وقف

ویکی شیعہ سے
(موقوفہ سے رجوع مکرر)

وقف ایک اسلامی عقد ہے جس میں فردی یا گروہی استفادہ کے لئے کسی مال کو اس کے منافع سے استفادہ کرنے کیلئے بخش دیا جاتا ہے۔ وقف شدہ اموال کو نہ تو وقف کرنے والا اور نہ ہی جس کے لئے وقف ہوا ہے دونوں کسی کو ہدیہ یا فروخت نہیں کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید میں وقف کا صریح طور پر ذکر نہیں ہوا ہے۔ احادیث میں صدقہ جاریہ کے عنوان سے اس کی تاکید کی گئی ہے۔ وقف کی تاریخ، اسلام سے پہلے کی ہے۔ البتہ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں وقف اصحاب کے درمیان میں رائج تھا اور آنحضرتؐ و امام علیؑ کے وقف کے بعض نمونے منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔

وقف اسلامی عقود میں سے ہے۔ فقہی کتابوں میں اس کے شرایط اور احکام کا ذکر ہوا ہے۔ وقف کی دو قسمیں ہیں: وقف خاص اور وقف عام۔

مسجد، مدرسہ، کتب خانہ، اسپتال اور زیارت گاہ کو وقف کے فرایض میں شمار کیا گیا ہے۔ اسلامی ممالک میں امور اوقاف کو سنبھالنے کے لئے ادارے بنائے گئے ہیں۔

فقہی تعریف اور اقسام

وقف فقہاء کی اصطلاح میں کسی معین مال کو بخش کر اس کے منفعت اور ثمرے سے استفادہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔[1] مثال کے طور پر ایک مکان کو فقراء کے لئے مخصوص کر دیا جائے تا کہ فقراء اس سے استفادہ کر سکیں اور اس مکان کا خریدنا یا بیچنا ممکن نہ ہو۔[2] وقف میں مال وقف کرنے والے کی ملکیت سے خارج ہو جاتا ہے۔[3] اور وقف کرنے والے یا جن کے لئے وقف اسے کیا گیا ہے کسی کو بھی اس کے بیچنے یا کسی کو بخشنے کا حق نہیں ہے۔[4]

وقف اسی صدقہ جاریہ کو کہا گیا ہے[5] جس کا ذکر احادیث میں ہوا ہے[6] کیونکہ اس کے منافع ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔[7]

وقف عام و وقف خاص

فقہی کتابوں میں وقف کو وقف عام اور وقف خاص میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جس وقف کا مقصد عام افراد یا عام گروہ ہو اسے وقف عام کیا جاتا ہے جیسے کسی مدرسہ یا اسپتال کا وقف کرنا یا کسی مال کا فقراء یا اہل علم کے لئے وقف کرنا۔ جس وقف کا ہدف عام افراد یا کوئی خاص گروہ ہو اسے وقف خاص کہتے ہیں۔ مثلا کسی مکان کا کسی خاص شخص یا خاص اشخاص کے لئے وقف کرنا۔[8]

منزلت اور اہمیت

وقف ابواب فقہ میں سے ہے اور فقہی کتابوں میں اس کے صحیح ہونے کے شرایط و احکام کے سلسلہ میں بحث ہوئی ہے۔[9] کتب روایی میں وقف، صدقہ اور ہبہ کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔[10]

قرآن میں وقف پر دلالت کرنے والی کوئی صریح آیت موجود نہیں لیکن آیات الاحکام پر مبنی منابع میں وقف سُکنی (کسی مال کے منافع کو معینہ مدت کیلئے استفادہ کرنا)، صدقہ اور ہبہ وغیرہ کے ساتھ عطایائے مُنجّزہ (وہ اموال جو کسی عوض کے بغیر دوسرے کو دیئے جاتے ہیں) کے عنوان اور بعض آیات قرآنی جیسے انفاق و مال کا بخشنا کے مفاہیم کے مصداق کے تحت موجود ہے۔[11]

احادیث کے مطابق صدقہ جاریہ (وقف) ان چیزوں میں سے ہے جس کا سلسلہ انسان کے مرنے کے بعد تک جاری رہتا ہے اور اس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔[12] البتہ ان روایات میں وقف کا لفظ بہت کم‌ استعمال ہوا ہے اور صدقہ کا عنوان زیادہ رائج‌ ہے۔[13] حالانکہ احکام وقف سے مربوط روایات میں لفظ وقف کا استعمال ہوا ہے۔[14]

