طلاق مبارات

ویکی شیعہ سے
(مبارات کی طلاق سے رجوع مکرر)


طلاق مُبارات ایک طرح سے سمجھوتہ کا طلاق ہے جس میں عورت مرد ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے ہیں اور عورت، مہر یا کوئی اور چیز مرد کو دیتی ہے تاکہ مرد اسے طلاق دے دے۔ طلاق مبارات، طلاق بائن کی ایک قسم ہے اور اس میں مرد کسی بھی طرح سے عورت کی طرف رجوع نہیں کرسکتا؛ یعنی عدہ کے درمیان بغیر نکاح کے اس کو اپنی زوجہ نہیں بنا سکتا۔ البتہ طلاق مبارات میں عورت اپنی عطا و بخشش سے پیچھے ہٹ سکتی ہے اور اس صورت میں طلاق رجعی کی طرح شوہر اس کے طرف رجوع کرسکتا ہے۔

طلاق

تفصیلی مضمون: طلاق
شادی کے رشتے کو ختم کردینے کا نام طلاق ہے۔ نکاح کی طرح طلاق بھی صیغہ پڑھنے کے ذریعہ انجام پاتا ہے؛ [1] لیکن نکاح کے برخلاف طلاق، ایقاعات میں شمار ہوتا ہے، یعنی یہ یکطرفہ ہے اور صرف مرد کی طرف سے انجام پاتا ہے۔[2] اسلام میں طلاق، مشروع اور جائز ہے؛[3] لیکن روایات کی رو سے یہ اللہ کے نزدیک نفرت انگیز ترین حلال کام ہے۔[4]

تعریف

طلاق مُبارات وہ طلاق ہے جس میں عورت مرد ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے ہیں اور عورت مہر یا کوئی اور چیز مرد کو دیتی ہے تاکہ مرد اسے طلاق دے دے۔[5] طلاق مبارات، طلاق بائن کی قسموں میں سے ہے۔[6]

احکام

طلاق مبارات کے کچھ احکام اس طرح ہیں:

  • طلاق مبارات کے صیغے، عام طلاق کے صیغوں سے الگ ہیں۔ طلاق مبارات میں عورت یا اس کے وکیل کی طرف سے مہر کو معاف کردینے کے بعد، مرد یا اس کا وکیل صیغہ جاری کرتا ہے۔ طلاق مبارات میں فعل «بٰارَأتُ» کا استعمال ہوتا ہے تاکہ طلاق مبارات ہونے کا اظہار ہوسکے۔[7]
  • طلاق مبارات، طلاق بائن کی قسم ہے لہذا اس میں مرد کسی طرح عورت کی طرف رجوع نہیں کرسکتا، یعنی یہ نہیں کرسکتا کہ عقد نکاح کے بغیر اسے دوبارہ اپنی زوجہ نہیں بنالے۔[8]
  • طلاق مبارات میں عدہ کے درمیان عورت اپنی بخشش سے پلٹ سکتی ہے اور پھر اس صورت میں طلاق رجعی کی طرح مرد رجوع کرسکتا ہے اور اسے دوبارہ اپنے زوجہ بنا سکتا ہے۔[9]
  • طلاق مبارات میں شوہر جو مال، عورت سے لیتا ہے اس کی مقدار، مہر سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔[10]

طلاق خلع اور طلاق مبارات کی مشابہت اور ان دونوں میں فرق

طلاق خلع اور طلاق مبارات دونوں طلاق بائن ہیں اور دونوں ہی میں مرد کو رجوع کا حق نہیں ہوتا ہے؛[11] اسی طرح طلاق رجعی کے برخلاف ان دونوں طلاقوں میں عورت اور مرد کے درمیان باہمی مصالحت انجام پاتی ہے، جبکہ طلاق رجعی میں صرف مرد کو اختیار ہوتا ہے۔

طلاق خلع اور طلاق مبارات کے بعض فرق مندرجہ ذیل ہیں:

  • طلاق خلع میں صرف عورت کی طرف سے مرد کے بارے میں بے رغبتی ہوتی ہے، لیکن طلاق مبارات میں عورت مرد دونوں کو ایک دوسرے سے بے رغبتی ہوتی ہے۔
  • طلاق مبارات میں مرد جو مال عورت سے لے رہا ہے اس کی مقدار، مہر سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔[12]

حوالہ جات

  1. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ھ، ص۳۵۶.
  2. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ھ، ص۹۷.
  3. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۵، ص۱۹۴.
  4. کلینی، کافی، ۱۴۰۷ھ، ج۶، ص۵۴.
  5. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۵۳۵.
  6. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ھ، ص۲۲۷.
  7. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۵۳۵.
  8. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ھ، ص۲۲۷.
  9. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۵۳۶، ۵۳۷.
  10. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۵۳۶، ۵۳۷.
  11. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ھ، ص۲۲۷.
  12. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۶۳۱.

مآخذ

  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق على اكبر غفارى‌، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، بیروت منشورات الرضا، چاپ اول، ۱۴۳۱ھ۔
  • امام ‌خمينى، سيد روح اللہ، توضیح المسائل (مُحَشّی)، تحقیق سيد محمد حسين بنى ہاشمى خمينى‌، قم، ‌دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ھ۔‌
  • امام خمينى، سيد روح اللہ، تحریر الوسیلہ، ترجمہ علی اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‌، چاپ بیست و یکم، ۱۴۰۹ھ۔
  • مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل بیت علیہم السلام، چاپ اول، ۱۳۹۲ش.