2] آیت اللہ میرزا شیرازی کے معاصر، نجف اشرف کے فارغ التحصیل اور شہر خمین میں دینی امور کے مرجع تھے۔[3] سید روح اللہ کی ولادت کے پانچ مہینے بعد حاکمان وقت کے ساتھ جنگ کے دوران شہادت کے مقام پر فائز ہوئے یوں امام خمینی 15 سال تک اپنی والدہ حاجرہ اور اپنی پھوپھی کی سرپرستی میں رہے۔[4][5]

شجرہ نسب

حشمت‌ اللہ ریاضی یزدی کے مطابق امام خمینیؒ کے جد امجد سید حیدر موسوی صفوی اردبیلی کردی شیعہ علماء میں سے تھے جو سنہ 766ھ کو ایک شیعہ عالم اور عارف میر سید علی ہمدانی کے توسط سے تبلیغ دین کے لئے ایران سے کشمیر بھیجے گئے۔ یہاں آپ شہادت کے مقام پر فائز ہوئے؛[6] البتہ بعض مورخین نے امام خمینیؒ کے جد امجد کا نام میر حامد حسین بتایا ہے، آپ نیشاپور کے شیعہ عالم دین اور سید حیدر موسوی کے داماد تھے۔ آپ نے تبلیغ دین کے لیے ہندوستان کا سفر کیا۔[7]

حشمت‌ اللہ ریاضی یزدی کے تحقیق کردہ شجرہ نامہ کے مطابق امام خمینیؒ کے اجداد کی اکثریت شیعہ علمائے دین اور صاحبان تألیف تھے۔ ان میں سے بعض شہادت کے درجے پر بھی فائز ہوئے ہیں۔[8]

امام خمینی کے پر دادا ملقب بہ "سید بزرگ" جو دین‌ علی‌ شاہ کے نام سے موسوم تھے، ہندوستان کے شیعہ علماء اور سادات میں سے تھے جو کشمیر میں مقیم تھے۔[9] آپ کے دادا سید احمد ہندی (متوفی: 1285ھ)[10] فرزند دین‌ علی‌ شاہ سنہ1240 اور 1250ھ کے درمیان کشمیر سے عراق پھر وہاں سے ایران کے شہر خمین کی جانب ہجرت کی ہے۔[11]

حیدر بن محمد خوانساری، گیارہویں صدی ہجری کے عالم دین اور کتاب "زبدۃ التصانیف" کے مصنف امام خمینیؒ کے نانا تھے۔[12] آپ کی والدہ کے دادا میرزا احمد مجتہد خوانساری (متوفی: 1313ھ) ملا حسین خوانساری کے فرزند تھے۔[13]

شریک حیات اور اولاد

سید روح اللہ خمینیؒ نے سنہ 1929ء میں شیعہ عالم دین اور کتاب "روان جاوید در تفسیر قرآن مجید" کے مصنف محمد ثقفی تہرانی کی صاحب زادی خدیجہ ثقفی سے شادی کی۔[14]

آپ کی اولاد میں دو بیٹے مصطفی و احمد اور تین بیٹیاں زہرا، فریدہ و صدیقہ ہیں۔[15]

وفات اور تشییع جنازہ

امام خمینی کی تدفین کا منظر

امام خمینیؒ نے 3 جون 1989ء کو 87 سال کی عمر میں[16] معدے کے کینسر کی وجہ سے شہید رجائی ہارٹ ہسپتال، تہران میں وفات پائی۔[17] 5 جون کو مصلائے امام خمینی (تہران) میں آپ کی تشییع جنازہ ہوئی۔[18] شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سید محمد رضا گلپایگانی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی[19] اور مورخہ 6 جون کو تقریباً ایک کروڑ عقیدت مندوں کی موجودگی میں آپ کو بہشت زہراء قبرستان کے جوار میں دفن کیا گیا، یہ مقام آج کل حرم امام خمینی کےنام سے مشہور ہے۔[20] گنیز ورلڈ ریکارڈز کی آفیشل سائٹ نے امام خمینیؒ کی تدفین میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کو ایران کی اُس وقت کی آبادی کا چھٹا حصہ اور اب تک کا سب سے بڑا اجتماع قرار دیا ہے۔[21]

