تولی

فاقد تصویر
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر سلیس
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(تولّا سے رجوع مکرر)

لفظ تولّیٰ یا (تولّا) ایک کلامی اصطلاح ہے۔ لفظ تولی تبری کا متضاد ہے۔ مذہب شیعہ کی اصطلاح میں لفظ "تولی" کے معنی پیشوایان دین، اہل بیت رسولؐ کی دوستی اور ان کی ولایت تسلیم کرنے کے ہیں۔

تولی تبری کے ہمراہ، جس کے مفہوم اس کے متضاد مخالف ہے:

  • واجب ہے؛[1]
  • اہم ترین واجبات میں سے ہے؛[2]
  • ایمان کو عملی صورت دینے والا عمل اور ایمان کا اہم ترین رکن؛[3] [4]
  • اور ان امور میں سے ہے جو محتضر (جانکنی کی حالت میں جانے والے انسان) اور میت کو تلقین کئے جاتے ہیں۔[5]

شیعہ تعلیمات میں "‌تولی‌" اور "‌تبری‌" نیک اعمال کی قبولیت کی بنیادی شرط ہے اور ان دو کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی بھی عمل مقبول نہیں ہے؛ اس سلسلے میں اسلامی متون میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔

زیارت عاشورا سمیت دیگر زیارتناموں میں خدا کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی کے لئے ایک اساس نامہ اور منشور درج کیا گیا ہے۔

تولی کے معنی کیا ہیں

تولی بر وزن "ترقی" باب تَفَعُّل کا مصدر اور مادہ "‌و ل ی" سے مشتق ہے۔ تولی کے معنی ولایت قبول کرنے اور کسی کو ولی قرار دینے کے ہیں۔ "ولی" عربی میں دوست، مددگار اور سرپرست کے معنی میں آیا ہے۔ چنانچہ "تولی" کے معنی ایک طرف سے اگر کسی کی دوستی قبول کرنے ‌کے ہیں تو دوسری طرف سے اس سے مراد کسی کو سرپرست کے عنوان سے تسلیم کرنا ہے۔

شیعہ تعلیمات کے مطابق تولی کے معنی کسی سے محبت کرنے اور کسی سے دوستی کرنے، اور خداع پیغمبرؐ اور ائمہؑ کی ولایت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور ان کی ولایت کی تصدیق و پیروی کرنے کے ہیں اور درحقیقت اس سے مراد خدا کی راہ میں دوستی کرنا ہے۔ یہ لفظ عام طور یہ لفظ تبری کے ساتھ آتا ہے جس کے معنی خدا کی راہ میں دشمنی کرنے کے ہیں۔

تولی اور تبری فروع دین کا جزو ہیں اور فقہی لحاظ سے واجب ہیں۔

تولی قرآن و حدیث کی روشنی میں

قرآن کی روشنی میں

رسول اللہؐ اور اہل بیتؑ کی محبت و دوستی نیز مؤمنین کی باہم محبت و دوستی ان مفاہیم میں سے ہے جن پر قرآن مجید میں تاکید ہوئی ہے اور یہاں نمونے کے طور پر بعض آیات کریمہ کا حوالہ دیا جاتا ہے:

  • اہل بیتؑ کی دوستی اجر رسالت کے طور پر متعارف ہوئی ہے:
"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىۗ...
ترجمہ: کہئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے"۔[6]
"إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
ترجمہ: تمہارا حاکم و سر پرست بس اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکٰوۃ (و خیرات) دیتے ہیں"۔[7]
  • نیز قرآن کریم کی دوسری آیتوں میں مؤمنین کو غیر مؤمنوں کے ساتھ دوستی سے باز رکھا گیا ہے:
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْماً غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ "۔
ترجمہ: اے ایمان لانے والو! تعاون نہ کرو اس جماعت سے جن پر اللہ غضبناک ہے جو آخرت سے یوں ناامید ہیں جیسے کافر لوگ قبروں میں گڑے ہوئے مردوں سے"۔[8]
"وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً لِّلّهِ...
ترجمہ: "اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا اس کے بہت سے ہمسر قرار دیتے ہیں۔ اور ان سے اللہ کی سی محبت کرتے ہیں، مگر جو صاحب ایمان ہیں وہ اللہ کی محبت کہیں بڑھ کر رکھتے ہیں"۔[9]
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ آبَاءكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاء إَنِ اسْتَحَبُّواْ الْكُفْرَ عَلَى الإِيمَانِ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ"۔
ترجمہ: "اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا اس کے بہت سے ہمسر قرار دیتے ہیں۔ اور ان سے اللہ کی سی محبت کرتے ہیں، مگر جو صاحب ایمان ہیں وہ اللہ کی محبت کہیں بڑھ کر رکھتے ہیں"۔[10]

