جنابت پر باقی رہنا

ویکی شیعہ سے
(مجنب حالت باقی رہنا سے رجوع مکرر)

جنابت پر باقی رہنے کے معنی غسل جنابت کو اذان صبح (طلوع فجر) تک موخر کرنا ہے۔ فقہاء کے فتوا کے مطابق روزہ رکھنے کے لئے غسل جنابت واجب ہوتا ہے اور مکلف نے ماہ رمضان کی رات یا ہر اس رات جس میں صبح رمضان کے قضا روزہ رکھنے کا قصد کیا ہے وہ اس دن کی اذان فجر تک جنابت پر باقی نہیں رہ سکتا ہے۔ مجتہدین کے مطابق مکلف ماہ رمضان یا اس کا قضا روزہ رکھنے کے سلسلے میں اگر جان بوجھ کر یا بھول کر اذان صبح تک جنابت کی حالت میں رہے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا، اسے چاہیے کہ بعد میں اس کی قضا بجا لائے۔

مجتہدین کے مطابق مستحب روزہ یا رمضان کے علاوہ دیگر واجب روزوں جیسے کفارہ کا روزہ وغیرہ میں اذان صبح تک جنابت کی حالت میں باقی رہنا روزے کو باطل نہیں کرتا ہے؛ لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر جان بوجھ کر صبح کی اذان تک جنابت پر باقی نہیں رہنا چاہیے۔

مجتہدین کا یہ بھی کہنا ہےکہ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں مجنب ہوجائے یا اسے احتلام ہوجائے اور یہ جانتا ہو کہ دوبارہ سونے کی صورت میں صبح کی اذان سے پہلے جاگ نہیں سکے گا تو اسے غسل کئے بغیر نہیں سونا چاہیے، اور اگر سوجائے اور اذان صبح تک جاگ نہ سکے تو اس صورت میں اس کا روزہ باطل ہوگا اور اس پر واجب ہے کہ روزے کی قضا کے ساتھ اس کا کفارہ بھی ادا کرے۔ ہاں اگر وہ اس ارادے کے ساتھ دوبارہ سوجائے کہ اذان صبح سے پہلے بیدار ہوکر غسل انجام دے گا، اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہے۔

مفہوم‌ شناسی

جنابت پر باقی رہنے سے مراد یہ ہے کہ ماہ رمضان کی رات میں یا ہر اس رات میں جس دن روزہ رکھنے کا قصد کیا ہو، غسل جنابت کو اذان صبح تک موخر کرنا۔[1]

جنابت پر باقی رہنے کی صورت میں شرعی حکم

اکثر فقہاء ماہ رمضان کے روزے کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ مجنب شخص پر واجب ہے کہ اذان صبح تک جنابت کی حالت میں باقی رہنے سے اجتناب کرے [2] اور جان بوجھ کر صبح کی اذان تک حالت جنابت میں باقی رہے تو اس کا روزہ باطل ہے،[3] اسی طرح جس شخص کا فریضہ غسل کے بدلے تیمم کرنا تھا اور وہ تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔[4]

بعض فقہاء منجملہ طباطبایی یزدی اور امام خمینی کے فتوا کے مطابق اگر کوئی شخص بھول کر بھی اذان صبح تک جنابت پر باقی رہے اور غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے؛[5] لیکن بعض دیگر فقہاء منجملہ آیت اللہ مکارم شیرازی کے فتوا کے مطابق اگر حالت جنابت پر باقی رہنا عمدی صورت میں نہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے۔[6]

فقہاء کے نزدیک (ماہ رمضان کے علاوہ) دوسرے فرض روزوں میں اور ماہ رمضان کے قضا روزوں کے صحیح ہونے کے لیے صبح کی اذان سے پہلے غسل جنابت کے واجب ہونے کی قطعی کوئی دلیل پائی نہیں گئی ہے۔[7] لیکن وہ کہتے ہیں کہ احتیاط واجب کی بنا پر جان بوجھ کر صبح کی اذان تک حالت جنابت پر باقی نہیں رہنا چاہیے۔[8]

فقہاء کے درمیان مشہور رائے کے مطابق مستحب روزوں میں صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنا روزہ باطل ہونے کا سبب نہیں بنتا۔[9]

