آیت نفس مطمئنہ

ویکی شیعہ سے
آیت نفس مطمئنہ
امام حسینؑ کی جائے شہادت پر منقوش آیت نفس مطمئنہ
امام حسینؑ کی جائے شہادت پر منقوش آیت نفس مطمئنہ
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت نفس مطمئنہ
سورہسورہ فجر
آیت نمبر27-30
پارہ30
محل نزولمکہ
موضوعنفس مطمئنہ


آیت نَفْس مُطمئِّنہ یا آیات نَفْس مُطمئِّنہ، سورہ فجر کی آخری چار آیات کو کہا جاتا ہے جن میں نفس مطمئنہ کی بعض خصوصیات بیان ہوئی ہیں اور صاحب نفس مطمئنہ کو بہشت کی بشارت دی گئی ہے۔ مسلمان علماء کے مطابق صاحب نفس مطمئنہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جوخدا پر ایمان رکھنے میں یقین کی منزل پر پہنچ چکا ہو اور گناہ کی طرف بالکل میل ہی نہ رکھتا ہو۔

راضیہ اور مرضیہ نفس مطمئنہ کی دو صفات ہیں: راضیہ سے مراد ثواب و عقاب اور قضا و قدر الہی پر نفس مطمئنہ کی رضایت جبکہ مرضیہ نفس مطمئنہ پر خدا کی رضایت کو کہا جاتا ہے۔

مختلف احادیث کے مطابق امام علیؑ، امام حسینؑ اور شیعیان علی ابن ابی طالب نفس مطمئنہ کے مصادیق میں سے ہیں۔

آیت کا متن اور ترجمہ

سورہ فجر کی آیت نمبر 27 سے 30 تک چار آیتیں، آیات نفس مطمئنہ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ آیات درج ذیل ہیں:‌

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ﴿٢٧﴾ ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ﴿٢٨﴾ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي ﴿٢٩﴾ وَادْخُلِي جَنَّتِي ﴿٣٠﴾


(ارشاد ہوگا) اے نفسِ مطمئن۔ تو اس حالت میں اپنے پروردگار کی طرف چل کہ تواس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے۔ پس تُو میرے (خاص) بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔



سورہ فجر: آیت 27_30


نفس مطمئنہ

تفصیلی مضمون: نفس مطمئنہ

نفْس مُطمَئِنّہ، نفس کی اس حالت کو کہا جاتا ہے جس میں انسان یقین اور سکون کی منزلت پر پہنچنے کی وجہ سے گناہ کی طرف رغبت پیدا ہی نہیں کرتا۔[1] مسلمان علماء نقس کے کچھ مراتب اور حالات ذکر کرتے ہیں جن میں سب سے آخری اور پست ترین حالت نفس اَمّارہ ہے جو انسان کو گناہ کی طرف دعوت دیتی ہے۔ اس سے اوپر والے رتبے میں نفس لَوّامہ ہے جس کا حامل شخ گناہ کی انجام دہی کے بعد پشیمان ہوتا ہے اور اپنے آپ کی ملامت کرنے لگتا ہے۔ مراتب نفس میں سب سے اعلی مرتبہ نفس مُطمئنّہ کی ہے۔[2]

تفسیر

آیات نفس مطمئنہ کے ضمن میں اس کے ہر لفظ کے ذیل میں مختلف تفسیری نکات بیان ہوئے ہیں۔ مفسرین کے مطابق ان آیا میں نفس مطمئنہ سے ایسے مؤمنین مراد لیتے ہیں جو ایمان میں یقین اور طمأنینہ کے مقام پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں جس کے بعد کسی شک و تردید کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔[3] علامہ طباطبائی نفس مطمئنہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خدا پر توکل کی وجہ سے سکون و اطمینان کے مقام پر فائز ہوتے ہیں اور خدا کی مرضی پر یوں راضی رہتا ہے کہ زندگی کے نشیب و فراز اس پر کوئی اثرانداز نہیں ہوتا۔ ایسا شخص عبودیت میں کمال کے درجے پر فائز ہے اور وہ کبھی بھی صراط مستقیم سے منحرف نہیں ہوتا۔[4]

طَبْرِسی مجمع‌البیان میں "راضیہ" و "مرضیہ" کی بالترتیب اس طرح تعریف کرتے ہیں: صاحب نفس مطمئنہ خدا کے اجر و ثواب پر راضی ہوتا ہے اور خدا بھی اس کے اعمال سے راضی ہوتا ہے۔[5] علامہ طباطبائی کہتے ہیں نفس مطمئنہ اس بنا پر "راضیہ" و "مرضیہ" سے متصف ہے کہ خدا پر اطمینان رکھنے کی وجہ سے خدا کے قضا و قدر پر راضی رہتا ہے۔ اس بنا پر اس کی زندگی میں پیش آنے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے یہ غمگین اور پریشان نہیں ہوتا اور نہ کسی گناہ میں مبتلا ہوتا ہوتا ہے۔ اور "مرضیہ" یعنی خدا بھی اس پر راضی ہے کیونکہ خدا کسی بھی بندے سے اس وقت ناراضی ہوتا ہے جب وہ عبودیت کے راستے سے خارج ہو جبکہ نفس مطمئنہ کبھی بھی راستے سے خارج نہیں ہوتا۔[6]

