توضیح المسائل

علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے

توضیح المسائل یا رسالہ عملیہ، اس کتاب کو کہا جاتا ہے جس میں مکلفین کو درپیش شرعی احکام لکھے جاتے ہیں۔ توضیح المسائل، مجتہد کے فتوے کے حصول کا ایک طریقہ ہے یوں اس کتاب کے ذریعے مکلف اپنے مجتہد کے فتوے پر عمل پیرا ہو کر اپنی شرعی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔

پہلی توضیح المسائل جو موجودہ شکل میں لکھی گئی وہ شیخ بہائی کی کتاب جامع عباسی ہے۔ اس کے بعد آیت اللہ بروجردی نے اپنی مرجعیت کے دوران اپنے بعض شاگردوں کی ذمہ داری لگائی کہ وہ ان کے فتوؤں پر مشتمل رسالہ عملیہ کو ایک آسان پیرائے میں مرتب کریں۔ یوں ان کی کوششوں کا ثمرہ "رسالہ توضیح المسائل" کے عنوان سے تہران سے شایع ہوا۔

آیت اللہ بروجردی کے بعد شیعہ مراجع نے ان کے طریقے کو اپنایا تاکہ ان کے مقلدین آسانی سے اپنے اپنے مراجع کے فتوے پر عمل پیرا ہو سکیں۔

رسالہ عملیہ کی تاریخ

پرانے زمانے میں رسالہ عملیہ کو موجودہ شکل میں لکھنے کا رواج نہیں تھا اور مکلفین اپنے درپیش مسائل کو یا تو علمی اور فنی کتابوں سے نہایت سختی کے ساتھ حاصل کرتے تھے یا براہ راست سوال و جواب کے ذریعے حاصل کرتے تھے۔[1]

شیخ بہائی (متوفی 1031ق) نے پہلی مرتبہ موجودہ شکل میں ایک رسالہ عملیہ جامع عباسی کے نام سے تالیف کیا اور یہ طریقہ ابھی تک رائج ہے۔ ان رسالوں میں سے بعض طہارت سے دیات تک فقہ کے تمام ابواب پر مشتمل ہیں جبکہ بعض کتابیں فقط عبادات سے مربوط مسائل پر مشتمل ہیں۔[2]

سید ابوالحسن اصفہانی (متوفی 1365ق) نے بھی فارسی زبان میں ایک رسالہ عملیہ‌ ذخیرۃ الصالحین کے نام سے تالیف کیا جو ان کی زندگی میں تین دفعہ شایع ہوا۔[3]

موجودہ دور میں فارسی زبان کا سب سے مشہور رسالہ‌ عملیہ آیت اللہ بروجردی کی مرجعیت کے دوران لکھی گئی توضیح المسائل ہے جسے علی اصغر کرباسچیان معروف بہ علامہ نے مرتب اور منتشر کیا۔

آیت اللہ بروجردی نے اپنی مرجعیت کے دوران جامع الفروع کے عنوان سے ایک رسالہ لکھا تھا جو علمی اور فنی پیچیدگیوں کی وجہ سے عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ سنہ1375ھ میں حوزہ علمیہ قم کے ایک طالب علم شیخ علی اصغر کرباسچیان جو مذکورہ رسالے کی پیچیدگیوں اور نامانوس الفاظ کے حوالے سے پڑھے لکھے اشخاص کے اعتراضات سے واقف تھے، نے یہ فیصلہ کیا کہ رسالہ عملیہ کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق آسان پیرائے میں لکھا جائے تاکہ یہ عوام الناس کیلئے بھی عام فہم ہو۔ جب انہوں نے رسالہ عملیہ کو مرتب کر کے آیت اللہ بروجردی کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے اپنے شاگردوں کی ایک ٹیم تشکیل دی اور ان کی ذمہ داری لگا دی کہ اس رسالے کا بغور مطالعہ کر کے اسے ان کے فتوے کے مطابق ترتیب دیں۔ یہ رسالہ آیت اللہ بروجردی کی زندگی میں ہی کئی بار شایع ہوا۔ اس نئے رسالے نے فارسی زبان میں رسالہ عملیہ کی تدوین میں ایک انقلاب برپا کیا جو ہر عام و خاص کی توجہ کا مرکز قرار پایا۔[4]

آیت‌ اللہ بروجردی (متوفی 1380ھ) کی رحلت کے بعد ایران اور دوسرے ملکوں میں رہنے والے تمام مراجع تقلید نے اپنے اپنے رسالوں کو اس رسالے کے طرز پر لکھنا شروع کیا۔[5] اسی طرح بہت سارے علماء اور مراجع من جملہ سید محسن حکیم، سید محمود شاہرودی، شیخ منصور دزفولی، سید ہادی میلانی وغیرہ نے اس کتاب پر حاشیہ لگایا۔[6] موجودہ دور میں بھی تمام مراجع اپنے رسالہ عملیہ کو مذکورہ رسالے کے طرز پر مرتب کرتے ہیں۔[7]

