حضرت سلیمان

ویکی شیعہ سے
(سلیمان ابن داود سے رجوع مکرر)
حضرت سلیمان‌‌ؑ
قرآنی نام:سلیمان
کتاب مقدس میں نام:Solomon
قوم کا نام:بنی‌اسرائیل
مشہوراقارب:حضرت داؤد (والد)
قرآن میں نام کا تکرار:17 بار
اہم واقعات:یروشلم میں معبد کی تعمیر
اولوالعزم انبیاء
حضرت محمدؐحضرت نوححضرت ابراہیمحضرت موسیحضرت عیسی


حضرت سُلَیمان، حضرت داوودؑ کے بیٹے اور بنی‌ اسرائیل کے اہم انبیاء میں سے تھے۔ آپ نے خدا سے ایک ایسی حکومت کی درخواست کی تھی جو آپ کے بعد کسی کو نصیب نہ ہو۔ خدا نے آپ کی دعا قبول کی اور انسانوں کے علاوہ جنات،‌ شیاطین، ہوا اور پرندوں کو بھی آپ کا مطیع قرار دیا۔ امثال سلیمان اور غزل سلیمان جیسی کتابیں آپ سے منسوب ہیں۔ معبد سلیمان آپ کے دور حکومت میں آپ کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔ آصف بن برخیا حضرت سلیمان کے وصی تھے۔ توریت کے مطابق حضرت سلیمان اپنی عمر کے آخر میں بتوں کی پوجا کرنے لگے تھے؛ لیکن قرآن میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ آپ نے کبھی بھی کفر اختیار نہیں کیا۔

نسب

حضرت سلیمان حضرت داوودؑ کے بیٹے اور حضرت یعقوب‏ کے بیٹے یہودا کی نسل سے تھے۔[1] حضرت سلیمان سفیدرو،‌ درشت اندام اور گنے بالوں کے حامل تھے[2] اور ختنہ شدہ پیدا ہوئے تھے۔[3]

حضرت سلیمانؑ اپنے والد حضرت داؤدؑ کی رحلت کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے۔[4] تاریخی منابع میں جانشینی کے وقت آپ کی عمر 22 [5] یا 13 سال بتائی گئی ہے۔[6]

نبوت و بادشاہت

حضرت سلیمانؑ بنی‌ اسرائیل کے بزرگ انبیاء میں سے تھے۔[7] آپ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی تھے۔[8]

حضرت سلیمانؑ کی انگشتری کے بارے میں بہت سے اقوال منقول ہیں۔ احادیث کے مطابق یہ انگشتری امام زمانہ(عج) کے ہاتھوں میں ہوگی۔[9] اسی طرح اس انگوٹھی کے بارے میں غیر واقعی داستانیں اور خرافات بھی نقل ہوئی ہیں۔[10]

حضرت سلیمان کے زمانے میں ایک گروہ سحر اور جادو کیا کرتے تھے، آپ نے ان کے تمام مکتوبات کو جمع کرنے اور ایک مخصوص جگہے پر محفوظ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد ایک گروہ نے ان مکتوبات کو باہر نکال کر سحر اور جادو کی تعلیم دینا شروع کیا۔[11]

حضرت سلیمان نے 40 سال حکومت کی۔[12] آصف بن برخیا حضرت سلیمانؑ کے وصی تھے۔ [13]

سلطنت اور حکومت

حضرت سلیمانؑ نے خدا سے درخواست کی کہ آپ کو ایک ایسی حکومت عطا کرے جو آپ کے بعد کسی کو نصیب نہ ہو۔[14] خدا نے آپ کی دعا مستجاب کی؛ ہوا کو آپ کا مطیع قرار دیا۔[15] اور 24 گھنٹوں میں دو مہینے کی مسافت طے کرتے تھے۔[16] انسان‌، پرندے [17] اور شیاطین بھی آپ کے مطیع تھے۔[18] بعض شیاطین نے سرکشی کی جس کے وجہ سے وہ زندان میں قید ہوئے۔[19] جنات بھی آپ کی خدمت کرتے تھے[20] جن کے ذریعے تانبے کی کان پر آپ کو تسلط حاصل تھا۔[21]

معبد سلیمان

توریت کے مطابق خدا نے یہودیوں کو حضرت داؤدؑ کے ہاتھوں سب سے بڑے اور اہم ترین معبد تعمیر کرنے کا وعدہ دیا تھا: "جب آپ کو موت آئے گی ور اپنے اجدادت سے ملحق ہونگے تو میں آپ کے بیٹوں میں سے ایک کو آپ کے تخت و تاج کا وارث بنا دونگا اور اس کی حکومت کو ثبات عطا کرونگا۔ وہ وہی شخص ہوگا جو میرے لئے ایک مکان (معبد) تعمیر کرے گا"[22] حضرت سلیمان کے زمانے میں یہ بڑا معبد تعمیر کیا گیا تھا۔[23] اس مبعد کو بعد میں مسلمانوں نے مسجد الاقصی کا نام دیا۔[24]

برجستہ صفات

خدا نے حضرت سلیمانؑ کو عظیم سلطنت کے ساتھ ساتھ دوسرے امتیازات بھی عطا کئے تھے:

  • آیات اور احادیث میں حضرت سلیمانؑ کی بہت ساری خصوصیات نقل ہوئی ہیں۔ قرآن میں آپ کو ہمیشہ خدا کی یاد میں رہنے والا بہترین عبد قرار دیا گیا ہے[25] جسے خدا نے علم کی دولت عطا کی تھی۔[26]
  • حضرت سلیمان حیوانات کی بولی بھی جانتے تھے۔[27]
  • بعض منابع کے مطابق رد الشمس کی داستان حضرت سلیمان کے لئے پیش آئی تھی۔[28]
  • حضرت سلیمانؑ قضاوت بھی کیا کرتے تھے۔[31] قرآن میں آپ کی قضاوتوں کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے۔[32]
  • حضرت سلیمانؑ کا نام قرآن میں 17 دفعہ آیا ہے۔[33]
  • قرآن میں حضرت سلیمانؑ کے حوالے سے مختلف داستانیں نقل ہوئی ہیں ان میں سب سے مشہور داستان، داستان ملکہ سبا ہے۔[34] احادیث میں بھی آپ کے بارے میں مختلف داستانیں نقل ہوئی ہیں بعض محققین ان میں سے اکثر کو مبالغہ اور غیر واقعی قرار دیتے ہیں۔[35]
  • قرآن میں اجمالی طور پر حضرت سلیمانؑ کی طرف ایک خطا اور اشتباہ کی نسبت دی گئی ہے جس کے بعد حضرت سلیمان نے توبہ کی تھی۔[36] خدا کا یہ امتحان کیا تھا؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[37]

حضرت سلیمان یہودیوں کے نزدیک

توریت میں حضرت سلیمان کے بارے میں مختلف داستانیں نقل ہوئی ہیں۔[38] توریت کے مطابق حضرت سلیمان کے تقریبا 1000 بیویاں تھیں جن میں سے اکثر بت پرست تھیں اور حضرت سلیمان نے خدا کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے ان سے شادی کی تھی۔[39]

توریت کے مطابق حضرت سلیمان اپنی عمر کے آخر میں اپنی بعض بیویوں کی متابعت میں ان کے خداؤں اور بتوں کی طرف مائل ہو گئے تھے، ان بتوں کے لئے قربانی پیش کیا کرتے تھے؛[40] لیکن قرآن میں صراحت کے ساتھ اس عقیدے کی مخالفت کی گئی ہے: "سلیمان ہرگز کافر نہیں ہوئے تھے"۔[41]

وفات اور سلطنت کا تجزیہ

حضرت سلیمان اپنے عصا پر تکیہ لگانے کی حالت میں رحلت کر گئے۔[42] کوئی شخص ان کی وفات سے آگاہ نہیں تھا یہاں تک کہ دیمک نے آپ کا عصا کھانا شروع کیا جس کی وجہ سے حضرت سلیمان زمین پر گر گئے۔[43]