احادیث کی روشنی میں

بہت سی احادیث میں ائمۂ اہل بیتؑ اور بطور خاص حضرت علیؑ کی محبت واجب قرار دی گئی ہے۔

سید ہاشم بحرانی نے 95 حدیثیں اہل سنت کے منابع سے[11] اور 52 حدیثیں شیعہ منابع سے[12] علیؑ اور دوسرے ائمہؑ کے محبین اور پیروکاروں کی شان و فضیلت میں نقل کی ہیں۔

ایک حدیث

"قَالَ كُمَيْلُ بْنُ زِيَادٍ سَأَلْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام عَنْ قَوَاعِدِ الْإِسْلَامِ مَا هِيَ فَقَالَ قَوَاعِدُ الْإِسْلَامِ سَبْعَةٌ فَأَوَّلُهَا الْعَقْلُ وَعَلَيْهِ بُنِيَ الصَّبْرُ وَالثَّانِي صَوْنُ الْعِرْضِ وَصِدْقُ اللَّهْجَةِ وَالثَّالِثَةُ تِلَاوَةُ الْقُرْآنِ عَلَى جِهَتِهِ وَالرَّابِعَةُ الْحُبُ‏ فِي‏ اللَّهِ‏ وَالْبُغْضُ فِي اللهِ وَالخامِسَةُ حَقُّ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَآلِهّ وَمَعرِفَةُ وِلایَتِهِم..."
ترجمہ: کمیل بن زیاد کہتے ہیں: میں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام سے اسلام کے ستونوں کے بارے ميں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اسلام کے ستون سات ہیں؛ 1۔ عقل و دانشمندی جو صبر کی بنیاد ہے، 2۔ عزت و آبرو کا تحفظ اور سچائی 3۔ قرآن کی بجا اور (اس کے معانی و مفاہیم کی طرف) توجہ کے ساتھ، تلاوت، 4۔ خدا کی رہ میں محبت اور دوستى اور خدا کی راہ میں بغض و دشمنی۔ 5۔ خاندان محمدؐ کے حق و ولایت کی معرفت حاصل کرنا..."۔[13]

فضل بن روزبہان کہتے ہیں: اہل سنت کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ رسول اللہؐ اور اہل بیت نبیؐ کا تولّا واجب اور ان کے دشمنوں سے تبرا ہر مؤمن پر واجب ہے اور جو انہیں اپنے امور میں صاحب تصرف نہ مانے اور ان کے دشمنوں سے تبرا [اور بیزاری کا اظہار] نہ کرے، وہ مؤمن نہیں ہے۔[14]

امام رضا علیہ‌السلام نے بھی فرمایا ہے:

"‌كمالُ الدّينِ وَلايتُنا وَالبَراءَةُ مِن عَدُوِّنا"
ترجمہ: ‌دینا کا عروج و کمال ہماری ولایت اور ہمارے دشمن سے اعلان بیزاری ہے۔[15]

