"نکاح متعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 4: | سطر 4: | ||
اہل سنت کے منابع روائی میں منقول کچھ احادیث کے مطابق پہلی بار [[عمر بن خطاب|عُمَر بن خَطّاب]] نے نکاح متعہ کو حرام قرار دیا۔ شیعہ فقہاء متعہ سے متعلق آیت قرآنی اور اہل بیتؑ کی احادیث کی بنیاد پر نکاح متعہ کو مشروع عمل سمجھتے ہوئے اس سے متعلق فقہی احکام بیان کیے ہیں۔ | اہل سنت کے منابع روائی میں منقول کچھ احادیث کے مطابق پہلی بار [[عمر بن خطاب|عُمَر بن خَطّاب]] نے نکاح متعہ کو حرام قرار دیا۔ شیعہ فقہاء متعہ سے متعلق آیت قرآنی اور اہل بیتؑ کی احادیث کی بنیاد پر نکاح متعہ کو مشروع عمل سمجھتے ہوئے اس سے متعلق فقہی احکام بیان کیے ہیں۔ | ||
فقہائے امامیہ | [[فقہاء|فقہائے امامیہ]] کا اس بات پر [[اجماع]] ہے کہ نکاح متعہ میں مدت (دورانیہ) اور [[حق مہر]] کی مقدار معلوم ہونا ضروری ہے۔ نکاح متعہ میں نکاح دائمی کے برخلاف [[طلاق]] نہیں ہوتی بلکہ متعین مدت ختم ہونے یا مرد کی طرف باقی مدت کو بخش دینے سے میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا۔ | ||
نکاح متعہ کی مدت کے اختتام یا مرد کی طرف سے باقی مدت کے بخشے جانے کے بعد مجامعت محقق ہونے کی صورت میں عورت پر واجب ہے کہ دو حیض کی مدت عدت گزارے۔ | نکاح متعہ کی مدت کے اختتام یا مرد کی طرف سے باقی مدت کے بخشے جانے کے بعد مجامعت محقق ہونے کی صورت میں عورت پر [[واجب]] ہے کہ دو [[حیض]] کی مدت [[عدّت|عدت]] گزارے۔ | ||
==مفہوم اوراہمیت== | ==مفہوم اوراہمیت== | ||
موقتی نکاح، مرد اور عورت کی طرف سے دائمی مدت کے بغیر محدود اور معتین مدت کے لیے شادی کرنے کو کہتے ہیں۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۳۹۹.</ref> نکاح متعہ ان موارد میں سے ہے جن کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔<ref>کلانتر، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۴۵.</ref> اس نوعیت کا نکاح تمام شیعہ فقہاء کی نظر میں مشروع ہے۔<ref>شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۳.</ref> انہوں نے فقہی ابواب میں سے باب نکاح میں اس سے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۳۹۹.</ref> | موقتی نکاح، مرد اور عورت کی طرف سے دائمی مدت کے بغیر محدود اور معتین مدت کے لیے [[شادی بیاه|شادی]] کرنے کو کہتے ہیں۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۳۹۹.</ref> نکاح متعہ ان موارد میں سے ہے جن کے بارے میں [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔<ref>کلانتر، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۴۵.</ref> اس نوعیت کا نکاح تمام شیعہ فقہاء کی نظر میں مشروع ہے۔<ref>شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۳.</ref> انہوں نے [[فقہی]] ابواب میں سے [[نکاح|باب نکاح]] میں اس سے متعلق [[شرعی احکام]] بیان کیے ہیں۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۳۹۹.</ref> | ||
