حضرت داؤد

ویکی شیعہ سے
(حضرت داود (ع) سے رجوع مکرر)
حضرت داوودؑ
قرآنی نام:داود
رہائش:فلسطین
قوم کا نام:بنی‌ اسرائیل
قبل از:سلیمان
کتاب کا نام:زبور
مشہوراقارب:حضرت سلیمان
مخالفین:جالوت
اہم واقعات:فتح یروشلم
اولوالعزم انبیاء
حضرت محمدؐحضرت نوححضرت ابراہیمحضرت موسیحضرت عیسی


حضرت داوود بنی‌ اسرائیل کے اہم پیغمبروں میں سے تھے جن کو بادشاہت بھی ملی تھی۔ حضرت داوود پرکشش آواز کے مالک تھے اور خدا نے انہیں زرہ سازی کا فن بھی عطا کیا تھا۔ آپ مقام قضاوت پر بھی فائز تھے۔ کتاب زبور آپ پر نازل ہوئی۔ حضرت داوود نے بنی اسرائیل کیلئے یروشلم کو فتح کیا۔

یہودیوں کے یہاں حضرت داوود کو خاص مقام و مرتبت حاصل ہے؛ لیکن اس کے باوجود توریت میں ان پر بعض تہمتیں بھی لگائی گئی ہیں۔

نسب اور خاندان

داؤد بن ایشا[1] یہودا بن یعقوب کی نسل سے تھے۔[2] حضرت داوود چھوٹے قد، سبزہ‌ رو اور ہلکے پھلکے بالوں کے مالک تھے[3] اور ختنہ شدہ دنیا میں آئے۔[4] حضرت سلیمان آپ کے بیٹے اور جانشین تھے۔[5]

نبوت اور بادشاہت

حضرت داؤد بنی اسرائیل کے برجستہ انبیاء میں سے تھے۔[6] خدا نے حضرت داؤد پر کتاب زبور نازل فرمائی۔[7]

حضرت موسی اور حضرت یوشع کے بعد جن اشخاص کو لوگوں پر حکمرانی حاصل رہی انہیں داور کہا جاتا تھا اور حضرت سموئیل اس سلسلے کے آخری داور تھے۔ بنی‌اسرائیل نے ان سے کسی کو بادشاہ معین کرنے کا مطالبہ کیا۔ یوں طالوت بادشاہ بن گئے۔[8] طالوت کے زمانے میں ایک عظیم جنگ چھڑ گئی۔ طالوت نے دشمن کے سب سے بڑے پہلوان، جالوت کو قتل کرنے والے کو اپنی دولت کا نصف حصہ دینے اور اس سے اپنی بیٹی کا عقد کرنے کا اعلان کیا۔[9] اس جنگ میں حضرت داؤد نے جالوت قتل کر دیا[10] یوں طالوت کی نصف دولت کے مالک اور ان کے داماد بن گئے۔[11]

حضرت یعقوب کی نسل میں نبوت اور بادشاہت میں سے ہر ایک، ایک خاص طبقے کے پاس موجود تھی لیکن اس کے باوجود خدا نے حضرت داؤود کو ان دونوں منصب سے نوازا[12] یوں طالوت کی رحلت کے بعد حصرت داؤد بنی‌ اسرائیل کے بادشاہ بھی بن گئے۔[13]

امام باقرؑ حضرت داؤد کو ان معدود انبیاء میں قرار دیتے ہیں جن کو نبوت کے ساتھ ساتھ حکومت بھی ملی تھی۔[14] حضرت داؤد لقمان کے ہم‌ عصر تھے اور جب لقمان انہیں نصیحت کرتے تھے تو آپ ان کی تعریف و تمجید کیا کرتے تھے۔[15]

یروشلم حضرت داؤد کے دور میں آپ کے ذریعہ سے فتح ہوا۔[16]

زبور

تفصیلی مضمون: زبور

قرآن اور احادیث کے مطابق زبور اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت داؤد پر نازل ہوئی تھی۔ یہ کتاب پند و حکمت اور خدا کے ساتھ راز و نیاز پر مشتمل ہے۔ زبور کا نام قرآن میں تین مرتبہ یعنی سورہ نساء[17]، سورہ انبیاء[18] اور سورہ اسراء[19] میں آیا ہے۔

اہم صفات

آیات اور احادیث میں حضرت داؤد کے بہت سے صفات کا تذکرہ ملتا ہے۔ قرآن کے مطابق حضرت داؤد حیوانات کی بولی سے آشنا تھے[20] اور خدا نے انہیں حکومت اور حکمت دونوں سے نوازا تھا اور جو کچھ بھی آپ جاننا چاہتے اسے انہیں تعلیم دیا جاتا تھا۔[21] اسی طرح قرآن میں آپ کو بہت زیادہ عبادت میں مشغول رہنے اور خوف خدا میں بہت زیادہ گریہ و زاری کرنے والے کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔[22]

