عشرہ مبشرہ

ویکی شیعہ سے
(عشره مبشره سے رجوع مکرر)

عشرہ مبشرہ (العشرۃ المبشرون بالجنۃ) کے عنوان سے اہل سنت کی تاریخ اور حدیث میں ایک اصطلاح ذکر ہوئی ہے جو حدیث نبوی (ص) سے ماخوذ ہے اور جس میں اصحاب پیغمبر (ص) میں سے 10 حضرات کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ افراد ہر حال میں بہشت میں جائیں گے۔ شیعہ علماء نے سند و متن کے لحاظ سے اس حدیث پر اعتراض وارد کئے ہیں۔

مفہوم شناسی

عشرہ مبشرہ، فارسی میں ایک مرکب اصطلاح ہے جو عربی توصیفی ترکیب العشرۃ المبشرون بالجنۃ سے ماخوذ ہے۔ عشرہ کے معنی دس کے ہیں اور مبشرہ یعنی ایسے افراد جنہیں کسی چیز کی خوش خبری یا بشارت دی گئی ہو اور اس جملہ العشرۃ المبشرۃ بالجنۃ کے معنی ہیں وہ دس لوگ جنہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

حدیث عشرہ مبشرہ

یہ حدیث مسند احمد بن حنبل[1] اور سنن ترمذی[2] میں نقل ہوئی ہے اور اہل سنت کے اہم حدیثی منابع جیسے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔ ترمذی کے نقل کے مطابق حدیث کا متن یہ ہے:

قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم): "ابو بکر فی الجنة، و عمر فی الجنة، و عثمان فی الجنة، و علی فی الجنة، و طلحۃ فی الجنة، و الزبیر فی الجنة، و عبد الرحمن بن عوف فی الجنة، و سعد بن ابی وقاص فی الجنة، و سعید بن زید فی الجنة، و ابو عبیدۃ الجراح فی الجنة۔ یعنی ابو بکر، عمر، عثمان، علی (ع)، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید اور ابو عبیدۃ الجراح حتما جنت میں جائیں گے۔

شیعوں کا نظریہ

حدیث عشرہ مبشرہ شیعہ منابع میں ذکر نہیں ہوئی ہے اور شیعوں نے اس کی سند اور متن پر بیحد سنجیدہ تنقید کی ہے:

سند پر اعتراض

حدیث عشرہ مبشرہ پر شیعوں نے سند کے اعتبار سے کئی اعتراض وارد کئے ہیں جن میں بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • یہ حدیث اہل سنت کے اہم ترین حدیثی منابع صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ان دس حضرات کے مقام و مرتبہ اور فضایل کے ضمن میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔ ایسا اس صورت میں ہے کہ ان دونوں کتابوں میں ان کے سلسلہ میں ایسی احادیث کا ذکر ملتا ہے جو اس حدیث سے بمراتب کمتر فضیلت کی حامل ہیں۔ لہذا یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ ان دونوں کتابوں کے مولفین اس حدیث کو سند کے اعتبار سے معتبر نہیں مانتے تھے۔
  • یہ حدیث سنن ترمذی اور مسند احمد بن حنبل میں حمید بن عبد الرحمن سے نقل ہوئی ہے اور ان دونوں کتابوں کے دعوی کے مطابق انہوں نے یہ حدیث اپنے والد عبد الرحمن بن عوف سے سنی ہے۔ جبکہ معتبر تاریخی منابع کے مطابق ان کے والد کے انتقال کے وقت حمید بچہ تھے جن کی عمر ایک برس سے بھی کم تھی۔[3]
  • یہ حدیث کئی طرق سے نقل ہوئی ہے کہ جن کے سلسلہ سند میں ایسے افراد کا نام آیا ہے جو خود اہل سنت کے مطابق موثق نہیں ہیں۔ جیسے عبد العزیز بن محمد دراوردی، جن کی روایات کو ابو حاتم قابل اعتبار نہیں مانتے ہیں۔[4] یا سنن ابی داود کہ جس میں یہ حدیث سعید بن زید سے نقل ہوئی ہے [5] اور جس کی سند میں عبد اللہ بن ظالم کا نام آیا ہے، بخاری و مسلم اس کی حدیث پر اعتبار کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور بخاری نے تصریح کی ہے کہ اس کی حدیث صحیح نہیں ہے۔[6]
  • عبد الرحمن بن عوف و سعید بن زید جنہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے خود دونوں کا شمار ان افراد میں ہے جنہیں اس حدیث میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ایسا اس صورت میں ہے کہ حدیث میں موجود دوسرے افراد میں سے کسی اور نے اسے نقل نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور نے جو اس واقعہ یا حدیث کے گواہ رہے ہوں، اسے نقل نہیں کیا ہے۔

متن پر اعتراض

  • اس حدیث کے متن کی سب سے بڑی مشکل اس میں ذکر ہونے والے افراد کی نا ہم آہنگی ہے۔ اس میں موجود بعض افراد وہ ہیں جنہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد ایک دوسرے سے متضاد راستے کا انتخاب کیا ہے اور یہ امر سبب بنا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھائیں اور حتی کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ مثال کے طور پر طلحہ و زبیر نے امام علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد بیعت کو توڑ دیا اور ناکثین کے گروہ میں شامل ہو گئے اور جنگ جمل میں حضرت علی سے جنگ کی۔ جس میں طلحہ اور بعض دوسرے افراد قتل ہوئے۔
  • مختلف طرق میں اس حدیث کا متن مختلف ہے مثال کے طور پر ایک جگہ ابو عبیدہ کا نام ان دس افراد میں شامل ہے۔[7]اور حاکم نیشاپوری کے نقل کے مطابق، ان کے نام کی جگہ عبد اللہ بن مسعود کا نام ذکر ہوا ہے۔[8] جبکہ سنن ابی داود اور سنن ابن ماجہ میں نقل حدیث میں ان دونوں ہی حضرات کا نام نہیں ہے بلکہ ان دونوں کے مقام پر پیغمبر اکرم (ص) کا نام مبارک ذکر ہوا ہے۔[9]

حوالہ جات

  1. ج۳، ص۱۳۶.
  2. ترمذی، ج ۵، ص ۶۵۲.
  3. درباره زندگی این دو نفر نک: ابن حجر، تهذیب التهذب، ج ۳، ص ۴۱ - ۴۰ و ج ۶، ص ۲۲۲.
  4. ذهبی، میزان الاعتدال، ج ۲، ص ۶۳۴.
  5. سنن ابی داود، ج ۳، ص ۴۰۱.
  6. رجوع کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین بذیله التلخیص للذهبی، الجز الثالث، ص ۳۱۷.
  7. محمد بن عیسی، الجامع الصحیح،، ج ۵، ص ۶۴۷.
  8. حاکم نیشابوری،، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص ۳۱۷.
  9. سنن ابی داود، ج ۳ و ۴، ص ۴۰۲ - ۴۰۱؛ سنن ابن ماجه، ج ۱، ص ۴۸.

مآخذ

  • ابن حجر، تهذیب التهذب، دار الفکر، چاپ اول، بیروت، ۱۴۰۴ ق
  • ترمذی، محمد بن عیسی، تحقیق ابراهیم عطوه عوض، دار احیاء التراث العربی، بیروت، بی‌ تا
  • ذهبی، میزان الاعتدال، تحقیق علی محمد البجاوی، دارالفکر، بیروت، بی‌تا
  • ابو داوود، سنن، تحقیق سعید محمد لحام، دارالفکر، بیروت، ۱۴۱۰)
  • حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین بذیله التلخیص للذهبی، دار الکتاب العربی، بیروت، بی‌ تا
  • ابن ماجه، سنن، تحقیق عبدالباقی، دار الفکر، بیروت، بی‌ تا.