ملکہ سبا
کوائف | |
---|---|
نام | بلقیس بنت ہدہاد، یلقمہ |
لقب/کنیت | ملکہ سبا |
مذہب | موحد |
شہرت | یمن پر حکومت |
نسب | قبیلہ حمیر |
مشہور اقارب | حضرت سلیمان (شوہر) |
سکونت | یمن |
علمی معلومات | |
دیگر معلومات |
ملکہ سَبا، وہ واحد ملکہ (خاتون بادشاہ) ہیں جس کا تذکرہ قرآن اور عہدین میں آیا ہے۔ ملکہ سبا جن کا نام بِلْقِیس بتایا گیا ہے۔ وہ علاقہ سبا (آج کا یمن) کی بادشاہ تھی، شروع میں سورج کی پوجا کرتی تھی لیکن حضرت سلیمان سے آشنائی کے بعد ان پر ایمان لے آئی اور موحد بن گئی۔
آج کل بعض محققین نے قرآن میں ملکہ سبا کا مثبت رول پیش کرنے کو معاشرتی امور میں خواتین کے مثبت کردار پر استدلال کیا ہے۔ حضرت سلیمان کا قوم سبأ اور ان کی ملکہ کے بارے میں باخبر ہونا، ان کے تخت سلطنت کو پلک جھپکنے سے پہلے اپنے پاس لانا اور بلقیس کا حضرت سلیمان کے پاس حاضر ہونے اور سبا کا حضرت سلیمان کے قصر میں آنے کی داستان، قرآنی قصوں میں سے ہے۔
ملکہ سبا اور حضرت سلیمان کے قصے کے کچھ پہلو قرآن اور عہد عتیق میں ایک جیسے ہیں؛ لیکن مسلمان محققین کا کہنا ہے کہ ان دونوں میں اہم فرق بھی ہے کہ جن میں سے ایک قرآن میں ہدایت کے پہلو سے بیان کرنا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اسلامی مآخذ میں ملکہ سبا کا قصہ اسرائیلیات سے مخلوط ہوکر بہت لمبا ہوا ہے۔
عربی اور فارسی ادب میں بھی ملکہ سبا کے قصے کو بہت بیان کیا گیا ہے۔ اشعار میں ملکہ سبا کو حکمت و دانائی اور ثروت کا استعارہ لیا ہے۔ ملکہ سبا کے بارے میں بعض کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں بلقیس ابراہیم الحضرانی کی لکھی گئی الملکۃ بلقیس؛ التاریخ و الاسطورۃ و الرمز شامل ہے۔
اہمیت
ملکہ سبا، علاقہ سبا کی بادشاہ تھی اور اس کی حضرت سلیمان سے ہونے والی ملاقات کا تذکرہ قرآن کے سورہ نمل[1] اور کتاب مقدس[2] میں آیا ہے۔[3] ان کا شمار عقلمند ترین خواتین میں کیا گیا ہے۔[4] قرآن میں ملکہ سبا کے قصے سے استناد کرتے ہوئے قرآن کی نگاہ میں خواتین کی مدیریت اور معاشرے میں خواتین کا کردار پر مقالے لکھے گئے ہیں۔[5] تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی مآخذ میں ملکہ سبا کے قصے میں بہت ساری اسرائیلیات شامل ہو کر اس قصے کو بہت تفصیل و تشریح دی گئی ہے۔[6]
ملکہ سبا کا حسب و نسب اور حکومت
ملکہ سبا کا نام قرآن اور عہد عتیق میں نہیں ہے؛[7]لیکن بہت سارے مفسرین اور مورخین نے ان کا نام بِلْقِیس بتایا ہے۔[8]شیعہ متعدد احادیث میں بھی ان کا نام آیا ہے۔[9] البتہ بعض مصادر میں ملکہ سبا کے لئے دوسرے بعض نام بھی ذکر ہوئے ہیں جیسے یَلمَقہ۔[10] کہا گیا ہے کہ ملکہ سبا مَأرَب میں پیدا ہوئیں۔[11]
ان کے والد کا نام شَرْح[12] اور ہدّاد بن شراحیل ذکر ہوئے ہیں۔[13] بعض مآخذ میں کہا گیا ہے آپ سام بن نوح کی نسل تھی۔[14] اسی طرح ان کی ماں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ جنات میں سے تھی؛[15] لیکن اس بات کا انکار کیا گیا ہے۔[16]