ائمہ معصومینؑ سے منقول احادیث کے مطابق نکاح متعہ کے بارے میں ثواب کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔<ref>برای نمونه نگاه کنید به حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۱، ص۱۳-۱۷.</ref> البته بعض روایات میں نکاح متعہ کے بارے میں زیادہ اصرار کرنے سے نہی کی گئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۳۰ق، ج۱۱، ص۱۸-۱۹.</ref> شیعہ فقہاء نے معصومینؑ کی احادیث کی بنیاد پر نہ صرف نکاح متعہ کے حلال ہونے کا فتوا دیا ہے بلکہ اسے مستحب بھی سمجھتے ہیں۔<ref> | [[ائمہ معصومینؑ]] سے منقول [[احادیث]] کے مطابق نکاح متعہ کے بارے میں ثواب کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔<ref>برای نمونه نگاه کنید به حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۱، ص۱۳-۱۷.</ref> البته بعض روایات میں نکاح متعہ کے بارے میں زیادہ اصرار کرنے سے نہی کی گئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۳۰ق، ج۱۱، ص۱۸-۱۹.</ref> شیعہ فقہاء نے معصومینؑ کی احادیث کی بنیاد پر نہ صرف نکاح متعہ کے حلال ہونے کا [[فتوا]] دیا ہے بلکہ اسے [[مستحب]] بھی سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۱، ص۱۳-۱۷؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۸.</ref> | ||
نکاح متعہ کے فوائد کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ معاشرے میں موجود جنسی مسائل | نکاح متعہ کے فوائد کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ معاشرے میں موجود جنسی مسائل کا بہترین حل ہے۔ خصوصا جوانوں اور ان لوگوں کے لیے جو دائمی نکاح کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، ۱۳۷۰ش، ص۳۸۶-۳۸۵؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، ۱۴۲۳ق، ص۹-۱۱.</ref> نیز یہ معاشرے میں رائج منکر و فحشاء اور دیگر سماجی برائیوں کے سد باب کا مناسب طریقہ بھی شمار ہوتا ہے۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، ۱۳۷۰ش، ص۳۸۷.</ref> | ||
نظام جمہوریی اسلامی ایران کے دیوانی قانون (مدنی قانون) میں نکاح متعہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس ملک کے آئینی دستور کی چھٹی فصل نکاح متعہ سے متعلق قانون کے لیے مختص کی گئی ہے۔<ref>[https://rc.majlis.ir/fa/law/show/92778 «قانون مدنی»]، سایت مرکز پژوهشهای مجلس شورای اسلامی.</ref> | نظام جمہوریی اسلامی ایران کے دیوانی قانون (مدنی قانون) میں نکاح متعہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس ملک کے آئینی دستور کی چھٹی فصل نکاح متعہ سے متعلق قانون کے لیے مختص کی گئی ہے۔<ref>[https://rc.majlis.ir/fa/law/show/92778 «قانون مدنی»]، سایت مرکز پژوهشهای مجلس شورای اسلامی.</ref> |
نسخہ بمطابق 08:12، 14 دسمبر 2023ء
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
مُوَقّتی نکاح یا نکاح مُتعَہ متعین مدت اور غیر دائمی شادی کو کہتے ہیں۔ تمام مسلمانوں کے مابین اس بات پر اتفاق ہے کہ اس طرح کی شادی عصر حضرت محمدؐ میں مشروع تھی۔ اہل سنت و جماعت، زیدیہ، اسماعیلیہ اور اباضیہ کا نظریہ ہے کہ اس نوعیت کی شادیاں رسول خداؐ کے زمانے میں کچھ مدت کے لیے رائج تھیں لیکن خود رسول اللہؐ کے زمانے میں ہی اس کا حکم منسوخ اور ایسا کرنا حرام قرار پایا ہے؛ لیکن امامیہ کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرخداؐ نے اس حکم کو کبھی منسوخ نہیں کیا، اپنے زمانے میں بھی اسی طرح ابو بکر کے دور خلافت میں بھی نکاح متعہ ایک مشروع عمل کی حیثیت سے باقی رہا۔ اہل سنت کے منابع روائی میں منقول کچھ احادیث کے مطابق پہلی بار عُمَر بن خَطّاب نے نکاح متعہ کو حرام قرار دیا۔ شیعہ فقہاء متعہ سے متعلق آیت قرآنی اور اہل بیتؑ کی احادیث کی بنیاد پر نکاح متعہ کو مشروع عمل سمجھتے ہوئے اس سے متعلق فقہی احکام بیان کیے ہیں۔
فقہائے امامیہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ نکاح متعہ میں مدت (دورانیہ) اور حق مہر کی مقدار معلوم ہونا ضروری ہے۔ نکاح متعہ میں نکاح دائمی کے برخلاف طلاق نہیں ہوتی بلکہ متعین مدت ختم ہونے یا مرد کی طرف باقی مدت کو بخش دینے سے میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا۔
نکاح متعہ کی مدت کے اختتام یا مرد کی طرف سے باقی مدت کے بخشے جانے کے بعد مجامعت محقق ہونے کی صورت میں عورت پر واجب ہے کہ دو حیض کی مدت عدت گزارے۔
مفہوم اوراہمیت
موقتی نکاح، مرد اور عورت کی طرف سے دائمی مدت کے بغیر محدود اور معتین مدت کے لیے شادی کرنے کو کہتے ہیں۔[1] نکاح متعہ ان موارد میں سے ہے جن کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔[2] اس نوعیت کا نکاح تمام شیعہ فقہاء کی نظر میں مشروع ہے۔[3] انہوں نے فقہی ابواب میں سے باب نکاح میں اس سے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔[4]
ائمہ معصومینؑ سے منقول احادیث کے مطابق نکاح متعہ کے بارے میں ثواب کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔[5] البته بعض روایات میں نکاح متعہ کے بارے میں زیادہ اصرار کرنے سے نہی کی گئی ہے۔[6] شیعہ فقہاء نے معصومینؑ کی احادیث کی بنیاد پر نہ صرف نکاح متعہ کے حلال ہونے کا فتوا دیا ہے بلکہ اسے مستحب بھی سمجھتے ہیں۔[7]
نکاح متعہ کے فوائد کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ معاشرے میں موجود جنسی مسائل کا بہترین حل ہے۔ خصوصا جوانوں اور ان لوگوں کے لیے جو دائمی نکاح کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں۔[8] نیز یہ معاشرے میں رائج منکر و فحشاء اور دیگر سماجی برائیوں کے سد باب کا مناسب طریقہ بھی شمار ہوتا ہے۔[9]
نظام جمہوریی اسلامی ایران کے دیوانی قانون (مدنی قانون) میں نکاح متعہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس ملک کے آئینی دستور کی چھٹی فصل نکاح متعہ سے متعلق قانون کے لیے مختص کی گئی ہے۔[10]
نکاح متعہ اسلامی فرقوں کی نگاہ میں
مسلمان دانشور حضرات نکاح متعہ کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں: شیعہ فقہاء کی نظر میں نکاح متعہ ایک مشروع عمل ہے؛ لیکن دیگر فِرَق منجملہ اہل سنت،[11] زیدیہ،[12] اسماعیلیہ[13] اور اباضیہ[14] اسے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔
شہید ثانی کے مطابق تمام شیعہ فقہاء نکاح متعہ کو جائز سمھجتے ہیں۔[15] شیعہ فقہاء نکاح متعہ کے اثبات کے سلسلے میں قرآن کی آیات منجملہ آیت متعہ سے استناد کرتے ہیں۔[16] نیز اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ سے تواتر کی حد تک اس کی مشروعیت کے بارے میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔[17] دیگر فِرَق اسلامی کے علما کا کہنا ہے کہ نکاح متعہ عصر رسول خداؐ میں رائج تھا پھر اس کا حکم منسوخ اور حرام ہوچکا ہے۔[18]
کیا نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوچکا ہے؟
تمام مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ نکاح متعہ پیغمر اسلامؐ کے دور میں مشروع تھا۔[19] اہل سنت کے بعض منابع حدیثی میں خلیفہ دوم عُمَر بن خَطّاب سے کچھ روایتوں کو نقل کیا گیا ہے کہ عمر بن خطاب نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خود انہوں نے اس سے نہی کی ہے۔[20] ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ انہوں نے کہا دو قسم کے متعے پیغمر خداؐ کے زمانے میں جائز تھے؛ لیکن میں ان دونوں سے نہی کرتا ہوں اور اس کے ارتکاب کرنے والے کو سزا دیتا ہوں، ان میں سے ایک نکاح متعہ ہے اور دوسرا مُتعہ حج۔[21]
شیعہ حضرات چند احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ کو سب سے پہلے حضرت عمر نے حرام قرار دیتے ہوئے اس کی ممانعت کی ہے۔[22] ان کے مطابق حضرت عمر کا یہ عمل دین میں بدعت پیدا کرنے کا سبب اور نص کے مقابلے میں اجتہاد ہے۔ نیز پیغمبر خداؐ کی جانب سے رائج شدہ ایک مشروع عمل کی مخالفت بھی ہے۔[23] اہل سنت عالم دین عَسقلانی (۷۷۳–۸۵۲ھ) بھی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ کے پورے دوران زندگی، دوران خلافت ابو بکر اور خود حضرت عمر کے دور خلافت میں بھی کچھ مدت تک نکاح معتہ ایک جائز اور مشروع عمل کے طور پر رائجرہا؛ عمر بن خطاب نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس کی ممانعت کی اور حرام قرار دیا۔[24]
لیکن اہل سنت کے اکثر علما اپنے منابع حدیثی[25] میں سے کچھ احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ پیغمبراسلامؐ کے دور میں ہی منسوخ ہوچکا تھا۔[26] علمائے اہل سنت کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عصر پیغمبر خداؐ میں سورہ مومنون کی آیات نمبر5 سے 7 تک جب نازل ہوئی تو نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوگیا۔[27] یہ گروہ ان دو آیات سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ مومنین پاکدامن ہوتے ہیں وہ اپنی جنسی خواہشات کو صرف اپنی بیویوں اور کنیزوں سے تسکین کرتے ہیں اور جو لوگ ان دو چیزوں کے علاوہ کسی تیسرے طریقے سے اپنی جنسی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں گویا انہوں نے حدود الہی کو توڑ ڈالا ہے۔ چونکہ نکاح متعہ مذکورہ دو طریقوں سے ہٹ کر کوئی تیسرا طریقہ ہے لہذا اس پر عمل کرنا حدود الہی کی رعایت نہ کرنے کے مترادف ہے۔[28]
اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ سورہ مومنون کی 5ویں اور 7ویں آیت مکہ میں نازل ہوئی ہیں اور جس آیت کے ذریعے نکاح متعہ کی مشروعیت ثابت کی جاتی ہے وہ ان آیات کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور نسخ کرنے والی پہلے نازل ہو اور نسخ شدہ آیت بعد میں نازل ہو، ایسا ممکن نہیں۔[29] اس پر مستزاد یہ کہ نکاح متعہ میں عاقدین کی جانب سے مدت متعین ہوتی ہے اور شرعی طور پر عورت مرد کی بیوی شمار ہوتی ہے لہذا اس طریقے سے ان دونوں کا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا حدود الہی کی مخالفت محسوب نہیں ہوتی۔[30]
فقہی احکام
زن: زَوَّجْتُکَ نَفْسی عَلَی المَهْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّةِ المَعْلُومَة؛ خودم را به ازدواج تو در آوردم، به مَهری که معیّن شده، در مدت معلوم.»
