ختم نبوت

علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے

ختم نبوت یا خاتمیت ایک کلامی اصطلاح ہے جو تمام اسلامی فرقوں کے مشترکہ اعتقادات میں سے ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں تمام اسلامی فرقوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نیز دین اسلام ایک ایسا جامع اور کامل دین ہے جس کی تعلیمات ابدی ہیں اور اس کے بعد کوئی اور شریعت نہیں آئے گی۔

سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں پیغمبر اسلامؐ کو "خاتَم‌الانبیا" کے لقب سے یاد کیا گیا ہے جس کی تفسیر مسلمان علماء نے اس طرح کیا ہے کہ آپؐ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اسلام کی جامعیت اور قرآن کریم کی تحریف ناپذیری کسی نئے دین کی ضرورت نہ ہونے اور ختم نبوت کی علتوں میں سے ہیں۔

بیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں بہائیت اور قادیانیت کی شکل میں اسلام میں نئے فرقوں کے جنم لینے اور وحی اور نبوت سے متعلق نئے ابحاث کے مطرح ہونے بعد ختم نبوت کا مسئلہ علم کلام میں خاص توجہ کا مرکز قرار پایا ہے۔

ختم نبوت کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں میں شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ جعفر سبحانی کی کتاب "الخاتمیۃ فی الکتاب و السنۃ و العقل الصریح" اور پاکستان میں جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلی مودودی کی کتاب "ختم النبوۃ فی ضوء القرآن و السنۃ" مشہور ہیں۔

آیت ختم نبوت

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً[؟؟]؛ ترجمہ= محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے پیغمبر اور انبیا کے لیے مہر اختتام ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

سورہ احزاب، آیت 40

مفہوم شناسی

خاتمیت خَتَم کے مادے سے ہے۔ خَتَم کے معنی کسی چیز کی انتہاء کو پہنجنے کے ہیں۔[1] خاتَم‌ُالنببین سے مراد وہ ہستی اور شخصیت ہے جس کے ذریعے نبوّت کا خاتمہ ہوتا ہے۔[2] اصطلاح میں بھی خاتمیت اسی معنی میں ہے کہ پیغمبر اسلامؐ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔[3] حضرت محمدؐ کے خاتم النبیین ہونے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کی شریعت بھی آخری شریعت ہو۔[4]

خاتمیت کی اہمیت

ختم نبوت کا مسئلہ قرآن کریم اور احادیث میں مطرح ہوا ہے اور مسلمان علماء نے اسے دین اسلام کے ضروریات میں سے قرار دیئے ہیں۔[5]

بعض محققین کے مطابق بیسویں صدی عیسوی کے اواخر سے پہلے ختم نبوت کا مسئلہ اسلامی مآخذ میں وسیع اور مستقل طور پر مورد بحث واقع نہیں ہوتا تھا۔ اسلام میں قادیانیت اور بہائیّت جیسے فرقوں کے ظہور اور نئی شریعت کا ادعا نیز دین سے متعلق جدید نظریات کا مطرح ہونا جس میں نبوّت، وحی اور ختم نبوت کی ایک نئی تفسیر پیش کی گئی ہے، من جملہ ان عوامل میں سے ہیں جن کی وجہ سے ختم نبوت کے مسئلے کی اہمیت زیادہ اجاگر ہو گئی ہے۔[6]

بعض کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے مسئلے میں جدید نظریات کا آغاز علامہ اقبال سے ہوا جس کے بعد ان کے نظریات کی تنقید اور تجزیہ و تحلیل کی صورت میں یہ بحث اب تک جاری و ساری ہے۔[7] ختم نبوت سے متعلق علامہ اقبال کے نظریات کے بارے میں کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ شہید مطہری وہ پہلی شخصیت ہیں ج­نہوں نے ختم نبوت کے بارے میں علامہ اقبال کے نظریات پر تنقید کی ہیں۔[8]

عیسائی تعلیمات میں ختم نبوت کا مسئلہ مطرح نہیں ہے؛ لیکن کہتے ہیں کہ بعض عیسائی علماء مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی کلامی گفتگو کے درمیان خاص کر دوسری صدی ہجری کے بعد حضرت عیسی کو خاتم‌الانبیاء جانتے تھے۔[9]

دلائل

پیغمبر اسلامؐ کے خاتم النبین ہونے کا مسئلہ قرآن اور احادیث میں مطرح ہوا ہے[10]