بلقیس قبیلہ حِمیَر سے تھیں[17] اور سبا (آج کا یمن)[18] پر ایک مقتدر حکومت کی مالکہ تھیں[19] اس کا دارالحکومت مَأرَب تھا۔[20]
چھٹی صدی ہجری کے محدث اِبن عَساکِر کے مطابق بلقیس یمن پر حضرت سلیمان سے ملنے سے پہلے 9 سال اور ملنے کے بعد 4 سال حکومت کی۔[21] البتہ حکومت کی کچھ اور مدت بھی ذکر ہوئی ہے۔[22]
ابوالفتوح رازی اپنی کتاب روض الجِنان میں لکھتے ہیں کہ ملکہ سبا نے عَرِم کا ڈیم بنایا جو بعد میں سیل عَرِم میں ویران ہوا۔[23] البتہ اس ڈیم کی تعمیر کو بعض اور کی طرف بھی نسبت دی گئی ہے۔[24]
بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ملکہ سبا چونکہ حضرت سلیمان کے ہم عصر تھی تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دور حکومت قبل از مسیح دسویں صدی کے درمیان میں تھا۔[25] اسی وجہ سے یمن میں کشف شدہ کَتبوں پر کسی خاتون بادشاہ کا نام نہ ہونے کی وجہ سے ایجاد ہونے والے شک و تردید کو صحیح نہیں سمجھا گیا ہے؛ کیونکہ یہ کَتبے میلاد مسیح سے 8 سو سال پہلے کے تھے۔[26]بعض محققین کا کہنا ہے کہ صنعا سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر قصر بلقیس کے بعض ستون ابھی بھی موجود ہیں۔[27] چودہویں صدی ہجری کے محقق جواد علی لکھتے ہیں کہ حبشی لوگ خود کو بلقیس کی نسل سے قرار دیتے ہیں۔[28]
حضرت سلیمان پر ایمان اور ان سے شادی
قرآنی آیات کے مطابق ملکہ سبا شروع میں سورج کی پوجا کرتی تھی؛[29] لیکن حضرت سلیمان سے آشنائی کے بعد خدا پر ایمان لے آئی۔[30] بعض تفسیری منابع کے مطابق انہوں نے حضرت سلیمان سے شادی کی[31] فارسی دائرۃ المعارف میں بعض یہودی مآخذ سے نقل کیا ہے کہ آپ کی حضرت سلیمان سے شادی کے نتیجے میں بخت النصر پیدا ہوا؛[32]لیکن بعض کے مطابق انہوں نے کسی اور سے شادی کی[33]جبکہ بعض کے مطابق ملکہ سبا نے کبھی بھی شادی نہیں کی۔[34]
حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کی ملاقات قرآن اور عہدین میں
قرآن میں حضرت سلیمان اور بلقیس کی داستان نقل ہوئی ہے۔[35] حضرت سلیمان کو ہدہد کے ذریعے ایک ایسی سر زمین کے بارے میں اطلاع دی جاگئی جس پر ایک خاتون حکومت کیا کرتی تھی جو فراوان نعمتوں سے مالا مال تھی لیکن سورج کی پوجا کیا کرتی تھی۔[36] حضرت سلیمان نے ایک خط کے ذریعے ملکہ سبا کو توحید کی دعوت دی۔ ملکہ سبا نے جواب میں اپنے ملک کو نقصان سے بچانے کے لئے گرانبہا تحفے تحائف حضرت سلیمان کی طرف بھیجا لیکن حضرت سلیمان نے انہیں واپس کیا۔[37]ملکہ سبا حضرت سلیمان سے ملاقات کے لئے ان کی طرف روانہ ہوئی جبکہ دوسری طرف حضرت سلیمان نے کتاب سے مختصر آشنائی رکھنے والے فرد کے ذریعے ملکہ سبا کے تخت کو اپنے پاس لے آئے۔[38] ملکہ سبا نے حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچ کر اللہ پر ایمان لے آئی۔[39] کہا گیا ہے کہ تختِ بلقیس بہت عالشان اور بڑا تھا جس پر جواہرات سے تزیین کی گئی تھی۔[40]
