مندرجات کا رخ کریں

"علم غیب" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 8: سطر 8:


ائمہ معصومین کے علم غیب کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں:  ایک حد اقلی و محدود جبکہ دوسرا حد اکثری اور نامحدود۔ ائمہ معصومینؑ کے بارے میں بعض کہتے ہیں کہ ان کا علم غیب چند چیزوں تک محدود ہے جبکہ بعض علماء بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہ معصومین کا علم غیب تمام چیزوں کو شامل کرتا ہے یعنی جو اب تک دنیا میں آئی ہیں اور جو آئندہ دنیا میں آئیں گے سب کو شامل کرتا ہے۔
ائمہ معصومین کے علم غیب کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں:  ایک حد اقلی و محدود جبکہ دوسرا حد اکثری اور نامحدود۔ ائمہ معصومینؑ کے بارے میں بعض کہتے ہیں کہ ان کا علم غیب چند چیزوں تک محدود ہے جبکہ بعض علماء بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہ معصومین کا علم غیب تمام چیزوں کو شامل کرتا ہے یعنی جو اب تک دنیا میں آئی ہیں اور جو آئندہ دنیا میں آئیں گے سب کو شامل کرتا ہے۔
==لغوی اور اصطلاحی معنی==
لغت میں غیب سے مراد مخفی اور پوشیدہ چیز کو کہا جاتا ہے، شہود کے مقابے میں جس سے مراد ایسی چیز کے ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے قابل درک ہوتی ہے۔<ref>طریحی، ج۲، ص۱۳۴-۱۳۵؛ راغب، ص۶۱۶</ref>
[[قرآن]] و [[حدیث]] کی اصطلاح میں اس چیز کو غیب کہا جاتا ہے جس کی شناخت عام طور پر ممکن نہ ہو<ref>سبحانی، ج۳، ص۴۰۲-۴۰۷</ref>
==تعریف اور اہمیت==
==تعریف اور اہمیت==
علم غیب پوشیدہ اور [[حواس خمسہ]] کے ذریعے غیر قابل درک چیزوں کے بارے میں ہونے والی آگاہی کو کہا جاتا ہے۔<ref>امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۵۲۔</ref> لغت میں "غیب" اس چیز کو کہا جاتا ہے جو حواس خمسہ سے مخفی اور پوشیدہ ہو؛ اس کے مقابلے میں شہود ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے قابل درک چیزوں کو کہا جاتا ہے۔<ref> طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ج۲، ص۱۳۴-۱۳۵؛ راغب، المفردات، ۱۴۱۲ھ، ص۶۱۶۔</ref> اصطلاح میں غیب اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی شناخت عام وسائل اور اوزار سے ممکن نہ ہو۔<ref>مغنیہ، التفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۴۴؛ سبحانی، مفاہیم القرآن، ۱۴۲۰ھ، ج۳، ص۴۰۲-۴۰۷۔</ref>
علم غیب پوشیدہ اور [[حواس خمسہ]] کے ذریعے غیر قابل درک چیزوں کے بارے میں ہونے والی آگاہی کو کہا جاتا ہے۔<ref>امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۵۲۔</ref> لغت میں "غیب" اس چیز کو کہا جاتا ہے جو حواس خمسہ سے مخفی اور پوشیدہ ہو؛ اس کے مقابلے میں شہود ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے قابل درک چیزوں کو کہا جاتا ہے۔<ref> طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ج۲، ص۱۳۴-۱۳۵؛ راغب، المفردات، ۱۴۱۲ھ، ص۶۱۶۔</ref> اصطلاح میں غیب اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی شناخت عام وسائل اور اوزار سے ممکن نہ ہو۔<ref>مغنیہ، التفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۴۴؛ سبحانی، مفاہیم القرآن، ۱۴۲۰ھ، ج۳، ص۴۰۲-۴۰۷۔</ref>

نسخہ بمطابق 08:50، 26 اکتوبر 2024ء

شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


علم غیب پوشیدہ اور حواس خمسہ کے ذریعے غیر قابل درک چیزوں کے بارے میں رکھنے والی آگاہی کو کہا جاتا ہے۔ شیعہ متکلمین قرآنی آیات کی روشنی میں علم غیب کی دو اقسام کے قائل ہیں: ایک ذاتی اور مستقل جو کسی سے کسب شدہ نہ ہو۔ علم غیب کی یہ قسم صرف خدا کے ساتھ مختص ہے۔ دوسری قسم مستفاد یا وابستہ جو خدا کی طرف سے اپنے بعض بندوں کے لئے عطا کیا جاتا ہے۔