قرآنی دلائل

اس مسئلے کے قرآنی دلائل میں سے ایک جس سے متکلمین استناد کرتے ہیں وہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 ہے: ما کانَ مُحَمدٌ أبا أَحَدٍ مِنْ رجالِکمْ وَلکنْ رسولَ اللّهِ و خاتمَ النبیینَ (ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ ہاں البتہ وہ اللہ کے رسول(ص) اور خاتم النبیینؐ (سلسلۂ انبیاء کے ختم کرنے والے اور مہرِ اختتام) ہیں۔)[احزاب–40]

اس آیت میں لفظ "خاتم" کو "تا" پر فتحہ کے ساتھ "خاتَم" اور "کسرہ" کے ساتھ "خاتِم" دونوں طریقوں سے قرائت کی گئی ہے: عاصِم کی قرأت میں "تا" پر فتحہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے جو یا فعل ماضیِ ہے باب مفاعلہ سے جس کے معنی ختم‌‌ کرنے کے ہیں، یا اسم ہے جس کے معنی مُهر اور آخری پیغمبر کے ہیں۔[11] دوسروں کی قرائت‌ میں "تا" پر کسرہ کے ساتھ "خاتِم" پڑھا گیا ہے جو اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی ختم‌‌ کرنے والے کے ہیں۔[12]

شہید مطہری کے مطابق دونوں قرائتوں کی بنا پر مذکورہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت محمدؐ اللہ کے آخری نبی ہیں۔[13]

ختم نبوت کی اثبات کیلئے بعض دیگر آیات سے بھی استناد کیا گیا ہے؛ مثلاً کہا جاتا ہے کہ وہ آیات جن میں پیغمبر اسلامؐ کی رسالت کو عام اور وسیع بیان کیا گیا ہے، یہ آیتیں ختم نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔[14] اس بنا پر درج ذیل آیات کو اسی گروہ میں سے قرار دیتے ہیں:[15]

  • وَ ما أَرْسَلْناک إِلاَّ کافَّهً لِلنَّاسِ بَشِیراً وَ نَذِیراً (ترجمہ: اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کیلئے بشیر و نذیر بنا کر مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔)[سباء–28]
  • تَبارَک الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلی عَبْدِهِ لِیکونَ لِلْعالَمِینَ نَذِیراً (ترجمہ: بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے (خاص) بندہ پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ تمام جہانوں کیلئے ڈرانے والا بن جائے۔)[فرقان–1]
  • و ما اَرسلناک اِلّا رحمةً لِلعالمین (ترجمہ: (اے رسول) ہم نے آپ کو تمام عالمین کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔)[انبیاء–107]

حدیثی دلائل

شیعہ اور اہل‌ سنت حدیثی مآحذ میں ختم نبوت کے بارے میں مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر پیغمبر اسلامؐ نے حدیث منزلت میں حضرت علیؑ اور آپؐ کے درمیان نسبت کو ہارون اور موسی کے درمیان موجود نسبت کی طرح قرار دیتے ہوئے فرمایا ان دو نسبتوں میں صرف ایک چیز کا فرق ہے وہ یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی ­نہیں آئے گا۔[16] اسی طرح ایک اور حدیث میں آپؐ سے نقل ہوا ہے کہ اگر میرے بعد کسی نے نبوّت کا دعوا کیا تو وہ شخص جھوٹا ہے۔[17]

ائمہ معصومینؑ سے منقول بعض دعاوں میں بھی ختم نبوت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[18]

فلسفہ

مسلمان متفکرین نے خاص کر موجودہ دور میں مختلف دلائل کے ذریعے ختم نبوت کے علل و اسباب بیان کئے ہیں من جملہ ان میں قرآن کی تحریف ناپذیری، اسلام کا جامع‌ ہونا اور نئے نبی سے بے نیاز ہونا ہے:

قرآن میں تحریف کا عدم امکان

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: قرآن میں عدم تحریف

مختلف ادوار میں نئی الہی شریعت کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ گذشتہ انبیاء کی شریعت میں وقت کے گزرنے کے ساتھ تحریف آ جاتی تھی لیکن اسلام میں یہ چیز ممکن نہیں ہے کیونکہ خود خدا نے اس شریعت کے قوانین(قرآن) کی تحریف ناپذیری کی ضمانت دی ہے۔ اس بنا پر اسلام کے بعد کسی نئی شریعت کی طرف محتاج نہیں ہے۔[19]

اسلام کا جامع‌ ہونا

آیت اکمال دین: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (ترجمہ: ا آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔)[؟؟] کے مطابق دین اسلام ایک جامع دین ہے اور اس میں حال اور آئندہ ہر دور میں انسان کی تمام ضروریات کا جواب موجود ہے نتیجے کے طور پر اس کے بعد کسی نئی شریعت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔[20]

تبلیغ کے لئے پیغمبروں سے بے نیازی

نئے بنی کے مبعوث بہ رسالت ہونے کے علل و اسباب میں سے ایک شریعت اور دین کی تعلیمات کا بیان اور خدا کے ساتھ مخلوقات کا رابطہ برقرار رہنا ہے؛ یہ کام اسلام میں پیغمبر اکرمؐ کے بعد ائمہ معصومینؑ کے دور میں ان ہستیوں کے ذریعے بطریق احسن انجام پاتا تھا اور زمانہ غیبت میں دین کی تبلیغ اور بیان کی ذمہ داری جامع الشرائط مجتہدین کے ذمہ عاید کی گئی ہے۔ اس بنا پر کسی نئے نبی کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے[21]

اعتراضات

پیغمبر اسلامؐ کے خاتم النبیین ہونے پر مختلف اعتراضات بھی کئے گئے ہیں جن کا علماء مفصل جواب دئے ہیں۔ [22]

مثلا کہا جاتا هے کہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں لفظ "خاتم" سے مراد انگشتری ہے اور اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ تمام انبیاء کی زینت ہے نہ یہ کہ اس سے مراد آپ کا آخری نبی ہونا ہو۔[23] اسی طرح ختم نبوت پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ قرآن میں پیغمبر اکرمؐ کو "خاتم‌النبیین" کے نام سے یاد کیا گیا ہے نہ "خاتم‌المرسلین" کے نام سے، پس آپؐ آخری نبیّ ہیں نہ آخری رسول، اس بنا پر آپ کے بعد کسی اور رسول کے مبعوث برسالت ہونے کا امکان ہے۔[24]

اس اعتراض کے جواب میں کہا گیا ہے کہ "خاتم" اصل میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے کسی چیز کو ختم کیا جاتا ہے اور انگشتری کو بھی خاتم اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں خطوط پر انگشتریوں کے ذریعے مہر ختم لگایا جاتا تھا۔ پس لفظ "خاتم" کو زینت میں استعمال کرنا اس کے اصلی معانی کے برخلاف ہے۔[25] اسی طرح دوسرے اعتراض کے جواب میں کہا گیا ہے کہ رسالت کا مرتبہ نبوت سے بالاتر ہے پس نبوت کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو لامحالا رسالت کا سلسلہ بھی ختم ہو گا۔[26]

کتابیات

ختم نبوت پر مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • الخاتمیۃ فی الکتاب و السنۃ و العقل الصریح، مصنف آیت اللہ جعفر سبحانی، یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے جس میں خاتمیت کی لغوی اور اصطلاحی معنی، قرآنی، حدیثی اور عقلی دلائل اور اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ رضا استادی نے اس کتاب کا فارسی میں ترجمه کیا ہے۔[27]
  • ختم النبوۃ فی ضوء القرآن و السنۃ، مصنف ابوالاعلی مودودی (۱۲۸۲-۱۳۵۸ش)، پاکستان میں جماعت اسلامی کے باقی. یہ کتاب اردو زبان میں لکھی گئی ہے جس میں درج ذیل مسائل پر بحث کی گئی ہے: خاتمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں، لفظ خاتم کے لغوی معنی، صحابہ کرام اور مسلمان علماء کا ختم نبوت پر اجماع، ظہور حضرت مہدی اور حضرت عیسی کا نزول. خلیل‌احمد حامدی نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کیا ہے۔

حوالہ جات

  1. ابن‌فارس، معجم مقائیس اللغہ، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۴۵.
  2. مطہری، خاتمیت، ۱۳۸۰ش، ص۲۶.
  3. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۲۵.
  4. مصباح، راہنماشناسی، ۱۳۷۶ش، ص۱۷۷.
  5. مثال کے طور پر مراجعہ کریں: علامہ حلی، واجب‌الاعتقاد، ۱۳۷۴ش، ص۵۲؛ سبحانی، «خاتمیت و مرجعیت علمی امامان معصوم»، ص۵۹؛ مصباح، راہنماشناسی، ۱۳۷۶ش، ص۱۷۷.
  6. رضانژاد، «خاتمیت، نفی بابیت»، ص۳۹۷.
  7. عباسی، «خاتمیت از دیدگاہ استاد مطہری و اقبال لاہوری»، ص۷.
  8. عباسی، «خاتمیت از دیدگاہ استاد مطہری و اقبال لاہوری»، ص۹.
  9. پاکتچی، «خاتمیت»، ص۵۸۴.
  10. عارفی، خاتمیت و پرسش‌ہای نو، ۱۳۸۶ش، ص۱۹.
  11. مطہری، خاتمیت، ۱۳۸۰ش، ص۱۴.
  12. میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۸، ص۶۲.
  13. مطہری، خاتمیت، ۱۳۸۰ش، ص۱۴.
  14. مراجعہ کریں: مطہری، خاتمیت، ۱۳۸۰ش، ص۱۷.
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۷، ص۳۴۱-۳۴۲.
  16. مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، باب من فضائل علی بن ابی‌طالب، ص۱۸۷۰.
  17. شیخ صدوق، مَن لایحضُرُہ الفقیہ، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۱۶۳.
  18. مراجعہ کریں: طوسی، مصباح‌المتهجد، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۸۳؛ سیدبن‌طاووس، فلاح‌السائل، ۱۴۰۶ق، ص۲۲۱.
  19. مصباح، راہنماشناسی، ۱۳۷۶ش، ص۱۸۴-۱۸۵.
  20. مصباح یزدی، راہنماشناسی، ۱۳۷۶ش، ص۱۸۵-۱۸۶.
  21. مصباح یزدی، راہنماشناسی، ۱۳۷۶ش، ص۱۸۶-۱۸۷.
  22. میرزا حسین علی بہا، ابقان، ص۱۳۶؛ بہ نقل از عارفی، خاتمیت، ۱۳۸۶ش، ص۶۵.
  23. حسینی طباطبایی، ماجرای باب و بہا، ص۱۶۳: بہ نقل از عارفی، خاتمیت، ۱۳۸۶ش، ص۶۲.
  24. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۷، ص۳۳۸.
  25. مصباح، راہنماشناسی، ۱۳۷۶ش، ص۱۸۰.
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۷، ص۳۳۸.
  27. سازمان اسناد و کتابخانہ ملی ایران

مآخذ

  • شیخ صدوق، محمد بن علی، مَن لایحضُرُہ الفقیہ، چاپ علی‌اکبر غفاری، قم ۱۴۱۴ق۔
  • رضانژاد، عزالدین، خاتمیت، نفی بابیت، انتظار موعود، ش ۱۸۶، ۱۳۹۱ش۔
  • ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علیمہ قم، ۱۴۰۴ق۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، قم، بوستان کتاب، ۱۴۰۶ق۔
  • طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تصحیح: سید احمد حسینی، تہران، کتابفروشی، ۱۴۱۶ق۔
  • پاکتچی، احمد، مدخل خاتمیت در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، واجب الاعتقاد علی جمیع العباد، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، ۱۳۷۴ش،
  • سبحانی، جعفر، «خاتمیت و مرجعیت علمی امامان معصوم علیہم‌السلام»، کلام اسلامی، ش۵۵، پاییز ۱۳۸۴ش۔
  • سبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، بہ قلم حسن محمد مکی عاملی، ج۳، قم ۱۴۱۲ق۔
  • طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفترانتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ق۔
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبد، بیروت، مؤسسہ فقہ الشیعہ، ۱۴۱۱ق/ ۱۹۹۱م۔
  • عارفی شیرداغی، محمداسحاق، خاتمیت و پرسش‌ہای نو، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، ۱۳۸۶ش۔
  • عباسی، ولی‌اللہ، «خاتمیت از دیدگاہ استاد مطہری و اقبال لاہوری»، رواق اندیشہ، ش ۲۸، فروردین ۱۳۸۳ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‎اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق۔
  • مسلم بن حجاج، المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسول اللہ صلی‌اللہ علیہ و سلم، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • مصباح، محمدتقی، راہ و راہنماشناسی(بخش ۴ و ۵ معارف قرآن)، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، قم، ۱۳۷۶ش۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، بی‌نا، بی‌تا۔
  • مطہری، مرتضی، خاتمیت، تہران، صدرا، ۱۳۸۰ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔
  • میبدی، احمد بن ابی‌سعود، کشف الاسرار و عدہ الابرار، تحقیق: علی اصغر حکمت، تہران: نشر امیرکبیر، ۱۳۷۱ش۔