حضرت داؤد کی عبادت کے بارے میں مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں۔[23] پیفمبر اکرمؐ نے حضرت داؤود کی نماز اور روزے کی تعریف کی ہیں۔[24] حضرت داؤد ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن استراحت کرتے تھے پھ اگلے دن دوبارہ روزہ رکھتے تھے۔[25]

قرآن کے مطابق پہاڑ اور پرندے بھی حضرت داؤد کے ساتھ خدا کی تسبیح پڑھتے تھے[26] البتہ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کے بارے میں مختلف توجیہیں بیان ہوئی ہیں۔[27]

فیصلے

خدانے حضرت داؤد کو حکمت اور حتمی فیصلہ کرنے کی صلاحیت عطا کی تھی[28] اور انہیں لوگوں کے درمیان مختلف امور کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔[29] قرآن میں ان کے بعض فیصلوں کا ذکر ہوا ہے۔[30]

امام صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ ظہور کے بعد امام زمانہؑ بھی حضرت داؤد کی طرح لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کریں گے۔[31]

قرآن میں حضرت داؤد کی طرف سے فیصلہ کرنے میں غلطی اور اشتباہ واقع ہونے کی طرف اشارہ موجود ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دفعہ دو اشخاص حضرت داؤد کے پاس فیصلے کیلئے آتے ہیں، ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے بھائی کے پاس 99 گوسفند ہیں جبکہ میرے پاس صرف ایک اور میرا بھائی اسی ایک گوسفند کو بھی مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔[32] اس موقع پر حضرت داؤد دوسرے فریق کی بات سنے بغیر پہلے والے شخص کے حق میں فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔[33] اس کے فورا بعد حضرت داؤد سمجھ گئے کہ یہ خدا کی طرف سے ان کا ایک امتحان تھا جس میں انہوں نے غلطی کی ہیں۔ وہ اس غلط فیصلے پر خدا کی بارگاہ میں توبہ اور استغفار کرتے ہوئے خدا کے آگے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔[34]

فن زرہ‌ سازی

قرآن اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ خداوند متعال نے حضرت داؤد کو زرہ بنانے کی مہارت عطا کی تھی۔[35] بعض حدیثی منابع میں آیا ہے کہ خدا نے حضرت داؤد کی تعریف و تمجید کرتے ہوئے انہیں نیک بندہ قرار دیا ہے؛ لیکن کوئی ذریعہ معاش نہ ہونے اور صرف اور صرف بیت المال پر گزر بسر کرنے کو ناپسند فرمایا۔ اس پر حضرت داؤد کو بہت دکھ ہوا اور خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری کیا۔ اس کے بعد خدا نے انہیں زرہ بنانے کی مہارت عطا فرمائی۔ حضرت داؤد زرہ بنا کر فرخت کرتے تھے اور اسی سے اپنی زندگی کے احتیاجات پورا کرتے تھے اور بیت المال سے بے نیاز ہو گئے۔[36]

پرکشش آواز

حضرت داؤد نہایت پر کشش اور سریلی آواز کے مالک تھے۔[37] اس طرح کہ خدا نے آپ کی طرح کسی کو بھی ایسی آواز نہیں دی یہاں نک کہ جب حضرت داؤد زبور کی تلاوت کیا کرتے تھے تمام حیوانات ان کے ارد گرد جمع ہو کر آپ کی آواز سنتے تھے۔[38]

یہودیوں کے ہاں آپ کا مقام

حضرت داؤد یہودیوں کے ہاں مقام و منزلت کے حامل تھے اور یہودیوں کی مقدس کتاب میں آپ سے متعلق مختلف داستانیں نقل ہوئی ہیں۔[39] ان داستانوں میں سے بہت ساری داستانیں اسلامی منابع میں بھی اسرائیلیات کے عنوان سے ذکر ہوئی ہیں[40] جن میں سے بعض اسلامی مبانی کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔

شوہر دار عورت سے زنا

یہودیوں کی کتاب مقدس میں ایک طولانی داستان نقل ہوئی ہے جس کے مطابق حضرت داؤد نے ایک شوہر‌دار عورت سے زنا کیا تھا۔[41] اس داستان کے بعض حصوں پر اسلامی کتب میں مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔ کیونکہ یہ داستان اسلامی تعلیمات کے ساتھ سازگار نہیں ہے اور شیعہ احادیث میں اس ناروا تہمت کی بھرپور مخالفت کی گئی ہے:[42]

امام علیؑ فرماتے ہیں: "جو شخص یہ کہے کہ حضرت داؤد نے "اوریا" کی بیوی سے زنا کیا ہے، تو میں اس پر دو حد جاری کروں گا۔ ایک حد توہین رسالت کی بنا پر اور دوسری حد حضرت داؤد پر ناروا تہمت لگانے کی بنا پر"۔[43]