علمائے امامیہ اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء اور ائمہ معصومینؑ علم غیب کی اسی دوسری قسم یعنی مستفاد اور وابستہ علم غیب سے بہرہ مند ہیں اور ان ہستیوں کو علم غیب کی یہ قسم خدا کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔

بعض وہابی قرآن کی بعض آیات سے استناد کرتے ہوئے علم غیب کو صرف خدا کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں؛ ان کے مقابلے میں علمائے امامیہ قرآن کی بعض دوسری آیتوں سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء اور اپنے بعض منتخب بندوں کو علم غیب سے نوازا ہے اور خدا جسے چاہے علم غیب عطا کرتا ہے۔

ائمہ معصومین کے علم غیب کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں: ایک حد اقلی و محدود جبکہ دوسرا حد اکثری اور نامحدود۔ ائمہ معصومینؑ کے بارے میں بعض کہتے ہیں کہ ان کا علم غیب چند چیزوں تک محدود ہے جبکہ بعض علماء بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہ معصومین کا علم غیب تمام چیزوں کو شامل کرتا ہے یعنی جو اب تک دنیا میں آئی ہیں اور جو آئندہ دنیا میں آئیں گے سب کو شامل کرتا ہے۔

تعریف اور اہمیت

علم غیب پوشیدہ اور حواس خمسہ کے ذریعے غیر قابل درک چیزوں کے بارے میں ہونے والی آگاہی کو کہا جاتا ہے۔[1] لغت میں "غیب" اس چیز کو کہا جاتا ہے جو حواس خمسہ سے مخفی اور پوشیدہ ہو؛ اس کے مقابلے میں شہود ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے قابل درک چیزوں کو کہا جاتا ہے۔[2] اصطلاح میں غیب اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی شناخت عام وسائل اور اوزار سے ممکن نہ ہو۔[3]

مذہب امامیہ بعض آیات اور احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ صرف انبیاء اور ائمہ معصومینؑ خدا کے اذن سے علم غیب رکھتے ہیں۔[4] شیعوں کے اسی عقیدے کی بنا پر بعض وہابی ان کی طرف غلو کی نسبت دیتے ہیں۔[5] علم غیب، اس کے اقسام، محدودہ اور نوعیت وغیرہ من جملہ ان امور میں سے ہیں جن کے بارے میں قدیم ایام سے متکلمین بحث کرتے چلے آرہے ہیں[6] اور موجودہ دور (پندرہویں صدی ہجری) میں بھی وہابیوں کی طرف سے لگائے جانے والی تہمتوں نیز اس مسئلے کی حقیقت کو درک کرنے میں ان کی ناکامی کی وجہ سے آج بھی امامیہ متکلمین اس مسئلے کے بارے میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔[7]

اقسام

ایک تقسیم بندی میں غیبی امور کو یوں تقسیم کر سکتے ہیں:

  1. ایسی چیز جو تعلیم، غور و فکر اور ریاضت سے آشکار ہو جاتی ہے۔
  2. ایسی چیز جس تک رسائی اور اس پر علم حاصل ہونا صرف خدا کے علاوہ کسی کیلئے ممکن نہ ہو۔ لیکن خدا جسے چاہے عطا کرے۔

دوسری قسم خود دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:

  1. ایسی چیز جس کا آشکار کرنا انبیاء اور الہی نمائندوں کیلئے ضروری ہے، انبیاء کے معجزات اسی قسم میں سے ہے۔
  2. ایسی چیز جو صرف اور صرف خدا سے مختص ہے اور خدا اسے کسی کو بھی عطا نہیں کرتا۔[8] علم غیب کی یہ قسم خواص خمسہ یا فکری اور قلبی احاطے کے ذریعے غیر خدا کیلئے قابل مشاہدہ نہیں ہے جیسے خدا کی ذات پر کنہ معرفت حاصل کرنا۔[9]

