تواتر اجمالی

ویکی شیعہ سے

تَواتُر اِجمالی تواتر کی ایک قسم ہے جو تواتر لفظی اور تواتر معنوی کے مقابلے میں بولا جاتا ہے۔ تواتر اجمالی احادیث کے اس مجموعے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جن کے مضامین ایک دوسرے سے مختلف ہیں؛ لیکن اس کے باوجود ان سب سے ایک مشترک نکتہ حاصل ہوتا ہے۔

تواتر اجمالی کی اصطلاح کو پہلی بار آخوند خراسانی نے خبر واحد کی بحث میں استعمال کئے۔ اس کے بعد دوسرے شیعہ علماء نے بھی اس سے بحث کی ہیں۔ بعض شیعہ علماء نے تواتر اجمالی کے معتبر ہونے پر اشکال کیا ہے۔

تواتر

کسی ایک روایت کو مختلف طریقوں سے یوں نقل کرنا کہ جس سے اس کے معتبر ہونے کا اطمینان حاصل ہو تواتر کہلاتا ہے؛ کیونکہ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اتنی تعداد میں راویوں نے جھوٹ بولا ہو یا اس واقعے کو سمجھنے میں ان سب نے غلطی کی ہو۔[1]

تواتر کا معتبر ہونا علم اصول فقہ کے علماء کا متفق علیہ مسئلہ ہے۔[2]

خبر متواتر کو متواتر تفصیلی اور متواتر اجمالی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تواتر تفصیلی خود مزید دو قسموں میں تقیسم ہوتا ہے:‌ تواتر لفظی اور تواتر معنوی۔[3]

توتر اجمالی کی تعریف

تواتر اجمالی تواتر لفظی اور تواتر معنوی کے مقابلے میں ہے۔ تواتر لفظی اس وقت وجود میں آتا ہے جب کوئی خاص لفظ یا عبارت اس روایت کے تمام طریقوں میں مشترک طور پر پایا جاتا ہو۔ تواتر لفظی کے لئے حدیث ثقلین کی مثال دی جاتی ہے۔[4] تواتر معنوی یعنی ایک خاص مفہوم ان تمام طریقوں سے حاصل ہو،‌ لیکن مختلف الفاظ میں نقل ہوئے ہوں۔ تواتر معنوی کے لئے حضرت علیؑ کی شجاعت کی مثال دی جاتی ہے جو صدر اسلام کے مختلف جنگوں سے سمجھ میں آتی ہے۔[5]

تواتر اجمالی میں نقل شده طریقوں میں نہ کوئی مشترک لفط یا عبارت پائی جاتی ہے اور نہ ان سے کوئی خاص مفہوم مشترکہ طور پر سمجھا جا سکتا ہے جیسے وہ خبر واحد جو شیعہ اثناعشری اور ثقہ راویوں کے ذریعے نقل ہوئی ہو جس کا مضمون احادیث میں نہیں آیا لیکن ان احادیث کے مجموعے سے اس بات پر اطمینان حاصل ہوتا ہے۔[6]

کہا جاتا ہے کہ پہلی بار تواتر اجمالی کی اصطلاح کو آخوند خراسانی نے خبر واحد کے ادلہ کے معتبر ہونے اور نہ ہونے کی بحث میں استعمال کئے ہیں۔[7]

معتبر ہونا

شیعہ علماء اور اکثر اہل‌ سنت علماء خبر متواتر کے معتبر ہونے پر متفق ہیں؛[8] لیکن تواتر اجمالی کے بارے میں اختلاف‌ نظر پایا جاتا ہے۔[9] علم اصول فقہ کے اکثر علماء تواتر اجمالی کو معتبر جانتے ہیں؛[10] لیکن شہید صدر اور محمد حسین نائینی جیسے بعض بزرگان تواتر کی اس قسم کے معتبر ہونے میں اشکال کرتے ہیں۔[11]

مرحوم نائینی کا اشکال

محمد حسین نائینی تواتر کو تواتر لفظی اور معنوی میں منحصر سمجھتے ہیں۔ تواتر اجمالی کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر تواتر اجمالی میں کسی جامع اور مشترک مفہوم تک پہنچ جائے تو یہ وہی تواتر معنوی ہے؛ لیکن اگر اس سے ایسا کوئی مفہوم حاصل نہ ہو تو کوئی تواتر ہے ہی نہیں ہے، جب کوئی تواتر نہیں ہو گا تو یہ معتبر بھی نہیں ہوگا؛ کیونکہ اگر ہم ان میں سے ہر ایک روایت کو علیحدہ مورد مطالعہ قرار دیں تو ان کے جھوٹی ہونے کا احتمال زیادہ ہے اور یہی حکم ان کے مجموعے ک بھی ہے یعنی ان کے مجموعے سے بھی کوئی یقین یا اطمینان حاصل نہیں ہوگا۔[12]

اس اشکال کا جواب دیا گیا ہے۔ من جملہ یہ کہ سید ابوالقاسم خوئی جو خود مرحوم نائینی کے شاگرد ہیں وہ فرماتے ہیں: اگر یہ اشکال تواتر اجمالی پر وارد ہو تو تواتر لفظی اور معنوی پر بھی وارد ہے؛ کیونکہ ان دونوں میں بھی اگر روایات کو علیحدہ علیحدہ دیکھا جائے تو جھوٹ ہونے کا احتمال زیادہ پایا جاتا ہے۔[13]

حوالہ جات

  1. مظفر، المنطق، ۱۴۲۴ق، ص۳۳۳۔
  2. ملاحظہ کریں: طوسی، العدہ، ۱۴۱۷ق، ص۷؛ مظفر،المنطق،۱۴۲۴ق، ص۳۳۳؛‌ صدر، دروس فی علم الاصول، ۱۴۱۸ق، ج، ص۲۷۰
  3. صافی، بیان الاصول،‌ ۱۴۲۸ق، ج۲،‌ ص۱۵۲۔
  4. نراقی، انیس‌المجتہدین، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۱۹۷
  5. صافی، بیان‌الاصول، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص۱۵۴
  6. ملکی اصفہانی، فرہنگ اصطلاحات اصول، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۳۰۹۔
  7. مروج، منتہی الدرایہ، ۱۴۱۵ق،‌ ج۴، ص۴۲۳۔
  8. طوسی، العدہ، ۱۴۱۷ق، ص۷۔
  9. ولایی،‌ فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔
  10. ولایی،‌ فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔
  11. حسینی حائری،‌ مباحث‌الاصول، ۱۴۰۸۷ق،‌ ج۲، ص۴۸۲ تا۴۸۴
  12. خوئی، اجود التقریرات،‌ ۱۳۵۲ش، ج۲، ص۱۱۳۔
  13. حسینی حائری،‌ مباحث الاصول، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۸۳۔

مآخذ

  • مظفر، محمدرضا،‌ المنطق، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی،‌ ۱۴۲۴ق۔
  • طوسی،‌ محمد‌بن‌حسن، العدۃ فی اصول الفقہ، قم، ۱۴۱۷ق۔
  • صدر، محمدباقر، دروس فی علم‌الاصول، قم، موسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۱۸ق۔
  • صافی، لطف‌اللہ، بیان‌الاصول، دایرۃالتوجیہ و الارشاد الدینی فی مکتب المرجع الدینی آیہ اللہ العظمی الشیخ لطف اللہ الصافی الگلپایگانی(دام ظلہ)، قم، ۱۴۲۸ق۔
  • نراقی، محمدمہدی بن ابی‌ذر، انیس‌المجتہدین فی علم الاصول، قم، موسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۸ش۔
  • ملکی اصفہانی،‌ مجتبی، فرہنگ اصطلاحات اصول، قم، عالمہ، ۱۳۷۹ش۔
  • آخوند خراسانی، محمدکاظم‌بن‌حسین، کفایۃ‌ الاصول، قم، مؤسسۃ آل‌البیت، ۱۴۰۹ق۔
  • ولایی، عیسی،‌ فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، تہران، نشر نی، ۱۳۸۷ش۔
  • جزایری، محمدجعفر، منتہی‌ الدرایہ فی توضیح الکفایہ، قم، موسسہ دارالکتاب، ۱۴۱۵ق۔
  • حسینی حائری، سیدکاظم و سیدمحمدباقر صدر، مباحث الاصول، قم، مطبعۃ مرکز النشر و مکتب الِاعلام الإسلامی، ۱۴۰۸ق۔
  • خویی، سیدابوالقاسم و محمدحسین نائینی، اجودالتقریرات، قم، عرفان، ۱۳۵۲ش۔