خصوصیات

  • توضیح المسائل میں فقہی مسائل میں صرف اور صرف مجتہد کا فتوا ذکر کیا جاتا ہے اور احادیث اور آیات کے بیان سے اجتناب کیا جاتا ہے اور اگر کسی جگہ کوئی آیت یا روایت ذکر بھی ہو تو اسے تبرک اور تیمن کی خاطر ذکر کیا جاتا ہے۔[8]
  • توضیح المسائل میں مجتہد کے نظریات کو ان کے اپنے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔[9]
  • اس کتاب کی تألیف کا مقصد کوئی علمی بحث کرنا نہیں ہے بلکہ درپیش مسائل میں حکم خدا کو بیان کرنا ہے تاکہ اس پر عمل کیا جائے۔[10]
  • توضیح المسائل دوسری فقہی کتابوں کی نسبت آسان اور عام فہم پیرائے میں لکھی جاتی ہے تاکہ عوام الناس کیلئے اپنے درپیش مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
  • توضیح المسائل میں اکثر و بیشتر ایسے مسائل سے بحث کی جاتی ہے جو اس زمانے میں مبتلا بہ یعنی کم و بیش سب کو پیش آتے ہوں۔
  • اپنے اپنے مرجع تقلید کے فتوے کو حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔

فقہی ابواب

ابواب عنوان ملاحظات
2 احکام تقلید احکام کی شناخت کے طریقے (اجتہاد، احتیاط اور تقلید)، اقسام و احکام تقلید، شرایط مرجع تقلید و..
2 طہارت پانی کے اقسام اور احکام، احکام تخلی، نجاسات، مطہرات، برتنوں کے احکام، وضو و غسل، واجب غسل، خواتین کے مخصوص مسائل و احکام اموات؛ غسل میت، کفن، حنوط، نماز میت، دفن، نبش قبر و... تیمم و...
3 نماز کے مسائل واجب نمازیں، لباس و مکان نمازی، مسجد کے احکام، احکام قبلہ، اذان و اقامہ، واجبات نماز، مبطلات نماز، شکیات، ترجمہ نماز، نماز جمعہ، نماز مسافر، نماز قضا، نماز جماعت، نماز آیات و...
4 روزہ کے مسائل نیت، مبطلات، کفّارہ، قضا، روزہ مسافر، مہینے کی پہلی تاریخ کا ثبوت، واجب روزے، مستحب روزے، حرام روزے اور مکروہ روزے
5 خمس کے مسائل خمس کا وجوب، مصرف خمس
6 زکات کے مسائل زکات واجب ہونے کے شرائط، زکات کا نصاب‌، زکات کا مصرف، مستحقین زکات، زکات فطرہ؛ مصرف زکات فطرہ
7 حج کے مسائل حج واحب ہونے کے شرایط
8 سے 24 احکام معاملات احکام خرید و فروخت، اقسام معاملات (مکروہ، حرام)، خریدار اور مشتری کے شرائط، رقم اور جنس کے شرایط، انواع معاملات (نقد، نسیہ، سلف)، فسخ، میوہ جات کی خرید و فروخت، صیغہ خرید و فروخت
شرکت کے احکام، صلح، اجارہ، جعالہ، مضاربہ، مزارعہ، مساقات وہ لوگ جو اپنے اموال میں تصرف نہیں کر سکتے، وکالت، قرضہ، حوالہ، رہن، ضمانت، کفالت شرایط کفیل و... ودیعہ(امانتعاریہ و...
25 سے 27 شادی بیاہ کے احکام نکاح کے احکام، اقسام نکاح (دائم و موقت؛متعہ)، صیغہ اور عقد کے شرایط عقد و..
دودھ پلانے کے احکام، دودھ پلانے کے شرائط جو محرمیت کا سبب بنتا ہے
احکام طلاق، اقسام طلاق؛ (رجعی، بائن، خُلع، مُبارات) عدہ طلاق اور عدہ وفات، احکام رجوع
28 سے 37 متفرقات احکام غصب، لُقطہ، شکار، حیوان کا ذبح، کھانے پینے کے احکام
نذر، عہد، قسم، وصیت، وقف اور ارث کے احکام، دفاع کے احکام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر و...
38 جدید مسائل سفتہ(پرونوٹ)، پگڑی، بینکی معاملات ، بیمہ، بخت آزمایی، تلقیح، تشریح اور پیوند اعضاء وغیرہ کے احکام

تنقید

موجودہ توضیح المسائل میں مضامین اور کتابت دونوں حوالے سے کچھ اشکالات ہیں:

کتابت کے حوالے سے موجود اشکالات

  • ایسے کلمات کا استعمال جو ذہنی تشویش کا موجب بنتا ہے مثلا یہ جملہ "اگر سوئی کے نوک کے برابر بھی بدن کا کوئی حصہ دھونے سے رہ جائے تو غسل باطل ہے۔[11]
  • فنی اور علمی اصطلاحات جیسے احتیاط واجب؛ اظہر؛ اولی و غیرہ کا استعمال۔
  • وزن اور مقدار کے پیمانوں کا دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق نہ ہونا جیسے مد؛ صاع؛ زراع؛ فرسخ وغیرہ۔
  • جدید موضوعات جیسے پیسے اور افراط زر سے مربوط مسائل؛ خاندانی منصوبہ بندی وغیرہ کے احکام کا نہ ہونا۔[12]

مضامین میں موجود اشکالات

  • موجودہ توضیح المسائل جامعیت، تبیین مباحث اور کیفیت، کے حوالے سے معیاری نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں صرف فردی، عبادی اور معاملاتی مسائل پر اکتفا کیا گیا ہے۔ جبکہ جدید موضوعات جیسے قانونی، اقتصادی، عدالتی، کیفری، سیاسی، حکومتی، بین الاقوامی روابط وغیرہ پر بھی بحث کرنے کی ضرورت ہے۔
  • قرآن و جوامع حدیث کہ جو اسلامی احکام کے اصل منابع ہیں اور توضیح المسائل جنہیں موجودہ دور کے مجتہدین اپنے فتوؤں کے بیان کیلئے تحریر کرتے ہیں کے درمیان جامعیت اور لوگوں کی سماجی زندگی پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے یہت تفاوت پایا جاتا ہے۔ قرآن میں سماجی مسائل کے بارے میں موجود آیات اور آیات احکام کے درمیان نسبت 100 میں سے ایک کی نسبت ہے۔ حدیث کا ایک دورہ جو تقریبا 50 کتابوں پر مشتمل اور اسلام کے تمام احکام پر محیط ہے میں سے صرف تین یا چار کتابیں عبادات اور بعض اخلاقی احکام سے مربوط ہیں جبکہ باقی ساری کتابیں سماجی، اقتصادی، عدالتی، سیاسی اور معاشرے کی تدبیر سے مربوط ہیں۔[13]
  • توضیح المسائل میں اصول دین سے بحث نہیں کی گئی ہے جبکہ معصومین، فروع سے پہلے اصول دین کا درس دیتے تھے۔ صرف محقق سبزواری، شیخ جعفر کاشف الغطاء اور میرزا یوسف طباطبایی تبریزی کے رسالہ عملیہ ان خصوصیات کے حامل ہیں۔[14]
  • شیخ بہائی سے دور حاضر تک تمام رسالہ عملیہ فنی اعتبار سے معیاری نہیں ہیں۔[15]
  • توضیح المسائل تمام ابواب فقہی پر مشتمل نہیں ہیں اور مناسک حج سب سے زیادہ دکھائی دیتا ہے۔[16]
رسالہ مصور میں مسائل کو سمجھانے کیلئے تصاویر کا استعمال کیا جاتا ہے۔

جدید رسالہ عملیہ

آخری چند سالوں میں رسالہ عملیہ کی مختلف قسمیں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ جن میں توضیح المسائل‌ مراجع، رسالہ‌ مصور اور مختلف گروہ سے مربوط مسائل پر مشتمل کتابیں وغیرہ۔

  • اسی طرح عصر حاضر میں رسالہ عملیہ مختلف عناوین کے تحت منظر عام پر آ رہے ہیں جیسے خواتین کے مخصوص احکام، جوانوں کے احکام (لڑکیوں سے مخصوص)، جوانوں کے احکام (لڑکوں سے مخصوص)، نوجوانوں کے احکام، احکام روزہ وغیرہ۔
  • رسالہ مصور:ان آخری سالوں میں احکام کی تعلیم کو آسان بنانے کیلئے تصویری رسالہ جات منتشر ہو رہے ہیں جن میں شرعی احکام کو تصویری شکل میں مخاطبین تک منتقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔[18]

حوالہ جات

  1. جناتی، ص۲۳۳
  2. جناتی، ص۲۸۴
  3. الذریعۃ، ج۱۰، ص۱۶
  4. عباس یزدانی، «مروری بر رسالہ‌ہای عملیہ (۲)»، مجلہ فقہ، شمارہ ۱۵؛ «نگاہی بہ سیرہ علمی و عملی علامہ کرباسچیان»
  5. جناتی، ص۲۷۲
  6. جناتی، ص۲۷۳
  7. عباس یزدانی، «مروری بر رسالہ‌ہای عملیہ (۲)»، مجلہ فقہ، شمارہ ۱۵؛ «نگاہی بہ سیرہ علمی و عملی علامہ کرباسچیان»
  8. جناتی، ص۲۳۴
  9. جناتی، ص۲۲۸
  10. جناتی، ص۲۳۴|ص ۲۳۴
  11. رسالہ توضیح المسائل، امام خمینی، مسالہ ۳۷۴
  12. عباس یزدانی، «مروری بر رسالہ‌ہای عملیہ (۲)»، مجلہ فقہ، شمارہ ۱۵
  13. امام خمینی، ولایت فقیہ، ص۱۱
  14. جناتی، ادوار فقہ، ص۲۸۵
  15. جناتی، روش فقہ، ص۲۸۶
  16. جناتی، ادوار فقہ، ص۲۸۷
  17. متن توضیح المسائل مراجع
  18. موسسہ اطلس تاریخ شیعہ

مآخذ