عہد عتیق میں کہا گیا ہے کہ ملکہ سبا نے حضرت سلیمان کی کافی شہرت سن رکھی تھی، حضرت سلیمان کے پاس آئی اور ان سے مختلف سوالات کرنے لگی جن کا حضرت سلیمان نے مناسب جواب دیا۔[41] اس کے علاوہ خوبصورت قصر، شاہانہ خوراک، شاندار دربار اور عظیم مقامات، خدمت کاروں کی منظم خدمت اور خدا کے گھر میں پیش ہونے والی قربانیوں کو دیکھ کر وہ مبہوت رہ گئی۔[42] آخر کار ملکہ سبا نے حضرت سلیمان اور ان کے خدا کی حمد و ثنا کی[43] اور دونوں طرف سے ایک دوسرے کو گرانبہاء تحفے تحائف رد و بدل ہوئے اور ملکہ سبا اپنے ملک کی طرف واپس پلٹ گئی۔[44] عہد جدید میں بھی ملکہ سبا کے بارے میں یوں اشارہ ہوا ہے۔[45]
بعض تحقیقات کے مطابق قران اور عہد عتیق میں ملکہ سبا اور حضرت سلیمان کے قصے کے کچھ پہلو مشترک ہیں؛ لیکن دونوں میں اہم فرق بھی ہیں۔[46] باہمی فرق میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن میں عہد قدیم کی نسبت تفصیل کے ساتھ اور ہدایت کے پہلو سے بیان ہوا ہے۔[47] اسی طرح قرآن میں حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کی ملاقات کی جگہ کی طرف اشارہ نہیں ہوا ہے؛[48] لیکن عہد عتیق میں ملاقات کی جگہ یروشلم بیان ہوا ہے۔[49]جبکہ بعض اسلامی مآخذ میں ملاقات کی جگہ یروشلم کے علاوہ کہیں اور بیان ہوئی ہے جب حضرت سلیمان مکہ کی جانب سفر پر تھے تو سفر کے دوران ملاقات ہوئی ہے۔[50]
وفات اور محل دفن
بعض تاریخی مآخذ کے مطابق بلقیس حضرت سلیمان سے ملاقات کے سات سال اور چند مہینوں کے بعد وفات پاگئیں اور شام میں تَدمُر نامی شہر میں سپرد خاک ہوئیں۔[51] کسی کو بھی اس کی قبر کا پتہ نہیں تھا لیکن ولید بن عبدالمَلِک کے دور حکومت میں اس کی قبر ظاہر ہوئی اور ولید کے حکم سے اس پر عمارت تعمیر ہوئی۔[52]
فارسی اشعار میں ملکہ سبا کا تذکرہ
حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کی داستان فارسی اور عربی ادبیات میں بھی بہت معروف ہے۔[53] اشعار میں بلقیس حکمت و دانائی اور ثروت و دولت کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔[54] بعض شعرا نے اس بارے میں پوری مثنوی لکھا ہے۔ حیاتی گیلانی نے دسویں صدی ہجری میں "سلیمان و بلقیس" کے عنوان سے ایک مثنوی لکھا ہے۔[55] احمد خان صوفی نے بارہویں صدی ہجری میں "بلقیس و سلیمان" کے نام سے نظامی کی «خسرو و شیرین» سے الہام لیتے ہوئے ایک مثنوی لکھا ہے۔[56]
امام خمینی نے بھی اپنے اشعار میں یوں ارشاد فرمایا ہے:
|
نظامی نے اپنے اشعار میں یوں کہا ہے:
|
مونوگراف
ملکہ سبا کے موضوع پر مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- الملکۃ بلقیس؛ التاریخ و الاسطورۃ و الرمز، بقلم بلقیس ابراہیم الحضرانی. اس کتاب میں ادیان کی نظر میں ملکہ سبا کا کردار، یمن کی تاریخ اور ادبیات پر تحقیق ہوئی ہے۔[59] یہ کتاب سنہ 1994 میں مصر سے چھپ گئی۔[60]
- بلقیس؛ امرأۃ الاَلغاز و شیطانۃ الجنس، تالیف: زیاد منی۔ یہ کتاب 8 ابواب پر مشتمل ہے جس میں تاریخ اسلام، تاریخ یہود و مسیحیت میں ملکہ سبا کی شخصیت پر تحقیق ہوئی ہے۔[61] انتشارات ریاضالرئیس بیروت نے سنہ 1998ء میں اس کتاب کو شائع کیا۔[62]
حوالہ جات
- ↑ سورہ نمل، آیات 20-44.