احادیث میں محبت اور اہل بیت کے تولیٰ پر دنیا اور آخرت کی سعادت جیسے آثار مرتب ہوتے ہیں۔[16] نیز احادیث میں ائمہؑ کی محبت کے دنیاوی اور اخروی آثار بیان ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ دنیا میں اس کے آثار و ثمرات میں زہد، اعمال صالحہ کا اشتیاق، دین میں ورع (اور گناہوں سے دوری)، عبادت کی طرف رغبت و رجحان، موت سے قبل توبہ، شب بیداری میں نشاط و سرور، سخاوت، اور امر و نہی کا تحفظ شامل ہیں[17] اور آخرت میں بھی محب اہل بیت جہنم کی آگ سے محفوظ ہوگا، اس کے چہرے کی رنگت سفید ہوگی، اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور بغیر حساب و کتاب کے، بہشت میں داخل ہوگا۔[18]

تولّی کا فلسفہ

جو انسان اپنی زندگی میں ایک خاص تفکر اور عقیدہ رکھتا ہے اور اپنے لئے ایک خاص مسلک اور راستے کا تعین کرچکا ہے، وہ بہر صورت اپنی زندگی میں ایک خاص سمت پر حرکت کرتا ہے اور صاحب موقف ہے؛ یعنی لاتعلق یا غیرجانبدار نہیں ہے۔ ایسا انسان طبیعی طور پر تمام موافق و مخالف افراد کے ساتھ ایک صف میں کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اسی بنا پر ہی قرآن کریم نے غیر مؤمنوں کے ساتھ دوستی اور محبت سے باز رکھا ہے۔

شہید مطہری نے اس سلسلے میں کہا ہے: [19]

"مؤمن انسان کو جاذبہ اور دافعہ (کشش اور مدافعت) کی قوت سے لیس ہونا چاہئے اور اس کی اپنی حدود اور سرحدیں ہونی چاہئیں تاکہ وہ اہل ایمان اور اہل کفر و نفاق کی نسبت اس کا موقف واضح کرے۔ اس کو مؤمنین اور حق و حقیقت کا عناد نہ رکھنے والے مؤمنوں کی نسبت جاذبہ اور ان کے علاوہ دوسروں کی نسبت دافعہ، کو بروئے کار لانا چاہئے"۔
تولی اور تبری مؤمنوں اور غیر مؤمنوں کی نسبت اپنا موقف واضح کرنا اور اس صف بندی میں موقف کا اعلان کرنا ہے۔ تولی اور تبری کے معنی ایک با ایمان بامقصد، زندہ اور متحرک انسان کی طرف سے حق و باطل کے سامنے لاتعلق نہ ہونے اور ان دونوں کی نسبت یکسان موقف نہ اپنانے، کے ہیں۔
ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان مؤمن ہو اور خدا پر ایمان رکھتا ہو اور الہی و دینی اصولوں کا پابند ہو لیکن اس کا کوئی موقف اور کوئی سمت و جہت نہ ہو اور دوسروں کو اپنی اعتقادی صورت و مقام سے آگاہ نہ کرے اور تمام انسانوں کے ساتھ یکسان اور مشابہ روش و رویہ اور سلوک و برتاؤ اپنائے۔ تولی و تبری کا ایک فلسفہ جادہ زمان پر سے گذرتے ہوئے حق کے معیاروں اور پیمانوں کے مطابق اپنی اعتقادی سمت اور موقف کی تصحیح و اصلاح اور حق و حقیقت کے راستے سے عدم انحراف ہے۔
مؤمن اور خدا پرست انسان تولی اور تبری کے ذریعے اپنے آپ کو ہمیشہ راہ حق اور صراط مستقیم کے وسط میں قائم و دائم اور کجیوں اور انحرافات سے محفوظ رکھتا ہے۔ تولی اور تبری مؤمن انسان کے اعتقادی اور اس کے یقین اور ذمہ داریوں کی یادآوری اور اس کے محکم، گہرے ایمان کی نشانی ہے۔

تولی اور تبری کا ساتھ

تولی کے فلسفے اور غایت و مقصد کے پیش نظر، یہ مفہوم ہمیشہ تبری کے ہمراہ ہے اور اس کے بغیر مؤثر نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر ہر راہ و روش پر گامزن ہونے کا لازمہ بےراہرویوں اور گمراہیوں و انحرافات سے روگردانی، ہے؛ پس یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان صلحِ کل ہو اور سب سے دوستی کرے۔

