شجرہ ممنوعہ

ویکی شیعہ سے
(شجرۂ ممنوعہ سے رجوع مکرر)

شجرہ ممنوعہ، جنت کے ایک درخت کو کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کے حکم سے حضرت آدم و حوا کو جنت میں قیام کے دوران اس درخت کے پھل سے منع کیا گیا تھا لیکن شیطان کے وسوسے میں آکر انہوں نے اس کا پھل کھا لیا۔ اس نافرمانی کی وجہ سے ان کے بدن سے بہشتی لباس اتر گئے اور انہیں بہشت سے نکال دیا گیا۔ شجرہ ممنوعہ کی داستان قرآن پاک میں تین مرتبہ آئی ہے اور یہ داستان توریت میں قرآن سے مختلف انداز میں بیان ہوئی ہے۔ اس ممنوعہ درخت کی ماہیت اور حقیقت کے بارے میں مختلف اقوال مذکور ہیں۔ بعض اسے حسد اور بعض علم سے تعبیر کرتے ہیں۔

واقعہ

خداوند عالم نے بہشت میں قیام کے دوران حضرت آدم و حوا کو ایک مخصوص درخت کے علاوہ تمام درختوں سے پھل کھانے کی اجازت دی تھی اور انہیں شیطان کی طرف سے ورغلائے جانے سے بھی آگاہ کیا تھا۔ خدا کی جانب سے آدم و حوا کو متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر تم نے اس درخت سے کچھ کھایا تو گویا تم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے۔ آدم و حوا نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر اس درخت سے پھل کھا لیا۔ شیطان نے انہیں ورغلاتے ہوئے کہا کہ اگر تم اس ممنوعہ درخت سے پھل کھاؤ گے تو تم فرشتے میں تبدیل ہو جاؤ گے یا ہمیشگی کی زندگی پا لو گے۔ اس درخت سے پھل کھانے کے بعد ان کے جسم سے بہشتی لباس اتر گئے اور ان کی شرم گاہیں ننگی ہو گئیں اور خدا نے انہیں جنت سے نکل جانے کا حکم دیا۔[1]

حقیقت درخت

قرآن میں بقره کی ۳۵-۳۸ویں، اعراف کی ۱۹-۲۳ویں اور طہ ۱۲۰-۱۲۲ویں آیات میں شجرہ ممنوعہ کی داستان بیان ہوئی ہے۔ لیکن درخت کی قسم معین اور واضح نہیں ہے۔ تفسیر قرآن سے متعلق روایات اسلامی میں اس کی وضاحت دو طرح بیان ہوئی ہے:

ظاہری معنا

بعض مفسرین درخت کے ظاہری معنی مراد لیتے ہیں۔ اس درخت کی قسم اور نوع میں مختلف تفاسیر جیسے خوشہ گندم،[2] درخت انگور،[3] انجیر،[4] نخل،[5] ترنج (کھٹا لیموں)،[6] کافور[7] انگور[8] کا تذکرہ ملتا ہے۔

درخت ممنوع کی تاویل

  1. درخت حسد: بعض روایات کے بیان میں حسد کو شجرہ ممنوعہ کہا گیا ہے۔[9] ان روایات کی بنا پر معتقد ہیں کہ فرشتوں کے آدم کو سجدہ کرنے کے بعد انہوں نے اپنے آپ سے کہا: کیا خدا نے مجھ سے بہتر بھی کوئی مخلوق خلق کی ہے؟ خدا نے اس کے جواب میں آدم کو اس سے بالاتر مرتبے کے حامل افراد یعنی پیامبر اسلام(ص)، امام علی(ع)، حضرت فاطمہ(س)، امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) سے آشنا کروایا۔ خدا نے آدم کو ان سے حسد کرنے سے منع کیا لیکن شیطانی وسوسوں کی بدولت آدم و حوا میں حسد کی حالت ایجاد ہو گئی۔[10] اسی طرح درخت سے غیر ظاہری معنا قرآن میں اور مقامات پر بھی لیا گیا ہے۔[11] مانند شجرہ ملعونہ کہ اس سے مشرکین اور طاغوت ہے۔[12]
  2. درخت علم و ولایت: بعض مفسرین چند روایات سے استناد کی وجہ سے معتقد ہیں کہ علم یا ولایت محمد و آل‌ محمد درخت ممنوع ہے۔ ان روایات کے بیان کے مطابق یہ واقعہ اس طرح منقول ہے:

خداوند نے آدم کو مقام ولایت پنج تن آل‌عبا کی پہچان کروائی اور انہیں کہا: یہ تم اور دیگر مخلوقات سے بلند و بالا ہیں اگر میں انہیں خلق نہ کرتا تو تو نہ تمہیں اور نہ ہی بہشت و جہنم، آسمان و زمین کو خلق نہ کرتا اور پھر آدم کو ان کے مقام و منزلت کے حاصل کرنے کی خواہش سے ڈرایا لیکن آدم کے دل میں ان کے مقام و منزلت کے حصول کی خواہش پیدا ہوئی اور شیطان نے انہیں وسوے میں ڈالا کہ وہ ممنوع درخت سے پھل کھا لے گا تو اسے جاودانی زندگی حاصل ہو جائے گی۔[13]

توریت میں شجره ممنوعہ

توریت میں بھی شجرۃ ممنوعہ کی تعبیر معنوی آئی ہے اور دو: درخت علم اور درخت زندگی کو درخت ممنوع کہا گیا ہے۔ توریت قرآن سے مختلف انداز میں آدم کے واقعے کو بیان کرتی ہے۔ اس کے مطابق حضرت آدم اس درخت کے پھل کھانے سے پہلے کسی قسم کی دانش نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ وہ اپنے جسم ڈھانپنے کو بھی نہیں جانتے تھے۔ جب درخت علم کا پھل کھایا تو کہیں آدم زندگی جاویدانی کا پھل نہ کھا کر ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ کر لے خدا نے اسے بہشت سے نکال دیا۔[14]

گناه حضرت آدم

اسلام سے پہلے کے ادیان ابراہیمی میں کتاب مقدس کی روایت شجرہ ممنوعہ کی بنا پر حضرت آدم بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے تھے اور حضرت آدم چاہتے تھے کہ زندگی جاودانی کے پھل کھانے کا قصد رکھتے تھے تا کہ وہ بھی خدا طرح ہمیشہ رہیں اور یہ طرح کی خدا سے ضد اور جنگ تھی۔[15]

لیکن اسلام میں عصمت انبیا کے اعتقاد کی وجہ سے حضرت آدم کا پھل کھانا کسی قسم کا گناہ نہیں تھا۔ اسی بنیاد پر حضرت آدم کے اس فعل کے متعلق چند نظریات بیان ہوئے ہیں:

  • ترک اولی:اس نظریے کی بنا پر حضرت آدم نے گناہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ ایک نسبی گناہ تھا یعنی ایسا کام تھا جس کا انجام دینا انبیا کی نسبت شائستہ نہیں تھا۔ پس اس نظرئے کی بنیاد پر حضرت آدم نے شرک و کفر جیسے افعال میں سے کوئی کام انجام نہیں دیا تھا کہ جس کی بدولت انسان کو عقاب دیا جاتا بلکہ وہ ایسے افعال میں سے تھا جن کا انجام دینا اللہ کے انبیاء جیسے برگزیدہ افراد کیلئے سزاوار نہیں تھا کہ وہ ایسے افعال انجام دیں۔اسے گناہ نسبی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسے افعال کو ترک اولی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد پر حضرت آدم کیلئے اس پھل کا کھانا ممنوع اور حرام نہیں تھا بلکہ آدم جیسی برگزیدہ ہستی کی نسبت اس کا کھانا صحیح نہیں تھا۔ اس لحاظ سے اس فعل کی انجام دہی پر اسے بہشت سے نکال دیا گیا۔[16]
  • پھل نہ کھانے کی نصیحت : بعض معتقد ہیں کہ پھل نہ کھانے کا حکم وظیفہ و ذمہ داری کے عنوان سے صادر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ خدا کی جانب سے ایک توصیہ و نصیحت تھی۔ پس اس نظریے کی بنیاد پر خدا اپنے علم کی بنیاد پر آگاہ تھا کہ درخت ممنوع سے پھل کھانے کی وجہ سے وہ بہشت سے نکلنے اور زحمت میں گھر جانے کا سبب بنے گا اس لئے اللہ نے اسے توصیہ کیا تم اس درخت کے قریب نہ جانا۔ خدا کی جانب سے اس جیسے امر و نہی کو امر و نی ارشادی کہا جاتا ہے۔ ایسے افعال کی مخالفت پر انسان کسی قسم کی سزا کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ ان افعال کی انجام دہی ان فوائد کے سلب اور لئے جانے کا موجب بنتے ہیں۔ اس نظریے پر بعض علما نے یہ اعتراض کیا ہے کہ خدا کی طرف سے حکم کے صدور کے بعد جب حضرت آدم نے مخالفت کی اور پھر اس پر توبہ کا خواستگار ہوا جبکہ اوامر و نہی ارشادی کی مخالفت کی صورت میں خدا سے درخواست اور بخشش کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔[17]
  • ہر حسد گناه نہیں: اس نظریے نے درخت ممنوع کا معنا حسد کیا ہے، حضرت آدم کا حسد بری اور ناپسندیدہ صفات اخلاق میں سے نہیں تھا بلکہ غبطہ میں سے تھا۔[18] بعض علما حضرت آدم کے حسد کو حقیقی حسد ہی کہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ حسد حرام ہے جو رفتار و کردار کے اظہار پر منتہی ہو اور آدم کا حسد اندرونی تھا اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے عمل سے نہیں کیا تھا۔[19]

بہشت سے خروج

قرآنی آیات کی بنا ہر درخت ممنوع کے استفادے کے بعد بہشت سے نکال دیا گیا۔ آدم و حوا کی بہشت کے متعلق تین نظریات بیان ہوئے ہیں:

  • 'زمینی بہشت: بعض معتقد ہیں کہ زمین کے ہی ایک سر سبز باغات والی زمین میں زندگی بسر کرتے تھے۔ کیونکہ بہشت آخرت میں شیطان کا داخلہ ممنوع ہونے کی وجہ سے شیطان کا حضرت آدم و حوا کو وسوسے میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح جو انسان ایک دفعہ بہشت میں داخل ہو جائیں گے اور انہیں وہاں پر ہمیشہ رہنا ہے لہذا ان کا بہشت سے باہر آنا ممکن نہیں ہے حالانکہ آدم جس بہشت میں قیام پذیر تھے وہیں شیطان کے وسوسے کا شکار ہو کر بہشت سے باہر نکالے گئے۔ بعض روایات میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔[20]
  • اخروی بہشت: بعض روایات کی بنیاد پر بہشت آدم وہی آخروی بہشت تھی۔ [21] بعض علما نہج البلاغہ کے پہلے خطبے سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
امام علی (ع) نے فرمایا: خدا نے آدم کو وعدہ دیا تھا کہ وہ اسے بہشت میں لوٹائے گا۔[22] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آدم کو جہاں لوٹانے کا وعدہ کیا گیا ہے پہلے بھی وہیں رہ رہے تھے نیز آئندہ جس میں قیامت کے بعد آدم کو جانا ہے۔ پس اس بنا پر آدم جس بہشت میں رہ رہے تھے وہ بہشت اخروی ہی تھی۔[23]
  • برزخی بہشت : اس نظریے کی بنا پر بشہت آدم نہ تو زمینی تھی اور نہ ہی اخروی تھی بلکہ دنیا اور آخرت کے درمیان کے زمانے کی بہشت ہے۔ اس بہشت میں اخروی بہشت کی خصوصیات جیسے دائمی شادابی، بھوک کے رنج کا نہ ہونا، تشنگی، سرما و گرما وغیرہ پائی جاتی ہیں اور اسی طرح زمین بہشت کی خصوصیات جیسے شیطان کے وسوسے کا شکار ہونا وغیرہ پائی جاتی ہیں۔ یہ نظریہ حقیقت میں پہلے اور دوسرے نظریے سے حاصل شدہ ہے۔[24]

سرگذشت آدم و حوا

آیات قرآن کی بنیاد پر جب آدم و حوا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے خدا سے توبہ کی اور خدا سے بخشش کے طلبگار ہوئے۔ خداوند نے ان کی توبہ قبول کی۔[25] لیکن انکی یہ خطا ان کے جنت سے نکلنے کا موجب بنی اور وہ حکم الہی پر زمین میں مستقر ہوئے اور انہوں نے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ خداوند نے آدم کو اپنا خلیفہ بنا[26] کر نبوت سے نوازا۔[27]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش‌، ج۶، ص۱۱۴-۱۲۰.
  2. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۸۳؛ طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۶۹؛ طبری، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۳۰؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۲۰.
  3. طبری، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۳۲؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۲۰؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۱، ص۱۶۵.
  4. طبری، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۳۳؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۲۰؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۱، ص۱۶۵.
  5. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، ۱۹۸۳م، ج۱، ص۵۳.
  6. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، ۱۹۸۳م، ج۱، ص۵۳.
  7. ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۲۰.
  8. حسن بن علی العسکری (ع)، التفسیر المنسوب إلی الإمام ابی محمد الحسن بن علی العسکری (ع)، ۱۴۰۹ق، ص۲۲۲؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۱، ص۱۹۰.
  9. عیاشی، تفسیر العیاشی، المکتبہ العلمیہ الإسلامیہ، ج۲، ص۹؛ صدوق، معانی الأخبار، ۱۳۶۱ش، ص۱۲۴؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۱، ص۱۶۴.
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش‌، ‌ج۶، ص۱۲۰-۱۲۱.
  11. اسراء، آیت ۶۰.
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش‌، ‌ج۱۲، ص۱۷۲.
  13. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، ج۱، ص۱۴۴؛ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، چاپ چہارم، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۳۴۳.
  14. کتاب مقدس تورات، ١٣٦٤ش، سفر پیداش، فصل دوّم، شماره۱۷ و فصل سوم، شماره۲۳.
  15. ملایوسفی/ معماری، گناه نخستین از دیدگاه اسلام و مسیحیت، تہران، پاییز و زمستان ۱۳۹۰ش، ص۱۰۱-۱۲۶.
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش‌، ج۶، ص۱۲۶-۱۲۴.
  17. طبرسی، مجمع البیان، دار المعرفہ، ج۱، ص۱۹۵-۱۹۷؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش‌، ج۶، ص۱۲۴-۱۲۵.
  18. مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۱، ص۱۶۵ و ۱۷۳.
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش‌، ج۶، ۱۲۱.
  20. فخر رازی، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۴۵۲.
  21. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۱، ص۱۴۳.
  22. شریف الرضی، نہج البلاغہ، ۱۴۱۳ق، خطبۂ اول، ص۱۰.
  23. کون سی بہشت میں آدم سکونت رہتے تھے؟ پایگاه اینترنتی اسلام کوئست. تاریخ ثبت: ۱۳۹۳/۰۶/۰۹، تاریخ بازدید: ۱۳۹۵/۱۰/۲۲.
  24. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۱۳۲.
  25. سورہ بقرہ، آیت۳۷.
  26. سوره بقره، آیه ۳۰.
  27. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش‌، ج۶، ص۱۲۷.

مآخذ

  • ابن‌کثیر، ابوالفداء اسماعیل الدمشقی، تفسیر القرآن العظیم، با مقدمہ دکتر عبدالرحمن المرعشلی، بیروت، دار المعرفہ، ۱۴۱۲ق.
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تحقیق محمد جعفر یاحقی و دکتر محمد مہدی ناصح، مشہد، بنیاد پژوہش‌ ہای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ق.
  • جوادی آملی، عبدالله، تفسیر تسنیم، قم، مرکز نشر إسراء، چاپ چہارم، ۱۳۸۷ش.
  • حسن بن علی العسکری (ع)، التفسیر المنسوب إلی الإمام ابی محمد الحسن بن علی العسکری (ع)، قم ، مدرسہ الإمام المہدی، ۱۴۰۹ق.
  • سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، دارالفکر، ۱۹۸۳م.
  • شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تحقیق: عزیزالله عطاردی قوچانی، تہران، بنیاد نہج البلاغہ، ۱۴۱۳ق.
  • صدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی، معانی الأخبار، تحقیق علی اکبر غفاری، قم، انتشارات اسلامی، ۱۳۶۱ش.
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ النشرالاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین.
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان، فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ اعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۳ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۵ق.
  • طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، با مقدمہ خلیل المیس، تحقیق صدقی جمیل العطار، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ق.
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی ، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المکتبہ العلمیہ الإسلامیہ.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
  • کتاب مقدس تورات، ترجمہ ماشاءلله رحمان پور داوود و موسی زرگری، تہران، انجمن فرہنگی اوتصر ہتورا، ۱۳۶۴ش.
  • مجلسی، محمّد باقر، بحارالأنوار، بیروت، الوفاء، ۱۴۰۳ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دار الكتب الاسلامیہ، تہران، چاپ سی و دوم،‌ ۱۳۷۴ش‌.
  • ملایوسفی، مجید/ معماری، داوود، گناه نخستین از دیدگاه اسلام و مسیحیت، تہران، دانشگاه الہیات و معارف دانشگاه تہران، مجلہ ادیان و عرفان، سال چہل و چہارم، شماره دوم، پاییز و زمستان ۱۳۹۰ش، ص۱۰۱-۱۲۶.
  • آدم کونسی بہشت میں رہتے تھے؟ پایگاه اسلام کوئست. تاریخ ثبت: ۱۳۹۳/۰۶/۰۹، تاریخ بازدید: ۱۳۹۵/۱۰/۲۲.