- ↑ کتاب مقدس، کتاب اول پادشاہان، باب 10.
- ↑ کریمیان و ہوشنگی، «بلقیس»، ص74.
- ↑ ابن حبیب البغدادی، المحبر، دار الآفاق الجدیدۃ، ص367۔
- ↑ ملاحظہ کریں: عقیلی، «بررسی حاکمیت زن از نگاہ عہد قدیم و قرآن کریم با تکیہ بر داستان ملکہ سبا»، 1394ش؛ روحانیمنش، «الگوہای مدیریت زنان در قرآن»، 1393ش؛ رعایی، «بلقیس اشارتی بر زن از دیدگاہ قرآن»، 1377ش؛ کریمی و دیگران، «کارآمدی زنان در عرصہہای سیاسی - اجتماعی»، 1400ہجری شمسی۔
- ↑ الحضرانی، الملکۃ بلقیس، 1994م، ص144.
- ↑ نافع، عصر ما قبل الاسلام، 2018م، ص72.
- ↑ جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب، 1422ھ، ج3، ص264.
- ↑ مراجعہ کریں: صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص208، 209 و 210؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص230؛ شیخ صدوق، الخصال، 1362شمسی، ج1، ص327؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص103؛ شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص213.
- ↑ عوتبی صحاری، الأنساب، 1427ھ، ج1، ص209.
- ↑ شبستری، اعلام القرآن، 1379شمسی، ص191.
- ↑ قمی، تفسیر قمی، 1404ھ، ج2، ص128.
- ↑ اصفہانی، تاریخ سنی ملوک الارض، دار مکتبۃ الحیاۃ، ص99.
- ↑ خطیب عمری، الروضۃ الفیحاء، 1420ھ، ص96.
- ↑ عوتبی صحاری، الأنساب، 1427ھ، ج1، ص209.
- ↑ نووی، تہذیب الأسماء و اللغات، 1430ھ، ص481.
- ↑ ابن صاعد اندلسی، التعریف بطبقات الأمم، 1376شمسی، ص204۔
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص161.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج7، ص341.
- ↑ شبستری، اعلام القرآن، 1379شمسی، ص191.
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج69، ص67۔
- ↑ اصفہانی، تاریخ سنی ملوک الارض، دار مکتبۃ الحیاۃ، ص99.
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج16، ص61.
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص161.
- ↑ نافع، عصر ما قبل الاسلام، 2018م، ص72.
- ↑ خزائلی، اعلام قرآن، 1371شمسی، ص376.
- ↑ بیآزار شیرازی، باستانشناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، 1382شمسی، ص322.
- ↑ جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب، 1422ھ، ج1، ص237.
- ↑ سورہ نمل، آیہ 24۔
- ↑ سورہ نمل، آیات44۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص128۔
- ↑ مصاحب و دیگران، «بلقیس»، ص527.
- ↑ ابن کلبی، نسب معد و الیمن الکبیر، 1425ھ، ج2، ص546۔
- ↑ عوتبی صحاری، الأنساب، 1427ھ، ج1، ص210.