ایران میں ہر سال 5 جون کو امام خمینیؒ کی رحلت کی مناسبت سے پورے ملک میں سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔[22] اس دن ایران سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں امام خمینیؒ کی برسی کی مناسبت سے مختلف تجلیلی اور تسلیتی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔[23] ایران میں امام خمینیؒ کی برسی کا مرکزی اجتماع تہران میں امام خمینیؒ کے مرقد پر منعقد ہوتا ہے جس میں پوری دنیا سے مذہبی اور سیاسی قدآور شخصیات شریک ہوتی ہیں۔[24] اس اجتماع سے ایران کے موجودہ سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای خطاب کرتے ہیں۔[25]

تعلیمی زندگی

امام خمینیؒ نے ابتدائی دینی تعلیم جیسے عربی ادبیات، منطق، فقہ اور اصول فقہ؛ خمین کے علماء اور اساتذہ (آقا میرزا محمود افتخار العلماء، میرزا رضا نجفی خمینی، آقا شیخ علی محمد بروجردی، آقا شیخ محمد گلپایگانی و آقا عباس اراکی اور سب سے زیادہ اپنے بڑے بھائی آیت اللہ سید مرتضی پسندیدہ) سے حاصل کی۔[26]

اراک اور قم کی جانب علمی ہجرت

سنہ 1919ء میں امام خمینیؒ مزید حصول علم کے لیے اراک روانہ ہوئے۔[27] سنہ 1340ھ کو اس وقت کے شیعہ مرجع تقلید شیخ عبد الکریم حائری یزدی کی قم آمد کے کچھ مہینے بعد آپ بھی قم گئے۔[28]

امام خمینیؒ نے حوزہ علمیہ قم میں منطق کی کتاب "مُطَوَّل" کے آخری حصہ کو محمد علی ادیب تہرانیکے پاس پڑھا اور حوزہ علمیہ کی دوسری فقہی اور اصولی کتابیں جیسے رسائل، مکاسب اور کفایۃ الاصول؛ سید محمد تقی خوانساری اور سید علی یثربی کاشانی کے پاس پڑھیں۔[29]

آپ نے خارج فقہ و اصول کے دروس اپنے استاد عبدالکریم حائری سے پڑھے۔[30] اس کے علاوہ آپ نے سید ابوالحسن رفیعی قزوینی سے فلسفہ جبکہ علی‌اکبر حِکَمی یزدی سے ریاضیات، ہیئت اور علم حساب کی تعلیم حاصل کی۔[31] اسی طرح آپ نے محمد رضا مسجد شاہی اصفہانی سے فلسفہ اسلامی، فلسفہ غرب اور عروض و قوافی کی تعلیم حاصل کی۔[32]

آپ عرفان نظری میں محمد علی شاہ‌ آبادی کو آپ کا سب سے اہم استاد قرار دیتے ہیں۔[33] امام خمینی نے سنہ 1928 سے 1935ء کے دوران محمد داوود قیصری کی کتاب "شرح فصوص الحکم"، ابن فناری کی کتاب "مصباح الانس" اور خواجہ عبداللہ انصاری کی کتاب "منازل السائرین" کو اپنے استاد شاہ آبادی کے پاس پڑھا۔[34]

کہا جاتا ہے کہ امام خمینیؒ نے قم میں 3 سال میرزا جواد ملکی تبریزی کی خصوصی کلاس میں شرکت کی جس میں عرفانی سیر و سلوک سے متلعق بحث ہوتی تھی۔[35] البتہ سید علی خامنہ‌ای آپ کے شاگرد اور ایران کے موجودہ رہبر آپ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے میرزا جواد ملکی تبریزی کی صرف دو کلاسوں میں شرکت کی تھی۔[36]

اساتذہ

  • شیخ عبدالکریم حائری یزدی (مؤسس حوزہ علمیہ قم)
  • محمد رضا مسجد شاہی اصفہانی (صاحب وقایۃ الاذہان)
  • میرزا محمد علی شاہ آبادی
  • سید ابوالحسن رفیعی قزوینی
  • میرزا جواد ملکی تبریزی
  • سید علی یثربی کاشانی
  • سید محمد تقی خوانساری
  • میرزا علی اکبر حکمی یزدی
  • میرزا محمد علی ادیب تہرانی