مرد: «قَبِلْتُ التَّزْویجَ عَلَی المَهْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّةِ المَعْلُومَة؛ قبول کردم ازدواج را با مهر معلوم، در مدت معلوم»[31]
شیعہ فقہاء کے فتوا کےمطابق نکاحمتعہ کے چند فقہی احکام مندرجہ ذیل ہیں:
- نکاح متعہ کی مدت اور مہریہ کی مقدار صیغہ عقد میں معلوم و مشخص ہونا چاہیے۔[32] شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق اگر نکاح متعہ میں مدت کا ذکر نہ کیا جائے تو وہ خود بخود دائمی نکاح میں تبدیل ہوجائے گا۔[33]
- بعض فقہاء کی رائے کے مطابق اگر عاقدین عربی زبان میں صیغہ جاری نہیں کرسکتے ہیں تو دونوں کی طرف سے عربی زبان سے آشنا کسی کو وکیل بنانا ممکن ہونے کے باوجود وہ کسی دوسری زبان میں عقد جاری کرسکتے ہیں۔[34] بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ بہر صورت صیغہ عقد کسی بھی زبان میں جاری کرسکتے ہیں۔[35]
- مسلمان مرد اور اہل کتاب عورت کے مابین نکاح متعہ صحیح اور جائز ہے؛[36] لیکن مسلمان عورت اہل کتاب مرد کے ساتھ نکاح متعہ نہیں کرسکتی۔[37] نیز مسلمان مرد اور عورت کا کسی غیر اہل کتاب(کافر) سے نکاح متعہ جائز نہیں ہے اور حرام ہے۔[38]
- باکرہ لڑکی کے ساتھ نکاح متعہ مکروہ ہے اور نکاح متعہ کرنے کی صورت میں اس کی بکارت کو زائل کرنا مکروہ ہے۔[39]
- نکاح متعہ کے نتیجے میں اگر مجامعت متحقق ہوچکی ہے تو نکاح متعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد عورت کو چاہیے کہ عدت پوری کرے، یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو یائسہ نہ ہوں، (یائسہ کی عدت نہیں ہوتی) وہ عورت جو حیض کی عمر میں ہو اور یائسہ نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ 45 دن عدت پوری کرے اور اگر با قاعدہ سے حیض آتا ہو تو بعض فقہاء کے فتوا کے مطابق دو حیض عدت پوری کرنی ہوگی۔[40]
- اگر مجامعت متحقق ہونے سے پہلے عقد کی مدت پوری ہوجائے یا مرد اس متعین مدت کو معاف کردے تو اس صورت میں عدت پوری کرنا ضروری نہیں۔[41]
- اگر نکاح متعہ کے دوران مرد وفات پائے تو مجامعت متحقق نہیں پانے کی صورت میں بھی عورت کو چاہیے کہ عدت وفات پوری کرے جو کہ 4 مہینے 10دس ہے۔[42]
- نکاح متعہ میں طلاق نہیں ہوتی؛ بلکہ یہاں مدت پوری ہوجانے یا مرد کی طرف سے متعین مدت کو معاف کرنے سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔[43]
کتابیات
شیعہ علما نے نکاح متعہ کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں اور رسالے تدوین کیے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم کے استاد نجم الدین طبسی نے اسی موضوع پر ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا فارسی زبان میں "ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه" کے عنوان سے ترجمہ ہوا ہے۔ اس کتاب کے کتاب نامہ والے حصے میں شیعہ علما کی طرف سے نکاح متعہ اور اس کی مشروعیت سے متعلق لکھی گئی 46 کتابوں کا تعارف کیا گیا ہے۔[44] چند آثار یہ ہیں:
- خلاصة الایجاز فی المتعة: یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں نکاح متعہ کی مشروعیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کی فضیلت، کیفیت اور دوسرے دیگر احکام کو اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔[45] بعض علما نے اس کتاب کو شیخ مفید کی طرف نسبت دی ہے۔[46] جبکہ بعض دیگر علما نے اسے شہید اول[47] سے منسوب کیا ہے اور کچھ علما نے اسے محقق کرکی کی طرف نسبت دی ہے۔[48]
- زواج المتعة: اس کتاب کو سید جعفر مرتضی عاملی نے 3 جلدوں میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت اور اس کے بعض دیگر احکام کو بیان کرنے کے علاوہ اہل سنت علما کی اس کے بارے میں آراء کو بیان کیا ہے؛ ساتھ ہی ان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔[49]
- الزواج الموقت فی الاسلام: کے مصنف سید مرتضی عسکری ہیں۔ سید مرتضی نے اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت کو قرآن و سنت کے تناظر میں بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں شیعہ اور اہل سنت علما کے نظریات کا جائزہ بھی لیا ہے۔[50]
متعلقہ مضمون
حوالہ جات
- ↑ مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۳۹۹.
- ↑ کلانتر، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۴۵.
- ↑ شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۳.
- ↑ مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۳۹۹.
- ↑ برای نمونه نگاه کنید به حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۱، ص۱۳-۱۷.
- ↑ ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۳۰ق، ج۱۱، ص۱۸-۱۹.
- ↑ ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۱، ص۱۳-۱۷؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۸.
