آیت لا اکراہ فی الدین

ویکی شیعہ سے
آیت لا اکراہ فی الدین
آیت کی خصوصیات
آیت کا ناملا اکراہ فی الدین
سورہبقرہ
آیت نمبر256
پارہ3
شان نزولانصار کا اپنی اولاد کو اسلام قبول کرنے میں مجبور کرنے کا قصد
محل نزولمدینہ
موضوعاعتقادی اور اخلاقی
مضموندین قبول کرنے میں جبر و اکراہ کا نہ ہونا
مرتبط موضوعاتعقیدہ کی آزادی
مربوط آیاتسورہ یونس آیت نمبر 99


آیہ لا اِکْراہَ فِی الدّین، سورہ بقرہ کی 256ویں آیت اور آیۃ الکرسی کا جزء ہے جس میں دین اسلام قبول کرنے میں کسی کو مجبور نہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے عقیدے کے انتخاب میں انسان کے خودمختار ہونے پر تأکید کی گئے ہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب انصار کا ایک گروہ اپنی اولاد کو دین اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔ علامہ طباطبائی کے مطابق مذکورہ آیت میں کسی قید و شرط کے ذکر نہ ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ دین کو قبول کرنے میں کسی بھی انسان حتی کافروں کو بھی مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بعض محققین کے مطابق آیہ لا اکراہ فی الدین کا مضمون جہاد ابتدائی کے ساتھ متعارض ہے۔ لیکن شہید مطہری جیسے مفکرین کا خیال ہے کہ جہاد ابتدائی خود ایک قسم کا دفاع ہے اور اسلام کی طرف دعوت دینے کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو برطرف کرنے کے لئے واجب کیا گیا ہے اور جب مانع برطرف ہو جائے تو دین قبول کرنے اور نہ کرنے میں لوگ آزاد ہونگے؛ یوں جہاد کے حکم اور آیت کے مضمون کے درمیان کوئی تعارض پیش نہیں آتا ہے۔ مسلمان متکلمین نے انبیاء کی عصمت، جبر کے انکار، امتحان الہی اور اسلام میں عقیدے کی آزادی جیسے موضوعات میں آیت لا اکرہ فی الدین سے استناد کیا ہے۔

بعض مفسرین اس آیت کو ان افراد کا جواب قرار دیتے ہیں جو طاقت اور تلوار کو اسلام قبول کرنے کا سب سے اہم عامل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان افراد کے خیال میں دین اور ایمان ایک قلبی اور درونی چیز ہے جو اجبار اور اکراہ کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی مجبوری یا اکراہ ہو بھی تو یہ صرف ظاہری حد تک ہو گی۔ اس کے مقابلے میں بعض افراد کہتے ہیں کہ یہ آیت آیہ قتال اور سورہ توبہ کی آیت نمبر 74 اور 75 کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔

متن اور ترجمہ

لَا إِکرَاہَ فِی الدِّینِ ۖ قَد تَّبَینَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَی ۚ فَمَن یکفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیؤْمِن بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَک بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیٰ لَا انفِصَامَ لَہَا ۗ وَاللہ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ﴿بقرہ:256﴾


دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے الگ واضح ہو چکی ہے۔ اب جو شخص طاغوت (شیطان اور ہر باطل قوت) کا انکار کرے اور خدا پر ایمان لائے اس نے یقینا مضبوط رسی تھام لی ہے۔ جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اور خدا (سب کچھ) سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔



اجمالی تعارف

«آیہ لا اکراہ فی الدین» سورہ بقرہ کی آیت نمبر 256 کو کہا جاتا ہے جسے معمولاً آیۃ الکرسی کا جزء مانا جاتا ہے اور قرآن کی سب سے زایادہ استعمال ہونے والی آیتوں میں شمار ہوتی ہے۔[1]

آیت لااکراہ اس بات کی نشان دہی کرتے ہے کہ دین کے قبول کرنے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ چیز انسان کی آزادی اور اختیار سے مربوط ہے جس کی اسلام میں بہت زیادہ تأکید کی گئی ہے۔[2] امام خمینی اس بات کے قائل ہیں کہ آیت لا اکراہ فی الدین میں مذکورہ لفظ دین میں اخلاقی فضائل بھی شامل ہیں اس بنا پر مجبوری اور زبردستی کی بنا پر انجام دی گئی اخلاقی فضائل کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔[3] [یادداشت 1]

بعض مفسرین اس آیت کے مضمون کو ایک عقلی قاعدے کے طور پر بھی قبول کرتے ہیں۔[4]

