سیرہ عُقلاء یا بنائے عقلاء، کسی کام کو انجام دینے یا ترک کرنے میں لوگوں کی عادت اور عملی سیرت کو کہا جاتا ہے۔ سیرہ عقلاء فقہ اور اصول فقہ میں بکثرت استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے اور فقہ خاص کر معاملات کے باب میں بہت سارے احکام کو ثابت کرنے کے لئے سیرہ عقلاء سے کافی مدد لی جاتی ہے۔ سیرۂ عقلا علم اصول کے مسائل میں سے ایک ہے اسی بنا پر علم اصول میں اس کی حجیت کے شرائط کے بارے میں بحث کی جاتی ہے اور دوسری طرف سے سیرہ عقلاء بعض اصولی مباحث جیسے خبر واحد ثقہ اور ظواہر کی حجیت کے اثبات کے لئے دلیل بھی ہے۔

سیرۂ عقلاء کی حجیت شارع کی تائید پر موقوف ہے؛ یعنی شارع یا معصوم کی جانب سے اس پر عمل کرنے سے منع نہ کیا گیا ہو یا اسے ممنوع قرار نہ دیا گیا ہو۔

چہ بسا حکم شرعی کے موضوع کی تشخیص کے لئے بھی سیرہ عقلاء سے استفادہ کیا جاتا ہے؛ مثلا بعض اوقات کوئی شرعی حکم قرآن و سنت یا ان کے علاوہ کسی اور طریقے سے ثابت ہو جاتا ہے لیکن اس کا موضوع مبہم رہ جاتا ہے۔ اس صورت میں سیرہ عقلاء ان راہوں میں سے ایک ہے جن کے ذریعے اس قسم کے موضوعات کی تشخیص دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر شرعی دلیل سے ثابت ہو گیا ہے کہ «آلت قمار حرام ہے» اب یہ سیرہ عقلاء یا عرف ہے جو مشخص کرتی ہے کہ کونسی چیز آلت قمار شمار ہوتی ہے اور کونسی چیز نہیں۔

عصر معصومؑ کے بعد وجود میں آنے والی سیرت کو سیرہ مستحدثہ کہا جاتا ہے۔ سیرہ مستحدثہ کی ججیت کے بارے میں اختلاف‌ پایا جاتا ہے۔ علمائے اصول نے عصر معصوم یا دوسرے زمانوں میں موجود سیرہ عقلاء کی تشخیص اور معصوم کی جانب سے اس کی ممانعت نہ ہونے کو ثابت کرنے کے مختلف طریقے بیان کئے ہیں۔

تعریف اور اہمیت

کسی کام کو انجام دینے یا ترک کرنے کے سلسلے میں لوگوں کی عادت اور عملی توافق کو سیرت عقلاء کہا جاتا ہے۔[1] بعض اوقات سیرہ عقلاء کی جگہ «بِنائے عقلاء» اور «لوگوں کی سیرت» وغیرہ سے بھی تعبیر کی جاتی ہے۔[2]

سیرہ عقلاء کی حجیت کی بحث علم اصول فقہ کے اہم مباحث میں سے ہے۔[3] بہت سارے فقہی قواعد جیسے قاعدہ لاضرر،[4] قاعدہ نفی حَرَج،[5] قاعدہ عدل و انصاف،[6] اور قاعدہ غَرَر[7] وغیرہ کی حجیت کو ثابت کرنے کے لئے سیرت عقلاء سے استناد کیا جاتا هے۔

« میرزائے نائینی:

«خبر واحد کی حجیت کو ثابت کرنے میں سب سے اہم دلیل سیرہ عقلاء ہے؛ یہاں تک کہ اگر فرض کریں کسی اور دلیل کے ذریعے ان کی حجیت کو ثابت کرنے میں مناقشہ کر سکتے ہیں تو خبر واحد پر اعتماد کرنے میں سیرت عقلاء اور بنائے عقلاء پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے۔»[8]

»

سیرہ عقلاء اور دیگر مشابہ اصطلاحات میں فرق

بعض اصطلاحات جیسے «عرف»، «سیرہ» اور «سیرہ عقلاء» جو فقہا اور اصولیوں کے یہاں رائج ہیں کو ایک دوسرے کا مترادف اور ہم معنی قرار دئے جاتے ہیں[9] جبکہ بعض ان میں تفاوت کے قائل ہیں جو درج ذیل ہیں:

عرف اور سیرہ عقلاء میں فرق

قدیم زمانے سے مختلف ادیان و مذاہب کے پیروکاروں یا دیگر افراد کے عقلاء کے درمیان خبر ثقہ پر عمل کرنے کی سیرت چلی آرہی ہے اور یہ سیرت شارع اسلام اور آپ کی حیات مبارکہ کے بعد اب تک قائم رہی ہے اور پیغمبر اکرمؐ یا ائمہ معصومینؑ میں سے کسی کی جانب سے اس پر عمل کرنے سے ممانعت نہیں کی گئی ہے؛ کیونکہ اگر کسی کی جانب سے کوئی ممانعت کی گئی ہوتی تو وہ بیان ہو چکی ہوتی اور لوگوں میں مشہور ہو چکی ہوتی، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خبر واحد پر عمل کرنے میں شارع کی رضایت موجود تھی۔

آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، 1437ھ، ج2، ص80۔

بعض محققین عرف اور سیرہ عقلاء کے درمیان تفاوت کے بارے میں کہتے ہیں کہ سیرہ عقلاء عرف کے برخلاف صرف ایسے سلوک اور طریقوں کے ساتھ مختص ہے جن کا کوئی علقی منشاء اور منبع موجود ہو؛ جبکہ عرف صرف عقلی منشاء کے ساتھ مختص نہیں بلکہ عرف کا منشاء تقلید اور عادت وغیرہ بھی ہو سکتا ہے۔[10] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ عرف سیرہ عقلاء کی نسبت عمومی مفہوم کا حامل ہے؛ کیونکہ سیرہ عقلاء صرف افعال پر لاگو ہوتی ہے جبکہ عرف افعال کے علاوہ گفتار اور ترک فعل کو بھی شامل کرتی ہے۔[11] لیکن بہت سارے علمائے اصول سیرہ عقلاء کوی وہی عرف عام، یعنی وہ عرف جو تمام یا اکثر لوگوں کے درمیان رائج ہو، شمار کرتے ہیں۔[12]

ارتکاز عقلائی اور سیرہ عقلاء میں فرق

سیرہ عقلاء اور ارتکاز عقلائی کے درمیان تفاوت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سیرہ یا بنائے عقلاء کسی کام کے انجام دینے یا اسے ترک کرنے کے حوالے سے رونما ہونے والے سلوک اور عملی موقف کو کہا جاتا ہے؛ جبکہ ارتکاز خارج سے مربوط نہیں؛ بلکہ یہ صرف عقلاء کے ذہن کی حد تک ہے ذہن سے باہر اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔[13] ارتکاز عقلائی کو ایک اعتبار سے سیرہ عقلائی سے زیادہ قیمتی اور باہمیت قرار دی جاتی ہے؛ کیونکہ ارتکاز عقلائی اکثر مواقع پر فطرت، عقل عملی اور انبیاء الہی اور ان کے اوصیاء کی تعلیمات کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے؛ جبکہ عقلاء کی عملی اور خارجی سیرت چہ بسا دوسروں کی تقلید وغیرہ کے ذریعے سے بھی وجود میں آتی ہے۔[14]

سیرہ متشرعہ اور سیرہ عقلاء میں فرق

سیرہ متشرعہ سیرہ عقلاء کی نسبت خاص مفہوم کا حامل ہے اور یہ کسی کام کے انجام دینے یا ترک کرنے کے حوالے سے صرف مسلمانوں کی سیرت کو شامل کرتی ہے۔[15] ان دونوں کی حجیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سیرہ متشرعہ اگر ثابت ہو جائے تو حکم شرعی پر یہی سیرت متشرعہ خود دلیل ہے؛ لیکن سیرہ عقلاء حجت نہیں مگر یہ کہ معصوم کی طرف سے اس پر امضاء اور تأیید حاصل نہ ہو یعنی جب تک معصوم کی طرف سے تأئید نہ ہو سیرہ عقلاء بذات خود حجت نہیں ہے۔[16]

فقہی محقق اور حوزہ علمیہ قم کے مدرس ابو القاسم علی دوست کہتے ہیں کہ لفظ «سیرہ» جب بغیر کی اضافہ کے آجائے تو اس سے مراد اکثر طور پر سیرہ عقلاء ہی ہے۔[17]

فقہ اور اصول فقہ میں سیرہ عقلاء کا دائرہ کار

فقہ اور اصول فقہ میں «سیرہ عقلاء» کے دائرہ کار کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک لحاظ سے سیرہ عقلاء خود ایک اصول مسئلہ ہے؛ کیونکہ اکثر مواقع خاص کر معاملات کے باب میں اس سے استناد کیا جاتا ہے اس بنا پر علم اصول فقہ میں سیرہ عقلاء کی ججیت اور شرعی احکام کو ثابت کرنے میں اس کے معتر ہونے کی شرائط کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔[18]

دوسری جہت سے علم اصول کے بہت سارے مسائل جیسے ظواہر اور خبر ثقہ وغیرہ جو کہ علم اصول فقہ کے اہم اور بنیادی مسائل اور فقہ میں حکم شرعی کو استنباط کرنے کے اہم اَمارات[یادداشت 1] میں شمار ہوتی ہیں، کے اثبات کے لئے سیرہ عقلاء سے استناد کیا جاتا ہے۔[19]

سیرہ عقلاء کے اقسام اور ان کی حجیت کا معیار

سیرہ‌ عقلاء دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے اور ان میں سے ہر ایک کی حجیت کا معیار مختلف ہے:[20]

حکم شرعی کو ثابت کرنے والی سیرت

کبھی سیرہ عقلاء کے ذریعے حکم شرعی ثابت ہو جاتا ہے۔[21] مثلا امام خمینی حیازت کے ذریعے ملکیت کو ثابت کرنے کے بارے میں کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ شروع سے اب تک یہ مسلّم سیرت چلی آرہی ہے کہ احیاء اور حیازت کو ملکیت کی نشانی قرار دی جاتی ہے اور کسی بھی انبیاء، اولیاء اور مؤمنین نے اس کا انکار یا اس سے منع نہیں کیا ہے۔[22]علمائے اصول کے مطابق سیرت کی یہ قسم صرف اس صورت میں حجت ہے جب اس پر شارع کی رضایت اور تأئید محرز ہو۔[23]

موضوع حکم شرعی کو مشخص کرنے والی سیرت

بعض مواقع پر خود حکم شرعی تو کتاب اور سنت وغیرہ کے ذریعے ثابت ہوا ہے اور سیرہ عقلاء صرف اس حکم کے موضوع کو معین اور مشخص کرتی ہے۔[24] مثلاً شرعی طور پر ثابت ہے کہ «آلت قمار حرام ہے۔» یہاں پر سیرہ عقلاء یا عرف ہے جو یہ مشخص کرتی ہے کہ کونسی چیز آلت قمار میں شامل ہے اور کونسی چیز آلت قمار میں شامل نہیں ہے۔[25]

استصحاب کی حجیت کو ثابت کرنے کے لئے جن چیزوں پر استناد کیا جاتا ہے ان میں سے ایک سیرہ عقلاء بھی ہے؛ اس طرح سے کہ عقلاء کی یہ سیرت رہی ہے کہ اپنی زندگی کے تمام مسائل اور امور میں ان کے سابقہ حالت پر عمل کی جاتی ہے...؛ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو انسانی زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

حسینی فیروزآبادی، عنایۃ الاصول فی شرح کفایۃ الاصول، 1400ھ، ج5، ص32۔

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ سیرہ عقلاء شارع کی دلیل کے ظہور یا شارع کی مراد کو بھی تشخیص دیتی ہے۔[26] مثلا ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی چیز فروخت کرے لیکن اسے مشتری کے حوالے نہ کیا ہو اور مشتری سے اس کی قیمت بھی نہ لی ہو تو اس صورت میں اگر تین دن کے اندر مشتری اس چیز کی قیمت ادا کرے تو معاملہ لازم یعنی ٹھیک ہے؛ بصورت دیگر گویا ان کے درمیان کوئی معاملہ‌ انجام ہی نہیں پایا ہے(فلا بیعَ بَینَہُما)۔[27] یہاں پر «لا بیع بینہما» کے ظاہر سے اس معاملے کا باطل ہونا سمجھ میں آتا ہے؛ جبکہ سیرہ عقلاء اور ارتکازات عقلائی کے مطابق یہاں پر شارع کی مراد یہ ہے کہ ان کے درمیان ہونے والا معاملہ لازم اور ضروری نہیں ہے؛ بلکہ اس میں خیار تأخیر ثابت ہو جاتا ہے اور طرفین معاملہ کو انجام دینے یا اسے فسخ کرنے میں مختار ہیں۔[28]

کہا جاتا ہے کہ سیرہ عقلائی کی اس قسم میں حکم شرعی کو ثابت کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ حکم شرعی کے موضوع کو منقح اور مشخص کرنا مقصود ہے اس قسم کے سیرت کی حجیت‌ کے لئے معصوم اور شارع کی تأئید اور امضاء کی ضرورت نہیں ہے۔[29]

منشاء کے اعتبار سے سیرہ عقلاء کی اقسام

سیرہ‌ عقلاء منشأ کے اعتبار سے بھی کئی اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:[30]

  • عقل عملی کے ذریعے وجود میں آنے والی سیرت؛[31] جیسے ظلم کو قبیح اور عدل کو اچھا قرار دینے کی عقلائی سیرت یا جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنے کی سیرت۔[32] کہا جاتا ہے کہ چونکہ سیرت کی یہ قسم عقل کے حکم کے ذریعے وجود میں آتی ہے، پس اس کی حجیت ذاتی ہے اور اس کی حجیت کو ثابت کرنے کے لئے شائع کی تأئید اور رضایت کی ضرورت نہیں ہے۔[33]
  • انسانی غرایز، فطرت، مشاہدات، تجربات یا استقراء‌ کے ذریعے وجود میں آنے والی سیرت۔[34] سیرہ عقلاء کی اکثر اقسام اسی قسم میں سے ہیں۔[35] سیرت کی اس قسم کی حجیت کے اثبات کے لئے شارع کی امضاء اور تأیید کی ضرورت ہوتی ہے۔[36]

سیرہ‌ عصر معصومؑ اور سیرہ مستحدثہ

سیرہ مستحدثہ سے مراد وہ سیرت ہے جو عصر معصومؑ کے بعد وجود میں آئی ہو۔[37] اصولیوں کے مطابق عصر معصوم میں موجود سیرت کی حجیت معصوم کی تأئید اور امضاء پر موقوف ہے؛ اس معن میں کہ یہ سیرت معصوم کے نظروں یا سماعتوں سے گزری ہو اس کے باوجود معصوم نے ان پر عمل کرنے سے منع نہیں کی بلکہ اس سلسلے میں خاموشی اور سکوت اختیار کی ہے۔[38]

سیرہ‌ مستحدثہ کی حجیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے: اس سلسلے میں بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ سیرت صرف اس صورت میں حجت ہے جب اس کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ عصر معصوم سے متصل تھی اور معصومین کے دور میں بھی یہ سیرت جاری تھی اور انہوں نے اس سے منع کئے بغیر سکوت اختیار کی ہیں۔[39] جبکہ بعض سیرہ عقلاء کی حجیت میں عصر معصوم سے اتصال اور عدم اتصال کو شرط نہیں سمجھتے ہیں۔[40]

سیرت عقلاء کو ثابت کرنے کے طریقے

سیرت عقلاء اور سیرت مستحدثہ کو ثابت کرنے کے بعض اہم طریقے درج ذیل ہیں:

تقلید کے واجب ہونے پر سب سے اہم دلیل جاہل کا عالم اور جاننے والوں کی طرف رجوع کرنے کی عقلائی سیرت ہے۔ چونکہ اس سیرت کے حوالے سے شارع کی طرف سے کوئی ممانعت نقل نہیں ہوئی اس بنا پر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ عمل ایک جائز عمل ہے جس پر شارع مقدس کی تأئید اور رضایت بھی شامل ہے۔

امام خمینی، الاجتہاد و التقلید، 1426ھ، ص63۔

  • استقراء: بعض اوقات کسی معاشرے یا مختلف معاشروں میں بسنے والے لوگوں کے درمیان جستجو کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مختلف ذوق اور ثقافت رکھنے کے باوجود ایک مشترکہ سیرت پر سب متفق ہیں اس بنا پر اس عام سماجی سیرت اور طریقے کو اس معاشرے میں یا اس سے ملتے جلتے دیگر معاشروں حتی عصر معصومینؑ میں زندگی گزارنے والے انسانوں کی طرف نسبت دی جا سکتی ہے اور اسے ان کی سیرت قرار دی جا سکتی ہے۔[41]
  • فطری تجزیہ و تحلیل: بسا اوقات کسی مسئلے کو انسانی ضمیر کے حوالے کیا جاتا ہے اور اس مسئلے کے بارے میں کوئی خاص موقف اختیار کیا جاتا ہے جو اس شخص کے محل وقوع اور ذاتی ذوق کے ساتھ مربوط نہیں ہوتا، یہاں سے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ضمیر کی یہ آواز ایک عقلائی موقف ہے جو تمام با ضمیر انسانوں میں عام ہے۔[42]
  • سماجی ضرورت اور نیاز: بعض اوقات سیرہ عقلاء کا موضوع ان امور میں سے ہے جو سماجی کی ضرورت اور لازمی امور میں سے ہیں، اس طرح کہ اگر یہ نہ ہو تو انسانی سماج اور معاشرے کے نظم و ضبط میں خلل واقع ہوتا ہے؛[43] مثلا جو چیز انسان کے ہاتھ میں ہے اس پر اس کی ملکیت کے اطلاق کی سیرہ جسے قاعدہ ید سے تعبیر کی جاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو تمام معاشروں میں چاہے شارع کے حضور اور حیات کا دور ہی کیوں نہ ہو انسانی سماجی نظام میں خلل واقع ہوتا ہے۔[44]
  • تاریخی نقل:معتبر تاریخی اسناد کے ذریعے عصر حضور معصومؑ میں موجود سیرت عقلاء کو مشخص کیا جاسکتا ہے۔[45] معتبر تاریخی نقل سے مراد ان اسناد کو کہا جاتا ہے جو زیادہ نقل ہونے یا مختلف قرائن و شواہد کی بنا پر اطمینان اور یقین کا باعث بنے۔[46]

شارع کی طرف سے مسترد نہ ہونے کو ثابت کرنے کے طریقے

درج ذیل طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ شارع نے متعلقہ سیرت کو مسترد یا اس سے منع نہیں کیا ہے:

  • متعلقہ سیرت کے حوالے سے شارع کی ممانعت ہم تک پہنچنا اور نہ پہنچنا اس سیرت کے استحکام اور عمومیت پر موقوف ہے؛[47] مثلا کسی ایسی سیرت کے بارے میں جو معاشرے میں نہایت اہمیت کا حامل بھی ہو اور عمومیت بھی رکھتی ہو اگر شارع کی طرف سے اگرچہ خبر ضعیف کے ذریعے بھی کوئی ممانعت ہم تک نہ پہنچی ہو تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے اس سے ممانعت کیا ہی نہیں ہے بلکہ شارع بھی اس سیرت پر راضی تھے؛ کیونکہ اگر شارع نے اس سیرت سے منع کیا ہوتا تو اسے ضرور بیان کرنا چاہئے تھا اور یہ نسل در نسل ہم تک پہنچنا چاہئے تھا۔[48]
  • انسانی سماجی زندگی میں جس سیرت سے جائے فرار نہیں اس کا کوئی متبادل نہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے اس سیرت سے منع نہیں کیا ہے؛ کیونکہ اگر شارع نے اس سے منع کیا ہوتا تو ضرور اس کے متبادل سیرت جو کہ معاشرے کی ضرورت ہے کی نشاندہی کرنی چاہئے تھی اب جب اس کا کوئی متبادل شارع کی طرف سے بیان نہیں کیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی سیرت شارع کی طرف سے بھی تأئید شدہ ہے۔[49]مثال کے طور پر عقلائے عالم کی سیرت ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ متکلم کے مقصود اور مراد کو سمجھنے کے لئے اس کے کلام کے ظہور کی پیروی کی جاتی ہے اور اس سیرت کا کوئی متبادل راستہ یا طریقہ بیان نہیں کیا گیا اس سے معلوم اور یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہی سیرت شارع کے دور میں بھی تھی اور شارع کی طرف سے اس سے منع نہیں کی گئی ہے۔[50]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص153؛ سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص13؛ جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص10۔
  2. برای نمونہ نگاہ کنید بہ آشتیانی، تقریرات آیۃ اللہ المجدد الشیرازی، 1409ھ، ج1، ص63؛ مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص153۔
  3. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص9۔
  4. محقق داماد، قواعد فقہ، 1406ھ، ج1، ص151۔
  5. سیفی مازندرانی، مبانی الفقہ الفعال فی القواعد الفقہیۃ الأساسیۃ، 1425، ج4، ص129۔
  6. سیفی مازندرانی، مبانی الفقہ الفعال فی القواعد الفقہیۃ الأساسیۃ، 1425، ج4، ص129۔
  7. فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیۃ، 1383ہجری شمسی، ص222۔
  8. کاظمی خراسانی، فوائد الاصول، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص194۔
  9. سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1431ھ، ج3، ص332؛ صافی اصفہانی، ترجمہ، شرح و تعلیقات بر الموجز فی اصول الفقہ، 1394ہجری شمسی، ج2، ص97۔
  10. علیدوست، فقہ و عرف، 1384ہجری شمسی، ص121۔
  11. بنازادہ، «کارکرد عرف در استنباط احکام شرعی با تأکید بر نظر امام خمینی»، ص29۔
  12. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کاظمی خراسانی، فوائد الاصول (تقریرات درس خارج اصول میرزای نائینی)، 1376ہجری شمسی، ج3، ص192؛ سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج1، ص337۔
  13. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص10۔
  14. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص10-11۔
  15. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155۔
  16. نمونہ کے لئے ملاحہ کریں: اصفہانی، حاشیۃ المکاسب، 1418ھ، ج1، ص104۔
  17. علیدوست، فقہ و عرف، 1384ہجری شمسی، ص122۔
  18. ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس سید محمدباقر صدر)، 1417ھ، ج4، ص233؛ جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص9۔
  19. ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس سید محمدباقر صدر)، 1417ھ، ج4، ص233؛ جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص9۔
  20. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص13۔
  21. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص13۔
  22. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: امام خمینی، کتاب البیع، 1410ھ، ج3، ص38۔
  23. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص153؛ جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص11۔
  24. ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس اصول سید محمدباقر صدر)، ج4، ص234۔
  25. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص15۔
  26. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص15۔
  27. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج18، ص22۔
  28. عبد الساتر، بحوث فی علم الاصول، الدار الإسلامیۃ، ج9، ص197؛ جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص15۔
  29. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص18۔
  30. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص20۔
  31. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص20۔
  32. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص20۔
  33. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص20۔
  34. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص20۔
  35. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص20۔
  36. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص20-21۔
  37. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص11۔
  38. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص32۔
  39. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص32۔
  40. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: امام خمینی، الرسائل، 1410ھ، ج2، 130۔
  41. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص60-62۔
  42. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص60۔
  43. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص61۔
  44. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص61۔
  45. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1436ھ، ج2، ص37۔
  46. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص64۔
  47. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص68۔
  48. آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، 1437ھ، ج2، ص80؛ ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس خارج اصول سید محمدباقر صدر)، ج4، ص244۔
  49. ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس خارج اصول سید محمدباقر صدر)، ج4، ص241۔
  50. آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، 1437ھ، ج2، ص

نوٹ

  1. امارہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے شارع حکم شرعی کو کشف کرنے اور اس تک رسائی کے لئے معتبر قرار دیتا ہے جیسے خبر واحد ثقہ وغیرہ۔(جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، 1389ہجری شمسی، ص241۔)

مآخذ

  • آخوند خراسانی، محمدکاظم، کفایۃ الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ ششم، 1437ھ۔
  • آشتیانی، محمدحسن، تقریرات آیۃ اللہ المجدد الشیرازی، قم، مؤسسہ آل البیت، چاپ اول، 1409ھ۔
  • اصفہانی، محمدحسین، حاشیۃ المکاسب، قم، دار المصطفی لاحیاء التراث، چاپ اول، 1418ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، الرسائل، قم، انتشارات اسماعیلیان، چاپ اول، 1410ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، کتاب البیع، قم، نشر اسماعیلیان، 1410ھ۔
  • بحرانی، محمد صنقور علی، المعجم الاصولی، قم، انتشارات نقہجری شمسی، چاپ دوم، 1426ھ۔
  • بنازادہ، محمد، «کارکرد عرف در استنباط احکام شرعی با تأکید بر نظر امام خمینی»، در مجلہ آفاق علوم انسانی، شمارہ 85، اردیبہشت 1403ہجری شمسی۔
  • جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، قم، مؤسسۃ النشر للحوزات العلمیۃ، 1444ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامى، 1389ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیتؑ، 1416ھ۔
  • سبحانی، جعفر، المبسوط فی اصول الفقہ، قم، موسسہ امام صادقؑ، چاپ اول، 1431ھ۔
  • سیفی مازندرانی، علی‌اکبر، بدایع البحوث فی علم الاصول، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ سوم، 1436ھ۔
  • سیفی مازندرانی، علی‌اکبر، مبانی الفقہ الفعال فی القواعد الفقہیۃ الأساسیۃ، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1425ھ۔
  • صافی اصفہانی، علی، ترجمہ، شرح و تعلیقات بر الموجز فی اصول الفقہ، اصفہان، خاتم الانبیاء، 1394ہجری شمسی۔
  • عبد الساتر، حسن، بحوث فی علم الاصول، قم، الدار الإسلامیۃ، چاپ دوم، 1417ھ۔
  • علیدوست، ابوالقاسم، فقہ و عرف، قم، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، القواعد الفقہیۃ، قم، مرکز فقہ الأئمۃ الأطہارؑ، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
  • کاظمی خراسانی، محمدعلی، فوائد الاصول (تقریرات خارج اصول میرزای نائینی)، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1376ہجری شمسی۔
  • محقق داماد، سید مصطفی، قواعد فقہ، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، چاپ دوازدہم، 1406ھ۔
  • مظفر، محمدرضا، اصول الفقہ، قم، نشر دانش اسلامی، 1405ھ۔
  • ہاشمی شاہرودی، سیدمحمود، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس اصول سید محمدباقر صدر)، قم، مرکز الغدیر للدراسات الإسلامیۃ، چاپ دوم، 1417ھ۔