- ↑ کاشف الغطاء، این است آئین ما، ۱۳۷۰ش، ص۳۸۶-۳۸۵؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، ۱۴۲۳ق، ص۹-۱۱.
- ↑ کاشف الغطاء، این است آئین ما، ۱۳۷۰ش، ص۳۸۷.
- ↑ «قانون مدنی»، سایت مرکز پژوهشهای مجلس شورای اسلامی.
- ↑ جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، ۱۴۲۷ق، ج۴۱، ص۳۳۳-۳۳۴؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۷.
- ↑ ملاحظہ کریں: احمد بن عیسی، رأب الصدع، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص۸۷۶-۸۷۷.
- ↑ ملاحظہ کریں: نعمان مغربی، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۲۹.
- ↑ مالحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، ۱۴۳۸ق، ج۷، ص۳۵۳-۳۵۴.
- ↑ شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۳.
- ↑ ملاحظہ کریں: فاضل مقداد، کنز العرفان فی فقه القرآن، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۱۴۹-۱۵۳؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۷۹-۸۰؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۱۰.
- ↑ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۷۹؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۱۵.
- ↑ ملاحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، ۱۴۲۷ق، ج۴۱، ص۳۳۳-۳۳۴؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۷؛ احمد بن عیسی، رأب الصدع، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص۸۷۶-۸۷۷؛ نعمان مغربی، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۲۹؛ جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، ۱۴۳۸ق، ج۷، ص۳۵۳-۳۵۴.
- ↑ قرطبی، تفسیر القرطبی، ۱۳۸۴ق، ج۵، ص۱۳۲؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، ۱۴۲۳ق، ص۱۵.
- ↑ ملاحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۵۲؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۲۸؛ سرخسی، المبسوط، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۲۷.
- ↑ قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۳۸۴ق، ج۲، ص۳۹۲؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۰، ص۴۳.
- ↑ ماحظہ کریں: عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۷۵؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۰، ص۴۴.
- ↑ شرف الدین، النص و الاجتهاد، ۱۴۰۴ق، ص۲۰۷-۲۰۸؛ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۶، ص۲۱۳؛ عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۱۰.
- ↑ عسقلانی، فتح الباری، ۱۳۷۹ق، ج۹، ص۱۷۴.
- ↑ برای نمونه نگاه کنید به بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۲۲ق، ج۵، ص۱۳۵؛ نووی، شرح النووی علم مسلم، ۱۳۹۲ق، ج۹، ص۱۸۰.
- ↑ ملاحظہ کریں: ابنرشد، بدایة المجتهد، ۱۴۲۵ق، ج۳، ص۸۰.
- ↑ مالحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۱۸۷ و ج۳، ص۳۳۰؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۲۹.
- ↑ جصاص، احکام القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۱۸۷ و ج۳، ص۳۳۰؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۲۹.
- ↑ عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۲۱۲.
- ↑ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۷۷؛ عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۲۱۴.
- ↑ نگاه کنید به بنیهاشمی خمینی، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج۲، ص۴۵۳.
- ↑ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۶۲ و ص۱۷۲.
- ↑ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۷۲.
- ↑ خمینی، تحریر الوسیله، ۱۴۳۴ق، ج۲، ص۲۶۴.
- ↑ شیخ انصاری، کتاب النکاح، ۱۴۳۰ق، ص۷۹؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۱۶، ص۲۱۵ و ج۲۴، ص۲۱۵؛ خویی، کتاب النکاح، دار العلم، ج۲، ص۱۶۴.
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۹؛ بحرانی، الحدائق الناضرة، ۱۴۰۶ق، ج۲۴، ص۴.
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۹.
- ↑ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۲۷.
- ↑ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۶۰.
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۳۲.
- ↑ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۱۰۱.
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۳۲؛ شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۷.
- ↑ شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۵.
- ↑ ملاحظہ کریں: طبسی، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، ۱۳۹۱ش، ص۱۳۶-۱۳۹.
- ↑ شیخ مفید، خلاصة الایجاز فی المتعة، ۱۴۱۴ق، ص۱۸.
- ↑ شیخ مفید، خلاصة الایجاز فی المتعة، ۱۴۱۴ق، ص۱۸.