اس بات پر احادیث و روایات میں بھی زور دیا گیا کہ نجات پانے کے لئے نہ صرف ائمہ کی دوستی اور محبت لازم و ضروری ہے بلکہ ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان اور دوری اختیار کرنا بھی لازم و ضروری ہے۔

شیعہ عقائد میں تولی کا مرتبہ

تولی محبت اہل بیت اور ان کو دوست رکھنے کا نتیجہ، نیز ایک شعبہ اور شاخ ہے۔ جو بجائے خود شیعہ تعلیمات کے کلیدی مفاہیم میں شامل ہے۔ شیعہ فقہ اور شیعہ کلام میں تولی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ شیعہ تعلیمات میں تولی اور تبری اعمال صالحہ کی قبولیت کی بنیادی شرط ہے؛ اور ان دو کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی بھی عمل بھی مقبول واقع نہيں ہوتا؛ گویا کہ انسان نے کوئی بھی عمل صالح انجام نہیں دیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی متون میں کثیر روایات و احادیث نقل ہوئی ہیں۔

شیعہ فقہ میں تولی، تبری کے ہمراہ، فروع دین کا جزو اور فقہی واجبات میں سے ایک ہے۔[20] اور دنیا سے رخصت ہونے والوں کو حالت وفات میں بھی اور موت کے بعد بھی تولی اور تبری کی تلقین دی جاتی ہے۔[21] جو اس دینی مفہوم کی اہمیت کی علامت ہے۔

علم اخلاق میں بھی تولی اور تبری اور ان کے آداب کا جائزہ لیا گیا ہے۔

خواجہ نصیر الدین طوسی نے اخلاق محتشمی میں ایک باب کو حب و بغض اور تولی و تبری کے لئے مختص کردیا ہے اور آیات کریمہ، احادیث شریفہ اور حکماء و فلاسفہ کے اقوال نقل کئے ہیں۔ علاوہ ازیں رسالہ در تولا و تبرا کے عنوان سے ایک مستقل رسالہ بھی ان سے منسوب ہے (جو اخلاق محتشمی کے ہمراہ شائع ہوا ہے) اور اس میں انھوں نے فلسفی نقطہ نظر سے موضوع کا جائزہ لیا ہے اور بالآخر حصول ایمان کو تولی اور تبری سے مشروط و مرتبط کردیا ہے۔

خواجہ نصیر الدین طوسی نے اس کتاب میں تولی اور تبری کا یوں تجزیہ کیا ہے: "ہرگاہ بہیمی (حیوانی) نفس، "نفس ناطقہ" کے فرمان کے تحت آتا ہے شہوت اور غضب کی دو قوتیں نرم تر ہوجاتی ہیں اور شوق و إعراض میں تبدیل ہوتی ہیں اور جب نفس ناطقہ عقل کی فرمانبرداری اختیار کرے، شوق و اعراض میں مزید لطافت اور نرمی حاصل ہوتی ہے اور عقیدت و کراہیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور بالآخر جب عقل حاکم و سالار حقیقت کے زیر فرمان آتی ہے عقیدت و کراہیت تولی اور تبری میں تبدیل ہوتی ہے۔[22] انھوں نے تولی اور تبری کا کمال اور عروج یہ ہے کہ ان کے چاروں عناصر ـ یعنی معرفت، محبت، ہجرت اور جہاد کو عملی جامہ پہنایا جائے[23] تاہم ان کی رائے ہے کہ دینداری کے عروج کا رتبہ اس سے بالاتر ہے اور وہ رتبہ رضا اور تسلیم ہے اور یہ رتبہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب تولی اور تبری دونوں ایک ہوجائیں؛ یعنی تبری تولی میں مستغرق ہوجائے۔[24] بالآخر خواجہ نصیر کے نزدیک، ایمان اس وقت حاصل ہوتا ہے جب تولی، تبری، رضا اور تسلیم سب ایک انسان کے اندر یکجا اور متحقق ہوجائیں۔ اور اس صورت میں اس پر مؤمن کا نام رکھا جاسکتا ہے۔[25]

تولی کے مصادیق

اللہ کے دوستوں سے محبت کے مختلف درجات و مراتب ہیں اور ظاہر ہے کہ محبتِ تامہ و کاملہ اطاعت و پیروی کو بھی ساتھ لاتی ہے۔

شیخ یوسف بحرانی رقمطراز ہیں:
شیعہ احادیث کی تاکید سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اہل بیت کی محبت سے مراد یہ ہے کہ ان کی امامت کو تسلیم کیا جائے اور ان کے لئے اس رتبے اور درجے کا قائل ہوا جائے جو ان کے لئے مقرر ہے؛ چنانچہ اس سلسلے میں دوسروں کو ان پر مقدم رکھنا در حقیقت ان کی محبت کے دائرے سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔[26]

بنیادی طور پر ہمہ جہت اور سچی محبت کا لازمہ یہ ہے کہ جس سے محبت کی جاتی ہے اس سے اتفاق کیا جائے، اس کی تصدیق کی جائے اور اس کی پیروی اختیار کی جائے۔[27] لہذا وہ محبت جو ان کی تولی ـ یعنی ائمہ کی ولایت قبول کرنے اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر منتج نہ ہو اور وہ تبرا جس کا نتیجہ ان کے مخالفین سے نظری اور عملی بیزاری کی صورت میں برآمد نہ ہو، وہ اصولی طور محبت محسوب نہ ہوگی۔ جیسا کہ ایک حدیث کے ضمن میں ولایت اہل بیت کا کمال و عروج ان سے مخلصانہ محبت ان کے قریب اور دور کے دشمنوں سے برائت و بیزاری کے بغیر حاصل نہيں ہوتا۔[28]

چنانچہ، حب و بغض اور ولایت و برائت ـ جن پر روایات میں مکرر در مکرر تاکید ہوئی ہے ـ کو ائمہؑ سے تولی و محبت اور ان کی ولایت و سرپرستی تسلیم کرنے اور تمام تر امور میں ان کی مرجعیت قبول کرنے کے مترادف سمجھنا چاہئے۔ اسی بنیاد پر، ائمۂ اثنیٰ عشر علیہم السلام کی امامت کی تصدیق کو ـ جس کا لازمہ ان کی عصمت اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب سے ان کے منصوص ہونے، اور دنیا اور آخرت کے امور کی مصلحتوں پر ان کے علم پر اعتقاد اور نتیجتاً ان کے اوامر و نواہی کی اطاعت کے وجوب، کا عقیدہ ہے ـ نہ صرف ایمان کی تشکیل کی ضرورت بلکہ مذہب امامیہ کی ضروریا میں سے قرار دیا گیا ہے۔[29]

اسی بنا پر ولایت اور ـ معمول کے مطابق ـ اس کو تسلیم کرنا، نماز، زکوٰۃ، حج، اور روزہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ، اسلام کے ارکان اور ستونوں میں سے [اور فروع دین کا جزء ترکیبی] ہے؛ حتی کہ ان ارکان میں اہم ترین رکن ہے۔[30] نیز تولی کو تبری کے ہمراہ، جزءِ تقویمی (Righting Part) کے طور پر ـ ائمہؑ کی جانب سے دین صحیح و ایمان صحیح کے اظہار کے سلسلے میں صادر ہونے والے تمام انشائات و تائیدات کے تمام صیغوں میں ـ مورد تاکید قرار دیا گیا ہے۔۔[31]

بطور خلاصہ، تولی کا مفہوم کے مختلف مراتب و مصادیق ہیں، جیسے:

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

"إذا أردت أن تعلم أن فيك خيرا فانظر إلى قلبك، فإن كان يحب أهل طاعة الله ويبغض أهل معصيته ففيك خير والله يحبك وإن كان يبغض أهل طاعة الله ويحب أهل معصيته فليس فيك خير والله يبغضك، والمرء مع من أحب"۔
اگر جاننا چاہو کہ تم اچھے انسان ہو [یا نہیں تو] اپنے قلب پر ایک نگاہ ڈالو اور دیکھو کہ اگر تمہارا دل محبت کرتا ہو ان لوگوں سے جو اللہ کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور اللہ کے نافرمانوں سے بيزار ہو اور انہیں دشمن سمجھتا ہو تو جان لو کہ تم اچھے انسان ہو اور اللہ بھی تم سے محبت کرتا ہے اور اگر تم اہل اطاعت کو دشمن رکھتے ہو اور اور اس کے دشمنوں سے محبت کرتے ہو تو جان لو کہ تمہارے اندر کچھ بھی نہیں ہے اور خدا بھی تمہیں دشمن رکھتا ہے؛ اور انسان ہمیشہ اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔[32]