وقف مسلمانوں کے درمیان زیادہ بحث ہونے والے موضوعات میں سے ہے اور فقہی نوشتوں کے علاوہ اس بارے میں مستقل کتابیں اور مقالات لکھے گئے ہیں۔ کتاب ماخذ شناسی وقف مولف سید احمد سجادی میں وقف کے سلسلہ میں 6239 عناوین مذکور ہیں جن میں کتب، مقالات، تھیسیز، مخطوطات، خبر اور مجلات میں شائع ہونے والی گزارشات کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔[15]

تاریخچہ

وقف نامہ شاہ حسین جس میں انہوں نے ایک مزرعہ کو وقف کیا ہے۔

وقف کی تاریخ قدیم نقل ہوئی ہے اور کہتے ہیں کہ اسلام سے پہلے بھی اس کا وجود تھا۔[16] البتہ اسلام کے بعد عصر پیغمبر (ص) سے ہی وقف مسلمانوں کے درمیان رائج ہو گیا تھا۔[17] آنحضرت (ص) نے خود بعض اموال وقف کئے۔[18] منجملہ ان میں سے آپ نے پہلی مرتبہ میں ابن السبیل (مسافرین) کے لئے ایک زمین وقف فرمائی۔[19] اسی طرح سے جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ہوا ہے کہ اصحاب کے درمیان کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو مالی اعتبار سے توانائی رکھتا ہو اور اس نے کچھ وقف نہ کیا ہو۔[20]

ائمہ معصومین (ع) کے درمیان امام علی (ع) نے سب سے زیادہ اموال وقف کئے۔[21] ابن شہر آشوب کے مطابق، امیر المومنین (ع) نے ینبع میں 100 چشمے کھودے اور انہیں حاجیوں کے لئے وقف کر دیا۔ اسی طرح سے آپ نے کوفہ و مکہ کے راستے میں کچھ کنویں کھودے اور مدینہ، میقات، کوفہ و بصرہ میں مساجد بنائیں اور ان سب کو وقف کر دیا۔[22]

اس کے بعد مسلمانوں کے موقوفات اس قدر زیادہ ہو گئے کہ بنی امیہ کے دور میں انہیں چلانے کے لئے ادارے تاسیس کئے گئے اور اس کے بعد کے زمانوں میں حکومت خود ان اداروں کو چلاتی تھی۔[23]

فعالیت و کارکردگی

وقف کے سلسلہ میں بعض تحریروں میں اس کے اقتصادی و سماجی آثار کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔[24] تاریخی گزارشات کے مطابق، وقف کے بعض موارد و مصارف یہ تھے: مساجد، مدارس، کتب خانوں، اسپتالوں، معلولین کے لئے مراکز، پانی کے انبار، چشموں کی تعمیر اور غرباء و ایتام، معلولین، اسیروں کے امور کی رسیدگی، علماء کی زندگی کے مخارج۔[25] اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اوقاف نے سماجی تحفظ، صحت اور علاج کے شعبوں اور علوم و فنون کے ارتقاء میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔[26]

بعض نے تاریخی تحقیقات کے مطابق، وقف کی کارکردگی کو مندرجہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:

  • ثقافتی امور: جیسے مدارس و کتب و کتب خانوں کی تاسیس۔
  • صحت عامہ کے امور: جیسے اسپتالوں، مراکز معلولین و عمومی حماموں کی تاسیس
  • سماجی و رفاہی امور: کاروان سراوں، پلوں، خانقاہوں، پانی کے ذخایر، چشموں اور کارخانوں کی تعمیر۔
  • مذہبی امور: مساجد و زیارت گاہوں کی تعمیر۔[27]

آج کے دور میں مذہبی مقامات جیسے ائمہ معصومین (ع) کے روضے، مساجد، دینی مدارس زیادہ تر موقوفات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے چلتے ہیں۔ [حوالہ درکار]


ادارہ موقوفات

وقف نامہ کتاب تذکرۃ الفقہاء میں اصفہان میں ایک مدرسہ کے وقف کی سند۔

اسلامی دنیا میں موقوفات کی کثرت سبب بنی کہ اسلامی حکومتوں کی جانب سے وزارت اوقاف تاسیس کئے جائیں۔ یہ سلسلہ نہایت قدیم ہے اور تاریخی گزارشات کے مطابق، اس کی بازگشت بنی امیہ کے دور حکومت کی طرف ہوتی ہے۔ اس دور میں قاضی شہر بصرہ توبت بن نمر نے موقوفات کو ثبت و درج کرنے کا حکم دیا اور اسی طرح سے اس نے اس شہر میں دیوان اوقاف کی بناء رکھی۔[28]

دور ایلخانان میں ایک ادارہ حکومت موقوفات کے نام سے موجود تھا جو قاضی القضات کے زیر نظر فعالیت انجام دیتا تھا۔[29] ایران میں پہلی بار صفویہ دور حکومت میں اوقاف کو چلانے کے لئے ایک مستقل ادارہ قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ بڑے شہروں میں اپنے نمائندے رکھتا تھا جنہیں وزیر اوقاف کا نام دیا جاتا تھا۔[30]

اسلامی ممالک میں امور اوقاف کے انتظام کے لئے خاص ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ جن میں سازمان اوقاف و امور خیریہ ایران،[31] دیوان وقف شیعی و دیوان وقف سنی عراق،[32] وزارت اوقاف مصر،[33] وزارت اوقاف و امور اسلامی کویت[34] و شورای عالی اوقاف سعودی عرب شامل ہیں۔[35]

شرایط صحت وقف

فقہاء نے وقف کے صحیح ہونے کے شرایط ان چار چیزوں میں ذکر کئے ہیں: وقف کیا گیا مال، واقف (وقف کرنے والا)، جن کے لئے وقف کیا گیا ہو اور وقف کرنے کا عمل۔

وقف کیا ہوا مال

وقف کئے گئے مال میں چار شرطوں کا ہونا ضروری ہے:

  • خارج میں معین مقدار میں مال موجود ہو۔ اس شرط کے مطابق، اگر مال کسی اور کے پاس ہو تو اسے وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے گھر کو معین کئے بغیر وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ معین ہونا چاہئے کہ کون سا گھر وقف کرنا چاہتا ہے۔
  • جس چیز کو وقف کر رہا ہے وہ ملکیت کے قابل ہو۔ اس شرط کے مطابق، مثلا خوک کو وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ وہ مسلمان کی ملکیت میں نہیں آ سکتا ہے۔
  • اس مال کے منافع سے استفادہ کرنا ممکن ہو اور ایسا کرنے سے اصل مال ختم نہ ہو۔ اس شرط کے مطابق، پیسے کو وقف نہیں کیا جا سکتا ہے، اس لئے کہ اس کے منافع سے استفادہ کرنا اس کے خود کے ختم ہونے کا سبب بنے گا۔
  • واقف سے وقف کا مال لینا جائز نہیں ہے۔ اس شرط کے مطابق واقف کسی دوسرے کا مال وقف نہیں کر سکتا ہے کیونکہ اس مال کا واپس لینا جائز نہیں ہے۔[36]

واقف

وقف کرنے والا بالغ اور عقلی اعتبار سے رشد یافتہ ہو اور اسی طرح سے وہ اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتا ہو۔[37]

جن کے لئے وقف کیا گیا ہو

جن کے لئے وقف کیا گیا ہے انہیں موجود ہونا چاہئے، فرد یا افراد معین ہوں اور ان کے لئے وقف کرنا حرام نہ ہو۔ ان شروط کے مطابق، ایسا بچہ جو ابھی دنیا میں نہیں آیا ہے اس کے لئے وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے ڈاکووں اور کفار حربی کے لئے کوئی چیز وقف نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ ایسے افراد کے لئے وقف کرنا حرام ہے۔[38]

وقف کرنے کا ظریقہ

وقف کرنا اس وقت صحیح ہے جب اس میں مندرجہ ذیل شرایط پائے جاتے ہوں:

  • ہمیشہ کے لئے ہونا: یعنی وقف کی کوئی مدت معین نہیں ہونا چاہئے۔ لہذا کسی خاص معین مدت کے لئے وقف کرنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح سے کسی خاص معین شخص کے لئے وقف کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کے انتقال کے ساتھ ہی وقف ختم ہو جائے گا۔
  • موجود ہونا: یعنی صیغہ وقف کو آئندہ ملنے والے (مثلا اول ماہ) کسی مال کے لئے نہیں پڑھا جا سکتا ہے۔
  • مال کا لینا: جب تک وقف کی گئی چیز، واقف سے مل نہ جائے (اس پر قبضہ نہ مل جائے) اس پر وقف کا اطلاق نہیں ہوگا اور وہ واقف کی ملکیت مانی جائے گی۔
  • واقف کی ملکیت سے خارج ہونا: اس شرط کے مطابق، کوئی خود اپنے لئے کسی چیز کو وقف نہیں کر سکتا ہے۔[39]

احکام

وقف کے بعض احکام رسالہ توضیح المسائل کے مطابق مندرجہ ذیل ہیں:

  • وقف کیا گیا مال، وقف کرنے والے کی ملکیت سے خارج ہو جاتا ہے اور وقف کرنے والا اسے بیچ یا بخش نہیں سکتا ہے نہ ہی وہ کسی کو میراث میں مل سکتا ہے۔
  • وقف کیا گیا مال خریدا اور بیچا نہیں جا سکتا ہے۔
  • بعض مراجع تقلید کا فتوی یہ ہے کہ وقف کے لئے صیغہ وقف کا جاری کرنا ضروری ہے۔ لیکن صیغہ عربی میں پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ البتہ بعض دیگر مراجع تقلید صیغہ پڑھنے کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس چیز کے بارے میں لکھ لینا یا ایسا عمل انجام دینا جس کے وقف کا پتہ چل رہا ہو تو وقف صحیح ہے۔
  • بعض مراجع تقلید کے فتاوی کے مطابق، جن کے لئے وقف کیا جا رہا ہے ان کے قبول کی ضرورت نہیں ہے۔ چاہے وقف عام ہو یا وقف خاص، البتہ بعض دیگر کہتے ہیں کہ وقف خاص میں جس فرد یا جن افراد کے لئے وقف کیا گیا ہے ان کا قبول کرنا شرط صحت ہے۔
  • انسان اپنے لئے وقف نہیں کر سکتا ہے۔ البتہ اگر کسی نے فقراء کے لئے کوئی مال وقف کیا اور بعد وہ خود غریب ہو گیا تو غریب ہونے کے عنوان سے اس مال کے منافع سے استفادہ کر سکتا ہے۔
  • اگر مال موقوفہ خراب ہو چکا ہو تو بھی وہ وقف سے خارج نہیں ہوگا۔ اگر وہ قابل تعمیر ہو تو اس کی تعمیر کی جائے گی اور اگر قابل تعمیر نہ ہو تو اسے بیچا جائے گا اور اس کا پیسا واقف کے منشاء وقف سے نزدیک ترین کام میں خرچ کیا جائے گا اور اگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ ہو تو وہ پیسا دوسرے کار خیر میں مصرف کیا جائے گا۔[40]

مونوگراف

وقف کے موضوع سے متعق بعض فارسی و عربی کتابیں:

  • وقف در فقہ اسلامی و نقش آن در شکوفایی اقتصاد، مولف: محمد حسن حائری یزدی
  • احكام الوقف فى الشريعة الاسلاميہ، مولف: محمد عبيد الكبيسى۔[41]
  • المصطلحات الوقفیہ، مولف: عبید الله عتیقی: عزالدین تونی و خالد شعیب۔[42]
  • احکام الوقف فی الشریعة الاسلامیة الغراء: مولف جعفر سبحانی۔[43]

حوالہ جات

  1. نگاه کریں: محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸، ج۲، ص۱۶۵؛ علامہ حلی، تحریر الاحکام الشریعہ، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۲۸۹.
  2. مشکینی، مصطلحات‌ الفقہ، ۱۴۲۸ق، ص۵۶۷.
  3. محقق حلی، شرایع ‌الاسلام، ۱۴۰۸، ج۲، ص۱۷۱.
  4. مشکینی، مصطلحات‌ الفقہ، ۱۴۲۸ق، ص۵۶۷.
  5. مشکینی، مصطلحات ‌الفقہ، ۱۴۲۸ق، ص۵۶۷؛ نگاه کریں: طباطبایی یزدی، تکملة العروة الوثقی، کتاب فروشی داوری، ج۱، ص۱۸۴.
  6. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۵۷.
  7. طباطبایی یزدی، تکملة العروة الوثقی، کتاب فروشی داوری، ج۱، ص۱۸۴.
  8. جناتی، ادوار فقہ و تحولات آن، ص۴۳۳.
  9. برای نمونہ، نگاه کریں: محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸، ج۲، ص۱۶۵-۱۷۶؛ طباطبایی یزدی، تکملة العروة الوثقی، کتاب فروشی داوری، ج۱، ص۱۸۴-۲۷۴.
  10. نگاه کریں: صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۲۳۷؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۰.
  11. نگاه کریں: فاضل مقداد، کنز العرفان، مکتبة المرتضویة، ج۲، ص۱۱۳.
  12. برای نمونہ نگاه کریں: ابن ابی ‌جمہور، عوالی الئالی، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۲۶۰.
  13. طباطبایی یزدی، تکملة العروة الوثقی، کتاب فروشی داوری، ج۱، ص۱۸۹.
  14. برای نمونہ، نگاه کریں: صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۲۳۷-۲۴۳؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۵-۳۸.
  15. طالعی، معرفی و نقد "مأخذ شناسی وقف"، ص۲۵
  16. اصیلی، «کتاب شناسی وقف»، ص۱۰۷.
  17. سلیمی‌ فر، نگاهی بہ وقف و آثار اقتصادی‌-اجتماعی آن، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ۵۷، ۶۶.
  18. نگاه کریں: ابن حیون، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۳۴۱.
  19. سلیمی‌ فر، نگاهی بہ وقف و آثار اقتصادی‌-اجتماعی آن، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ۵۵.
  20. ابن ابی‌ جمہور، عوالی‌ الئالی، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۲۶۱.
  21. سلیمی ‌فر، نگاهی بہ وقف و آثار اقتصادی‌-اجتماعی آن، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ۵۹.
  22. نگاه کریں: ابن‌ شهر آشوب، مناقب آل‌ابی ‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ۱۲۳.
  23. سلیمی‌ فر، نگاهی بہ وقف و آثار اقتصادی‌-اجتماعی آن، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ۶۹-۷۰.
  24. برای نمونہ، نگاه کریں: قحف، الوقف الاسلامی، ۱۴۲۱ق، ص۶۶-۷۲؛ سلیمی ‌فر، نگاهی بہ وقف و آثار اقتصادی‌-اجتماعی آن، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ص۱۴۴-۱۵۸.
  25. سلیمی‌ فر، نگاهی بہ وقف و آثار اقتصادی‌-اجتماعی آن، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ص۱۴۵-۱۴۶.
  26. نگاه کریں: سلیمی ‌فر، نگاهی بہ وقف و آثار اقتصادی‌-اجتماعی آن، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ص۱۴۴-۱۵۸.
  27. اصیلی، «کتاب شناسی وقف»، ص۱۰۸.
  28. سلیمی ‌فر، نگاهی بہ وقف و آثار اقتصادی‌-اجتماعی آن، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ۶۹.
  29. اصیلی، «کتاب شناسی وقف»، ص۱۰۷.
  30. اصیلی، «کتاب شناسی وقف»، ص۱۰۸.
  31. سلیمی‌ فر، نگاهی بہ وقف و آثار اقتصادی‌-اجتماعی آن، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ص۹۴-۹۵.
  32. سازمان اوقاف، آشنایی با نظام مدیریت وقف و امور خیریہ در کشور عراق، ۱۳۹۶، ص۸۰.
  33. سازمان اوقاف، آشنایی با نظام مدیریت وقف و امور خیریہ در کشور مصر، ۱۳۹۶، ص۸۲.
  34. سازمان اوقاف، آشنایی با نظام مدیریت وقف و امور خیریہ در کشور کویت، ۱۳۹۶، ص۶۶.
  35. سازمان اوقاف، آشنایی با نظام مدیریت وقف و امور خیریہ در کشور عربستان سعودی، ۱۳۹۶، ص۸۳.
  36. محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸، ج۲، ص۱۶۶-۱۶۷.
  37. محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸، ج۲، ص۱۶۷.
  38. محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸، ج۲، ص۱۶۸.
  39. محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸، ج۲، ص۱۷۰-۱۷۱.
  40. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح‌ المسائل مراجع، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۶۳۰-۶۳۸.
  41. الکبیسی، احکام وقف در شریعت اسلام، مقدمہ مترجم، ص۸.
  42. تونی و دیگران، فرهنگ اصطلاحات وقف، مقدمہ مترجم، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۵.
  43. نگاه کریں: سبحانی، احکام الوقف فی الشریعة الاسلامیة الغراء، ۱۴۳۸، ص۸.

مآخذ

  • ابن ابی‌ جمهور، محمد بن زین ‌الدین، عوالی الئالی العزیزیہ فی الاحادیث الدینیہ، تصحیح مجتبی عراقی، قم، دار سید الشهداء، ۱۴۰۵ ھ
  • ابن حیون، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، تصحیح آصف فیضی، قم، مؤسسة آل البیت علیهم السلام، ۱۳۸۵ ھ
  • اصیلی، سوسن، «کتاب شناسی وقف»، در میراث جاودان، شماره ۴، ۱۳۷۳ہجری شمسی۔
  • الکبیسی، محمد عبید، احکام وقف در شریعت اسلام: فقهی، حقوقی، قضائی، ترجمہ احمد صادقی گلدر، اداره كل حج و اوقاف و امور خيريہ استان مازندران، چاپ اول، ۱۳۶۴ہجری شمسی۔
  • بنی‌ هاشمی خمینی، سید محمد حسین، توضیح ‌المسائل مراجع، مطابق با فتاوای شانزده نفر از مراجع عظام تقلید، قم، دفتر انتشارات * اسلامی، وابسته بہ جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم‏، چاپ هشتم، ۱۴۲۴ق.
  • تونی، عزالدین و خالد شعیب و عبیدالله عتیقی، فرهنگ اصطلاحات وقف، ترجمہ عباس اسماعیلی ‌زاده، مشهد، بنیاد پژوهش‌های آستان قدس رضوی، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • سازمان اوقاف و امور خیریہ؛ دفتر نوسازی و تحول معاونت توسعہ و پشتیبانی، آشنایی با نظام مدیریت وقف و امور خیریہ در کشور * عراق، تهران، شرکت چاپ و انتشارات سازمان اوقاف و امور خیریہ، چاپ اول، ۱۳۹۶ہجری شمسی۔
  • سازمان اوقاف و امور خیریہ؛ دفتر نوسازی و تحول معاونت توسعہ و پشتیبانی، آشنایی با نظام مدیریت وقف و امور خیریہ در کشور عربستان سعودی، تهران، شرکت چاپ و انتشارات سازمان اوقاف و امور خیریہ، چاپ اول، ۱۳۹۶ہجری شمسی۔
  • سازمان اوقاف و امور خیریہ؛ دفتر نوسازی و تحول معاونت توسعہ و پشتیبانی، آشنایی با نظام مدیریت وقف و امور خیریہ در کشور کویت، تهران، شرکت چاپ و انتشارات سازمان اوقاف و امور خیریہ، چاپ اول، ۱۳۹۶ہجری شمسی۔
  • سازمان اوقاف و امور خیریہ؛ دفتر نوسازی و تحول معاونت توسعہ و پشتیبانی، آشنایی با نظام مدیریت وقف و امور خیریہ در کشور مصر، تهران، شرکت چاپ و انتشارات سازمان اوقاف و امور خیریہ، چاپ اول، ۱۳۹۶ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، احکام الوقف فی الشریعة الاسلامیة الغراء، قم، مؤسسہ امام صادق، چاپ اول، ۱۴۳۸ ھ
  • سلیمی‌ فر، مصطفی، نگاهی بہ وقف و آثار اقتصادی‌-اجتماعی آن، مشهد، بنیاد پژوهش‌های آستان قدس رضوی، چاپ اول، ۱۳۷۰ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیہ، تحقیق و تصحیح علی‌ اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم‏، چاپ دوم، ۱۴۱۳ ھ
  • طالعی، عبد الحسین، «معرفی و نقد "مأخذ شناسی وقف"»، در نقد کتاب اطلاع‌ رسانی و ارتباطات، شماره ۹، ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، تکملة العروة الوثقی، کتاب فروشی داوری
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشریعہ علی مذهب الامامیہ، تحقیق/تصحصح ابراهیم بهادری، قم، مؤسسہ امام صادق، چاپ اول، ۱۴۲۰ ھ
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، کنز العرفان فی فقہ القرآن، تهران، مکتبة المرتضویة
  • قحف، منذر، الوقف الاسلامی؛ تطوره، ادارتہ، تنمیتہ، دمشق، دار الفکر، چاپ اول، ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ ء
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ ھ
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبد الحسین محمد علی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ ھ
  • مشکینی، میرز اعلی، مصطلحات ‌الفقہ، قم، الهادی، ۱۴۲۸ ھ