تفسیر نمونہ کے مطابق "راضیہ" سے مراد یہ ہے کہ نفس مطمئنہ خدا کے تمام وعدوں کو تحقق یافتہ دیکھتا ہے اور ان پر مکمل راضی اور خوشنود رہتا ہے۔ یہ مقام رضا اور تسلیم کامل کی علامت ہے؛ اس مقام پر پہنچنے والا خدا کی راہ میں ہر چیز کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔ جبکہ "مرضیہ" سے مراد یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر خدا بھی راضی اور خشنود ہیں۔[7]

بعض کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے نفس مطمئنہ کو مورد خطاب واقع ہونا جہاں ارشاد ہوتا ہے: "اِرْجِعی اِلیٰ رَبِّک (ترجمہ: اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آ)[؟؟]قیامت کے دن ہے جب مؤمنین بہشت میں داخل ہونگے۔ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ یہ خطاب موت کے وقت ہے نہ قیامت کے دن۔[8] علامہ طباطبائی دوسرے نظریے کو قبول کرتے ہیں۔[9]

اسی طرح علامہ طباطبائی کے مطابق "فَادْخُلِي فِي عِبادِي[؟؟]" سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس مطمئنہ مقام عبودیت میں کمال کے درجے پر پہنچ چکا ہے؛ اس مقام پر پہنچنے والا خدا کی پسند اور چاہت کے علاوہ کسی چیز کی طرف چاہت اور ارادہ ہی نہیں کرتا ہے۔[10] علامہ کے مطابق "وَادْخُلِي جَنَّتِي[؟؟]" میں خاص قسم کا احترام پوشیدہ ہے کیونکہ یہ قرآن کی واحد آیت ہے جس میں خدا نے بہشت کو اپنی طرف نسبت دی ہے۔[11]

نفس مطئنہ کی تفسیر روایی

تفسیر روایی کے منابع میں بعض احادیث میں آیت نفس مطمئنہ کے مصادیق کی طرف اشارہ ہوا ہے۔تفسیر فرات کوفی[12] اور شواہدالتنزیل[13] میں امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث کے مطابق امام علیؑ اس آیت کا مصداق ہے۔ کتاب تفسیر قمی کے مطابق امام صادقؑ نے نفس مطمئنہ سے امام حسینؑ مراد لیا ہے۔[14] بحارالانوار میں آیا ہے کہ سورہ فجر سورہ امام حسینؑ ہے؛ کیونکہ امام حسینؑ نفس مطمئنہ کے مالک تھے۔ اس حدیث میں امام حسین کے اصحاب کو راضیہ و مرضیہ کا مصاداق قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ قیامت کے دن یہ لوگ خدا سے اور خدا ان سے راضی ہونگے۔[15]

کتاب کافی میں کلینی نے روایت کی ہے کہ امام صادقؑ نے آیات نفس مطمئنہ کی یوں تفسیر کی ہیں: "يا أَيَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ إِلَى مُحَمَّدٍ وَ أَہْلِ بَيْتِہِ،ارْجِعِي إِلى‏ رَبِّكِ راضِيَۃً بِالْوَلَايَۃِ مَرْضِيَّۃً بِالثَّوَابِ فَادْخُلِي فِي عِبادِي يَعْنِي مُحَمَّداً وَ أَہْلَ بَيْتِہِ وَ ادْخُلِي جَنَّتِي[؟؟]" (اے وہ نفْس جو محمد اور آل محمدؑ پر اطمینان (یقین) رکھتا ہے، اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤ، اس حالت میں کہ اہل بیتؑ کی ولایت پر راضی ہو اور خدا کے اجر و ثواب پر بھی راضی ہو گا۔ پس میرے بندوں یعنی محمدؐ اور آل محمدؑ میں شامل ہو جاؤ اور بہشت میں داخل ہو جاؤ)۔[16]

حوالہ جات

  1. مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷۔
  2. مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۶-۲۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶۔
  3. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۷۴۲؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۶، ص۴۷۵-۴۷۷۔
  4. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲۰، ص۲۸۵۔
  5. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۷۴۲۔
  6. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲۰، ص۲۸۵۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۶، ص۴۷۵-۴۷۷۔
  8. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۷۴۲۔
  9. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲۰، ص۲۸۵۔
  10. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲۰، ص۲۸۵-۲۸۶۔
  11. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲۰، ص۲۸۶۔
  12. فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰ق، ص۵۵۵۔
  13. حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۴۲۹۔
  14. قمی، تفسیرالقمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۴۲۲۔
  15. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۴، ص۹۳۔
  16. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۲۷-۱۲۸۔

مآخذ

  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ،‏ شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق و تصحیح: محمدباقر محمودى، تہران، مجمع احیای فرہنگ اسلامی وابستہ بہ وزارت افرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔‏
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
  • فرات کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق و تصحیح محمد کاظم، تہران، مؤسسہ چاپ و نشر وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی‏، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔
  • قمى، على بن ابراہیم،‏ تفسیرالقمی،‏ تحقیق و تصحیح طیّب‏ موسوى جزایرى، قم، ‏دارالکتاب، ‏چاپ سوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفارى و محمد آخوندى، تہران، ‏دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعہ لدرر اخبار ائمۃ الاطہار،، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آیین پرواز، تلخیص جواد محدثی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ نہم، ۱۳۹۹ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۸۹ہجری شمسی۔