ستارہ داؤدی

ستارہ داؤدی(Star of David)؛ چھ کونوں والے ستارے کو کہا جاتا ہے جو دو متساوی الاضلاع تکونوں سے مل کر بنا ہے۔ ایک نیچے سے اوپر کی جانب اور دوسرا اوپر سے نیچے کی جانب۔ اس علامت کی ابتداء کہاں سے ہوئی اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض اسے حضرت داؤد کا سپر قرار دیتے ہیں؛ لیکن بعض اسے چھٹی اور ساتویں عیسوی صدی کی ایجاد قرار دیتے ہیں جو یہودی عرفاء کے ہاں تقدس کی حامل سمجھی جاتی ہے۔[44]

وفات

حضرت داؤد سو سال کی عمر میں چالیس سال حکومت کرنے کے بعد اس دنیا سے کوچ کر گئے۔[45]

حوالہ جات

  1. ابن‌ خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۱۱۰۔
  2. دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۸۔
  3. ابن‌اثیر، الکامل، ۱۳۴۵ق، ج۱، ص۲۲۳۔
  4. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۷۷۔
  5. بروجردی، تفسیر جامع، ۱۳۶۶ش، ج۵، ص۱۰۶۔
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹،‌ ص۲۳۶۔
  7. سورہ نساء، آیہ۱۶۳۔
  8. توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، ۱۳۸۶ش، ص۸۶۔
  9. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۷، ص۸۱۔
  10. سورہ بقرہ،‌آیہ۲۵۱۔
  11. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۷، ص۸۳۔
  12. ابن‌ کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲،‌ ص۱۰۔
  13. ابن‌ اثیر، الکامل، ۱۳۴۵ق، ج۱، ص۲۲۳۔
  14. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۲، ص۱۸۱۔
  15. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۱۶۳۔
  16. مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق،‌ ج۱۲، ص۳۵۶۔
  17. آیت 163۔
  18. آیت 105۔
  19. آیت 55۔
  20. سورہ نمل، آیہ۱۶۔
  21. سورہ بقرہ، آیت 251۔
  22. ابن‌ اثیر، الکامل، ۱۳۴۵ق،ج۱، ص۲۲۳۔
  23. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۷، ص۸۶۔
  24. ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، ج۱، ص۵۴۶۔
  25. حمیری، قرب الإسناد، ۱۴۱۳ق، ص۹۰۔
  26. سورہ انبیاء، آیہ۷۹۔
  27. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۳۔
  28. سورہ ص: آیہ۲۰۔
  29. سورہ ص، آیہ۲۶۔
  30. سورہ انبیاء، آیہ۷۸-۷۹۔
  31. کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۶۳۲۔
  32. سورہ ص، آیہ۲۳۔
  33. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۲۴۸۔
  34. سورہ ص، آیہ۲۴۔
  35. سورہ انبیاء، آیہ۸۰۔
  36. کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ق، ج۹، ص۵۳۹۔
  37. مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق،‌ج۴، ص۲۰۷۔
  38. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۱۴۔
  39. مزید معلومات کیلئے رجوع کریں: کتاب مقدس، سموئیل۱: باب ۱۶-۳۰۔ سموئیل ۲۔
  40. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۳۔
  41. کتاب مقدس، سموئیل۲،‌ باب۱۲۔
  42. مزید معلومات کیلئے رجوع کریں: آیا یہودیوں کی کتاب مقدس کی طرح اسلامی منابع میں بھی حضرت داود پر بے گناہ انسان کے قتل اور زنائے محصنہ کی تہمت لگائی گئی ہے؟
  43. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۲۶۔
  44. ستارہ داؤد چیست؟ (انجمن کلیمیان تہران)
  45. شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۵۲۴۔

مآخذ

  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر، ۱۳۸۵ق۔
  • ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر(تاریخ ابن خلدون)، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق۔
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ق۔
  • ابن ماجہ قزوینی، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، دارإحیاء الکتب العربیۃ، فیصل عیسی البابی الحلبی، بی‌تا۔
  • ابن‌عساکر، ابو القاسم علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ق۔
  • بروجردی، سید محمد ابراہیم، تفسیر جامع، تہران، انتشارات صدر، چاپ ششم، ۱۳۶۶ش۔
  • توفیقی، حسین، آشنایی با ادیان بزرگ، تہران، سمت،‌ ۱۳۸۶ش۔
  • حمیری، عبد اللہ بن جعفر، قرب الإسناد، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ اول، ۱۴۱۳ق۔
  • دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود، الاخبار الطوال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش۔
  • شیخ صدوق، الخصال، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۶۲ش۔
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، چاپ دوم، ۱۳۹۵ق۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، ۱۴۰۴ق۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دارالحدیث، چاپ اول، ۱۴۲۹ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق۔
  • مقریزی، تقی الدین، امتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق: نمیسی، محمد عبد الحمید، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ اول، ۱۴۲۰ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔
  • ستارہ داوود چیست؟ (انجمن کلیمیان تہران)
  • آیا در منابع اسلامی نیز مانند کتاب مقدس یہودیان، حضرت داود(ع) بہ قتل انسانی بیگناہ و زنای محصنہ متہم شدہ است؟