صحیحین
صَحیحَیْن سے مراد دو حدیثی کتابیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں جنہیں اہل سنت معتبر ترین حدیثی کتب مانتے ہیں۔ علمائے اہل سنت ان دونوں کتابوں کو قرآن کے بعد صحیح ترین کتابیں سمجھتے ہیں۔ اہل سنت کی دیگر چار حدیثی کتب بشمول صحیح بخاری اور صحیح مسلم، صحاح ستہ (چھے صحیح اور معتبر کتابیں) کہلاتی ہیں۔ اگرچہ صحیحین میں اہل بیتؑ کے فضائل پر مشتمل قلیل تعداد میں احادیث موجود ہیں لیکن شیعہ ان دونوں کتابوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔
1: احادیث کی ایک قابل توجہ تعداد غیر معتبر راویوں اور اہل بیتؑ کے دشمنوں سے نقل کی گئی ہیں۔ 2: اہل بیت کے فضائل پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ 3: اہل بیت سے بہت کم احادیث نقل کی گئی ہیں۔ 4: بعض ایسی احادیث کو نقل کیا گیا ہے جو عقلی اور دینی معیارات سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔
اصطلاحات سے آشنائی
«صحیح» ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جس کے مؤلف نے ان احادیث کو نقل کیا ہو جو اس کی نظر میں سند کے اعتبار سے صحیح اور معتبر ہوں[1] اہل سنت کی دو حدیثی کتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم «صحیحین» کہلاتی ہیں۔ علمائے اہل سنت ان دونوں کتابوں کو سب سے زیادہ معتبر کتب حدیثی سجھتے ہیں،[2] صحیحین اور احادیث کے دیگر چار مجموعوں کو صحاح ستہ (چھے صحیح کتابیں) کہتے ہیں۔[3]
«صحیحین» کا لفظ اس کتاب پر بھی اطلاق آتا ہے جس میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں کو جمع کیا گیا ہو۔ جیسے کتاب جمعٌ بَینَ الصَّحیحَین جسے فَرّاء بَغَوی نے تالیف کی ہے۔ [4]
صحیح بخاری
صحیح بخاری اہل سنت کے معروف محدث، محمد بن اسماعیل بخاری (194- 256ھ) کی تالیف ہے۔ ایک قلیل تعداد کے علاوہ تمام علمائے اہل سنت صحیح بخاری کو قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ قابل اعتماد حدیثی کتاب مانتے ہیں۔ [5]
اس کتاب میں احادیث کی تعداد 7000 سے 9200 بتائی جاتی ہے البتہ احادیث کا ایک بڑا حصہ تکراری ہے۔ [6] خود بخاری سے منقول ہے کہ انہوں نے 600000 (چھے لاکھ) احادیث میں سے منتخب احادیث کو صحیح بخاری میں نقل کیا ہے۔ [7]
صحیح مسلم
کتاب صحیح مسلم، اہل سنت کے یہاں مشہور محدث مسلم بن حَجّاج نیشاپوری (204-261ھ) کی تالیف ہے۔ اس حدیثی کتاب کو علمائے اہل سنت صحیح بخاری کے بعد سب سے زیادہ قابل اعتماد کتاب سمجھتے ہیں۔ اہل سنت کے بعض علما کے مطابق صحیح مسلم، صحیح بخاری سے زیادہ معتبر حدیثی کتاب ہے۔ [8]
صحیح مسلم میں 7275 احادیث نبوی درج ہیں البتہ اگر تکراری احادیث کو نکال دیا جائے تو باقی احادیث کی تعداد تقریبا چار ہزار بنتی ہے۔ [9]
صحیحین میں اہل بیتؑ
صحیحین میں حضرت امام علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت امام حسنؑ، حضرت امام حسینؑ، حضرت امام سجادؑ اور حضرت حضرت مہدی(عج) کے فضائل پر مشتمل احادیث موجود ہیں۔ [10]
صحیح بخاری میں حضرت امام علیؑ کی فضیلت سے متعلق تکراری احادیث کے بغیر صرف دو یا تین احادیث روایت کی گئی ہیں[11]اور حضرت فاطمہؑ کی فضیلت میں صرف چار روایتیں بیان کی گئی ہیں۔ [12] حدیث منزلت،[13] حدیث رایت، حدیث بضعہ («فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے»)[14] اور حدیث «فاطمہ بہشتی عورتوں کی سردار ہیں»[15] صحیح بخاری میں درج احادیث ہیں[16] صحیح مسلم میں حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کی فضیلت سے متعلق صرف تین تین احادیث نقل کی گئی ہیں؛[17] حدیث منزلت،[18] حدیث رایت اور حدیث «فاطمہ بہشتی عورتوں کی سردار ہیں».[19]
صحیحین پر شیعوں کی تنقیدی نظر
شیعوں کی جانب سے صحیحین پر کی جانے والی کچھ تنقید اس طرح سے ہیں:
- صحیحین میں منقول احادیث کے بعض راوی جھوٹے، ناقابل اعتبار اور منحرف تھے۔ جیسے ابوہُرَیرہ، ابوموسی اشعری اور عمروعاص۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو امام علیؑ کے ساتھ دشمنی بھی کرتے تھے اور صحیحین میں مندرج احادیث ہی کی بنیاد پر امام علیؑ سے دشمنی کرنا بے ایمانی کی علامت ہے اور عدم ایمان، راوی کی وثاقت اور اعتبارکو ختم کردیتا ہے۔ [20]
- صحیحین کے مؤلفین بخاری اور مسلم نے مذہبی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے باقی تمام مسلمانوں اور صحاح ستہ کی دوسری کتب میں موجود متفق علیہ احادیث کو محض اس لیے نقل نہیں کیا ہے کہ ان میں حضرت علیؑ کی فضیلت اور باقی تین خلفاء پر آپؑ کی برتری ثابت ہوتی ہے۔ صحیحین میں حدیث غدیر، آیہ تطہیر سے متعلق حدیث، حدیث سد الابواب اور حدیث انا مدینۃ العلم و علی بابہا» کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا [21]
حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین (تکملہ صحیح بخاری و صحیح مسلم) میں حضرت علیؑ اور اہلبیت کرامؑ کی فضیلت سے متعلق 260 احادیث نقل کی ہیں لیکن صحیحین میں حدیث سے متعلق شرائط پوری ہونے کے باوجود ان کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ [22]
- صحیحین میں 2400 سے زائد راویوں کی روایات نقل ہوئی ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد دشمن اہل بیتؑ تھی یا مجہول الحال۔ اس بڑی تعداد سے اہل بیٹؑ سے متعلق کوئی خاص تعداد میں احادیث نقل نہیں ہوئی ہیں۔ [23]
- صحیحین میں کچھ ایسی احادیث بھی پائی جاتی ہیں جو عقلی اور دینی معیارات سے متصادم ہیں۔ جیسے کہ بعض احادیث کا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے![24]
مربوط مطالب
حوالہ جات
- ↑ رجوع کیجیے: ابنحجر عسقلانی، فتحالباری، 1424ھ، ج1، ص7۔
- ↑ ابنحجر عسقلانی، فتحالباری، 1424ھ، ج1، ص8.
- ↑ رجوع کیجیے: مدیر شانہ چی، علمالحدیث، 1381 شمسی، ص53۔
- ↑ مدیر شانہ چی، علمالحدیث، 1381شمسی، ص69۔
- ↑ ابنحجر عسقلانی، فتحالباری،1424ھ، ج1، ص8۔
- ↑ مدیر شانہ چی، علمالحدیث، 1381شمسی، ص63-66۔
- ↑ ابنحجر عسقلانی، فتحالباری، 1424ھ، ج1، ص7.
- ↑ ابنحجر عسقلانی، فتحالباری، 1424ھ، ج1، ص8.
- ↑ مدیر شانہہ چی، علمالحدیث، 1381شمسی، ص67-68۔
- ↑ زہراب، فضایل اہلبیت علیہمالسلام در صحاح ستہ اہل تسنن، 1391شمسی، ص232-251۔
- ↑ زہراب، فضایل اہلبیت علیہمالسلام در صحاح ستہ اہل تسنن، 1391شمسی، ص233۔
- ↑ زہراب، فضائل اہلبیت علیہمالسلام در صحاح ستہ اہل تسنن، 1391شمسی، ص237۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری،1422ھ، ج5، 19، حدیث3706.
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج5، ص29، حدیث3767۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج5، ص29، ح3767۔
- ↑ زہراب، فضایل اہلبیت علیہمالسلام در صحاح ستہ اہل تسنن، 1391شمسی، ص232-239
- ↑ زہراب، فضایل اہلبیت علیہمالسلام در صحاح ستہ اہل تسنن، 1391شمسی، ص246-247۔
- ↑ نیشاپوری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج4، ص1870، ح2404۔
- ↑ زہراب، فضایل اہلبیت علیہمالسلام در صحاح ستہ اہل تسنن، 1391شمسی، ص245-247۔
- ↑ نجمی، سیری در صحیحین، نشر المہدی، ص99-107۔
- ↑ نجمی، سیری در صحیحین، نشر المہدی، ص112-113.
- ↑ مسعودی، «المستدرک علی الصحیحین» حوزہ کی معلوماتی ویب سائٹ.
- ↑ نجمی، سیری در صحیحین، نشر المہدی، ص۱۱۸.
- ↑ نجمی، سیری در صحیحین، نشر المہدی، ص145-146۔
مآخذ
- ابنحجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 2004ء.
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، دار طوق النجاة، 1422ھ۔
- زہراب (فاضلی)، علی، فضایل اہلبیت علیہمالسلام در صحاح ستہ، قم، مجمع جہانی شیعہشناسی، چاپ اول،1391شمسی۔
- مدیرشانہچی، کاظم، علم الحدیث، قم، دفتر انتشارات اسلامی،1381شمسی۔
- مسعودی، جواد، «المستدرک علی الصحیحین» پایگاہ اطلاعرسانی حوزہ، درج مطلب 19 آذر 1388شمسی، مشاہدہ: 5تیر1401شمسی۔
- نجمی، محمدصادق، سیری در صحیحین، قم نشر المہدی، بیتا.
- نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا.