میت کی تقلید

ویکی شیعہ سے
(میت کی ابتدائی تقلید سے رجوع مکرر)

میّت کی تقلید ایسے مجتہد کی تقلید کو کہا جاتا ہے جو فوت ہو چکا ہے۔ میت کی تقلید سے مراد ابتدائی طور پر کسی متوفی مجتہد کی تقلید کرنا مراد ہے۔ شیعہ فقہا میں سے بعض مردہ مجتہد کی ابتدائی تقلید تقلید جائز سمجھتے ہیں اور بعض کے مطابق مجتہد کا زندہ ہونا لازمی ہے۔ مجتہد زندہ ہونے کو جو شرط نہیں سمجھتے ہیں انہوں نے ادلہ کے اطلاقات سے استفادہ کیا ہے جبکہ جو شرط سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ امور حسبیہ اور مسائل مستحدثہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تقلید کے لئے فقیہ کا زندہ ہونا شرط ہے

تعارف

میت کی تقلید سے مراد ایسے مجتہد کی تقلید کرنے کو کہا جاتا ہے جو وفات پاچکے ہیں۔[1] میت کی تقلید زندہ مجتہد کی تقلید کے برعکس ہے۔[2] میت کی تقلید پر اس وقت بحث ہوتی ہے جب زندہ مجتہد تقلید کے لئے موجود ہو اور مکلف کے لئے زندہ مجتہد کی طرف رجوع کرنا ممکن ہو۔[3] میت کی تقلید کو بعض فقہا جائز سمجھتے ہیں اور بعض فقہا تقلید کے لئے مجتہد کا زندہ ہونا ضروری سمجھتے ہیں

عدم جواز کے قائلین

بعض فقہاء تقلید کے لئے مجتہد زندہ ہونے کو شرط سمجھتے ہیں[4] اور ان کا کہنا ہے کہ مردہ مجتہد کی تقلید جائز نہیں ہے۔[5] خواہ ابتدائی تقلید ہو یا مجتہد کی وفات کے بعد اس کی تقلید پر باقی رہنا ہو۔ ان کے نزدیک اس مسئلہ پر فقہاء کا اجماع ہے[6] اور اس حکم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔[7] واحد بہبہانی کے نزدیک یہ حکم امامیہ مذہب کی خصوصیات میں سے ہے۔[8] ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ تقلید کے جائز ہونے کی دلیل عقلی[9] اور لفظی ادلہ (آیات و احادیث) میں زندہ مجتہد کی تقلید شامل ہے، جیسے: : آیہ نَفْر «وَ مَا کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِینفِرُوا کافَّۃً...» آیہ اَہلُ الذّکر «وَ مَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْہِمْ فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّكْرِ...» آیہ کِتْمان «إِنَّ الَّذِینَ یكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَینَاتِ وَالْہُدَى مِن بَعْدِ مَا بَینَّاہُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتَابِ...»[10]

علی بن جعفر کاشف الغطاء اپنی کتاب النّور السّاطع فی الفقہ النّافع میں ابتدائی تقلید میں میت کی طرف رجوع کرنا جائز نہ ہونے پر کچھ دلائل پیش کرتے ہیں؛ جن میں بعض ان ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہیں جو صرف ایک زندہ مجتہد ہی انجام دے سکتے ہیں؛ مثلاً امور حسبیہ اور جدید مسائل کے بارے میں فتوا دینا۔[11] ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تقلید کے باب میں مُفتی معیار ہے، فتویٰ نہیں، اور مفتی صرف زندہ مجتہد ہی پر صادق آتا ہے؛ احادیث کے راویوں راویوں کے برخلاف جہاں معیار اور پیمانہ روایت ہے اور اسی وجہ سے زندہ یا مردہ راوی میں کوئی فرق نہیں ہے۔[12]

شیعہ علماء میں اخباریوں کا کہنا ہے کہ میت اگر حدیث کا راوی ہو تو اس کی تقلید جائز اور صحیح ہے؛ اس شرط کے ساتھ کہ اس نے خود استنباط نہ کیا ہو۔[13] نیز مرزا قمی نے اپنی کتاب جامع الشتات میں میت کی تقلید کو جائز قرار دیا ہے،[14] لیکن اسی کتاب کے ایک اور مقام پر زندہ مجتہد کی تقلید کو احتیاط کے قریب سمجھا ہے۔[15]

جواز کے قائلین

متوفی مجتہد کی ابتدائی تقلید جائز ہونے کے قائل فقہا کا کہنا ہے کہ وہ آیات اور روایات جو مجتہد کی تقلید کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں، حجیت کے اعتبار سے مطلق ہے اور ان میں مجتہد زندہ ہونے کے بارے میں کوئی قید یا شرط نظر نہیں آتی ہے۔[16] اور اسی طرح دلیل عقلی[17] سیرہ عقلاء[18] جوازِ تقلید کا استصحاب یا مجتہد کے فتوا کی حجیت کا استصحابِ[19] بھی میت کی ابتدائی تقلید جائز ہونے پر دلیل کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔

تفصیل کے قائلین

بعض فقہاء نے ابتدائی تقلید اور میت کی تقلید پر باقی رہنے کے درمیان تفصیل کے قائل ہوئے ہیں یعنی مجتہد کی وفات کے بعد ان کی تقلید پر باقی رہنا جائز ہے لیکن مردہ مجتہد کی ابتدائی تقلید جائز نہیں ہے۔[20]

مقدس اردبیلی کے مطابق اگر زندہ مجتہد تک مکلف کی رسائی ہے تو مردہ مجتہد کی تقلید جائز نہیں ہے۔[21]

فاضل تونی کا کہنا ہے کہ اگر متوفی مجتہد نے قرآن اور روایات کے متن کے مطابق فتویٰ دیا ہو تو اس کی تقلید جائز ہے، لیکن اگر اس نے اپنے استباط کے مطابق فتویٰ دیا ہو تو اس کی تقلید جائز نہیں ہے۔[22]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. جمعی از محققین، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389شمسی، ص352.
  2. جمعی از محققین، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389شمسی، ص352.
  3. ملاحظہ کریں: انصاری، مطارح الانظار، آل البیت، ج2،ص432.
  4. ملاحظہ کریں: شہید ثانی، منیۃ المرید، 1409ھ، ص305؛ ابن شہید ثانی، معالم الدین، مؤسسہ الفقہ للطباعہ والنشر، ج1، ص110؛ علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج1، ص526.
  5. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، تہذیب الوصول الی علم الاصول، مؤسسہ امام علی(ع)، ج1، ص289؛ فخر المحققین، ایضاح الفوائد، 1387ھ، ج1، ص399؛ انصاری، مطارح الانظار، 1425ھ، ج2، ص560.
  6. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص402.
  7. ملاحظہ کریں: شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج3، ص109.
  8. وحید بہبہانی، الفوائد الحائریہ، 1515ھ، ص260.
  9. مقدس اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1387شمسی، ج7، ص547.؛ کاشف الغطاء، النور الساطع، 1381ھ، ج2، ص363؛ آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، 1409ھ، ص476.
  10. حائری اصفہانی، الفصول الغرویہ، 1404ھ، ص419؛ کاشف الغطاء، النور الساطع، 1381ھ، ج2، ص357.
  11. کاشف الغطاء، النور الساطع، 1381ھ، ج2، ص354
  12. کاشف الغطاء، النور الساطع، 1381ھ، ج2، ص358
  13. ملاحظہ کریں: استرآبادی، الفوائد المدنیہ، ج1، ص299؛ فیض کاشانی، سفینۃ النجاۃ، 1387شمسی، ص53؛ جزایری، منبع الحیاۃ، 1401ھ، ج1، ص5-6.
  14. میرزای قمی، جامع الشتات، 1377شمسی، ج4، ص469.
  15. میرزای قمی، جامع الشتات، 1377شمسی، ج4، ص477.
  16. مجاہد، مفاتیح الاصول، 1424ھ، ص624؛ فاضل تونی، الوافیہ فی اصول الفقہ، 1412ھ، ص305.
  17. میرزای قمی، جامع الشتات، 1377شمسی، ج4، ص469.
  18. کاشف الغطاء، النور الساطع، 1381ھ، ج2، ص382.
  19. کاشف الغطاء، النور الساطع، 1381ھ، ج2، ص367.
  20. ملاحظہ کریں: عراقی، نہایۃ الافکار، 1417ھ، ج4، ص258؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج1، ص18-17؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392شمسی، ج1، ص9؛ تبریزی، استفتائات جدید، 1385شمسی، ج2، ص17؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج3، ص18.
  21. مقدس اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1387ھ، ج7، ص547.
  22. فاضل تونی، الوافیہ، 1412ھ، ص307.

مآخذ

  • آخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایۃ الاصول، قم، مؤسسہ آل بیت(ع)، 1409ھ۔
  • ابن شہید ثانی، حسن بن زین الدین، معالم الدین و ملاذ المجتہدین، تحقیق: سید منذر حکیم، بی جا، مؤسسہ الفقہ للطباعۃ و النشر، بی تا.
  • استرآبادی، محمدامین، الفوائد المدنیہ، تحقیق: رحمت اللہ رحمتی اراکی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1426ھ۔
  • امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، موسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى(رہ)، 1392ہجری شمسی۔
  • انصاری، مرتضی، مطارح الانظار، مقرر:ابوالقاسم کلانتری، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1425ھ۔
  • تبریزی، جواد، استفتائات جدید، قم، نشر سرور، 1385ہجری شمسی۔
  • جزایری، سید نعمت اللہ، منبع الحیاۃ و حجیۃ قول المجتہد من الاموات، تحقیق: رؤف جمال الدین، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1401ھ۔
  • جمعی از محققین، فرہنگ نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1389ہجری شمسی۔
  • حائری اصفہانی، محمدحسین، الفصول الغرویۃ فی الاصول الفقہیہ، قم، دار احیاء العلوم الاسلامیہ، 1404ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مُنْیۃُ المُرید فی أدَبِ المُفیدِ و المُستَفید، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، 1409ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1421ھ۔
  • عراقی، ضیاء الدین، نہایۃ الافکار، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1417ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تہذیب الوصول الی علم الاصول، بی جا، مؤسسہ امام علی(ع)، بی تا.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الأحکام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • فاضل تونی، عبداللہ بن محمد، الوافیہ فی اصول الفقہ، تحقیق: سید محمدحسین رضوی کشمیری، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1412ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، تفصیل الشریعہ فی شرح تحریر الوسیلۃ (کتاب الاجتہاد و التقلید)، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1426ھ۔ ‏
  • فخرالمحققین، محمد بن حسن، ایضاح الفوائد فی شرح مشکلات القواعد، تحقیق: سید حسین موسوی کرمانی، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، 1387ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، سَفینۃُ النَجاۃ و الکلماتُ الطَریفَہ، تہران، نشر مدرسہ عالی شہید مطہری، 1387ہجری شمسی۔
  • کاشف الغطاء، علی، النور الساطع فی الفقہ النافع، نجف، مطبعۃ الآداب، 1381ھ۔
  • مجاہد، سید محمد، مفاتیح الاصول، قم، مؤسسہ آل بیت(ع)، چاپ اول، 1424ھ۔
  • محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1414ھ۔
  • مقدس اردبیلی، احمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح ارشاد الاذہان، تہران، المکتبۃ المرتضویہ الاحیاء الجعفریہ، چاپ دوم، 1387ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، نشر مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، 1427ھ۔
  • میرزای قمی، ابو القاسم، جامع الشتات، نصحیح: مرتضی رضوی، تہران، مؤسسہ کیہان، 1377ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق: محمد قوچانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • وحید بہبہانی، محمدباقر، الفوائد الحائریہ، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1515ھ۔