حضرت سلیمان کی رحلت کے بعد ان کی سلطنت کا تجزیہ ہوا۔ ان کے دو پوتے یہودا اور بنیامین، یہودا نامی سرزمین پر باقی رہے جس میں یروشلم بھی شامل تھا۔ ان کے دس دوسرے پوتوں نے اسرائیل نامی مستقل حکومت تشکیل دی۔[44]

حوالہ جات

  1. ابن ‌کثیر،‌ البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۸۔
  2. ابن‌ اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۲۲۹۔
  3. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۷۷۔
  4. بروجردی، تفسیر جامع، ۱۳۶۶ش، ج۵، ص۱۰۶۔
  5. ابن‌ خلدون، تاریخ‏ ابن ‏‌خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۱۱۲۔
  6. ابن ‌اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۲۲۹۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۵، ص۴۱۴۔
  8. مصطفوی، التحقیق، ۱۳۶۰ش، ج۵، ص۱۹۵۔
  9. نعمانی، الغیبۃ، ۱۳۹۷ق، ص۲۳۸۔
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۲۸۱۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۳۷۰۔
  12. مسعودی، مروج‏ الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۱۔
  13. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۷۶۔
  14. سورہ ص، آیہ۳۵۔
  15. سورہ ص، آیہ۳۶۔
  16. سورہ سبأ،آیہ۱۲۔
  17. سورہ نمل، آیہ۱۷۔
  18. سورہ ص، آیہ۳۷۔
  19. سورہ ص، آیہ۳۸۔
  20. سورہ سبأ، آیہ۱۲۔
  21. سورہ سبأ،‌آیہ۱۲۔
  22. دوم سموئیل، ۷: ۸-۱۵۔
  23. مسعودی، مروج‏ الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۰۔
  24. مغنیہ، تفسیر الكاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۷۔
  25. سورہ ص، آیہ۳۰۔
  26. سورہ نمل، آیہ۱۵۔
  27. سورہ نمل، آیہ۱۶۔
  28. طباطبایى، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۰۳-۲۰۴۔
  29. ابن العبرى، تاریخ‏ مختصر الدول، ۱۹۹۲م،‌ ص۳۳۔
  30. کتاب مقدس،‌عہد قدیم۔
  31. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۴۶۶۔
  32. سورہ انبیاء،‌ آیہ۷۸۔
  33. قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۳۰۶۔
  34. سورہ نمل، آیات ۲۰-۴۴۔
  35. طباطبایى، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۳۶۹۔
  36. سورہ ص، آیہ۳۴۔
  37. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۷۴۱-۷۴۲۔
  38. مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: اول پادشاہان،‌ باب۱۱۔
  39. اول پادشاہان۱۱: ۲-۳۔
  40. اول پادشاہان۱۱: ۷-۸۔
  41. سورہ بقرہ، آیہ۱۰۲۔
  42. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۸، ص۴۲۔
  43. سورہ سبأ، آیہ۱۴۔
  44. توفیقی،‌ آشنایی با ادیان بزرگ،‌ ۱۳۸۶ش، ص۸۹۔

مآخذ

  • قرآن۔
  • کتاب مقدس۔
  • ابن أبی زینب (نعمانی)، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ، محقق و مصحح: علی اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، چاپ اول، ۱۳۹۷ھ۔
  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر، ۱۳۸۵ھ۔
  • ابن العبرى، تاریخ مختصر الدول، تحقیق: الیسوعى، بیروت، دارالشرق، چاپ سوم، ۱۹۹۲م۔
  • ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر(تاریخ ابن خلدون‏)، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ۔
  • ابن کثیر دمشقی‏، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ھ۔
  • بروجردی، سید محمد ابراہیم، تفسیر جامع، تہران، انتشارات صدر، چاپ ششم، ۱۳۶۶ش۔
  • توفیقی، حسین، آشنایی با ادیان بزرگ، تہران، سمت،‌ ۱۳۸۶ش۔
  • شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
  • طباطبائی، سید محمد حسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: بلاغی‏، محمد جواد، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
  • قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، ۱۳۷۱ش۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، قم، دار الہجرۃ، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، تہران، ۱۳۶۰ش۔
  • مغنیہ، محمد جواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۲۴ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