غیب پر مطلع ہونے کا امکان

اسلامی تعلیمات کی رو سے خداوند متعال کسی کو بھی چاہے علم غیب سے مطلع کر سکتا ہے یعنی جو کچھ واقع ہوگئی ہے یا جو کچھ آئندہ وقوع پذیر ہے سے آگاہ کرتا ہے۔ جیسے قرآن میں آیا ہے: یعْلَمُ مَا بَینَ أَیدِیهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ یحِیطُونَ بِشَیءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء ترجمہ، وہ جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو پبُ پشت ہے سب کوجانتا ہے اور یہ اس کے علم کے ایک حّصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر وہ جس قدر چاہے۔[10]

ابن سینا نیز تجربہ کو مبناء قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

جس طرح نیند کی حالت میں غیبی امور سے مطلع ہو سکتے ہیں اور یہ چیزیں محقق بھی ہوئی ہیں، کوئی مانع نہیں ہے کہ بیداری کی حالت میں بھی یہ کام ہو سکتا ہے۔[11]

انبیاء کا غیب سے مطلع ہونا

انبیاء الہی کو اپنی رسالت انجام دینے کیلئے جن خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے ان میں سے ایک غیبی امور سے آگاہی ہے۔ خدا اپنے پیغمبروں کو وحی کے ذریعے گذشتہ اور آئندہ سے آگاہ کرتا ہے۔[12]

قرآن کریم حضرت عیسی علیہ السلام کا بعض غیبی امور سے مطلع ہونے پر تصریح کرتا ہے: وَأُنَبِّئُکم بِمَا تَأْکلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیوتِکمْ إِنَّ فِی ذَلِک لآیةً لَّکمْ إِن کنتُم مُّؤْمِنِینَ، ترجمہ: اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو۔ ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو۔[13]

سورہ جن میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ خداوند متعال اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہے غیبی امور سے متعلق کہ جو صرف خدا سے مخصوص ہے، جس قدر مصحلت تقاضا کرے آگاہ فرماتا ہے۔ [14] عَالِمُ الْغَیبِ فَلَا یظْهِرُ عَلَی غَیبِهِ أَحَدًا* إِلَّا مَنِ ارْتَضَی مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ یسْلُک مِن بَینِ یدَیهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا، ترجمہ: وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے (26) مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے۔[15]

بعض مفسروں کے مطابق سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۷۹ تمام انبیاء کا غیبی امور سے مطلع ہونے کی نشاندہی کرتی ہے مخصوصا لفظ "مِن" کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ لوگ خدا کے منتخب افراد ہیں۔[16]

پیغمبر اکرم(ص) کا غیب سے مطلع ہونا

تمام انبیاء میں پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت کا زمان اور مکان کے اعتبار سے وسیع اور دائمی ہونے کی وجہ سے آپ (ص) دوسرے تمام انبیاء سے زیادہ غیبی امور سے آگاہ تھے۔ آپ خدا کے اذن سے ان تمام غیبی امور سے آگاہ تھے جو آپ کی نبوت اور رسالت کی ذمہ داری کو نبھانے کیلئے ضروری اور لازمی تھیں۔[17] قرآن کریم میں بعض ایسی خبروں کا ذکر آیا ہے جن سے پیغمبر اکرم(ص) آگاہ تھے جبکہ نبوت اور رسالت سے پہلے آپ ان سے آگاہ نہیں تھے۔ تِلْک مِنْ أَنْباءِ الْغَیبِ نُوحیها إِلَیک ما کنْتَ تَعْلَمُها أَنْتَ وَ لا قَوْمُک مِنْ قَبْلِ هذا، ترجمہ: پیغمبر علیہ السّلام یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی ہم آپ کی طرف وحی کررہے ہیں جن کا علم نہ آپ کو تھا اور نہ آپ کی قوم کو۔[18]

ائمہ معصومین کا غیب سے مطلع ہونا

شیعہ اعتقادات کے مطابق امام کی خصوصیات میں سے ایک امام کا شریعت سے مکمل آگاہی اور شناخت ضروری ہے کیونکہ وہ شریعت کا محافظ اور مفسر ہے۔اگر امام کو شریعت کا مکمل علم نہ ہو تو اسے اس منصب پر فائز کرنا لغو اور بیہودہ ہوجاتاہے۔[19] پس امام کیلئے دین اور شریعت کو تحریف سے محفوظ رکھنے اور اسکے پیچیدہ مسائل کو بیان کرنے کیلئے اسے شریعت سے مکمل آگاہی اور اس کی شناخت ضروری ہے۔ [20] چنانچہ دین کی جامعیت اور وسعت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک عام آدمی کیلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ شریعت پر اس طرح علم حاصل کرے پس ضروری ہے کہ جو شخص دین کا محافظ اور مفسر ہو اسے غیر متعارف طریقے سے بعض ایسے علوم سے آگاہ کیا حائے جن سے عام آدمی مطلع نہیں ہو سکتا۔[21]

علم امام کے بارے میں شیعہ نقطہ نظر

شیعہ نقطہ نظر سے امام معصوم کو انبیاء کی طرح غیبی امور پر خدا کی طرف سے حضوری طور پر علم اور آگاہی حاصل ہے،[22] اس طرح کہ امام جب چاہے یہ امور اس کے سامنے حاضر ہیں اور امام ان امور سے آگاہ ہیں نہ یہ کہ یہ چیزیں ہمیشہ ان کے حضور فعلا موجود۔[23] یہ بات کہ امام جب بھی کسی چیز کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہے تو خدا اسے اس چیز سے آگاہ فرماتا ہے، ائمہ معصومین کی طرف سے منقول کئی احادیث میں بیان ہوئی ہے۔[24]

شیعہ احادیث میں ائمہ معصومین کی طرف سے بعض پیشن گوئیوں اور غیبی امور کے بارے میں دی گئی خبروں کا ذکر آیا ہے۔ ان میں سے بعض احادیث نہج البلاغہ کے متعدد خطبات میں بیان ہوئی ہیں جیسے: کوفہ کی ویرانی کی خبر،[25] عبدالملک مروان کا کوفہ پر حملے کی خبر [26]حجاج بن یوسف ثقفی کا مدینے کی شہریوں کا قتل عام کی خبر،[27] مستقبل میں بصرہ میں خون خرابے کی خبر ،[28] مروان کے چار فاسق اور فاجر بیٹوں کی حکومت کی خبر [29] اور خبر مغلوں کا حملہ اور ان کی جنایات کی خبر۔ [30]

شیعہ متکلمین کا نظریہ

امام کا غیبی امور سے آگاہ ہونے کے بارے میں چیدہ شیعہ متکلمین کے نظریات کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

  • امام لوح محو و اثبات اور لوح محفوظ پر مطلق اور بالفعل آگاہی رکھتا ہے۔
  • امام فقط لوح محو و اثبات پر مطلق اور بالفعل آگاہی رکھتا ہے۔
  • امام کا غیب سے آگاہ ہونا خدا سے درخواست کرنے سے مشروط ہے۔
  • علم امام کی جزئیات کے بارے میں اظہار نظر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس بارے میں توقف کرنا ضروری ہے۔[31]
  • علم امام صرف ان اشیاء تک محدود ہے جن کی امام کو اپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے ضروری اور لازمی ہے۔[32]

وسعت علم امام

شیعہ اعتقادات کے مطابق امام کا علم ان تمام چیزوں کو احاطہ کرتا ہے جو امام کی ذمہ داری کو نبھانے یعنی امت کی ہدایت و رہبری کیلئے لازم اور ضروری ہیں۔ [33] شیعہ احادیث میں اس بات پر تصریح کی گئی ہے کہ امام کو ان تمام چیزوں کا علم ہوتا ہے جو اس دنیا میں واقع ہوگئی ہیں یا واقع ہونگی۔ انہی روایات میں یہ بھی موجود ہے کہ خداوند متعال ایسے شخص کو جو لوگوں کے تمام سوالات کا جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتا امام اور اپنی حجت قرار نہیں دیتا۔[34] امام کے علم کی بعض مصادیق درج ذیل ہیں:

  • قرآن کریم کے مطلق و مقید، عام و خاص اور ناسخ و منسوخ سب سے امام آگاہ ہوتا ہے؛
  • دوسری تمام آسمانی کتابیں؛
  • جو کچھ اب تک واقع ہوئے ہیں اور جو کچھ مستقبل میں واقع ہونگے؛[35]
  • موت اور رنج الم؛[36]
  • تمام دنیوی اور اخروی امور؛[37]
  • اپنی شہادت کی کیفت اور وقت؛[38]
  • اسرار الہی؛[39]
  • اور احکام الہی۔[40]