جنب یا احتلام کے بعد دوبارہ سونے کا حکم

ماہ رمضان کی راتوں میں جنب یا احتلام ہونے کے بعد نیند کی وجہ سے جنابت پر باقی رہنے کے سلسلے میں کچھ شرعی احکام بیان ہوئے ہیں؛ ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • فقہاء کے مطابق جس شخص کو ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور وہ غسل کرنے کا ارادہ کیے بغیر اذان صبح تک دوبارہ سوجائے تو وہ اس شخص کے مانند ہے جو جان بوجھ کر اذان صبح تک حالت جنابت میں باقی رہتا ہے۔(یعنی اس کا روزہ باطل ہے لہذا اس کی قضا کرے اور کفارہ بھی دے)،[10] لیکن اگر اس نے ارادہ کیا ہو کہ بیدار ہونے کے بعد اذان صبح سے پہلے غسل کرے گا، اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہے۔[11]
  • اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں کی کسی رات میں مجنب ہو اور جانتا ہو کہ اگر دوبارہ سوجائے تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار نہیں ہوسکے گا، چنانچہ وہ سوجائے اور صبح تک بیدار نہیں ہوسکا تو اس کا روزہ باطل ہے، پس اس دن کے روزے کی قضا اور کفارہ اس پر واجب ہے۔[12] البتہ آیت‌ اللہ سیستانی کا اس میں فتوا یہ ہے کہ ایسا شخص اپنا روزہ پورا کرے گا اور اس کی قضا اور کفارہ بھی واجب ہے۔[13]
  • اگر کوئی شخص دو مرتبہ بیدار ہونے کے بعد دوبارہ سوجائے تو اگرچہ اس نے غسل جنابت کرنے کا ارادہ کر رکھا ہو، اس کا روزہ باطل ہے۔[14] شیخ طوسی کا عقیدہ ہے کہ اس پر کفارہ بھی واجب ہے۔[15]
  • امام خمینی اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں مجنب ہوجائے اور تین مرتبہ نیند سے بیدار ہونے کے باوجود غسل جنابت کیے بغیر سوجائے اور اذان صبح تک بیدار نہ ہو تو اس دن کے روزے کی صرف قضا بجا لائے گا اور کفارہ اس پر واجب نہیں ہے۔[16]
  • امام خمینی کی نظر میں پہلی بار نیند سے مراد وہ نیند ہے جب مُحتلم بیدار ہونے کے بعد دوبارہ سوجائے لیکن آیت اللہ سیستانی (پیدائش: 1930ء) کی نظر میں جس نیند میں احتلام ہوا ہے وہ پہلی نیند ہے۔[17]

حوالہ جات

  1. مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه، 1382شمسی، ج2، ص122۔
  2. ملاحظہ کیجیے: محقق حلی، شرائع الاسلام، 1498ھ، ج1، ص141؛ موسوی عاملی، مدارک الاحکام، 1411ھ، ج1، ص17۔
  3. ملاحظہ کیجیے: شیخ طوسی، الخلاف، 1422ھ، ج2، ص174؛ نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج1، ص34؛ خویی، التنقیح فی شرح العروة الوثقی، 1418ھ، ج6، ص289؛ حکیم، مستمسک العروة الوثقی، 1388ھ، ج3، ص38۔
  4. بنی‌ هاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392شمسی، ج1، ص1141۔
  5. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی (المحشّی)، 1419ھ، ج1، ص480؛ امام خمینی، تحریر الوسیله، 1392شمسی، ج1، ص40۔
  6. بنی‌ هاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392شمسی، ج1، ص1141۔
  7. خویی، التنقیح فی شرح العروة الوثقی، 1418ق، ج6، ص299؛ حکیم، مستمسک العروة الوثقی، 1388ق، ج3، ص41۔
  8. امام خمینی، تحریر الوسیله، 1392شمسی، ج1، ص40۔
  9. ملاحظہ کیجیے: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی (المحشّی)، 1419ھ، ج1، ص480؛ امام خمینی، تحریر الوسیله، 1392شمسی، ج1، ص40۔
  10. ملاحظہ کیجیے: محقق حلی، شرائع الاسلام، 1498ھ، ج1، ص141؛ شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج2، ص222۔
  11. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1498ھ، ج1، ص141۔
  12. بنی‌ هاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392شمسی، ج1، ص1145۔
  13. بنی‌ هاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392شمسی، ج1، ص1146۔
  14. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1498ھ، ج1، ص141؛ شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج2، ص222۔
  15. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج2، ص222۔
  16. امام خمینی، توضیح المسائل، 1426ھ، ص346۔
  17. بنی‌هاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1392شمسی، ج1، ص1149۔

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح‌ الله، تحریر الوسیلة، تهران، موسسه تنظيم و نشر آثار امام خمينى(ره)، 1392ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌ اللّه، توضیح المسائل، محقق و مصحح: مسلم قلی‌پور گیلانی‌، قم، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، 1426ھ۔
  • بنی‌ هاشمی خمینی، سید محمد حسن، توضیح المسائل مراجع مطابق با فتاوای شانزده نفر از مراجع تقلید، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1392ہجری شمسی۔
  • حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، نجف، دار احیاء تراث عربی، 1388ھ۔
  • خویی، سید ابو القاسم، التنقیح فی شرح لعروة الوثقی، تحقیق: رضا خلخالی، قم، مؤسسه الخوئی الاسلامیه، 1418ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، مؤسسه نشر اسلامی، 1407ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقی فیما تعم به البلوی (المحشّی)، تصحیح: احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر نشر اسلامی، 1419ھ۔
  • مؤسسه دائرة‌المعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل‌بیت(ع)، قم، مؤسسه دائرة المعارف اسلامی، چاپ اول، 1382ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق: عبد الحسین محمد علی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • موسوی عاملی، محمد بن علی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، قم، مؤسسه آل‌بیت(ع)، 1411ھ۔
  • نجفی،‌ محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق: محمد قوچانی، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ هفتم، 1362ہجری شمسی۔