زیارت عاشورا میں تولی اور تبری

زیارت عاشورا کو شیعہ عقائد میں تولی اور تبری کے اظہار کا نمایاں ترین نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس زیارت مین اہل بیت کی دوستی اور ان کی ولایت کو تسلیم کرنے نیز دشمنان اہل بیت کی محبت کو رد کرنے کے سلسلے میں بعض اقتباسات مذکور ہیں۔ زیارت عاشورا میں تولی کے بارے میں آنے والے بعض اقتباسات کچھ یوں ہیں:

  • "يا اَبا عَبْدِ اللَّهِ، اِنّى سِلْمٌ لِمَنْ سالَمَكُمْ، وَحَرْبٌ لِمَنْ حارَبَكُمْ اِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ"۔
    ترجمہ: اے ابا عبداللہ! بےشک میں قیامت کے دن تک آپ کے دوستوں اور آپ سے محبت کرنے والوں کا دوست اور آپ کے دشمنوں اور آپ کے خلاف لڑنے والوں کا دشمن ہوں۔
  • "يا اَبا عَبْدِاللَّهِ اِنّى اَتَقَرَّبُ اِلى اللَّهِ وَاِلى رَسُولِهِ، وَاِلى اميرِالْمُؤْمِنينَ، وَ اِلى فاطِمَةَ وَاِلَى الْحَسَنِ، وَاِلَيْكَ بِمُوالاتِكَ، وَبِالْبَرآئَةِ مِمَّنْ قاتَلَكَ وَنَصَبَ لَكَ الْحَرْبَ"۔
    ترجمہ: اے ابا عبداللہ! آپ کی دوستی اور آپ کے خلاف لڑنے والوں اور آپ پر جنگ مسلط کرنے والے دشمنوں سے بیزاری کے وسیلے سے خداوند متعال، رسول خداؐ، امیرالمؤمنین علیہ السلام، حضرت فاطمہ(س) امام حسنؑ اور آپ کی قربت طلب کرتا ہوں۔

حوالہ جات

  1. نوری، مستدرک الوسائل الشیعة، ج16، ص176
  2. أَفْضَلَ الْأَعْمَالِ الْحُبُ‏ فِي‏ اللَّهِ‏ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ؛ (ترجمہ: بہترین عمل اللہ کی راہ میں محبت اور اللہ کی راہ میں دشمنی ہے۔. مشکاة الانوار فی غررالاخبار، ص125۔
  3. محاسن برقی ج1 ص165: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله عليه وآله: إِنَّ أَوْثَقَ عُرَى الْإِيمَانِ الْحُبُ‏ فِي‏ اللَّهِ‏ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ تَوَالِي وَلِيِّ اللَّهِ وَتَعَادِي عَدُوِّ اللَّهِ۔ (ترجمہ: رسول خداؐ نے فرمایا: ایمان کا قابل اعتماد ترین دَستَہ {يا مُٹھّيا) االلہ کی راہ میں دوستی اور اللہ کی راہ میں دشمنی ہے؛ [کہ] اللہ کے دوستوں سے دوستی کرو اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی کرو۔
  4. الحدائق الناضرة ج18، ص423
  5. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، ج2، ص251۔
  6. سورہ شوری آیت 23۔
  7. سورہ مائدہ آیت 55۔
  8. سورہ ممتحنہ آیت 13۔
  9. سورہ بقرہ آیت 165۔
  10. سورہ توبہ آیت 23۔
  11. بحرانی، غایة المرام، ج6، ص46ـ71
  12. بحرانی، غایة المرام، ج6، ص72ـ91
  13. تحف العقول ص196
  14. فضل اللّه بن روزبهان، وسیلة الخادم الی المخدوم، ص300
  15. مجلسی، بحار الانوار، ج27 ص58۔
  16. مجلسی، بحار الانوار، ج27، ص74ـ75، 78۔
  17. رجوع کریں: مجلسی، بحار الانوار، ج27، ص78۔
  18. رجوع کریں: مجلسی، بحار الانوار، ج27، ص78ـ79، نیز رجوع کریں: ج26، ص158۔
  19. مطهری، جاذبه و دافعه علیؑ، ص145
  20. حر عاملی، وسائل الشیعة، ط آل البیت (30 جلدی) ج16، ص176۔
  21. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، ج2، ص251۔
  22. خواجه نصیر، اخلاق محتشمی، ص563
  23. خواجه نصیر، وہی ماخذ، ص 565۔
  24. خواجه نصیر،وہی ماخذ، ص566۔
  25. خواجه نصیر، وہی ماخذ، ص567
  26. بحرانی، الشهاب الثاقب فی بیان معنی الناصب، ص144
  27. بهبهانی، مصباح الهدایة فی اثبات الولایة، صص298ـ299.
  28. مجلسی، بحار الانوار، ج27، ص58 ـ 59
  29. شهید ثانی، ص404ـ 405۔
  30. برقی، کتاب المحاسن، ج1، ص286
  31. بعنوان نمونہ رجوع کریں: مجلسی، بحارالانوار، ج66، ص2، 4ـ5، 14
  32. کلینی، الکافی، ج2، ص127۔

مآخذ

  • قرآن
  • ابن منظور؛
  • هاشم بن سلیمان بحرانی، غایة المرام و حجة الخصام فی تعیین الامام من طریق الخاص و العام، چاپ علی عاشور، بیروت 1422 ہجری/2001 عیسوی
  • یوسف بن احمد بحرانی، الشهاب الثاقب فی بیان معنی الناصب، چاپ مهدی رجائی، قم 1377 ہجری شمسی
  • احمدبن محمد برقی، کتاب المحاسن، چاپ جلال الدین محدث ارموی، قم] 1331 ہجری شمسی
  • علی بهبهانی، مصباح الهدایة فی اثبات الولایة، اهواز 1418ہجری
  • احمدبن حسین بیهقی، شعب الایمان، چاپ محمدسعید بسیونی زغلول، بیروت 1421ہجری/ 2000 عیسوی
  • احمدبن علی بیهقی، تاج المصادر، چاپ هادی عالم زاده، تهران 1366ـ1375 ہجری شمسی
  • حسین بن محمد راغب اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، چاپ محمد سیدکیلانی، تهران] 1332 ہجری شمسی
  • حسین بن احمد زوزنی، کتاب المصادر، چاپ تقی بینش، تهران 1374 ہجری شمسی
  • زین الدین بن علی شهیدثانی، المصنفات الاربعة، رسالة 4: حقیقة الایمان، قم 1380 ہجری شمسی
  • محمدبن حسن طوسی، تلخیص الشافی، چاپ حسین بحرالعلوم، قم 1394/1974
  • محمد فؤاد عبدالباقی، المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم، قم 1380 ہجری شمسی
  • فضل اللّه بن روزبهان، وسیلة الخادم الی المخدوم: در شرح صلوات چهارده معصومؑ، چاپ رسول جعفریان، قم 1375 ہجری شمسی
  • کلینی، الکافی۔
  • مجلسی، بحار الانوار۔
  • محمدبن محمد مرتضی زبیدی، تاج العروس من جواهرالقاموس، چاپ علی شیری، بیروت 1414ہجری/1994 عیسوی
  • عمرو خلیفه نامی، دراسات عن الاباضیة، ترجمة میخائیل خوری، بیروت 2001 عیسوی
  • محمدبن محمد نصیرالدین طوسی، اخلاق محتشمی، با سه رسالة دیگر منسوب به او، چاپ محمدتقی دانش پژوه، تهران 1361 ہجری شمسی