امام کا غیبی امور سے مطلع ہونے کی راہیں

شیعہ مآخذ کے مطابق امام کئی راستوں سے غیبی امور سے مطلع ہوتے ہیں:

الف. علوم و معارف کو پیامبر (ص) سے دریافت کرنا: امام رضا(ع) سے منقول ہے: علم امام کا علم پیغمبر(ص) کے توسط سے اس تک پہنچا ہے اور خود پیغمبر (ص) نے علم غیب کو جبرائیل کے توسط سے خداوند متعال سے دریافت کیا ہے۔ [41] امام باقر(ع) سے بھی ایک حدیث میں آیا ہے کہ ائمہ معصومین ان تمام علوم سے آگاہ ہیں جن سے خدا کے فرشتے اور انبیاء آگاہ ہیں۔[42]

یہ تعلیم مختلف طریقوں سے انجام پاتے تھے:

  • تعلیم و تعلم کے متعارف طریقے سے: اس طرح کی تعلیم میں حضرت علی(ع) دوسرے لوگوں کی طرح رسول اکرم(ص) کے فرامین سے بہرہ مند ہوتے تھے اگرچہ آپ(ع) کی بعض خصوصیات کی وجہ سے آپ ان کلام سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہوتے تھے۔[43]
  • پیغمبر(ص) کا غیر متعارف طریقوں کے ذریعے اپنے علوم کو ائمہ تک منتقل کرنا: پیغمبر اکرم (ص) سے علم لدنی کی دریافت میں معصومین لوگوں کے ساتھ شریک نہیں ہیں اور یہ راستہ صرف اور صرف معصومین کے ساتھ مخصوص ہیں۔ یہ راستے درج ذیل ہیں:
  1. ایسے علوم جو پیغمبر اکرم (ص) کی عمر مبارک کے آخری لمحات میں حضرت علی تک منتقل ہوئے۔ احادیث کے مطابق ان لمحات میں ایسے علوم حضرت علی(ص) تک منتقل ہوئے جو علم کے ہزار ابواب کے برابر تھے اس طرح کہ ہر باب سے ہزار ہزار باب کھلتے تھے۔ یہ علم گذشتہ اور آئندہ کے واقعات اور موت و رنج و الم اور احکامات پر مشتمل تھا۔ یہ علم اسرار امامت میں شامل ہیں جو ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتے ہیں۔[44]
  2. کتاب جامعہ کے ذریعے: یہ کتاب جسے پیغمبر اکرم (ص) حضرت علی (ع) کو املاء دیتے تھے اور حضرت علی (ع) اسے لکھتے تھے، امام کو پیش آنے علوم اور اخبار پر مشتمل تھی اور ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتے تھے۔[45]
  3. کتاب جفر کے ذریعے: بعض رویات کے مطابق یہ کتاب انبیائے الهی اور ان کے جانشینوں کی میراث ہے، انبیاء انکے جانشین اور بنی اسرائیل کے علماء کے علوم پر مشتمل ہے۔ اسی طرح یہ کتاب زبور داود، توریت موسی، انجیل عیسی اور صحف ابراہیم پر بھی مشتمل ہے۔[46]

ب. مصحف فاطمہ کے ذریعے: بعض احادیث کے مطابق مصحف حضرت فاطمہ(س)، ان روایات کا مجموعہ ہے جو فرشتوں کا حضرت زہرا(س) سے ہمکلام ہونے کی ذریعے وجود میں آئی ہے جو قیامت تک پیش آنے والی اخبار اور واقعیات پر مشتمل ہے جنہیں حضرت زہرا حضرت علی(ع) کو سناتی تھیں اور حضرت علی(ع) انہیں تحریر فرماتے تھے۔ [47] امام صادق‌ (ع) سے منقول ایک حدیث کے مطابق مصحف فاطمہ مستقبل کے اخبار پر مشتمل ہے۔[48] [49]

ج. الہام اور تحدیث کے ذریعے: حسن بن یحیی مدائنی سے منقول ہے کہ امام صادق (ع) سے پوچھا: جب کسی امام سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو امام کس علم کی بناء پر جواب دیتا ہے؟ تو امام(ع) نے فرمایا:

کبھی اس پر الہام ہوتا ہے، کبھی کسی فرشتے سے سنتا ہے اور کبھی کبھار دونوں طریقوں سے[50]

حکمت علم غیب ائمہ

محمد رضا مظفر نے ائمہ کے علم غیب سے متعلق کئی حکمتیں اور علتیں ذکر فرمایا ہے:

  • امت اسلام کے فائدے میں؛
  • اسلامی پیشوا کی قدرت میں اضافے کی خاطر؛
  • خدا کی طرف سے ائمہ کو نصب کرنے میں جو لطف اور احسان ہے اسے کمال کے درجے تک پہنچانے کیلئے۔[51]

علم غیب ائمہ کے دلایل

معصومین سے منقول بعض احادیث کی بنا پر امام پیغمبر کے علم کے وارث [52] اور علم الہی کے خزانہ دار[53] ہے۔ شیعہ اس مطلب کی اثبات کیلئے بعض روایات سے تمسک کرتے ہیں منجملہ ان میں سے یہ حدیث ہے جسےرسول اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) کے بارے میں فرمایا ہے:

انا مدینة العلم و علی بابها[54]

ایک اور حدیث کے مطابق ہشام نے امام صادق(ع) سے 500 کلامی مسائل میں جواب سننے کے بعد کہا: میں جانتا ہوں کی حلال اور حرام کے تمام مسائل سے آپ آگاہ ہیں اور اس حوالے سے آپ تمام لوگوں سے زیادہ با خبر ہیں لیکن یہ علم کلام ہے؟! حضرت امام صادق‌(ع) نے جواب میں فرمایا: افسوس ہو تم پر اے ہشام! خداوند متعال لوگوں پر کسی کو اپنی حجت قرار نہیں دیتا جس کے پاس لوگوں کی تمام ضرورتوں کا حل نہ ہو۔ [55]

دوسرے انسانوں کا غیب سے مطلع ہونا

جس طرح پہلے گذر گیا کہ علم غیب پیغمبروں اور ائمہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کے بعض مراتب دوسرے انسانوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں ان میں سے بعض افراد کا اشارہ ملتا ہے:

اعتراضات

ائمہ معصومین کے غیبی امور سے آگاہی سے متعلق مختلف اعتراضات اور اشکالات وراد کئے گئے ہیں جن کا شیعہ علماء نے جواب دئے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • اگر ائمہ معصومین علم لدنی اور علم غیب کے مالک ہیں تو کیوں بعض روایتوں میں خود ائمہ میں سے بعض نے اعتراف کیا ہے کہ آپ(ع) اس طرح کے علوم سے باخبر نہیں ہیں؟ مثلا ایک حدیث میں امام جعفر صادق(ع) نے کسی شخص کے جواب میں جو آپ(ع) کو علم غیب کا مالک سمجھتا تھا فرمایا کہ ہمیں اس طرح کا کوئی علم نہیں ہے اور آپ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ میری ایک کنیز نے کوئی غلط کام انجام دیا ہے اور میں اسے تنبیہ کرنا چاہتا ہوں لیکن ابھی اسے پیدا نہیں کررہا ہوں۔[62]

یہ اعتراض اہل بیت سے متعلق وارد ہونے والی روایات کے مجموعے پر صحیح دقت نہ کرنے کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔ قرآن اور روایات کی رو سے ائمہ معصومین علم غیب کے مالک ہیں۔ اس بنا پر وہ روایات جو معصومین کے حوالے سے علم غیب کا انکا کرتی ہیں یا یہ روایات جعلی ہیں یا تقیہ کی وجہ سے صادر ہوئی ہیں۔ اس بات پر گواہ اسی حدیث کا تتمہ ہے جس میں اشکال وارد کیا گیا ہے، اس روایت میں امام نے اپنے سے علم غیب کی نفی کی ہے لیکن بعد میں اسی راوی کے ساتھ امام کسی ایسی جگہ پر پہنچتے ہیں جہاں کوئی اور موجود نہیں اس وقت آپ قرآن کی آیت سے تمسک کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نہ صرف علم غیب کے مالک ہیں بلکہ حجت خدا کیلئے ایسے علوم سے آگاہ ہونا لازمی اور ضروری امر ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی انجام دے سکیں۔[63]

  • اگر ائمہ معصومین اپنی شہادت سے باخبر تھے تو اس واقعے کا روک تھام ان پر واجب تھا نہ یہ کہ وہ محل وقوع پر تشریف لے جائیں۔ مثلا اگر حضرت علی(ع) 19 رمضان کی رات کو مسجد کوفہ میں اپنے اوپر تلوار کی وار سے آگاہ تھے تو ضروری تھا کہ آپ وہاں نہ جاتے۔ ورنہ یہ کام ایک قسم کی خود کشی ہے جو کہ حرام ہے۔