تدریسی خدمات

آیت اللہ خمینیؒ نے حوزہ علمیہ قم کے اہم مقامات؛ مدرسہ فیضیہ، مسجد اعظم، مسجد محمدیہ، مسجد حاج ملا صادق، مسجد سلماسی میں کئی سال تک فقہ، اصول، فلسفہ، عرفان، اور اخلاق اسلامی کی تدریس کی۔ حوزہ علمیہ نجف میں بھی تقریباً تیرہ سال کے قریب مسجد شیخ اعظم انصاری میں معارف اہل بیتؑ اور فقہ کی اعلیٰ ترین سطح کی تدریس کی اور پہلی بار نجف میں ولایت فقیہ کے افکار و نظریات پر مبنی مباحث کی تدریس کا آغاز آپ نے ہی کیا۔

آپ کے شاگردوں کے بقول امام خمینیؒ کے دروس کا شمار حوزہ کے بہترین درسوں میں ہوتا تھا اور کسی زمانے میں قم میں آپ کے شاگردوں کی تعداد 1200 افراد تک بتائی جاتی ہے جن میں بہت سے افراد کا شمار اس زمانے کے مجتہدین میں سے ہوتا تھا۔[37]

آپ کے مشہور شاگردان

  • اکبر ہاشمی رفسنجانی
  • علی‌ پناہ اشتہاردی
  • یحیی انصاری شیرازی
  • مجتبی تہرانی
  • احمد جنتی
  • عبد اللہ جوادی آملی
  • سید عارف حسین حسینی
  • سید محمد حسینی بہشتی
  • سید محمد علی قاضی طباطبایی
  • سید محمد عزالدین حسینی موسوی زنجانی
  • عطاءاللہ اشرفی اصفہانی
  • سید محمد رضا سعیدی
  • سید عباس خاتم یزدی
  • سید علی خامنہ ای
  • ابوالقاسم خزعلی
  • سید مصطفی خمینی
  • حسین راستی کاشانی
  • جعفر سبحانی
  • محمد شجاعی زنجانی
  • محمد شریف رازی
  • یوسف صانعی
  • حسین غفاری
  • محمد فاضل لنکرانی
  • سید جلال‌الدین آشتیانی
  • محمد علی گرامی
  • فضل اللہ محلاتی
  • علی مشکینی
  • مرتضی مطہری
  • محمد جواد باہنر
  • محمد ہادی معرفت
  • محمد مفتح
  • علی قدوسی
  • مسلم ملکوتی
  • سید رضا صدر
  • محمد رضا مہدوی کنی
  • حسین علی منتظری
  • حسین نوری ہمدانی]]
  • [[سید محمود ہاشمی شاہرودی
  • سید عبدالکریم ہاشمی نژاد

تالیفات

  • کشف اسرار
  • تحریر الوسیلہ
  • چہل حدیث
  • مصباح الہدایۃ الی الخلافۃ و الولایہ
  • کتاب البیع (5 جلد)
  • کتاب الطہارہ (4 جلد)
  • ولایت فقیہ
  • مناہج الوصول الی علم الاصول (2 جلد)
  • انوار الہدایۃ فی التعلیقۃ علی الکفایۃ (2 جلد)
  • صحیفہ امام (صحیفہ نور) 22 جلد
  • شرح حدیث جنود عقل و جہل
  • آداب الصلاۃ
  • سر الصلاۃ
  • تفسیر سورہ حمد
  • جہاد اکبر
  • شرح دعای سحر
  • سیاسی الہی وصیت نامہ
  • طلب و ارادہ
  • رسائل (علم اصول میں کئی مقالے جیسے: لاضرر و لا ضرار، استصحاب، تعادل و تراجیح، اجتہاد و تقلید، اور تقیہ)
  • تعلیقات علی شرح فصوص الحکم ومصباح الانس
  • رسالہ توضیح المسائل
  • مناسک حج
  • استفتائات (3 جلد)

پہلوی حکومت کے خلاف اعتراضات کی قیادت

ایران پر نظام مشروطہ کا سلطنتی نظام حاکم تھا، البتہ پہلوی باپ بیٹے دونوں کی کارستانیوں کی وجہ سے یہ نظام مطلق العنان سلطنتی نظام میں تبدیل ہو چکا تھا۔ سرکاری آئین دین اسلام اور مذہب تشیع کی تعلیمات سے یکسر متضاد تھا، یہ مسئلہ دیندار طبقہ اور خاص طور پر دینی علماء کی طرف سے اعتراضات کا اور ان کی طرف سے اس کے خلاف تحریک چلانے کا موجب بنا۔

پہلی تحریک

امام خمینیؒ نے سنہ1341ہجری شمسی میں ایک بیان جاری کیا جسکے بعد حکومت کی برسرعام مخالفت شروع ہوئی۔ ریاستی اور صوبائی طور پر ایک لائحہ عمل تیار کرنے کے بعد 16مہر ماہ سنہ1341ہجری شمسی کو امام خمینیؒ نے تمام مراجع قم کے ہمراہ ایک اجلاس منعقد کیا۔ جس کے باعث امام خمینیؒ اور تمام علماء کی جانب سے پہلوی حکومت کےخلاف بر سر عام بیانات صادر ہونا شروع ہوا۔[38] 11 آذر سنہ1341ہجری شمسی میں امام خمینیؒ کی جانب سے حکومت کےخلاف مبارزہ اور جد و جہد کے ضمن میں ریاستی اور صوبائی کونسل کے لائحہ عمل کو لغو کیا گیا۔ آپ نے اس بلوے کو دبا دینے کا پیغام جاری کیا۔

سلسلہ وار اعتراضات اور احتجاجات

  • 2 بہمن 1341ہجری شمسی؛ امام خمینیؒ کی جانب سے شاہ کے غیر قانونی ریفرینڈم بنام انقلاب سفیدکو غیر شرعی قرار دیا گیا۔
  • 2 فروردین 1342ہجری شمسی؛ شاہ کی حکومت کے ہاتھوں مدرسہ فیضیہ قم میں ایک خونی حادثہ پیش آیا۔[39]
  • 15 خرداد 1342ہجری شمسی؛ راتوں رات امام خمینیؒ کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کےدوسرے دن لوگوں نے آپ کی گرفتاری کے اعتراض میں قیام کیا۔
  • 4 تیر 1342ہجری شمسی؛ امام خمینیؒ کو قصر چھاؤنی سے نکال کر عشرت آباد جیل منتقل کیا گیا۔
  • 21 فروردین 1343ہجری شمسی؛ آپ کی جیل سے آزادی کے بعد قم کی مسجد اعظم میں پہلی تاریخی تقریر۔
  • 4 آبان 1343ہجری شمسی؛ میں کیپٹلیزم کے خلاف سخت رد عمل اور خطاب۔
  • 13 آبان 1343ہجری شمسی؛ میں امام خمینیؒ کو گرفتار کر کے ترکی بھیجا گیا۔
  • 21 آبان 1343ہجری شمسی؛ ترکی کے شہر انقرہ سے دیہات میں منتقل کیا گیا۔
  • نجف کی جانب جلاوطنی۔
  • 13 مہر 1344ہجری شمسی؛ کو امام خمینیؒ کو ترکی سے بغداد کی جانب منتقل کیا گیا۔ 16مہر 1344ہجری شمسی، کو سامرا سے کربلا کی جانب حرکت کی اور 23 مہر 1344ہجری شمسی کو نجف میں داخل ہوئے وہاں پر علماء و مراجع کی جانب سے ملاقات کے بعد 16مہر 1344ہجری شمسس کو حوزوی دروس کا سلسلہ شروع کیا۔
  • 12 اردیبہشت 1356ہجری شمسی؛ شہدائے قم کے چہلم کی مناسبت سے آپ کا پیغام۔
  • 2 مہر 1357ہجری شمسی؛ عراق کی فوج نے امام خمینیؒ کے قیام گاہ کو اپنی نگرانی میں لے لیا۔
  • 10 مہر 1357ہجری شمسی؛ عراق سے کویت کی طرف جلاوطنی۔
  • 13 مہر 1357ہجری شمسی؛ عراق سے فرانس کی جانب جلاوطنی۔
  • 12 بہمن 1357ہجری شمسی؛ کو 15 سال قید کے بعد ایران واپسی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت

11 فروری 1979ء ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا۔ امام خمینیؒ اسی سال یکم فروری کو ایران واپس آئے اور 11 فروری کو شاہی حکومت کو شکست ہوئی اور کچھ مہینوں کے بعد 1980ء کے پہلے مہینے میں جمہوری اسلامی کا نظام نافذ ہوا۔ کچھ ہی عرصہ بعد ملک کا آئینی دستور تیار کرنے کےلیے عوامی منتخب ماہر مجتہدین کو وقت دیا گیا تاکہ اس پر رائے دہی کا کام مکمل کیا جائے۔ اس نظام کو اجراء کرنے کے لئے امام خمینیؒ کو جمہوری اسلامی ایران کے رہبر کے طور پر انتخاب کیا گیا۔ 3 جون 1989ء یعنی اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس نظام کی قیادت و رہبری کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر رہی۔ نظام اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام، قانون اساسی کے شروعات، داخلی مسائل سے مقابلہ، ایران اور عراق کی آٹھ سالہ جنگ کی سپہ سالاری، عراق کی جانب سے صلح کو قبول کرنا، قانون اساسی کی اصلاح وغیرہ امام خمینیؒ کی دس سالہ قیادت کے اہم ترین کاموں میں سے ہیں۔

مجمع تشخیص اور مصلحت نظام کی ابتداء

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئینی دستور کے مطابق، مجلس شورای اسلامی کوئی ایسا حکم جاری نہیں کر سکتی جو شرع اور قانون کے مخالف ہو اور اس کی تشخیص شورای نگہبان کی ذمہ داری ہے۔ مجلس اور شورای نگہبان کی آراء مختلف ہونے کی وجہ سے امام خمینیؒ کو اس کام کےمستقل حل کے لئے کوئی چارہ جوئی کرنا پڑا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر مجلس 66 فیصد نمایندگان ایک قانون کو تصویب کر لیں تو ان کی رائے شورای نگہبان کی رائے پر مقدم ہوگی۔ کچھ مدت کے بعد بہمن ماہ سنہ 1366ہجری شمسی میں ایک گروہ درست نظام کی تشخیص کی لئے منتخب کیا گیا۔[40] یہ گروہ شورای نگہبان اور مجلس شورای اسلامی کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کو دور کرتا ہے اور کبھی ایسے قانون جو کہ ممکن ہیں شرع اور اصلی قانون کے خلاف ہوں ان کی تصویب کی جائے اور ان کو قانون میں تبدیل کیا جائے۔[41]

یوم قدس

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے کچھ مہینوں بعد مرداد ماہ سنہ 1358ہجری شمسی مطابق ماہ رمضان سنہ 1399ھ، کو امام خمینی نے ہر سال ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو روز قدس کا عنوان دیا اور دنیا کے تمام مسلمان سے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی سطح پر اجتماعات تشکیل دے کر مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت کا اعلان کریں۔ ایرانی سرکاری کیلنڈر کے مطابق اس دن کا نام عالمی یوم قدس کے نام سے محفوظ ہے۔ اس اعلان کے بعد ہر سال ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو، ایران اور دنیا کے دیگر مختلف ممالک میں یہ دن یوم قدس کے نام سے منایا جاتا ہے۔

سوویت یونین کے صدر گورباچوف کے نام خط

سنہ1989ء کی پہلی تاریخ، 1جنوری 1989ء کو امام خمینیؒ نے سوویت یونین کے صدر میخائیل گورباچوف کےنام خط ارسال کیا۔ یہ خط آیت اللہ عبد اللہ جوادی آملی، ڈاکٹر محمد جواد لاریجانی اور خانم مرضیہ حدیدچی کے ذریعہ گوریاچوف تک پہنچایا گیا۔

یہ خط ایسی حالات میں سوویت یونین کے سابق صدر کو لکھا گیا جب سیاسی تجزیہ نگار کمیونیزم سے متاثر دنیا میں تبدیلی اور انقلاب کی کرن کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ اسلامی انقلاب کے رہبر نے سوویت یونین کے نظام کے پاش پاش ہونے کی پیشنگوئی کرتے ہوئے یوں مرقوم فرمایا تھا: «اب کے بعد کمیونیزم کو دنیا کے صرف سیاسی میوزیم میں دیکھا جاسکے گا۔»

اس خط میں مادی طرز فکر پر بھی تنقید کی گئی تھی اور کمیونسٹ حکمرانوں کو دین کی طرف دعوت دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ دینی حقائق سے آگاہی کے لئے اپنے دانشوروں کو قم بھیجا جائے۔

مشرکین سے بےزاری

ایام حج کے دوران ایرانی حاجیوں کی جانب سے مشرکین سے برائت کے عنوان سے ایک پروگرام شروع کیا گیا جس میں امریکہ کے خلاف جلوس نکالنا، صیہونزم اور دوسری اسلامی انقلاب مخالف حکومتوں کے خلاف احتجاجی جلسات برپا کرنا شامل ہے۔ ہر سال 7 ذی الحجہ کو مکہ میں یہ پروگرام منعقد کیا جاتا ہے۔

سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کا فتوی

سنہ 1988ء/1367ہجری شمسی آیات شیطانی کے نام سے ایک کتاب طبع ہوئی۔ اکثر مسلمانوں کے اعتقادات کے برخلاف اس کتاب میں پیغمبر اسلام (ص) کی توہین کی گئی۔ بہمن ماہ 1367ہجری شمسی، کو امام خمینیؒ نے اس کتاب کے مؤلف کو پیامبر اسلام (ص) کی توہین کرنے کی وجہ سے سزائے موت کا حکم دیا۔[42] کچھ عرصے کے بعد کسی نے کہا کہ اگر اس کتاب کا مولف توبہ کرے تو اس کے قتل کا حکم منسوخ کر دیا جائے گا لیکن امام خمینیؒ نے اس کے جواب میں کہا کہ سلمان رشدی (کتاب کا مولف) حتی اگر توبہ بھی کر لے اور اپنے زمانے کے پرہیزگاروں میں سے بھی ہو جائے تب بھی اس کے واجب القتل ہونے کا حکم تبدیل نہیں ہوگا۔[43]

نظریات اور افکار

ولایت فقیہ

امام خمینیؒ نے نظریہ ولایت فقیہ کو پہلی بار نجف میں تدریس (وہ درس جو بعد میں "حکومت اسلامی" کے نام سے مشہور ہوا) کے دوران بیان کیا۔[44] اس نظریے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ شیعی حکومت ایک مجتہد جامع الشرایط کے زیر نظر تشکیل پانی چاہیے۔ ایران کا اسلامی انقلاب کامیاب ہونے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران میں اس نظریے پر عمل کیا گیا اور جمہوری اسلامی کی بنیاد اسی نظریہ پر رکھی گئی۔

امام خمینیؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ولایت فقیہ کے نظریے کو بیان فرمایا اور فقیہ کے اختیارات کو پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہؑ کے اختیارات کے برابر قرار دیا۔ اس نظریے کے مطابق فقیہ حاکم مصلحتوں کی بنیاد پر ایک حکم شرعی کو وقتی طور پر نافذ ہونے سے روک سکتا ہے۔[45]

اجتہاد میں زمان و مکان کا کردار

امام خمینیؒ نے اسفند ماہ سنہ1367ہجری شمسی میں حوزوی مدارس کے نام ایک پیغام صادر کیا جو منشور روحانیت کے نام سے مشہور ہوا۔[46] آپ نے اس پیغام میں حوزوی مدارس میں رائج اجتہادی نظام کو معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں ناکافی سمجھا اور تاکید کی کہ زمان اور مکان اجتہاد کے اصلی عناصر میں سے ہیں۔ زمان اور مکان ایک مجتہد کی نظر کو تبدیل کر سکتے ہیں اور اس کے باعث ایک حکم تبدیل ہوسکتا ہے۔[47] امام خمینیؒ اس سے پہلے بھی کسی اور مقام پر حوزوی مدارس میں رائج نظام اجتہاد کی ناکافی ہونے پر تاکید کی تھی۔ [48]

شطرنج کا جائز قرار دینا

شطرنج اہل تشیع کے اکثر علماء کی نظر میں حرام ہے۔ امام خمینیؒ نے سنہ 1367ہجری شمسی میں ایک سوال کے جواب میں کہا: اگر یہ آلات قمار میں سے شمار نہ ہو تو اسے شرط کے بغیر کھیلنا جائز ہے۔[49] یہ فتوا نادر ہونے کی وجہ سے اس پر کافی بحث کی گئی۔ امام خمینیؒ کے ایک شاگرد نے اعتراض کے طور پر امام کو خط لکھا۔ امام خمینیؒ نے اس کے جواب میں ایک تو اپنے فتویٰ پر تاکید کی اور دوسرے دیگر فقہاء کے فتویٰ پر اعتراض کیا۔[50]

دیوان شعر

امام خمینیؒ کی رحلت کے ایک ہفتے بعد پہلی بار آپ کے کچھ اشعار نشر ہوئے۔ عرفانی مضمون کے حامل یہ اشعار بہت تیزی سے لوگوں کے درمیان مشہور ہوگئے۔

من بہ خال لبت‌ ای دوست گرفتار شدم چشم بیمار تو را دِیدم و بیمار شدم
فارغ از خود شدم و کوس انا الحق بزدم ہمچو منصور خریدار سر دار شدم
غم دلدار فکندہ است بہ جانم، شرری کہ بہ جان آمدم و شہرہ بازار شدم
در میخانہ گشایید بہ رویم شب و روز کہ من از مسجد و از مدرسہ بیزار شدم
جامہ زہد و ریا کندم و بر تن کردم خرقہ پیر خراباتی و ہشیار شدم
واعظ شہر کہ از پند خود آزارم داد از دم رند می‌ آلودہ مددکار شدم
بگذارید کہ از بتکدہ یادی بکنم من کہ با دست بت میکدہ بیدار شدم

کچھ عرصے کے بعد امام خمینیؒ کے اشعار کا ایک مجموعہ شائع کیا گیا جس کا نام "دیوان امام" رکھا گیا۔ "دیوان شعر امام" ایسا مجموعہ ہے جس کے 6 ابواب میں غزلیں، رباعیاں، قصیدے، مسمط، بند اور مختلف جگہ سے جمع کئے گئے اشعار ہیں۔ 438 صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ پہلی بار موسسہ تنظیم و نشر امام خمینی کی جانب سےشائع کیا گیا۔

اس دیوان میں غزل اور رباعیوں کے علاوہ کچھ اشعار امام خمینیؒ کی بہو (سید احمد خمینی کی زوجہ) کے لئے پڑھے گئے تھے ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ عصر حاضر کے کچھ شاعر جیسے حمید سبزواری، جواد محقق، عبد الجبار کاکایی، رحیم زریان، محمد علی بہمنی، کامران شرفشاہی، سعید بیابانکی، صابر امامی، عباس چشامی اور امیر مر زبان نے اس دیوان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

ترجمہ کے علاوہ، ایک کتاب فرھنگ موضوعی اور شرح اور تفسیر دیوان امام خمینی کے عنوان سے نشر ہوئی ہے۔ اس کے مولف قادر فاضلی ہیں۔

