حضرت عیسی کا گہوارے میں کلام کرنا

ویکی شیعہ سے

عیسیٰؑ کا گہوارے میں بات کرنے سے مراد حضرت عیسیٰؑ کا اپنی والدہ حضرت مریم سے زنا کے الزام کو مسترد کرنے اور یہودی علماء کے سامنے اپنی نبوت کا معجزانہ اعلان کرنا ہے۔[1] قرآن کے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 46، سورہ مائدہ کی آیت نمبر110 اور سورہ مریم کی آیت نمبر 29 میں حضرت عیسیٰؑ کے گہوارے میں بات کرنے کا ذکر آیا ہے۔[2] تفسیر نمونہ کے مصنفین اور دیگر دو محققین کے مطابق متعدد مفسرین نے "مَهْد" سے گہوارہ یا وہ مدت مراد لیا ہے جب بچہ زیادہ تر ماں کی گود میں ہوتا ہے۔[3] دوسری طرف محمد ہادی معرفت نے اپنی کتاب التمہید فی علوم القرآن میں لکھا ہے کہ حضرت مریمؑ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے چند سال بعد اپنے شہر واپس آئیں اور "مہد" کے معنی عیسیٰؑ کے بچپنے کا دورانیہ ہے۔[4] نیز، مفسر قرآن سید احمد خان ہندی کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے جوانی کے ابتدائی ایام میں کلام کیا ہے، نہ کہ پیدائش کے ایام میں۔[5]

چھٹی صدی ہجری کےشیعہ شیعہ مفسر و محدث ابوالفتوح رازی نے رسول خداﷺ سے منقول ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تاریخ انسانیت میں حضرت عیسیؑ ان پانچ افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے دودھ پینے کے زمانے میں ہی زبان تکلم کھولی ہے۔[6] شیعہ علما میں سے جعفر سبحانی و ابراہیم امینی نے حضرت عیسیؑ کے زمان طفولیت میں تکلم کرنے کو اس بات پر دلیل قرار دیا ہے کہ بعض انسانوں میں زمان طفولیت سے ہی منصب امامت کی اہلیت اور اس سلسلے میں عقل و دانائی پائے جانے کا امکان موجود ہوتا ہے۔[7]

سورہ مریم کی آیات 30 سے 34 کے مطابق، حضرت عیسیٰؑ نے اپنے تکلم کے دوران خود کو خدا کا بندہ، نبی الہی، صاحب کتاب آسمانی اور باعث برکت قرار دیا۔ اس کے علاوہ، مزید بتایا کہ وہ کوئی سرکش یا بد بخت شخص نہیں ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نماز پڑھنے، زکات دینے اور اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیات کے مطابق ان کی بات کا اختتام اپنے اوپر تین سلام کے ساتھ ہوتا ہے: سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا، جس دن میں مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔[8]

حضرت عیسیؑ کا گہوارے میں بات کرنے کو بعض مفسرین نے ان کا معجزہ، بعض نے ارہاص[یادداشت 1] اور بعض دیگر مفسرین نے حضرت مریم (س) کی کرامت قرار دیا ہے۔[9] شیعہ مفسر محمد ہادی معرفت نے حضرت عیسیؑ کے گہوارے میں بات کرنے کو کسی بھی قسم کے معجزے سے خالی سمجھا ہے کیونکہ ان کے مطابق حضرت عیسیٰ نے ایسے دوران میں تکلم کیا ہے کہ جس عمر میں بچے عام طور پر بول چال شروع کرتے ہیں۔ ہادی معرفت کے مطابق حضرت عیسیٰ کا تکلم خاص تعقل اور بات ایسی وزن دار تھی جس نے ثابت کر دیا کہ ان کی پیدائش معجزانہ تھی اور ان کی والدہ زنا کی الزام تراشی سے پاک و مبرا تھیں۔[10]

چھٹی صدی ہجری کے اہل سنت مفسر اور محدث فخررازی نے اپنی کتاب تفسیر کبیر میں اس واقعہ کو صرف ایک قسم کا معجزانہ واقعہ قرار دیا ہے۔ فخر رازی کسی نبی کی جانب سے کوئی معجزہ سرزد ہونے اور ایک معجزانہ کام کے وقوع پذیر ہونے کے مابین فرق کا قائل ہوتے ہوئے اس عقیدے کا اظہار کرتے ہیں کہ حضرت عیسیؑ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا اسی طرح ان کا بچپنے میں بات کرنا اس معجزے سے فرق کرتا ہے جو مستقل طور پر ان کے ہاتھوں پر واقع ہوا ہے جیسے مردے کو زندہ کرنا۔[11]

حوالہ جات

  1. صادقی تهرانی، «شرح سخنان عیسی مسیح در گهواره»، پایگاه اطلاع‌رسانی محمد صادقی تهرانی۔
  2. قرآن کریم۔
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371شمسی، ج13، ص52؛ منصوری و شورگشتی، «بررسی دیدگاه‌های تفسیری مفسران درباره آیات تکلم حضرت عیسی علیه‌السلام در مهد»، ص209-210۔
  4. منصوری و شورگشتی، «بررسی دیدگاه‌های تفسیری مفسران درباره آیات تکلم حضرت عیسی علیه‌السلام در مهد»، ص210۔
  5. کاظمی، «نقدی بر اندیشه‌های سید احمد خان هندی پیرامون اعجاز»، ص138۔
  6. رازی، روض الجنان و روح الجنان في تفسير القرآن، 1408ھ، ج‏13، ص78۔
  7. سبحانی، «امامت در کودکی؟»، ص46؛ امینی، «آیا کودک پنج ساله امام می‌شود؟»، پایگاه اطلاع‌رسانی ابراهیم امینی۔
  8. مکارم شیرازی، ترجمه قرآن، 1373شمسی، ص307۔
  9. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج21، ص534۔
  10. منصوری و شورگشتی، «بررسی دیدگاه‌های تفسیری مفسران درباره آیات تکلم حضرت عیسی علیه‌السلام در مهد»، ص212۔
  11. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج23، ص280۔

نوٹ

  1. ارہاص علم کلام کی ایک اصطلاح ہے۔ اس سے مراد کسی نبی کے ہاتھوں ان کی بعثت سے پہلے ان کی پیدائش یا بچپنے کے دوران انجام پانے والا معجزہ یا کرامت ہے۔ جعفری، تفسیر کوثر، 1377شمسی، ج3، ص300.

مآخذ