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 255 کو آیۃ الکرسی کہا جاتا ہے لیکن بعض احادیث اور بعض مفسرین کے مطابق سورہ بقرہ کی آیت نمبر 256 اور 257 دونوں آیۃ الکرسی کے جزء ہیں۔[5] علامہ طباطبائی آیۃ الکرسی‌ کی عظمت کی دلیل اس کا خالص توحید اور خدا کی قیمومیت مطلق سے مربوط دقیق اور عمیق مضامین پر مشتمل ہونا قرار دیتے ہیں۔[6] معصومینؑ کی احادیث کے مطابق چشم‌ بد سے محفوظ رہنے اور صحت و سلامتی کے لئے اس آیت کا پڑھنا ہر حال میں مستحب ہے۔[7]

شأن نزول

علامہ طباطبائی تفسیر الدر المنثور سے نقل کرتے ہوئے اس آیت کی شأن نزول کو انصار کی بعض خواتین قرار دیتے ہیں جنہوں نے یہ عہد کی تھیں کہ اگر ان کے لئے کوئی اولاد ہو جائے، تو وہ انہیں یہودی بنا دیں گی اسی بنا پر جب بنی‌ نضیر کی یہودیوں کو پیمان‌ شکنی کی وجہ سے مدینہ سے نکال باہر کیا گیا تو ان کے والدین ان بچوں کو جانے کی اجازت نہیں دیتے اور انہیں دین اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے تھے یہاں تک کہ آیہ لا اکراہ فی الدین نازل ہوئی۔[8] البتہ علامہ طباطبائی ایک اور قول کو بھی نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے پیغمبر اکرمؐ سے سوال کیا، کیا میں اپنی نصرانی اولاد کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر سکتا ہوں اس سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔[9]

تفسیر مجمع البیان میں بعض مفسرین جیسے قتادۃ بن دعامہ، حسن و ضحاک وغیرہ کے حوالے سے آیا ہے کہ یہ آیت ان اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن سے جزیہ دریافت کیا جاتا تھا۔ سدی کہتے ہیں کہ یہ آیت تمام کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن بعد میں آیہ قتال کی وجہ سے نسخ ہوئی ہے۔[10] ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے کہ آیہ لا اکراہ فی الدین انصار کے ایک خاص گروہ کی یہودی اولاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ بعض دوسرے مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ آیت کا مخاطب تمام انسان ہیں؛ اس معنا میں کہ دین ایک قلبی اور درونی مسئلہ‌ ہے اور دین قبول کرنے میں کسی قسم کی مجبوری اور زبردستی کارساز نہیں ہے۔[11]

جہاد ابتدائی کے ساتھ تعارض

بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ جہاد ابتدائی آیہ لا اکراہ فی الدین کے ساتھ متعارض ہے؛ کیونکہ آیہ مذکور دین میں اجبار اور زبردستی کی نفی کرتی ہے؛ لیکن جہاد ابتدائی میں تلوار اور طاقت کے زور پر دوسروں پر اسلام کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔[12] اس سلسلے میں مفسرین تین گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں:

  • پہلا گروہ علامہ طباطبائی جیسے مفسرین پر مشتمل ہے جو جہاد ابتدائی کو ایک فطری امر یعنی توحید اور انسانیت کا دفاع اور انسان کو حیوانیت کے دلدل میں گرنے سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک ضروری اور مشروع امر قرار دیتے ہیں۔[13]
  • دوسرا گروہ اس بات کے معتقد ہیں کہ جہاد ابتدائی در حقیقت اسلام کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کے راسے میں موجود موانع کو برطرف کرنے کے لئے ہے اس بنا پر آیہ لا اکراہ فی الدین کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتا ہے۔[14]
  • تیسرا گروہ اس بات کے معتقد ہیں کہ جہاد ابتدائی مذکورہ آیت کے مضمون کے ساتھ تعارض رکھتا ہے کیونکہ جہاد میں لوگوں کو دین اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔[15]
  • شہید مطہری کے مطابق جہاد ابتدائی میں دفاع کا پہلو زیادہ نمایاں ہے اس بنا پر جہاد ابتدائی اور آیہ لا اکراہ فی الدین میں کوئی تعارض یا منافات نہیں ہے، چنانچہ اگر کفار مسلمانوں کے لئے کوئی مزاحمت ایجاد نہ کرے تو اسلام بھی ان کے عقیدے کے لئے کوئی مشکل ایجاد نہیں کرتا۔[16]

مفسرین کے نظریات

مفسرین آیہ لا اکراہ فی الدین کی مختلف تفسریں پیش کرتے ہیں:

پہلا گروہ کا خیال ہے کہ یہ آیت نسخ ہوئی ہے۔ میبدی[17] اور ابوالفتوح رازی[18] کہتے ہیں کہ یہ آیت آیہ قتال اور سورہ توبہ می آیت نمبر 74 اور 75 کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔

دوسرا گروہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ دین قبول کرنے میں تھوڑی بہت مجبوری اور زبردستی قابل تصور ہے، مثلا راہ حق کو بیان کرنے اور اسے لوگوں تک پہنچانے میں زبردستی اور اجبار سے کام لیا جا سکتا ہے؛[19] یا یہ کہ اگر کوئی شخص روحی اور معنوی اعتبار سے بالغ نظری تک پہنچ گیا ہو تو زبردستی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔[20]

تیسرا گروہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیہ کے مطابق ایمان اور جبر و اکراہ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتا[21] اور جبر و اکراہ صرف ظاہری طور پر اثر گزار ہو سکتا ہے۔[22] [یادداشت 2] ان کے مطابق یہ آیت حقیقت میں جواب ہے ان افراد کے لئے جو کہتے ہیں کہ دین اسلام تلوار اور طاقت کے زور پر پھیلا ہے[23] تفسیر مجمع البیان میں آیا ہے کہ زجاج (ابواسحاق، ابراہیم بن سری صاحب کتاب اعراب القرآن)[24] اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص نے جنگ کے بعد اسلام کیا ہے تو گویا اس نے اسلام لایا ہی نہیں ہے۔[25] بیضاوی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس آیت کے مطابق لوگوں کو دین کی طرف مجبورا لانے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔[26]

مفسرین کا چوتھا گروہ اس بات کے معتقد ہیں کہ یہاں اس آیت میں دین سے مراد مذہب تشیع ہے اور «لااکراہ» امام عادل کی ولایت کو قبول کرنے میں جبر اور اکراہ نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔[27]

دوسری تفاسیر جیسے تفسیر نورالثقلین وغیرہ میں اس آیت کا آیۃ الکرسی کا جزء ہونے کے اعتبار سے آیۃ الکرسی کی قرأت اور تلاوت کے لئے بیان شدہ ثواب اور فضیلت وغیرہ کے تناظر میں اس آیت سے بحث کرتے ہوئے اس بارے میں صادر ہونے والی احادیث کی چھان بین کی گئی ہے۔[28]

فقہی استعمال

بعض مفسرین نے اپنی کتابوں میں آیہ لا اکراہ فی الدین کے فقہی استعمال کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔[29] علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ مذکورہ آیت میں کسی قسم کی قید و شرط کا ذکر نہ ہونا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دین اسلام قبول کرنے میں کسی بھی انسان حتی کفار پر بھی کوئی جبر اور اکراہ نہیں ہے اور یہ آیت ممنوعیت شرعی (حکم انشائی تشریعی) کی طرف اشارہ کرتی ہے اور دوسرا جملہ «قدتبین..» میں حقیقت کے واضح اور آشکار ہونے کو اس حکم کی علت بیان کی گئی ہے۔[30]

بہت سارے مفسرین بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ آیت دین قبول کرنے میں جبر و اکراہ کی ممنوعیت کو بیان کرتی ہے۔[31] فخر رازی نے بھی تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ اس آیت میں دین قبول کرنے میں جبر اور اکراہ کی صراحتا نفی کرتے ہوئے آزادی اور اختیار کو دین قبول کرنے کا معیار اور مبناء قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ اگر دین قبول کرنے میں جبر اور اکراہ کا عمل دخل ہوتا تو امتحان اور آزمایش کا معنا اور مفہوم ختم ہو کر رہ جاتا۔[32]

علامہ حلی اس آت کے مضمون کو شرعی احکام میں بھی جاری و ساری سمجھتے ہیں اور وہ امور جو مکلف کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں (تکلیف بہ مالایطاق) کے بارے میں اسی آیت سے استدلال کیا گیا ہے۔[33]

متکلمین کا نظریہ

کہا جاتا ہے کہ شیعہ ائمہ معصومینؑ کی جانب سے اس آیت کی تفسیر میں بیان شدہ مطالب عقیدے کے انتخاب میں انسان کی تکوینی آزادی سے مربوط ہیں اور یہ مطالب علم کلامی کے ابتدائی اور بنیادی مباحث میں سے ہیں جو مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں۔[34] متکلمین مختلف موضوعات کے بارے میں آیہ لا اکراہ فی الدین سے استناد کرتے ہیں:

  • انبیاء کی عصمت میں اختیار کا کردار: علامہ حلی اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت کے مطابق انبیاء کی عصمت جو کہ وحی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے ایک ضروری امر ہے، بھی آزادی اور اختیار سے ہے۔ اس تفسیر میں دین کا لفظ گناہ سے پرہیز کے معنی میں ہے۔[35]
  • جبر اور اکراہ کا انکار: وہ متکلمین جو اعمال اور رفتار میں انسان کے مبجور ہونے کو رد کرتے ہیں، اس بات پر ان کے دلائل میں سے ایک آیہ لا اکراہ فی الدین ہے۔[36]
  • امتحان خداوندی: بعض متکلمین کا خیال ہے کہ دنیا انسان کے امتحان کی جگہ ہے اور امتحان اسی کی لی جاتی ہے جو ارادہ اور اختیار کا حامل ہو اسی بنا پر خدا نے انسان کو آزاد اور خودمختار خلق کیا ہے۔[37]
  • عقیدے کی آزادی: آیت‌اللہ سبحانی جیسے متکلمین کا ایک گروہ اس آیت سے یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ اسلام میں فکر اور عقیدے کی آزادی ہے اور کوئی شخص کسی کو عقیدہ اختیار کرنے میں مجبور نہیں کر سکتا ہے اور انبیاء کی ذمہ داری بھی فقط اور فقط راہنمائی اور ارشاد تھی۔ اسلام میں دیگر ادیان کے پیروکاروں کو دی گئی آزادی کی توجیہ بھی اسی مبناء پر کی جاتی ہے۔[38]

متعلقہ مقالات

حوالہ جات

  1. فانی و رجبی، «موارد استدلال تفسیری-کلامی بہ آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص94۔
  2. فانی و رجبی، «موارد استدلال تفسیری-کلامی بہ آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص94۔
  3. امام خمینی، آداب الصلاہ، 1378ہجری شمسی، ص37۔
  4. موسوی سبزواری، مواہب الرحمان، 1409ھ، ج4، ص298۔
  5. معینی، «آیۃ الکرسی»، ص100۔
  6. طباطبایی، المیزان،1417ھ، ج2، ص337۔
  7. غزالی‌، جواہر القرآن، 1411ھ، ص73-75۔
  8. علامہ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج2، ص347۔
  9. علامہ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج2، ص348۔
  10. طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج2، ص631و632۔
  11. طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج2، ص631و632؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج3، ص10و11۔
  12. کامیاب و قدسی، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص8۔
  13. کامیاب و قدسی، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص13۔
  14. کامیاب و قدسی، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص14۔
  15. کامیاب و قدسی، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص8۔
  16. کامیاب و قدسی، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص15۔
  17. خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ہجری شمسی، ج1، ص806۔
  18. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1371ہجری شمسی، ج3، ص414۔
  19. ثقفی تہرانی، تفسیر روان جاوید، 1389ھ، ج1، ص330؛ قمی، تفسیر قمی، 1367ہجری شمسی، ج1، ص384۔
  20. صدرای شیرازی، تفسیر القرآن الکریم، 1366ہجری شمسی، ج4، ص193؛
  21. قرشی، تفسیر احسن الحدیث، 1377ہجری شمسی، ج6، ص108۔
  22. علامہ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج2، ص346-349۔
  23. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1380ہجری شمسی، ج2، ص279و280؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج3، ص11۔
  24. ابراہیم بن سری، اعراب القرآن، 1374ہجری شمسی، ص1۔
  25. طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج2، ص631و632۔
  26. بیضاوی، انوار التنزیل، 1418ھ، ج1، ص154۔
  27. فیض کاشانی، تفسیر الاصفی، 1418ھ، ج1، ص121۔
  28. حویزی، تفسیر نورالثقلین، 1415ھ، ج1، ص258۔
  29. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1371ہجری شمسی، ج3، ص414؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج2، ص311 ؛مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1380ہجری شمسی، ج2، ص279و280؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج3، ص11۔
  30. علامہ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج2، ص342و343۔
  31. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1371ہجری شمسی، ج3، ص414؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج2، ص311 ؛مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1380ہجری شمسی، ج2، ص279و280؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج3، ص11۔
  32. فخررازی، تفسیر کبیر، 1420ھ، ج7، ص15۔
  33. علامہ حلی، الفین الفارق بین الصدق و المین، 1381ہجری شمسی، ج1، ص416و417؛ شبر، الاصول الاصلیہ، 1404ھ، ص306و307۔
  34. فانی و رجبی، «موارد استدلال تفسیری-کلامی بہ آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص94و95۔
  35. علامہ حلی، أجوبۃ المسائل المہنائیۃ، 1401ھ، ص73و74۔
  36. زنجانی، عقائد الإمامیۃ الأثنی عشریۃ، 1413ھ، ج2، ص133۔
  37. شوشتری، احقاق الحھ، 1409ھ، ج1،‌ ص414؛ علامہ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج2، ص348-350۔
  38. سبحانی، مفاہیم القرآن، 1404ھ، ج2، ص404و405۔