حوالہ جات

  1. انصاری، حدیث بیداری، 11389ہجری شمسی، ص4۔
  2. پسندیدہ، خاطرات آیت‌اللہ پسندیدہ، 1384ہجری شمسی، ص71 و 72۔
  3. انصاری، حدیث بیداری، 1389ہجری شمسی، ص5۔
  4. انصاری، حدیث بیداری، 1389ہجری شمسی، ص5۔
  5. انصاری، ص14-15
  6. پسندیدہ، خاطرات آیت‌اللہ پسندیدہ، ہجری 1384شمسی، ص259 و 300۔
  7. حیدری، «اوضاع سیاسی اجتماعی خمین در دورہ پدر امام»، ص123۔
  8. پسندیدہ، خاطرات آیت‌اللہ پسندیدہ، 1384ہجری شمسی، ص258–262۔
  9. پسندیدہ، خاطرات آیت‌اللہ پسندیدہ، 1384ہجری شمسی، ص41 و 42۔
  10. پسندیدہ، خاطرات آیت‌اللہ پسندیدہ، 1384ہجری شمسی، ص47۔
  11. پسندیدہ، خاطرات آیت‌اللہ پسندیدہ، 1384ہجری شمسی، ص41 و 42۔
  12. انصاری، حدیث بیداری، 1389ہجری شمسی، ص5۔
  13. بہبودی، الف لام خمینی، 1397ہجری شمسی، ص27 و 28۔
  14. محمدی ری‌شہری و دیگران، دانشنامہ ری، 1398ہجری شمسی، ج2، ص225۔
  15. میریان، پدر مہربان، 1384ہجری شمسی، مصاحبہ با زہرا مصطفوی، ص34 و 35۔
  16. انصاری، حدیث بیداری، 1389ہجری شمسی، ص193۔
  17. عارفی، طبیب دلہا، 1376ہجری شمسی، ص341۔
  18. انصاری، حدیث بیداری، 1389ہجری شمسی، ص197۔
  19. رجایی، تشنہ و دریا، 1392ہجری شمسی، ص217۔
  20. انصاری، حدیث بیداری، 1389ہجری شمسی، ص199۔
  21. "Largest percentage of population to attend a funeral", Guinness World Records۔
  22. «اندیشہ‌ہای وحدت بخش امام، راہگشای مشکلات جہان اسلام»، ص246۔
  23. «تأکید بر برگزاری ہرچہ با شکوہ تر مراسم بزرگداشت حضرت امام در سراسر کشور»، پرتال امام خمینی۔
  24. انصاری، «پشت صحنہ مراسم 14 خرداد و حوادث تلخ آن»، ص301۔
  25. رجوع کریں: انصاری، «مراسم بیست و ہشتمین سالروز رحلت امام خمینی بعد از ظہر روز 14 خرداد با سخنان رہبر معظم انقلاب برگزار می‌شود»، پرتال امام خمینی؛ «بیانات در مراسم بیستمین سالگرد رحلت امام خمینی»، دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌اللہ‌العظمی خامنہ‌ای۔
  26. انصاری، حدیث بیداری، ص16
  27. انصاری، حدیث بیداری، 1378ہجری شمسی، ص16۔
  28. شیرعلی‌نیا، دایرۃ المعارف مصور تاریخ زندگی امام خمینی، 1394ہجری شمسی، ص18۔
  29. امام خمینی، صحیفہ امام، 1368ہجری شمسی، ج19، ص426۔
  30. امام خمینی، صحیفہ امام، 1368ہجری شمسی، ج19، ص427۔
  31. امام خمینی، صحیفہ امام، 1368ہجری شمسی، ج19، ص427۔
  32. علوی، «امام خمینی، فلسفہ اسلامی و نگرش عقلی»، ص221۔
  33. امام خمینی، صحیفہ امام، 1368ہجری شمسی، ج19، ص427۔
  34. امام خمینی، موسوعۃ الامام الخمینی 45: تعلیقات شرح فصوص الحکم و تعلیقات علی مصباح الانس، 1434ھ، مقدمۃ التحقیق، ص5۔
  35. اردبیلی، تقریرات فلسفہ امام خمینی، 1392ہجری شمسی، ج1، مقدمہ، صx۔
  36. «بیانات در دیدار اعضای مجمع عالی حکمت اسلامی»، تارنمای دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای۔
  37. انصاری، حدیث بیداری، ص19-20
  38. رجبی، محمد حسن، زندگی نامہ سیاسی امام خمینی رہ، ص229
  39. رجبی، محمد حسن، زندگی نامہ سیاسی امام خمینی رہ، ص 250
  40. صحیفہ امام، ج 17، ص321
  41. صحیفہ امام، ج20، ص464
  42. صحیفہ امام،‌ ج21، ص263
  43. صحیفہ امام،‌ ج21، ص268
  44. ملاحظہ کریں: امام خمینی، ولایت فقیہ
  45. صحیفہ امام، ج20، ص452
  46. صحیفہ امام،‌ ج21، ص291
  47. صحیفہ امام، ج21،‌ ص289
  48. امام خمینی، صحیفه امام، 1379ہجری شمسی، ج21، ص177.
  49. صحیفہ امام، ج21، ص129
  50. صحیفہ امام، ج21، ص151

مآخذ

  • انصاری، حمید، حدیث بیداری، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، 1378ہجری شمسی۔
  • خمینی، سید روح اللہ (امام)، صحیفہ امام، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی۔
  • خمینی، سید روح اللہ (امام)، ولایت فقیہ۔
  • رجبی، محمد حسن، زندگی نامہ سیاسی امام خمینی: از آغاز تا تبعید، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1378ہجری شمسی۔
  • حافظیان، ابو الفضل، اجازات حسبیہ امام خمینی، فصل نامہ حکومت اسلامی، 1378ہجری شمسی، شمارہ12۔
  • فصل نامہ حضور، شمارہ 34، زمستان 1379ہجری شمسی۔