- ↑ سورہ نمل، آیات 20-44۔
- ↑ سورہ نمل، آیہ 23-24۔
- ↑ سورہ نمل، آیہ 29 و آیہ 36۔
- ↑ سورہ نمل، آیات 38-40۔
- ↑ سورہ نمل، آیات 42-44.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج7، ص341.
- ↑ کتاب مقدس، اول پادشاہان، باب 10، آیات1-3۔
- ↑ کتاب مقدس، اول پادشاہان، باب10، آیات 4-5۔
- ↑ کتاب مقدس، اول پادشاہان، باب 10، آیہ 9۔
- ↑ کتاب مقدس، اول پادشاہان، باب 10، آیات10-13۔
- ↑ انجیل متا، باب12، آیہ42؛ انجیل لوقا، باب11، آیہ 31.
- ↑ حسینی بجدنی، و دیگران، «بررسی و تحلیل تفسیری داستان سلیمان(ع) و ملکہ سبا در نگاہ قرآن کریم و تطبیق آن با عہد قدیم»، ص222.
- ↑ حسینی بجدنی، و دیگران، «بررسی و تحلیل تفسیری داستان سلیمان(ع) و ملکہ سبا در نگاہ قرآن کریم و تطبیق آن با عہد قدیم»، ص222-224.
- ↑ سورہ نمل، آیات 20-44.
- ↑ کتاب مقدس، کتاب اول پادشاہان، باب 10، آیہ 2.
- ↑ ابنہشام، التیجان فی ملوک حمیر، 1347ھ، ص163-170؛ بیضاوی، انوار التنزیل، ص1418ھ، ج4، ص158.
- ↑ دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج1، ص249.
- ↑ دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج1، ص249.
- ↑ کریمیان و ہوشنگی، «بلقیس»، ص75.
- ↑ حمزہ، نساء حکمن الیمن، 1420ھ، ص95.
- ↑ اسماعیلزادہ، تحقیق در مثنوی سلیمان و بلقیس حیاتی گیلانی، 1388ش۔
- ↑ پشت دار، معرفی مثنوی بلقیس و سلیمان احمد خان صوفی، 1391ش۔
- ↑ امام خمینی، دیوان اشعار، سلطان عشق
- ↑ نظامی، خمسہ، سایت گنجور۔
- ↑ الحضرانی، الملکۃ بلقیس التاریخ و الاسطورۃ و الرمز، 1994ء.
- ↑ الحضرانی، الملکۃ بلقیس التاریخ و الاسطورۃ و الرمز، 1994م.
- ↑ زیاد منی، بلقیس امرأۃ الألغاز و شیطانۃ الجنس، 1998م.
- ↑ زیاد منی، بلقیس امرأۃ الألغاز و شیطانۃ الجنس، 1998م.
مآخذ
- قرآن.
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1408ھ۔
- ابنحبیب البغدادی، محمد، المحبر، تحقیق ایلزہ لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدۃ، بیتا.
- ابنصاعد اندلسی، صاعد بن احمد، التعریف بطبقات الأمم، تصحیح غلامرضا جمشیدنژاد، تہران، مرکز پژوہشی میراث مکتوب، 1376ہجری شمسی۔
- ابنعساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، دار الفکر، 1415ھ۔
- ابنکلبی، ہشام بن محمد، نسب معد و الیمن الکبیر، تحقیق ناجی حسن، لبنان، عالم الکتب، 1425ھ۔
- ابنہشام، عبدالملک، التیجان فی ملوک حمیر، صنعاء، مرکز الدراسات و الابحاث الیمنیۃ، 1347ھ۔
- اسماعیلزادہ، یوسف و دیگران، «تحقیق در مثنوی سلیمان و بلقیس حیاتی گیلانی»، در مجلہ پژوہش زبان و ادبیات فارسی، شمارہ 12، بہار 1388ہجری شمسی۔
- اصفہانی، حمزۃ بن حسن، وتاریخ سنی ملوک الارض و الانبیاء، بیروت، دار مکتبۃ الحیاۃ، بیتا.
- الحضرانی، بلقیس ابراہیم، الملکۃ بلقیس التاریخ و الاسطورۃ و الرمز، قاہرہ، ای. ام. گرافیک، 1994م.
- بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التأویل، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ص1418ھ۔
- بیآزار شیرازی، عبدالکریم، باستانشناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
- پشتدار، علیمحمد و دیگران، «معرفی مثنوی بلقیس و سلیمان احمدخان صوفی»، در فصلنامہ مطالعات شبہقارہ، سال 4، شمارہ 12، پاییز 1391ہجری شمسی۔
- جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب، بیروت، دار الساقی، 1422ھ۔
- حسینی بجدنی، سید حسین و دیگران، «بررسی و تحلیل تفسیری داستان سلیمان(ع) و ملکہ سبا در نگاہ قرآن کریم و تطبیق آن با عہد قدیم»، در مجلہ پژوہشہای تفسیر تطبیقی، شمارہ 13، بہار و تابستان 1400ہجری شمسی۔
- حمزہ، عفت وصال، نساء حکمن الیمن، بیروت، دار ابنحزم، 1420ھ۔
- خزائلی، محمد، اعلام قرآن، تہران، امیرکبیر، 1371ہجری شمسی۔
- خطیب عمری، یاسین، الروضۃ الفیحاء فی تواریخ النساء، تحقیق حسام ریاض عبدالحکیم، لبنان، مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، 1420ھ۔
- دیار بکری، حسین بن محمد، تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس، بیروت، دار صادر، بیتا.
- ذاکری، علیاکبر، «ولایت زنان»، در مجلہ حوزہ، شمارہ 163 و 164، بہار و تابستان 1391ہجری شمسی۔
- رعایی، فہیمہ، و مریم گلاببخش، «بلقیس: اشارتی بر زن از دیدگاہ قرآن»، در مجلہ حکمت سینوی، شمارہ 4، اردیبہشت 1377ہجری شمسی۔
- روحانیمنش، معصومہ، «الگوہای مدیریت زنان در قرآن»، فصلنامہ تحقیقات مدیریت آموزشی، سال پنجم، شمارہ سوم، بہار 1393ہجری شمسی۔
- زیاد منی، بلقیس امرأۃ الألغاز و شیطانۃ الجنس، بیروت، ریاض الرئیس، 1998م.
- شبستری، عبدالحسین، اعلام القرآن، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1379ہجری شمسی۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1362ہجری شمسی۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
- صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، 1404ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
- عقیلی، فاطمہ، «بررسی حاکمیت زن از نگاہ عہد قدیم و قرآن کریم با تکیہ بر داستان ملکہ سبا»، در مجلہ ہفت آسمان، شمارہ 65 و 66، 1394ہجری شمسی۔
- عوتبی صحاری، سلمۃ بن مسلم، الأنساب، تصحیح محمد احسان نص، عمان، وزارۃ التراث القومی و الثقافۃ، 1427ھ۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق و تصحیح سید طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
- کتاب مقدس، بیروت، دار المشرق، 1994م.
- کریمی، فاطمہ و دیگران، «کارآمدی زنان در عرصہہای سیاسی - اجتماعی»، در مجلہ سیاست اسلامی، شمارہ 20، 1400ہجری شمسی۔
- کریمیان، محمدباقر، و لیلا ہوشنگی، «بلقیس»، در جلد 4 دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
- مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، قم، مؤسسۃ دار الہجرۃ، 1409ھ۔
- مصاحب غلامحسین و دیگران، «بلقیس»، در جلد 1 دایرۃ المعارف فارسی، تہران، امیرکبیر، 1381ہجری شمسی۔
- نافع، محمد مبروک، عصر ما قبل الاسلام، قاہرہ، مؤسسہ ہنداوی، 2017م.
- نووی، یحیی بن شرف، تہذیب الأسماء و اللغات، تصحیح عامر غضبان و عادل مرشد، دمشق، دار الرسالۃ العالمیۃ، 1430ھ۔