نوٹ

  1. اگر (انبیاء) لوگوں کو دین کی ہدایت کرنے میں کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے کیونکہ یہ خدا کی رحمـت واسعہ کا تقاضا تھا؛ اور اگـر لوگوں کو مجبورا سعادت اور کمال تک پہنچانا چاہتے تو تو ایسا بھی کر سکتے تھے؛ لکن ہیہات ! آخرت کا راستہ ایسا راستہ ہے جس پر آزادی اور اختیار کے بغیر قدم رکھنا ممکن نہیں ہے؛ سعادت طاقت کے زور پر حاصل نہیں ہو سکتی؛ فضیلت اور عمل صالح آزادی اور اختیـار کے بغیر فـضیلت اور عمـل صـالح نہیں ہے؛ اور شاید آیہ شریفہ لا اکْراہ فى الدین کا معنی بھی یہی ہے۔آداب‌الصلاۃ،امام خمینی، فصل8
  2. ان الدین و ہو سلسلۃ من المعارف العلمیۃ التی تتبعہا اخری عملیۃ یجمعہا انہا اعتقادات والاعتقاد و الایمان من الامور القلبیۃ التی لا یحکم فیہا الاکراہ و الاجبار۔ المیزان، ج2، ص342

مآخذ

  • ابراہیم بن سری، زجاج، اعراب القرآن، قم، دارالتفسیر، چاپ سوم، 1374ہجری شمسی۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، چاپ اول، 1371ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، روح‌اللہ الموسوی، آداب الصلاہ، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار، 1378ہجری شمسی۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التاویل، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ اول، 1418ھ۔
  • ثقفی تہرانی، میرزا محمد، تفسیر روان جاوید، تہران، نشر برہان، چاپ سوم، 1389ھ۔
  • حویزی، عبد علی بن جمعہ، تفسیر نورالثقلین، قم، اسماعیلیان، چاپ چہارم، 1415ھ۔
  • خواجہ عبداللہ انصاری، رشیدالدین میبدی، کشف الاسرار و عدہ الابرار، تہران، نشر امیرکبیر، 1371ہجری شمسی۔
  • زنجانی، ابراہیم، عقائد الإمامیۃ الأثنی عشریۃ، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • سبحانی، جعفر، مفاہیم القرآن، قم، موسسہ امام صادھ، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • شبر، اصول الاصلیہ و القواعد الشرعیہ، قم، مکتبۃ المفید، چاپ اول، 1404ھ۔
  • شوشتری، قاضی نوراللہ، احقاق الحق وازہاق الباطل، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ العظمی مرعشی نجفی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • صدرای شیرازی، تفسیر القرآن الکریم، محمد بن ابراہیم، قم، نشر بیدار، تفسیر القرآن الکریم، چاپ دوم، 1366ہجری شمسی،
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، دارالمعرفہ، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • * طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • علامہ طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1393ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، الفین الفارق بین الصدق و المین، قم، موسسہ الاسلامیہ للبحوث و المعلومات، چاپ اول، 1381ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، أجوبۃ المسائل المہنائیۃ، قم، نشر خیام، چاپ اول، 1401ھ۔
  • غزالی‌، محمد بن محمد، جواہر القرآن‌، بیروت،‌ دار إحیاء العلوم، 1411ھ۔
  • فخررازی، محمد بن عمر، تفسیر کبیر، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن، تفسیر الاصفی، قم، مکتبۃ الاعلام الاسلامی، چاپ اول، 1418ھ۔
  • فانی، مہدی و محمدحسین رجبی، «موارد استدلال تفسیری-کلامی بہ آیہ لا اکراہ فی الدین»، فصلنامہ تحقیقات کلامی، شمارہ5، تابستان 1393ہجری شمسی۔
  • قرشی بنابی، علی اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بنیاد بعثت، چاپ سوم، 1377ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، قم، دارالکتاب، 1367ہجری شمسی۔
  • معینی، محسن، «آیۃ الکرسی»، در دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ج1، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، 1377ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، چاپ سی و دوم، 1380ہجری شمسی۔
  • موسوی سبزواری، عبدالعلی، مواہب الرحمان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ اہل بیتؑ، چاپ دوم، 1409ھ۔