اس اعتراض کے کئی جواب دئے گئے ہیں: بعض حضرات اعتراض سے بچنے کیلئے اس بات کے معتقد ہیں کہ امام ایسے امور سے آگاہ نہیں ہوتے جو ان کی ذمہ داری نبھانے کیلئے لازمی اور ضروری نہیں ہوا کرتیں، جیسے شہادت سے باخبر ہونا [64]

بعض دوسرے علم ظاہری اور علم باطنی کو جدا کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ امام جس طرح امور کے ظاہر سے آگاہ ہیں اسی طرح ان کے باطن سے بھی آگاہ ہیں۔ علم ظاہری کے مقام پر ائمہ معصومین کی ذمہ داری ظاہر پر عمل کرنا ہے اور اپنے معاشرتی کاموں کو علم ظاہری کی بنیاد پر انجام دینے پر مامور ہیں۔ لیکن علم باطنی کے مقام پر امامت کے اس عظیم فریضے کی انجام دہی کیلئے خدا کی دی ہوئی علم لدنی جس کی بناء پر آپ حضرات واقعے کی انتہاء اور اس کے جزئیات سے باخبر ہیں لیکن اس کے باوجود امام ظاہر پر عمل کرنے پر مامور تھے نہ باطن پر۔ اس بناء پر ائمہ معصومین اپنے علم لذنی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس واقعے کو نہیں روک سکتے تھے۔[65] ائمہ معصومین کے علم غیب کے بارے میں موجود احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرا نظریہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

متعلقہ روابط

حوالہ جات

  1. امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۵۲۔
  2. طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ج۲، ص۱۳۴-۱۳۵؛ راغب، المفردات، ۱۴۱۲ھ، ص۶۱۶۔
  3. مغنیہ، التفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۴۴؛ سبحانی، مفاہیم القرآن، ۱۴۲۰ھ، ج۳، ص۴۰۲-۴۰۷۔
  4. علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۱۱۵؛ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۵۳۔
  5. برای نمونہ ملاحظہ کریں: الہی ظہیر، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸-۷۰؛ غنیمان، علم الغیب فی الشریعۃ الاسلامیۃ، ۱۴۲۵ھ، ص۱۰۔
  6. برای نمونہ ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ھ، ص۳۱۳۔
  7. امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۵۲؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، ۱۳۸۵ہجری شمسی، ص۳۱۷۔
  8. صادقی تهرانی، ج۲۷، ص۱۷-۱۸
  9. جوادی آملی، ج۳، ص۴۱۵ و۴۱۵
  10. بقرہ، 255.
  11. ابن سینا، ص۱۵۰-۱۵۱
  12. طوسی، التبیان، ج۲، ص۴۵۹
  13. سورہ آل عمران، آیت نمبر 49۔
  14. طباطبایی، ج۲۰، ص۸۳
  15. سورہ جن، آیت نمبر 26 اور 27۔
  16. بہ اصطلاح، من در این آیہ، بیانیہ است نہ تبعیضیہ؛ طوسی، التبیان، ج۳، ص۶۳
  17. مظفر، ص۱۵
  18. سورہ ہود، آیت نمبر 49۔
  19. مظفر، ص۱۶
  20. مفید، اوائل المقالات، ص۳۹
  21. شریف مرتضی، ج۲، ص۱۵و۱۶
  22. خرازی، ج۲‌، ص۴۶
  23. مظفر، ص۶۲
  24. کلینی، ج۱، ص۲۵۸
  25. نہج البلاغہ، خطبہ۱۰۱
  26. نہج البلاغہ، خطبہ ۱۰۱: ۱۸۹
  27. نہج البلاغہ، خطبہ ۱۱۶
  28. نہج البلاغہ، خطبہ ۱۰۲
  29. نہج البلاغہ، خطبہ ۷۳
  30. نہج البلاغہ، خطبہ۱۲۸
  31. قراملی، مقاله علم امام حسین به شهادت خویش
  32. صالحی نجف آبادی، ص۴۵۵-۴۵۶
  33. صدوق، الخصال، ج۲، ص۵۲۹
  34. کلینی، ج۱، ص۲۶۰‌-۲۶۱
  35. مظفر، ص۲۳
  36. کشی، ص۱۳۴۸
  37. کلینی، ج۱، ص۶۱
  38. کلینی، ج۱، ص۲۵۸
  39. طوسی، تهذیب الاحکام، ج۶، ص۹۵
  40. مظفر، ص۱۲
  41. کلینی، ج۱، ص۲۵۶
  42. کلینی، ج۱، ص۲۵۵
  43. خرازی، ج۲، ص۴۶
  44. صدوق، ص۶۴۳
  45. کلینی، ج۱، ص۲۷۵
  46. کلینی، ج۱، ص۲۴۰
  47. صفار، ص۱۱۰
  48. مجلسی، بحار الانوار، ج۲۶، ص۱۸
  49. صفار، ص۱۴۹ و۱۵۰
  50. مجلسی، بحار الانوار، ج۲۶، ص۵۷؛ طوسی، الامالی، ج۱، ص۴۰۸
  51. مظفر،۲۱-۳۴
  52. کلینی، ج۱، ص۴۷۰
  53. کلینی، ج۱، ص۱۹۲
  54. حر عاملی، ج۲۷، ص۳۴
  55. کلینی، ج۱، ص۲۶۲
  56. سورہ آل عمران، آیت نمبر ۴۵اور ۴۵۔
  57. سورہ ہود، آیات ۶۹-۷۳ ۔
  58. سورہ قصص، آیت نمبر 7۔
  59. سورہ کہف، آیت نمبر65۔
  60. سورہ توبہ، آیت نمبر ۱۰۵ ۔
  61. سورہ نمل، آیت نمبر ۴۰ ۔
  62. کلینی، ج۱، ص۲۵۷
  63. مظفر، ص۶۲
  64. صالحی نجف آبادی، ص۴۵۵-۴۵۶
  65. مجلسی، مراۃ العقول، ج۳، ص۱۲۴- ۱۲۵