- ↑ افندی، ریاض العلماء، ۱۴۰۱ق، ج۵، ص۱۸۸.
- ↑ زمانینژاد، «مقدمه»، در کتاب خلاصة الایجاز فی المتعة، ۱۴۱۴ق، ص۱۱.
- ↑ برای نمونه نگاه کنید به عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۴۲.
- ↑ عسکری، الزواج الموقت فی الاسلام، ص۷.
مآخذ
- ابنرشد، محمد بن احمد، بدایة المجتهد، قاهره، دار الحدیث، ۱۴۲۵ق.
- احمد بن عیسی، رأب الصدع، بیروت، دار المحجة البیضاء، ۱۴۲۸ق.
- امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، ۱۴۱۶ق.
- بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، ۱۴۰۶ق.
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دمشق، دار طوق النجاة، چاپ اول، ۱۴۲۲ق.
- بنیهاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، بیتا.
- جصاص، ابوبکر احمد بن علی، احکام القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، ۱۴۱۵ق.
- جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، کویت، دارالسلاسل، ۱۴۲۷ق.
- جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، عمان، وزارة الاوقاف و الشؤون الدینیة، چاپ اول، ۱۴۳۸ق.
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، ۱۴۱۶ق.
- خمینی، سید روحالله، تحریر الوسیله، تهران، مؤسسة تنظیم ونشر آثار امام الخمینی، چاپ اول، ۱۴۳۴ق.
- خویی، سید ابوالقاسم، کتاب النکاح، قم، دار العلم، بیتا.
- زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ق.
- سبحانی، جعفر، متعة النساء فی الکتاب و السنة، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، ۱۴۲۳ق.
- سبزواری، سید عبدالاعلی، مهذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بیتا.
- سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفة، ۱۴۱۴ق.
- شرف الدین، عبدالحسین، النص و الاجتهاد، بیروت، ابومجتبی، ۱۴۰۴ق.
- شهید ثانی، زین الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تعلیقه: سلطان العلماء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
- شیخ انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، قم، مجمع الفکر الاسلامی، ۱۴۳۰ق.
- شیخ مفید، محمد بن محمد، خلاصة الایجاز فی المتعة، بیروت، دار المفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
- طبسی، نجم الدین، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، قم، انتشارات دلیل ما، ۱۳۹۱ش.
- عاملی، سیدجعفر مرتضی، زواج المتعة، بیروت، المرکز الإسلامی لدراسات، ۱۴۲۳ق.
- عسکری، سیدمرتضی، الزواج الموقت فی الاسلام، بیجا، بینا، بیتا.
- عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، بیروت، دار المعرفة، ۱۳۷۹ق.
- فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، کنز العرفان فی فقه القرآن، تهران، انتشارات مرتضوی، ۱۳۷۳ش.
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
- «قانون مدنی»، سایت مرکز پژوهشهای مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: ۱۵ شهریور ۱۴۰۲ش.
- قرطبی، شمس الدین، تفسیر القرطبی، قاهره، دار الکتب المصریة، چاپ دوم، ۱۳۸۴ق.
- کاشف الغطاء، محمد حسین، این است آئین ما، ترجمه ناصر مکارم، مدرسه امام امیرالمؤمنین(ع)، قم، ۱۳۷۰ش.
- کلانتر، سیدمحمد، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تألیف شهید ثانی، قم، انتشارات داوری، ۱۴۱۰ق.
- ماوردی، علی بن محمد، الحاوی الکبیر، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، ۱۴۱۹ق.
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تعلیقه: سیدصادق شیرازی، تهران، انتشارات استقلال، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
- محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
- مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسة الامام علی بن ابی طالب(ع)، ۱۴۲۴ق.
- مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، قم، دایرة المعارف الفقه الاسلامی، ۱۳۸۷ش.
- نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، ۱۴۰۴ق.
- نعمان مغربی، محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام عن اهل بیت رسول الله علیه و علیهم افضل السلام، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیضی، قاهره، دارالمعارف، ۱۳۸۳ق.
- نووی، ابوزکریا، شرح النووی علی مسلم، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۳۹۲ق.