مآخذ

  • ابن سینا، حسین بن عبداللہ، الاشارات و التنبیہات، قم، نشر البلاغہ، ۱۳۷۵.
  • جوادی آملی، عبداللہ، ادب فنای مقربان، قم، نشر اسراء، ۱۳۸۸ش.
  • حلی، اجوبہ المسائل المہنائیہ، مقدمہ: محی الدین مامقانی، قم، خیام، ۱۴۰۱ق.
  • خرازی، محسن، بدایۃ المعارف الالہیہ فی شرح عقائدالامامیہ للمظفر، قم، نشر اسلامی، ۱۴۲۰ق.
  • دہخدا، علی اکبر، لغت‌نامہ دہخدا.
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تحقیق صفوان عدنان داودی، دمشق و بیروت، الدار الشامیہ و‌دار العلم، ۱۴۱۲ق.
  • سبحانی، جعفر، مفاہیم القرآن، بہ قلم جعفر الہادی، قم، موسسہ امام صادق، ۱۴۲۰ق.
  • شریف مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ، الشافی فی الامامۃ، چاپ دوم، تہران، موسسہ الصادق، ۱۴۱۰ق.
  • صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن، قم، انتشارات فرہنگ اسلامی، ۱۳۶۵ش، چاپ دوم.
  • صالحی نجف آبادی، نعمت اللہ، شہید جاوید، تہران، بینا، ۱۳۶۱ش، چاپ دوازدہم.
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الخصال، قم، نشر جامعہ مدرسین، ۱۴۰۳ق.
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، قم: کتابخانہ آیت اللہ نجفی مرعشی، ۱۴۰۴ق.
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۷ق، چاپ پنجم.
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تحقیق: سید احمد حسینی، تہران، کتابفروشی مرتضوی، ۱۳۷۵ش، چاپ سوم.
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق:احمد قصیر عاملی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۵ش.
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دارالثقافہ، ۱۴۱۴ق.
  • قدردان قراملکی، محمد حسن، کلام فلسفی، قم، انتشارات وثوق، ۱۳۷۸ش.
  • کشی، محمد بن عمر، رجال کشی، مشہد، نشر دانشگاہ مشہد، ۱۳۴۸ق.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دراالوفاء، ۱۴۰۴ق.
  • مجلسی، محمد باقر، مراۃ العقول فی شرح اخبار الرسول، تصحیح: سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۰ش، چاپ سوم.
  • مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق.